عظمت
ِکنزالایمان
بَلْ ھُوَ قُرْاٰنٌ
مَّجِیْدٌ o فِیْ لَوْحٍ مَّحْفُوْظٍ
o (پ ۳۰/ البروج)
’’بلکہ وہ کمال
شرف والا قرآن ہے لوح محفوظ میں‘‘
اللہ تعالیٰ
کی طرف سے نازل فرمودہ کتب و صحائف میں قرآن مجید ہی وہ واحد بابرکت اور عظیم ترین
کتاب ہے جو اول سے آخر تک جیسے سید عالم نبی مکرم، نور مجسم جناب احمد مجتبیٰ محمد
مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی ویسے ہی ہر قسم کے تغیر و تبدل سے بالکل محفوظ
و مامون ہے۔
جب کہ دیگر آسمانی
کتابیں زبور، تورات، انجیل اور صحائف اپنی اصلی اور صحیح حالت میں کہیں بھی موجود نہیں۔
محفوظ ہونا تو بڑی بات دنیا بھر کی کسی بھی یونی ورسٹی، دارالمطالعہ، لائبریری یا عجائب
گھر میں کوئی بھی نہیں پائی جاتی اور جو کتاب مقدس (نیا عہد نامہ، پرانا عہد نامہ)
سے متعارف ہے اس کے نام سے ہی واضح ہے کہ یہ خدائی نام نہیں، یہ مصنوعی اور ایجاد بندہ
ہے۔
قرآن مجید ازخود
اپنی شان و شوکت اور رفعت و منزلت پر ایسے ناقابل تردید دلائل پیش کرتا ہے جسے عقل
کے پجاری کو بھی تسلیم کیے بغیر کوئی چارہ نہیں۔
قرآن مجید سید
عالم، نبی مکرم خاتم الانبیاوالمرسلین رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہٖ وصحبہٖ
وبارک وسلم کا ایسا زندہ معجزہ ہے جو قیامت تک تازہ رہے گا اور اپنے فیوض و برکات سے
نوازتا رہے گا۔ قرآن کریم یہی وہ منفرد اور ممتاز کتاب ہے جو چھوٹے، بڑے، بوڑھے، بچے،
مرد، عورت، غلام، آزاد، فقیر، امیر، بادشاہ اور وزیر تک کو حفظ ہوئی، اس خدائی کلام
کے علاوہ اور کوئی کتاب نہیں پائی جاتی جس کا پوری دنیا میں ایک بھی حافظ ہو۔ یہ بات
ازخود اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اگر کوئی صحیح،د رست خدائی کتاب ہوتی تو ممکن تھا
کہ اسے بھی کوئی خوش نصیب یاد کر لیتا۔ مگر سواے قرآن مجید کے کوئی آسمانی کتاب اب
کہیں بھی نہیں پائی جاتی تو اسے کوئی یاد کرے تو کیسے؟
اس کے برعکس
آج بھی پوری دنیا کے تمام مسلم اور غیر مسلم ممالک میں ہزاروں کی تعداد میں حفاظ کرام
موجود ہیں جن کے سینے قرآن مجید کے خزینے بن چکے ہیں۔
عیسائی، یہودی
اور دیگر کفار و مشرکین جو اپنے نظریے اور عقیدے کے مطابق جنھیں مذہبی کتابیں سمجھتے
ہیں، انھیں پڑھتے اور پڑھاتے بھی ہیں باوجود اس کے ان کا کوئی حافظ نہیں ملتا یہ بات
بھی قرآن مجید کی عظمت پر شاہد و عادل ہے۔ نادر اور عجائبات میں یہ چیز بھی بڑی معنی
خیز اور حیران کن ہے کہ کئی ایسے بھی قرآن کریم کے حافظ پائے گئے ہیں جو اس پر ایمان
و ایقان بھی نہیں رکھتے مگرجب اس کی تلا وت میںمتوجہ ہوئے تو ان کے سینوں میں بھی اس
مقدس و پاکیزہ کلام نے گھر کر لیا۔
الغرض قرآن مجید
کی زیارت، سماعت اور تلاوت کار ثواب، اس پر عمل دین و دنیا اور آخرت کی کام یابی و
کامرانی اور سرفرازی کا وسیلہ و ذریعہ ہے۔ ہر مسلمان کے ایمان کی تقویت کا باعث ہے
مگر اس کے معانی و مطالب ترجمہ و تفسیر کے بغیر استفادا استفاضہ نہایت مشکل ہے اس مشکل
کو حل کرنے کے لیے اپنے اپنے دور میں اہل علم و قلم نے ہر زبان میں تراجم و تفاسیر
سے مطالب و مقاصد کو واضح کرنے کی مساعی جمیلہ فرمائیں۔
کنزالایمان
مع خزائن العرفان:
برصغیر پاک و
ہند میں بھی قرآن کریم کے بیسیوں ترجمے اور تفاسیر اردو زبان میں لکھی گئیں اور لکھی
جاتی رہیں گی مگر اس وقت جو ترجمہ اور تفسیر پیش نظر ہے۔ یہ اپنی بے شمار خوبیوں کے
باعث آسمان شہرت پر آفتاب و مہتاب کی طرح چمک رہا ہے۔ کلام الٰہی کی ترجمانی محض کسی
کے جلیل القدر عالم و فاضل اور عربی داں ہونے کی مرہون منت نہیں بلکہ یہ سعادت اسے
ہی حاصل ہو سکتی ہے جس پر اللہ تعالیٰ کا خاص فضل اور رحمت، نیز نبی اکرم، رسول اعظم،
حضور پرنور جناب احمد مجتبیٰ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی نگاہ کرم ہو۔ وہی خوش
بخت انسان، ایمان افروز، روح پرور، ادب و احترام پر مشتمل ترجمہ کر سکتا ہے اور جنھوں
نے صرف عربی دانی کے زعم پر ترجمہ کی کوشش کی وہ ادب و احترام کے تقاضے پورے نہ کر
سکے۔
اس سلسلہ میں
مجدد دین و ملت، اعلیٰ حضرت مولانا شاہ احمد رضا خاں محدث بریلوی علیہ الرحمہ کا شہرۂ
آفاق ترجمہ جو کنزالایمان کے تاریخی نام سے موسوم ہے۔ یہ جملہ آداب شان الوہیت اور
عشق و محبت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر دال ہے اس عدیم المثال ترجمہ کو پاک و
ہند میں اَن گنت ادارے اعلیٰ سے اعلیٰ اقسام پر شائع کر رہے ہیں۔ ایک سروے رپورٹ کے
مطابق ’’کنزالایمان مع تفسیر خزائن العرفان‘‘ دیگر تمام تراجم کے مقابل ۷۰؍فی صدزیادہ شائع ہو رہا ہے
جب کہ دوسرے جملہ ترجمے اجتماعی طور پر ۳۰؍فی صد تک چھپ رہے ہیں۔ یہ
خبر کنزالایمان کی بے حد مقبولیت و محبوبیت پر دلالت کرتی ہے۔
امام
احمد رضا بریلوی علیہ الرحمہ:
مجدد دین و ملت
امام احمد رضا محدث بریلوی علیہ الرحمہ کی ذات ستودہ صفات قطعاً محتاجِ تعارف نہیں۔
اس وقت برصغیر پاک و ہند کے جملہ مشائخ عظام، علماے کرام میں سب سے زیادہ شہرت کے مالک
ہیں۔ ان کی یہ تمام تر محبوبیت و مقبولیت عاشق رسول انام علیہ التحیۃ والسلام کے ناطے
سے ہے اس لیے کہ انھوں نے اپنے علوم و فنون سے عشق مصطفی علیہ التحیۃ والثنا اور مسلک
حق اہل سنت و جماعت کی اس شان سے تحریری، تقریری تبلیغ فرمائی کہ انھیں علماے عرب وعجم
نے بالاتفاق مجدد دین و ملت کے بلند تر منصب سے نوازا۔ آپ نے پچاس سے زائد علوم و فنون
پر ایک ہزار سے زائد تصانیف یادگار چھوڑی ہیں جن میں صرف فتاویٰ رضویہ ۳۵؍ جلدیں (جدید) ترجمہ و تخریج
سے چھپ کر عالم اسلام سے خراج تحسین حاصل کر چکی ہیں۔
اس دور میں سب
سے زیادہ کتابیں جس عظیم شخصیت پر لکھی گئیں اور لکھی جا رہی ہیں وہ آپ ہی کی ذات والابرکات
ہے۔ دنیا کے متعدد ممالک کی یونی ورسٹیوں سے جدید علوم کے فضلا صاحبانِ علم و قلم نے
آپ کے مختلف علوم و فنون پر پی۔ ایچ۔ڈی کی ڈگریاں حاصل کرنے کا شرف حاصل کیا ہے اور
یہ سلسلہ بدستور بڑی تیزی سے جاری ہے۔
مولانا شاہ احمد
رضا خاں بریلوی ۱۸۵۶ء/
۱۲۷۲ھ
میں پیدا ہوئے اور ۴؍
جون ۱۹۲۱ء/
۲۵؍
صفرالمظفر ۱۳۴۰ھ
کو جمعۃ المبارک کی اذان سنتے ہی کلمہ طیبہ کا ورد کرتے ہوئے واصل بہ حق ہوئے، بریلی
شریف (بھارت) میں آپ کا مزار پر انوار زیارت گاہ خاص و عام ہے آپ کے سالانہ عرس مبارک
پرلاکھوں عقیدت مند حاضر ہوتے ہیں۔ ؎
نکل
کے صحن گلستان سے دور دور گئی
یہ
بوے گل بھی کہیں قید رہنے والی ہے
صدرالافاضل
علیہ الرحمہ:
حضرت صدرالافاضل،
فخرالاماثل، مولانا علامہ مفتی سید محمد نعیم الدین مراد آبادی علیہ الرحمہ وہ بلند
مرتبت شخصیت ہے جنھوں نے تحریک پاکستان کو کام یابی و کامرانی سے ہم کنار کرنے کی سعی
بلیغ فرمائی۔ بنارس سنی کانفرنس ۱۹۴۶ء کا انعقاد آپ کا
وہ تاریخی کارنامہ ہے جس میں برصغیر پاک و ہند کے پانچ ہزار سے زائد علماے اہل سنت
اور مشائخ عظام نے شرکت فرمائی۔ آج بھی آپ کے ارشد تلامذہ یا تلامذہ کے تلامذہ دینی،
مذہبی، مسلکی، ملکی، رفاحی، سیاسی خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔ پاک و ہند میں اَن گنت
سنی مدارس آپ کے علمی فیضان کی یادگار ہیں۔
آپ نے اپنے علم
و عمل اور پرنور قلم سے متعدد کتابیں تصنیف فرمائیں جن میں اطیب البیان اور الکلمۃ
العلیہ بڑی مقبول ہیں۔ خصوصاً امام احمد رضا بریلوی علیہ الرحمہ کے ترجمہ کنزالایمان
پر ایمان افروز، روح پرور اور ہزارہا خوبیوں سے مرصع تفسیر بہ نام خزائن العرفان لکھ
کر ایسا شاہ کار کارنامہ سر انجام دیا جس سے دنیا ہمیشہ مستفید و مستفیض ہوتی رہے گی۔
میرا ایمان گواہی دیتا ہے کہ اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کی شہرت و مقبولیت کا باعث یہ
پرنور تفسیر بھی ہے جو کنزالایمان کے حواشی کی صورت میں ترجمہ کے حسن و جمال میں اضافہ
کر رہی ہے۔
حضرت صدرالافاضل
مولانا سید محمد نعیم الدین مراد آبادی علیہ الرحمہ نے ایسے ایسے قابل ترین تلامذہ
پیدا فرمائے جو اپنی علمی و قلمی خدمات کے باعث بے حد مقبول ہوئے۔
جن میں حضرت
حکیم الامت مولانا مفتی احمد یار خاں صاحب نعیمی اشرفی قادری رحمہ اللہ تعالیٰ، صاحبِ
تفسیر نعیمی اور نور العرفان، مفتی اعظم پاکستان حضرت استاذ الاساتذہ حضرت مولانا الحاج
مفتی ابوالخیر محمد نوراللہ نعیمی قادری اشرفی صاحب ِفتاویٰ نوریہ و بانی دارالعلوم
حنفیہ فریدیہ بصیر پور (اوکاڑہ)،استاذالمحدثین حضرت علامہ مولانا مفتی محمد حسین صاحب
نعیمی، بانی جامعہ نعیمیہ گڑھی شاہو( لاہور)، تاج العلما حضرت علامہ مفتی محمد عمر
صاحب نعیمی، بانی دارالعلوم (کراچی)، یہ چند اسماے گرامی تبرکاً درج کیے ہیں اگر تفصیلاً
لکھے جائیں تو ایک نئی کتاب مرتب ہو جائے۔
صاحب ِتفسیر
خزائن العرفان مولانا سید محمد نعیم الدین مراد آبادی علیہ الرحمہ ۱۳۰۰ھ میں پیدا ہوئے اور
۱۹۴۸ء
کو مرادآباد (بھارت) میں وصال فرمایا وہیں آپ کا مزار پر انوار آج بھی مرجع خلائق ہے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں