ہفتہ، 28 نومبر، 2015

Kanzuliman Ahemiat awr Ifadiat



کنزالایمان- ضرورت و افادیت
(محمد شمشاد حسین رضوی (ایم۔اے
صدرالمدرسین، مدرسہ شمس العلوم، گھنٹہ گھر بدایوں

            اعلیٰ حضرت سیدنا امام احمد رضا فاضل بریلوی علیہ الرحمہ نے ۱۳۳۰ھ میں قرآن مقدس کا اردو زبان میں ترجمہ کیا جو ’’کنزالایمان‘‘ کے نام سے موسوم ہے۔ دورِ حاضر میں ’’کنزالایمان‘‘ کی زبردست اشاعت ہو رہی ہے۔ ہر مکتبہ والے اس کوشائع کر رہے ہیں اور بازار میں ہدیہ کر رہے ہیں۔ اَن گنت بارا س کی طباعت اس بات پر واضح دلیل ہے کہ عوام و خواص میں جو شرف قبولیت ’’کنزالایمان‘‘ کو حاصل ہے کسی اور ترجمۂ قرآن کو حاصل نہیں۔ کم پڑھے لکھے افراد بھی اس کو پڑھتے ہیں اور اربابِ علم و کمال بھی۔ تنقید نگاروں نے بھی اس کا مطالعہ کیا اور ماہرین لسانیات نے بھی۔ مگر آج تک کسی صاحب علم و بصیرت نے اس کی طرف انگشت نمائی نہیں کی۔ کنزالایمان میں ترجمانی کی جو کیفیت، ادب و بیان کی جو لطافت، اسلوب کی جو چاشنی اور لب و لہجہ کا جو بانک پن پایا جاتا ہے وہ دل اور دماغ دونوں سے اپیل کرتا ہے اور دوسرے ذی علم افراد کو دعوتِ نظارہ دیتا ہے۔ اگر اس میں خامیاں ہوتیں تو اغیار بھی اس پر لب کشائی کرتے اور اپنے لوگ بھی دبے لفظوں میں خندہ زن ہوتے۔ میں بڑے وثوق سے یہ بات کہہ رہا ہوں کہ کنزالایمان ایک اچھا اور عمدہ قسم کا اردو ترجمۂ قرآن ہے جس میں وہ تمام خوبیاں پائی جاتی ہیں جو کسی اچھے ترجمہ میں ہونی چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ اربابِ کمال نے کنزالایمان کی انفرادی اور امتیازی خصوصیات و کمالات کا کھلے دل سے اعتراف کیا ہے۔ کنزالایمان میں اعلیٰ قسم کی ترجمانی کو دیکھتے ہوئے کسی صاحب بصیرت نے کہا… ’’قرآن مجید اگر اردو میں نازل ہوا ہوتا تو وہ کنزالایمان ہوتا۔‘‘ یہ جملہ صرف اظہار وصف و کمال کا ایک قوی ذریعہ ہے اور پرتاثیر اسلوب ہے۔ اس جملہ کے توسط سے نہ تو کنزالایمان کو قرآن بتایا گیا اور نہ ہی اس کے ہم پلہ قرار دیا گیا۔ ہاں صرف یہ مقصد ہے کہ کنزالایمان میں واقعی طور پر قرآن کی صحیح ترجمانی پائی جاتی ہے اور اس میں زبان و بیان کی ایسی چاشنی پائی جاتی ہے کہ کنزالایمان جیسا کوئی اور ترجمۂ قرآن نہیں۔ نہ امام احمد رضا سے پہلے ایسا کوئی ترجمۂ قرآن تھا اور نہ ان کے بعد، حد تو یہ ہے کہ اس دور میں بھی کنزالایمان جیسا کوئی ترجمہ پایا نہیں جاتا۔ مگر نہایت ہی افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہماری ہی جماعت کے کسی اہل علم و ادب نے اس جملہ کی صحت پر کلام کیا ہے اور اسے اپنی تنقید کا نشانہ بنایا ہے اس لیے مناسب تصور کرتا ہوں کہ اس جملہ کی توضیح کر دی جائے تاکہ کنزالایمان پر گفتگو کرنے کا راستہ بالکل صاف اور ستھرا ہو جائے اور ذہن و شعور سے کدورت و شبہات کا بادل چھٹ جائے۔
جملۂ مذکورہ کی توضیح و تشریح:
            یہ جملہ جس نے بھی ادا کیا، اس نے بہت کچھ سوچ سمجھ کر ادا کیا ہے۔ اس جملہ کا مقصد اور پس منظر کیا ہے اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ قرآن مقدس کی صحیح اور مکمل ترجمانی، زبان و بیان کی تاثیری کیفیت، اسلوب بیان کی کشش، اردو محاوروں، عام بول چال کے لفظوں اور جملوں کے استعمال نے اہل علم و ادب کے دل و دماغ کو اپیل کی اور پھر انھوں نے اپنی اس داخلی کیفیت کا اظہار مذکورہ جملہ میں کر دیا۔ یہی وہ پس منظر ہے جس کی بنیاد پر یہ جملہ صفحۂ قرطاس کی زینت بن گیا۔ اس جملہ کا مقصد صرف کنزالایمان کی خوبیاں بیان کرنا ہے۔ میرا گمان غالب یہ ہے کہ جس نے بھی یہ جملہ کہاوہ کوئی کم پڑھا لکھا نہ تھا، بلکہ نہایت ہی قابل ترین انسان اور دانش ور تھا کہ اس نے یہ جملہ لکھ کر کنزالایمان میں مضمر تمام خوبیوں کو اجاگر کر دیا اور اس کی معتدبہ حیثیات کا تعین بھی۔ یہ کوئی لغو اور مہمل جملہ نہیں بلکہ جدید اسلوب اور نادر و نایاب لب و لہجہ کا آئینہ دار ہے۔ علم منطق کے اعتبار سے یہ قیاس استثنائی کا ایک جز صغریٰ ہے۔ اس کے بالترتیب اجزا اس طرح ہوں گے
            صغریٰ  -  قرآن مجید اگر اردو میں نازل ہوا ہوتا تو وہ کنزالایمان ہوتا
            کبریٰ  -  مگر قرآن مجید اردو میں نازل نہیں ہوا۔
            نتیجہ  -  اس لیے کنزالایمان قرآن مجید نہیں۔
            اس قیاس استثنائی سے جو نتیجہ نکلا وہ سو فی صد صحیح اور حقیقت پر مبنی ہے۔ بالفرض اگر کوئی اس نتیجہ کو صحیح تسلیم نہیں کرتا تو پھر اسے اس کی نقیضین یعنی کنزالایمان ہی قرآن مجید ہے، کو ماننا پڑے گا کیوں کہ نقیضین میں سے کسی ایک کو تسلیم کیے بغیر کوئی چارۂ کار نہیں اور ایسا بھی نہیں ہو سکتا کہ دونوں میں سے کسی ایک کو بھی نہ مانا جائے اور نہ ہی دونوں کو مانا جائے گا کہ ان دونوں صورتوں میں رفع نقیضین اور صدق نقیضین لازم آئے گا۔ اہل علم بہ خوبی جانتے ہیں کہ یہ دونوں محال ہیں، اب رہی یہ بات کہ کنزالایمان ہی قرآن مجید ہے یہ سراسر جھوٹ، لہٰذا ثابت ہوا کہ کنزالایمان قرآن مجید نہیں۔ یقین کے اجالے میں ہر کوئی کہہ سکتا ہے کہ صغریٰ یعنی قرآن مجید اگر اردو میں نازل ہوا ہوتا تو وہ کنزالایمان ہوتا بالکل صحیح اور درست ہے۔ اس پر شک کرنے کی کوئی گنجائش نہیں۔ کنزالایمان کی امتیازی خصوصیات کو بیان کرنے کا یہ اسلوب جدید بھی ہے اور نادرو نایاب بھی کہ اس میں دعویٰ بھی ہے اور دلیل بھی۔ ایسا نہیں ہے کہ صرف کنزالایمان ہی کے سلسلہ میں یہ اسلوب اپنایا بلکہ قرآن و حدیث میں بھی یہ اسلوب نظر آتا ہے اور نعتیہ شاعری میں بھی۔
            (۱)  اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے
                        لَوْکَانَ فِیْھِمَآ اٰلِھَۃٌ اِلَّا اللّٰہُ لَفَسَدَتَا  ۱۷، س:انبیاء ۲۲)
                        ’’اگر آسمان و زمین میں اللہ کے سوا اور خدا ہوتے تو ضرور وہ تباہ ہو جاتے۔ ‘‘
            (۲)  رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی فضیلت بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں
                        لو کان بعدی نبیا لکان عمر
                        ’’میرے بعد اگر کوئی نبی ہوتا تو وہ عمر ہوتے‘‘
            (۳)  استاذ زمن حضرت علامہ مولانا حسن رضا خاں بریلوی اپنی نعتیہ شاعری میں تحریر کرتے ہیں:
خدا کرنا ہوتا جو تحت مشیت
خدا بن کر آتا یہ بندہ خدا کا
            استاذ زمن نے یہ شعر امام احمد رضا فاضل بریلوی کے سامنے پڑھا تو انھوں نے اس شعر کو پسند فرمایا اور خوشی کا اظہار کیا۔ بتایے یہ طرزِ استدلال اگر غلط ہوتا یا اس سے کراہت کی بو آتی تو امام احمد رضا اور ارباب علم و ادب اور دوسرے باذوق افراد اس پر اپنی پسندیدگی کا اظہار کیوں کرتے؟اگر کنزالایمان کی مدح و ستائش میں قیاس استثنائی پر مشتمل جملہ کہہ دیا گیا تو اس سے کون سی قیامت ٹوٹ پڑی اور کیوں ارباب نکتہ داں چیں بجیں ہو گئے؟ اور مذکورہ جملہ پر منھ بسورنے لگے۔ کسی صاف شفاف اور علم و فن کی کسوٹی پر کھرا اترنے والے جملہ پر معترض ہونا کہاں کا انصاف ہے؟ اور یہ کیسی دانش وری ہے؟ اس اعتراض کو کیا کہا جائے، حق پسندی یا شہرت کی ہوس میں بڑا بول؟ حق تو یہ تھا کہ اس جملہ کی تحسین فرماتے، انھیں مبارک باد دیتے جن کے نوک قلم سے یہ معرکۃ الآرا جملہ نکل پڑا۔ خیر زمانہ کچھ کہے میں اس جملہ پر مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ میری نگاہ میں اس سے بہتر اور جامع اسلوب کوئی اور نہیں ہو سکتا۔
کنزالایمان کی ضرورت:
            اس مقام پر بنیادی طور پر یہ سوال ہوتا ہے کہ آخر کیا ضرورت تھی کہ حضرت سیدنا امام احمد رضا فاضل بریلوی نے اردو زبان میں قرآن مجید کا ترجمہ کیا، اگر اللہ تعالیٰ کے پیغامات اور قرآنی تعلیمات کو عام مومنین تک پہنچانا مقصد تھا تو یہ کام بہت پہلے شاہ رفیع الدین اور شاہ عبدالقادر نے قرآن مجید کا اردو میں ترجمہ کر کے پورا کر دیا تھا۔ جناب خلیق انجم لکھتے ہیں:
            ’’اردو میں قرآن شریف کا پہلا ترجمہ مولانا شاہ رفیع الدین نے کیا یہ ترجمہ لفظی تھا یعنی قرآن شریف کے ہر لفظ کا اس طرح ترجمہ کیا گیا کہ اردو فقروں کی ساخت ہی بدل گئی اس ترجمہ میں سلاست و روانی نہ ہونے کی وجہ سے اصل مفہوم سمجھنا مشکل تھا۔ شاہ رفیع الدین نے یہ ترجمہ ۱۷۷۶ء میں کیا تھا۔ تقریباً نو سال بعد یعنی ۱۷۸۵ء میں شاہ رفیع الدین کے چھوٹے بھائی عبدالقادر نے بھی قرآن شریف کا اردو میں ترجمہ کیا یہ ترجمہ پہلے ترجمہ کے مقابلہ میں زیادہ سلیس شگفتہ اور آسانی سے سمجھ میں آنے والا تھا۔‘‘ (فن ترجمہ نگاری، ص۱۴)
            یہ دونوں ترجمے امام احمد رضا فاضل بریلوی کی پیدائش سے پہلے ہی شائع ہو چکے تھے اور اربابِ علم اس کا مطالعہ کر رہے تھے۔ شاہ عبدالقادر کے ترجمہ میں سلاست و روانی اور شگفتگی بھی پائی جاتی تھی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دونوں ترجمے افادیت اور مقصدیت سے عاری نہ تھے بلکہ اس کا افادی پہلو روشن تھا اور مقصد بھی واضح تھا کہ جن لوگوں نے اس کا ترجمہ کیا وہ یہی تو چاہتے تھے کہ قرآنی تعلیمات عام ہو جائیں اور لوگ ان قرآنی تعلیمات سے استفادا بھی کر رہے تھے۔ اس پس منظر میں اس بات کی وضاحت اور بھی زیادہ اہم نظر آتی ہے کہ آخر کنزالایمان کی ضرورت کیا تھی؟ خود امام احمد رضا کے دور میں بھی قرآن مقدس کے کئی ایک ترجمے موجود تھے۔ اس سے کسی کو انکار نہیں اور ترجمہ بھی ایسے ایسے افراد نے کیا تھا جو خود ماہر لسانیات اور اردو زبان و ادب کے لیے سرمایۂ فخر و ناز تھے۔ مثال کے طور پر ڈپٹی نذیر احمد ہی کو لے لیجیے کہ اردو ادب و تنقید میں ان کو کافی اہمیت حاصل تھی، ناول و افسانہ نگار تھے، زبان و ادب کے تمام پہلوئوں پر وسیع نظر رکھتے تھے۔ا ردو محاوروں اور ضرب الامثال کا استعمال بھی کرتے تھے۔ گویا دوسرے لفظوں میں آپ یہ بھی کہہ سکتے ہیں… نذیر احمد کو زبان و بیان پر مکمل عبور حاصل تھا، جدید اسالیب اور ایک ہی بات کو مختلف انداز میں پیش کرنے کی صلاحیت بھی تھی۔ انھوں نے بھی قرآن مجید کا اردو میں ترجمہ کیا، ان کے ترجمہ میں سلاست، روانی، شگفتگی، اردو محاوروں اور خوب صورت جملوں کا استعمال پایا جاتا تھا۔ انھوں نے عام بول چال میں ترجمہ کر کے یہ کوشش کی کہ قرآنی تعلیم گھر گھر پہنچ جائے اور اہل وطن نے اس ترجمہ کو ہاتھوں ہاتھ بھی لیا کیوں کہ اس میں سلاست و روانی پائی جاتی تھی۔ روزمرہ کے الفاظ اور محاورے بھی استعمال کیے گئے تھے اس کے باوجود نذیر احمد نے ایسی غلطی کی جس کا انجام بھیانک ہوا، روزمرہ اور اردو محاوروں کے استعمال میں وہ اس طرح کھو گئے کہ انھیں اس بات کا اندازا بھی نہ ہوا کہ ان محاوروں کا استعمال کس کے لیے کررہے ہیں۔ خدا کے لیے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے یا پھر ان برگزیدہ بندوں کے لیے جو پاک باز اور نیک طبیعت کے مالک تھے۔ میں اس کی ایک جھلک پیش کر رہا ہوں، آپ مطالعہ کریں اور اندازا لگائیں کہ اس قسم کے جملوں کا استعمال کس حد تک درست ہے۔ خلیق انجم رقم طراز ہیں:
            ’’قرآن کا ترجمہ مختلف مترجمین نے کیا، ان میں سب سے آسان اور روزمرہ کا ترجمہ ڈپٹی نذیر احمد کا سمجھا جاتا ہے۔ موصوف شستہ اور بامحاورہ زبان لکھنے میں اپنی مثال آپ تھے۔ امہات الامۃ لکھتے وقت بھی اسی صفت کو برت گئے اور برے پھنسے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے راتوں رات مکہ سے باہر تشریف لے جانے کا تذکرہ یوں کیا: وہ راتوں رات سٹک گئے، یہ سٹک کا لفظ اگرچہ عوام کی بول چال میں استعمال ہوتا ہے، لیکن پیغمبر کی شان میں یہی لفظ ایک گستاخی سمجھا گیا اور اسی طرح کے الفاظ کی بنا پر ڈپٹی نذیر احمد کے ترجمے کے خلاف عام جلوسوں میں تجویزیں پاس ہوئیں اور بہت شور ہوا۔‘‘ (فن ترجمہ نگاری، ص۸۹)
            اس عبارت محولہ سے یہ ضابطہ نکل کر آیا کہ قرآن کا ترجمہ کرتے وقت مترجم صرف لفظوں کی خوب صورتی، جملوں کی شگفتگی، اسلوب کی رنگا رنگی اور انداز نگارش کی قوس و قزح پر نظر نہ رکھے اور نہ ہی محاوروں اور روزمرہ کے الفاظ کے استعمال پر دھیان مرکوز کرے، بلکہ یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ یہ جملے اور محاورے کس کے لیے استعمال کیے جا رہے ہیں اور کیا یہ الفاظ و محاورے خدا و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس کے لیے مناسب ہیں یا نہیں؟ اگر نہیں ہیں تو ایسے لفظوں اور محاوروں کو مسترد کر دینا چاہیے۔ اس ضابطہ کا فقدان نہ صرف ڈپٹی نذیر احمد کے یہاں پایا جاتا ہے بلکہ اردو زبان میں جس قدر بھی قرآنی تراجم موجود ہیں سب میں عام ہے ذیل میں چند مثالیں پیش کی جا رہی ہیں:
            (۱)       سرسید احمد خاں نے لکھا:
                        ’’اللہ ان سے ٹھٹھا کرتا ہے‘‘
            (۲)       ڈپٹی نذیر احمد نے اس طرح لکھا:
                        ’’اللہ ان کو بناتا ہے‘‘
            (۳)      فتح محمد جالندھری نے کیاگل کھلایا اسے بھی ملاحظہ کریں:
                        ’’ان منافقوں سے خدا ہنسی کرتا ہے‘‘
            (۴)      شیخ محمود حسن دیوبندی نے یوں ترجمہ کیا:
                        ’’اللہ جل شانہ ان سے دل لگی کرتا ہے‘‘
            ماہر لسانیات اور ارباب ذوق سے گزارش ہے… ’’ٹھٹھا کرتا ہے‘‘، ’’بناتا ہے ‘‘، ’’ہنسی کرتا ہے‘‘ اور ’’دل لگی کرتا ہے‘‘ جیسے جملوں پر غور کریں، میں مانتا ہوں کہ یہ ایسے الفاظ اور جملے ہیں جو روزمرہ میں بولے جاتے ہیں اور خاص و عام اپنے اپنے محاوروں میں استعمال کرتے ہیں، مگر ان محاوروں سے ذہن میں جو معانی و مفاہیم منعکس ہوتے ہیں، کیا وہ شان الٰہی کے لیے زیب دیتے ہیں؟ کیا کوئی بھی مومن اور عشق کا مزاج رکھنے والا انسان اپنے اور سارے جہاں کے خالق و مالک کے لیے ان لفظوں کا استعمال کر سکتا ہے؟ نہیں ہرگز نہیں۔ یہ الفاظ بھی گستاخانہ کلمات ہیں جو قوتِ سماع پر گراں گزر رہے ہیں۔ اسی قسم کے بہت سے غیر محتاط اور غیر معتدل الفاظ و کلمات کے  بطن سے یہ ضرورت پیدا ہوئی کہ اب قرآن مقدس کا اردو ادب میں ایسا ترجمہ کیا جائے جو ایمان و یقین اور ادب و احترام، صدق و صفا اور خوش گوار ماحول کا آئینہ دار ہو۔ اب ایسے ترجموں کی قطعی کوئی حاجت نہیں جو ماحول، ذہنی فضا اور مزاجِ عشق میں تکدر پیدا کرے۔ اسی ضرورت و تقاضا نے کنزالایمان کو وجود بخشا اور اب وہ ہمارے ہاتھوں میں ہے جو چیز کسی ضرورت کے تحت نمود پذیر ہوتی ہے، وہ اعلیٰ اور بے مثال ہوا کرتی ہے۔ اس میں ایسی خوبیاں ہوتی ہیں کہ ذوق جمال جن کے حسین لمس سے جھوم سا جاتا ہے ، یقین مانیے امام احمد رضا فاضل بریلوی کے ترجمۂ قرآن کنزالایمان میں یہ تمام خوبیاں پائی جاتی ہیں۔
کنزالایمان کیسے وجود میں آیا:
            اس سوال کی بھی ایک تاریخ اور پس منظر ہے چوں کہ امام احمد رضا فاضل بریلوی کو علمی مصروفیات سے فرصت ہی نہیں ملتی تھی، تصنیف و تالیف اور فتاویٰ نویسی آپ کا محبوب مشغلہ تھا۔ اس لیے آپ کی توجہ اس طرف نہیں گئی مگر صدرالشریعہ مولانا امجد علی صاحب علیہ الرحمہ نے اس ضرورت و افادیت کا احساس کیا اور اپنے دل میں مکمل عزم کر لیا کہ اس بارے میں امام احمد رضا سے وقت کا مطالبہ کیا جائے اور اس کام کے لیے انھیں آمادہ کر لیا جائے۔ صدرالشریعہ نے امام احمد رضا سے اس ضرورت کا تذکرہ کیا، انھوں نے بھی خندہ پیشانی سے اسے قبول کر لیا۔ سیدنا اعلیٰ حضرت نے اس کے لیے دو وقتوں کا تعین فرمایا، دن میں قیلولہ کے وقت اور رات میں سونے سے قبل۔
            اس بات سے ہر ایک فرد واقف ہے کہ ترجمہ کرنا کوئی آسان کام نہیں اور وہ بھی قرآن مقدس کا ترجمہ کرنا، کوئی بچوں کا کھیل نہیں، اس کے لیے جاں فشانی، زبردست محنت و عرق ریزی اور راتوں کو حلال کرنا پڑتا ہے اور پتہ ماری کی جاتی ہے تب کہیں جاکرترجمہ کا عمل مکمل ہوتا ہے۔ ہرکس و ناکس قرآن مقدس کا ترجمہ کر لے ایسا نہیں ہو سکتا ہے ہاں اس کے لیے کچھ ذی علم اور باشعور افراد مخصوص ہوا کرتے ہیں۔ یہیں سے ذہن میں سوال ابھرتا ہے کہ ترجمہ کون کرے؟
ترجمہ کون کرے؟
            یہ سوال بہ ظاہر بہت ہی چھوٹا اور نہایت ہی سادا ہے مگر اس کا جواب تحقیق طلب اور خود میں گہرائی و گیرائی لیے ہوئے ہے۔ معنی خیز اور حیرت انگیز بھی ہے۔ میں اپنی ناقص معلومات سے چند باتیں عرض کر رہا ہوں شاید انھیں مخدوش عبارتوں میں اس کا جواب مل جائے۔
اولاً :  قرآن مقدس کا ترجمہ وہ کرے جو قرآن فہمی اور منشاء الٰہی کو سمجھنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ قرآن فہمی کے لیے چند بنیادی چیزوں کا ہونا ضروری ہے:
            قرآن کی زبان کا ذوق پیدا کرنا ایک ضروری امر ہے اور کسی بھی زبان کا ذوق برسوں کی مشق اور پتہ ماری سے پیدا ہوتا ہے۔ صرف تفسیروں کے پڑھنے اور لغت میں بتائے گئے الفاظ و معانی کے صرف مطالعہ سے پیدا نہیں ہوتا بلکہ اس کے لیے اس زبان کا سارا کلاسیکی لٹریچر، اس کے اساتذہ کا کلام، اس کے قواعد و ضوابط، اصول و نظریات، اس کے علم نحو، علم صرف، علم معانی و بیان کا نہایت ہی ٹھوس اور گہرے مطالعہ کا ہونا ایک امر ناگزیر ہے۔ فصاحت و بلاغت،ا س کی باریکیوں اور لطافتوں پر عبور کا ہونا بھی ضروری ہے چوں کہ قرآن مقدس جس وقت نازل ہو رہا تھا، وہ جاہلیت کا دور تھا۔ عربوں میں شاعری کا ذوق تھا اور اہل عرب اپنی زبان دانی پر ناز کر رہے تھے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو یہ بات دل کو لگتی ہوئی محسوس ہوتی ہے کہ قرآن کو سمجھنے کے لیے ایام جاہلیت کے شاعروں خطیبوں کے کلام پر عبور ضرور حاصل کرنا چاہیے۔ عربی زبان کے تلمیحات، تشبیہات اور استعارات پر بھی گہری نظر رکھنی چاہیے کہ اس کے بغیر کام نہیں چلتا کہ قرآن انھیں کی زبان میں نازل ہوا۔ زبان کے محاورے، ضرب الامثال بھی زبان کے ذوق کو پیدا کرنے میں اہم رول ادا کرتے ہیں۔ جب تک ان علوم و فنون پر درک تام حاصل نہیں ہوگا تو پھر زبان کا ذوق کیوں کر پیدا ہوگا۔ اس لیے قرآن فہمی کے بنیادی اصولوں کو مد نظر رکھتے ہوئے، ادب عربی سے متعلق تمام علوم و فنون کو حاصل کرے اور ان علوم و فنون کے ذریعہ قرآن کو سمجھنے کی کوشش کرے۔
ثانیاً:  ترجمہ کرنے کی کوشش وہ کرے جس کے اندر یہ استعداد و صلاحیت ہوکہ وہ سیاق و سباق، اضافات و انسلاکات کے ذریعہ لفظوں کے معانی و مفاہیم کا تعین کر سکتا ہو۔ صرف لغتوں میں بتائے گئے لفظوں کے معانی پر اعتماد کل نہ کرے کیوں کہ لفظوں کا پیکر نہایت ہی صاف و شفاف ہوا کرتا ہے جو ہر قسم کے سیاق و سباق سے شعاعوں کو قبول کرتا ہے اور پھر ان شعاعوں سے قاری و سامع کے دل و دماغ کو منور کرتا ہے۔ یہی فلسفۂ الفاظ ہے، جس شخص کے اندر سیاق و سباق سے معانی و نتائج کے اخذ کرنے کی صلاحیت، استعداد و قابلیت ہی نہیں وہ اس وادی میں قدم نہ رکھے تو بہتر ہے۔ اکثر مترجمین کے اندر اس صلاحیت کا فقدان تھا اس لیے ان کے قلموں نے لغزش کھائی اور علم و شعور، فن و ادراک کی کشتی بیچ بھنور میں آکر ڈوب گئی جس کی وجہ سے اہل علم و ادب کے مابین اس کے ترجمہ کے خلاف ماحول بنا، کرب و اضطراب پیدا ہوا اور سماج و معاشرہ کے مسائل میں زبردست الجھنیں پیدا ہوئیں۔ کاش اگر مترجمین معنیاتی فلسفہ و شعور کو پیش نظر رکھتے تو یہ بے چینی پیدا نہ ہوتی مگر نا معلوم ان مترجمین نے کس زعم میں سیاق و سباق کا لحاظ نہ کیا اور قوم مسلم کو بے چین و مضطرب کر دیا۔ العیاذ باللہ۔
ثالثاً:  ترجمہ وہ کرے جس کے اندر خلوص و للہیت، صدق نیت، طلب ہدایت اور قرآن کریم سے اکتساب نور کا حوصلہ ہو کیوں کہ یہی وہ قرآن مجید ہے جس سے ہزاروں افراد ہدایت پا گئے اور ہزاروں کفر و ضلالت کے دَل دَل میں پھنس کر رہ گئے اور موت و حیات کے کش مکش سے دوچار ہو گئے۔ صرف علوم عربیہ پر عبور ہی ترجمہ کرنے کے لیے ضروری نہیں بلکہ تائید ربانی بھی اس کے لیے ضروری امر ہے کہ الفاظ وہی ہوتے ہیں اور معانی و مفاہیم بھی وہی، دونوں کے مابین اٹوٹ رشتے بھی وہی، اس کے باوجود الفاظ قرآن سے صحیح معنی و مفہوم کا اخذ و استنباط خداے برتر و بالا کی تائید و توفیق کے بغیر نہیں ہو سکتا۔ اس لیے مترجمین کے لیے ایسی صلاحیت و استعداد کا ہونا ضروری ہے جس سے تائید ربانی کا نزول ہو سکے۔ جن مترجمین میں ان صلاحیتوں کا فقدان تھا ترجمہ کرتے وقت ان کے دامن کا ایک ایک تار بکھر کر رہ گیا اور خود ان کی شخصیتیں بھی مجروح ہو گئیں۔
            اب تک جو باتیں تحریر کی گئیں، وہ قرآن فہمی اور اس کے مسائل سے متعلق تھیں، لیکن مترجمین کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ جس زبان میں قرآن کا ترجمہ کیا جا رہا ہے، اس کے اصول و مسائل الگ نوعیت کے حامل ہیں، جن سے آشنائی مترجمین کے لیے ضروری امر ہے۔ اسے سمجھے بغیر ترجمہ کا عمل پورا نہیں ہو سکتا۔ یہ اصول و مسائل دو مرحلوں میں بیان کیے جا رہے ہیں۔
مرحلۂ اولیٰ:  ترسیل ہے۔ ترسیل کا مطلب قلبی واردات، ذہنی کیفیات اور مافی الضمیر کو لفظوں کے روپ میں پیش کرنا ہے۔ اس کے لیے ذخیرۂ الفاظ کا وسیع تر ہونا ضروری ہے۔ ذخیرہ میں جس قدر وسعت ہوگی مترجمین کے لیے ترجمہ کا عمل اتنا ہی آسان اور سہل ہوگا کہ لفظوں کی کمی مفہوم کی ادائیگی میں زبردست خلل ڈالتی ہے۔ اصول و قواعد، نحوو صرف، استعارات و تلمیحات، تشبیہات و کنایات اور اسلوبیات سے واقفیت بھی ہونی چاہیے۔ روزمرہ کے الفاظ و بیان اور اردو کے اساتذۂ سخن کے کلام پر بھی نظر رکھنی چاہیے۔ اردو عسکری زبان ہے اس میں عربی و فارسی زبانوں کے الفاظ اور علاقائی بولیوں کے محاورے بھی پائے جاتے ہیں لہٰذا ایک مترجم کو اردو کے ان تمام پہلوئوں پر نظر رکھنی چاہیے کہ انھیں معلومات کے سبب ذخیرۂ الفاظ میں وسعت آئی ہے اور انسان ترسیلی امور کے انجام دہی میں کام یاب ہوتا ہے۔ ترسیل کے وقت مترجم کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ اصل متن کے الفاظ و عبارات کا صحیح صحیح ترجمہ کرے اور اس کے لیے لفظوں کے انتخاب میں اپنی پوری صلاحیت صرف کر دے اور یہ ضرور دیکھے کہ کس لفظ میں ترسیل کی قوت ہے؟ اور کس میں نہیں ہے؟ یہ حقیقت ہے کہ لفظوں کا عمل حرکی نظام پر قائم ہے۔ جس لفظ میں یہ حرکت تیز تر ہوگی اسی قدر وہ دل اور دماغ سے اپیل کرے گا اور جہاں یہ حرکت نہیں ہوتی، وہ جمود و تعطل کا شکار ہوکر انتقال معانی میں مخل ہو جاتا ہے اور پھر ترجمہ کا عمل مفلوج ہوکر رہ جاتا ہے۔ تو بتایے کہ اس قسم کے الفاظ ترجمہ کے عمل میں کیوں کر شامل کیے جا سکتے ہیں؟
مرحلۂ ثانیہ:  ابلاغ ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ لفظوں کے ذریعہ جن معانی کو قاری و سامع کے دل و دماغ تک پہنچانا ہے وہ پہنچے ہیں یا نہیں، اس بات کا پتا لگانا اور اس کی جانچ کرنا بھی مترجم کی ذمہ داری ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ مترجم مناسب الفاظ اور موقع و محل کے اعتبار سے جملوں کا انتخاب کرے، کہیں استعارہ سے کام لے اور کہیں تشبیہ سے کام لے اور مناسب لب و لہجہ کو بروئے کار لائے۔ اندازِ بیاں بھی ایسا اختیار کرے جو آسان اور سہل ہو تا کہ ابلاغ میں خلل واقع نہ ہو۔ ابلاغ میں کام یابی ہر کسی کو نصیب نہیں ہوتی۔ اس میں کچھ کوشش ہوتی ہے اور کچھ عطیۂ ربانی، برسوں ریاضت و مہارت کرنی پڑتی ہے تب کہیں ابلاغ میں کام یابی ملتی ہے یا پھر اس قدر ملکہ و قدرت ہو کہ انسان میں ابلاغ کی ساری توانائی حاصل ہو جائے۔
مرحلۂ ثالثہ:  اس بات کا متقاضی ہے کہ ترجمہ میں جو الفاظ و جملے لائے جائیں، اسے ادب و احترام اور جذبۂ عشق سے سرشار ہونا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ذوات قدسیہ کے لیے مناسب بھی۔ ایسے الفاظ کا استعمال قطعی طور پر ممنوع قرار دیے جائیں جن سے بے ادبی اور گستاخی کا شائبہ ہو مگر بعض مترجمین نے اپنے ترجموں میں صرف محاوروں اور روزمرہ کے زبان کے استعمال پر زور دیا، انھوں نے اس بات پر دھیان نہیں دیا کہ ان محاوروں کا استعمال کہاں درست ہے اور کہاں درست نہیں؟
            ان تمام گفتگو کو دھیان میں رکھ کر غور کریں کہ صرف امام احمد رضا بریلوی کی ہی ایسی ذات تھی جو صحیح معنی میں ترجمہ کے عمل کو انجام دے سکتی تھی۔ ان کی شخصیت میں ترجمہ کرنے کے تمام تر اصول و مسائل اور بنیادی ضرورتیں پائی جاتی تھیں، جہاں تک عربی زبان دانی اور قرآن فہمی کا تعلق ہے تو اس معاملہ میں انھیں پوری مہارت اور مکمل عبور حاصل تھا۔ عربی زبان و ادب تو ان کے گھر کی معلوم ہوتی تھی۔ آپ برملا عربی زبان میں گفتگو کر سکتے تھے اور لکھ سکتے تھے، فصیح  بلیغ عربی بولنا یا لکھنا ان کی خصوصیت اور انفرادی شان تھی۔ ان کی تصانیف کا مطالعہ کر لیجیے آپ کو ان کی عربی دانی کا اندازا ہو جائے گا۔ عربی میں شاعری کرنا ان کی طبع میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ عربی زبان و ادب میں ان کی مہارت کاملہ اور درک تام کو دیکھتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ عربی خود ان کی اپنی مادری زبان معلوم ہوتی تھی۔ اس میں زور شور کے ساتھ بلاغت و فصاحت، علم معانی و بیان کے تقاضوں کی سرگرمی اس بات کا اعلان کرتی ہے کہ عربی زبان کی طرف ان کا میلان و رجحان طبعی تھا، یہی وجہ ہے کہ تمام علمی نکات، فن کی باریکیاں اور دقائق لطیفہ اولاً ان کے ذہن و شعور پر منکشف ہوتے تھے، پھر بعد میں آپ انھیں اردو زبان یا فارسی زبان میں منتقل فرماتے تھے۔ اس موقع پر مولانا محمد احمد مصباحی صدرالمدرسین الجامعۃالاشرفیہ مبارک پور کی درج ذیل عبارت پیش کردینا مناسب و ضروری سمجھتا ہوں، آپ رقم طراز ہیں:
            ’’ان الابحاث العلمیہ تتجلی فی ذہنہ الثاقب اولاً ۔ بالعربیہ ثم یحولھا الی اللغۃ الاخرویہ۔  یعنی اولاً مباحث علمیہ ان کے روشن ذہن پر روشن ہوتے ہیں پھر ثانیاً انھیں دوسری زبانوں میں پیش کرتے ہیں۔‘‘  (تقدیم- قصیدتان رائعتان)
            اس سے آپ اندازا لگا سکتے ہیں کہ امام احمد رضا کو عربی ادب میں کس قدر مہارت تھی، مگر یہ بھی خیال رہے کہ یہ مہارت زبان کی صرف ایک یا چند جہات تک محدود نہ تھی بلکہ اس کے تمام جہتوں پر محیط تھی، خواہ اس کا تعلق زبان کے نحوو صرف سے ہو یا فصاحت و بلاغت سے، معانی و بیان سے ہو یا صنائع لفظی سے، لسانیات سے متعلق ابحاث ہوں یا لفظیات سے، ہر پہلوئے زبان پر انھیں پورا اور مکمل عبور حاصل تھا جس کی وجہ سے ان کی ذات و شخصیت میں عربی ادب کا ذوق پایا جاتا تھا اور قرآن فہمی میں ان کی کوئی نظیر نہ تھی۔ نہ آپ کی ولادت سے سو سال قبل اور نہ ہی اب تک کوئی ایسا پیدا ہوا جو قرآن فہمی میں ان کا ثانی ہونے کا دعویٰ کرے۔ اس اعتبار سے صرف اور صرف انھیں کو قرآن مقدس کا اردو ترجمہ کرنے کا حق حاصل تھا۔
            جہاں تک اردو میں ترسیل و ابلاغ کا سوال ہے، اس میں بھی آپ کو پوری قدرت حاصل تھی۔ لفظوں کا ایسا وسیع ذخیرہ آپ کی معلومات میں سمویا ہوا تھا کہ کسی معنی و مفہوم کو ادا کرنے کے لیے آپ کو لفظوں کا انتظار نہ کرنا پڑا بلکہ خود الفاظ تراکیب اور بندشیں آپ کی توجہ و التفات کی محتاج تھیں کہ کب لب کشا ہوں اور لفظوں کے پھول برسنے لگے، یہ صرف امام موصوف کی خدمت میں قصیدہ خوانی نہیں بلکہ اصل حقیقت کی ترجمانی ہے۔ ۱۱؍ سو کتابوں، رسالوں پر مشتمل سرمایہ علم و فن کیا اس بات پر واضح ثبوت نہیں کہ اعلیٰ حضرت کی اردو دانی کا نہ کل جواب تھا اور نہ ہی آج ان کا کوئی جواب ہے۔ نظم و نثر دونوں میدانوں میں وہ اپنی مثال آپ تھے۔ حدائق بخشش اور ترجمۂ قرآن کنزالایمان کا مطالعہ کر لیجیے امام احمد رضا کی نظم نگاری اور نثر نگاری کا آپ کو بہ خوبی اندازا ہو جائے گا۔ لفظوں کا انتخاب، جملوں کی ساخت اور محاوروں کا برمحل استعمال ان کی نثر نگاری کا بین ثبوت ہے۔ ان کی زبان کی خوب صورتی کا یہ عالم تھا کہ ان کی زبان کوثر و تسنیم میں دُھلی ہوئی معلوم ہوتی تھی۔ اس اعتبار سے دیکھیے تو ہم یہ کہنے میں حق بہ جانب ہیں کہ قرآن کریم کا اردو میں ترجمہ کرنے کا صرف انھیں کا حق تھا۔ طبع آزمائی کوئی بھی کرے اس پرپابندی عائد نہیں کی جا سکتی ہے مگر اس میدان میں کھرا وہی اترتا ہے جو اس میں اترنے کا مستحق ہوا کرتا ہے۔
            امام احمد رضا بریلوی کی شخصیت میں یہ نمایاں خصوصیت پائی جاتی ہے کہ انھوں نے ترجمۂ قرآن میں جو لفظ اور جو جملہ استعمال کیا، ادب و احترام کے ساتھ کیا۔ ان کے الفاظ میں نہ تو کرخت آوازیں شامل ہیں اور نہ ہی مکروہ اصوات کا شائبہ ہی گزرتا ہے، کیوں کہ انھوں نے ترجمہ کا کام نہ تو نام و نمود کے لیے اور نہ ہی شہرت کے جذبہ سے مغلوب ہوکر بلکہ انھوں نے خدا کے پیغامات اور قرآنی تعلیمات کے خوب صورت پیراے میں لوگوں تک پہنچانے کی کوشش کی اور عشق و ایمان کا پہرا بٹھا کر یہ کام انجام دیا۔ اسی لیے ان کے ترجمہ سے نہ تو شان الٰہی پر کوئی فرق پڑا اور نہ ہی شان رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں کسی قسم کی سوے ادبی ہوئی، حالاں کہ دوسرے مترجمین کا دامن اس قسم کے منفی جذبات سے عاری نہیں۔ ان مترجمین میں صرف امام احمد رضا بریلوی ہی ایسے مترجم ہیں جن کا قلم و تحریر ہر اعتبار سے محفوظ ہے۔ اسی لیے میرا دعویٰ ہے کہ صرف امام احمد رضا ہی قرآن کا صحیح اور اچھا ترجمہ کر سکتے ہیں کہ خداوند تعالیٰ نے صرف انھیں کا اس کے لیے انتخاب فرمایا تھا۔
یہ کس قدر حیرت کا مقام ہے:
            قرآن مقدس کا اردو میں ترجمہ کرنا کس قدر دشوار اور مشکل کام ہے اس بات کا اندازا خود بھی آپ کو ہو گیا ہوگا۔ مگر اس مشکل ترین کام کو انجام دینے کے لیے، امام احمد رضا نے جو وقت قیلولہ اور سونے سے قبل کا وقت نکالا۔ اس پر زبردست حیرت ہو رہی ہے اور میں نہیں سمجھ پا رہا ہوں کہ آخر ایسا کیوں کیا گیا۔ جہاں اس کے لیے احادیث اور تفسیروں، لغتوں کا مطالعہ ضروری ہے مگر امام موصوف نے اس مطالعہ کی پرواہ کیے بغیر حضرت علامہ صدرالشریعہ کو ترجمہ لکھانا شروع کر دیا۔ شعورو دانش کی ساری سرحدیں یہیں پر ختم ہو جاتی ہیں کہ ایسا کیوں کر ہو سکتا ہے۔ یہ سمجھ میں آنے والی بات نہیں، مگر ایسا ہی ہوا ہے اس لیے اسے جھٹلایا بھی نہیں جا سکتا ہے۔ اس مقام پر میں صرف دو باتیں پیش کر رہا ہوں جن کے مطالعہ سے حیرت و استعجاب کا یہ طلسم ٹوٹ سکتا ہے۔
اول:  یہ کہ اعلیٰ حضرت کے ذہن و فکر اور شعور و ادراک میں وہ تمام علوم و فنون جو معدات کی حیثیت رکھتے ہیں جمع تھے اور من کل الوجوہ مستحضر بھی اور جب ذہن و فکر میں کلی استحضار ہوتا ہے تو اس شے کے وجود میں کیا دیر لگتی ہے جس کے لیے یہ استحضار ذہنی ہوتا ہے بالکل بعینہٖ یہ صورت ترجمۂ قرآن کی تھی اسی لیے امام احمد رضا فاضل بریلوی نے اس مختصر سی مدت میں اتنا اہم اور مشکل کام کو انجام دے دیا اور طبع نازک پر ذرا بھی گرانی محسوس نہیں کی، یہ ترجمہ قطرہ قطرہ مل کر ایک سمندر کی شکل میں نمودار ہوا جس کا نام ’’کنزالایمان‘‘ رکھا گیا۔
دوم:  اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ایک اَن دیکھی قوت تھی جو امام احمد رضا سے یہ ترجمہ کرا رہی تھی۔ یہ فضل ربی ہے وہ جسے چاہتا ہے عطا کر دیتا ہے اور بے حساب دیتا ہے۔ اس اعتبار سے دیکھیے تو کنزالایمان کرشمۂ قدرت ہے، عطیۂ ربانی ہے اور کیوں نہ ہو کہ خود امام احمد رضا کی ذات رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات میں سے ایک معجزہ ہے تو پھر کنزالایمان پر اس کے انطباق میں کیا قباحت ہو سکتی ہے۔ یہ وہ باتیں ہیں جو سمجھ میں آنے والی ہیں اور حیرت و استعجاب کی کیفیت کا ازالہ کرنے والی ہیں۔
کنزالایمان اور اس کا افادی پہلو:
            ’’کنزالایمان‘‘ واقعی کنزالایمان ہے جو ذہن و فکر میں عشق و ایمان کی تازگی لاتا ہے اور دلوں میں لطافت و نزاکت اور روحوں میں بالیدگی لاتا ہے، اسے پڑھیے قرآنی ہدایات کے جلوے آپ محسوس کریں گے اور تاریک قلب و جگر میں انوار و تجلیات بکھر جائیں گے۔ سلاست و روانی، سادگی، لفظوں کی شگفتگی اور پرکشش جملوں کا تنوع، محاوروں کے برمحل استعمال سے جو رنگا رنگی فضا تیار ہوتی ہے۔ کنزالایمان میں یہی فضا اور خوش گوار ماحول دیکھنے کو ملتا ہے۔ شروع سے آخر تک کنزالایمان میں کچھ اسی قسم کی کیفیت کا احساس ہوتا ہے۔ ارباب ذوق جس کا اندازا لگا سکتے ہیں۔
            حضرت علامہ بدرالدین علیہ الرحمہ کنزالایمان کی انفرادی خصوصیات کا ذکر کرتے ہوئے جو تحریر کرتے ہیں ان کا ذکر اس مقام پر مناسب تصور کرتے ہیں، موصوف لکھتے ہیں:
(۱)  دورِ حاضر میں اردو کے شائع شدہ ترجموں میں صرف ایک ترجمہ کنزالایمان ہے جو قرآن کا صحیح ترجمان ہے۔
(۲)  جو تفاسیر معتبرہ قدیمہ کے مطابق ہے۔
(۳)  جو اہل تفویض کے مسلک کا عکاس ہے۔
(۴)  اصحاب تاویل کے مذہب سالم کا مؤید ہے۔
(۵)  زبان کی روانی اور سلاست میں بے مثل ہے۔
(۶)  عوامی لغات اور بازاری بولی سے یکسر پاک ہے۔
(۷)  قرآن کریم کے اصل منشا و مراد کو بتاتا ہے۔
(۸)  آیات ربانی کے اندازِ خطاب کو بتاتا ہے۔
(۹)  قرآن کے مخصوص محاوروں کی نشان دہی کرتا ہے۔
(۱۰)  قادر مطلق کی رداے عزت و جلال میں نقص و عیب کا دھبا لگانے والوں کے لیے شمشیر براں ہے۔
(۱۱)  حضرات انبیا کی عظمت و حرمت کا محافظ و نگہ بان ہے۔
(۱۲)  علما و مشائخ کے لیے حقائق و صداقت کا امنڈتا ہوا سمندر ہے۔ (سوانح اعلیٰ حضرت،ص۳۶۶)
            یہ کل دو ازدہ خصوصیات ہیں جو کنزالایمان میں پائی جاتی ہیں۔ یہ کل خصوصیات نہیں بلکہ ان میں تو اَن گنت اور بے پناہ انفرادی امتیازات ہیں، اس کی ہر ایک خصوصیت پر سیر حاصل بحث کی جا سکتی ہے کہ عملی اور نظری دونوں اعتبار سے اس پر گفتگو کرنے کی گنجائش ہے۔ ہاں اتنی بات ضرور ہے کہ ان امتیازات کا انکشاف ہر ایک پر نہیں ہوتا،جن کا جس قدر دامن علم و فکر وسیع ہوتا ہے اتنا ہی وہ اس سے استفادا کر سکتے ہیں اور اگر کوئی عام قاری ہے جو ان خصوصیات کا اندازا نہیں لگا سکتا ہے تو میں ان کے تعلق سے کہہ سکتا ہوں کہ کم از کم انھیں کنزالایمان کے مطالعہ سے ہدایت و ارشاد اور عشق و ایمان کی طراوت ضرور محسوس ہوگی اور پھر وہ بھی اس بات کے اعتراف میں لیت و لعل سے کام نہ لیں گے کہ کنزالایمان واقعی طور پر ایمان کا خزانہ اور علم و عرفان کا چشمۂ سیال ہے جو ۱۳۳۰ھ میں منصۂ شہود پر آیا، جو اس وقت سے اب تک شائع ہوتا رہا ہے اور اَن گنت ہاتھوں میں پہنچ کر قبولیت کی منزل کو چھوتا ہوا دکھائی پڑ رہا ہے۔ جس طرف دیکھیے کنزالایمان کی دھوم ہے۔ جس قدر مضامین، مقالے اس کے تعلق سے شائع ہو چکے ہیں شاید ہی کسی اردو ترجمہ کے لیے لکھے گئے ہوں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس کے تمام پہلوئوں پر گفتگو کی جائے اور کنزالایمان میں پائے جانے والے تمام تفردات کا علیٰ وجہ الکمال ذکر کیا جائے۔
            چلتے چلتے مضمون کے اختتام پر کچھ باتیں اور بھی عرض کیے دیتا ہوں جن سے مضمون میں خوب صورتی اور کشش آ سکتی ہے۔ بات کنزالایمان کی تھی اور اب بھی ہے کہ اہل علم و ادب اور صاحب بصیرت نے امام احمد رضا کے ترجمۂ قرآن کو ہاتھوں ہاتھ لیا، آنکھوں سے لگایا اور اسے دلوں میں جگہ دی کیوں کہ اس میں کچھ خوبیاں ہی ایسی ہیں کہ نہ چاہتے ہوئے بھی قلب و دماغ کا جھکائو اسی کی طرف دکھائی پڑتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس میں جو الفاظ، جملے اور عبارتیں لائی گئی ہیں ان میں عشق و محبت، صدق و صفا اور قلبی کیفیات سموئی ہوئی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ان میں فکرو نظر، شعور و ادراک کے عکوس و آثار بھی ہیں جو لفظ جس موقع پر استعمال ہوا ہے اس میں سب سے بڑا ہاتھ صرف اور صرف طبعی تناسب کا ہے کہ اس طبعی مناسبت سے نہ تو اس لفظ کو جدا کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی اس میں کسی لفظ کا اضافہ۔ وہ نگینہ کی مانند ہے کہ جب تک وہ لفظ اس مقام پر ہے اس کی خوب صورتی میں کوئی کمی نہیں، اس کو الگ کرتے ہی یا اس میں تسہیل کے طور پر کوئی اضافہ بھی طبعی مناسبت میں نقص پیدا کر سکتا ہے۔ مثال کے طور پر سورۃ فاتحہ میں  اِھْدِنَاالصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ  کے ترجمہ کو ہی لے لیجیے کہ اوروں نے اس کا ترجمہ کیا… ’’ہمیں سیدھی راہ دکھا‘‘ مگر میرے اعلیٰ حضرت نے ترجمہ فرمایا… ’’ہمیں سیدھا راستہ چلا‘‘ فرض کر لیجیے کہ ’’چلا‘‘ کو ترجمہ کی صف سے ہٹا لیا جائے تو بتایے اس کی جگہ کون سا لفظ لایا جا سکتا ہے؟ ’’دکھا‘‘ تو لا نہیں سکتے کیوں کہ یہ تبدیلی خود امام احمد رضا نے کر دی۔ اس کے لیے کوئی ایسا لفظ لایے جو چلا کے مقام پر فٹ ہو جائے۔ ذخیرۂ الفاظ کو کھنگال لیجیے، لفظوں کی ورق گردانی کر لیجیے۔ علاقائی بولیوں کو بھی ٹٹول لیجیے۔ میں پورے طور پر یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ اس مقام پر لفظ ’’چلا‘‘ سے زیادہ موزوں کوئی اور لفظ نہیں ہو سکتا۔ کنزالایمان کی اسی خصوصیت کے سبب یہ کہا جا سکتا ہے کہ امام احمد رضا نے جو لکھ دیا وہی مناسب اور انسب معلوم ہوتا ہے کہ ہم اس میں کسی ردو بدل کے قائل نہیں اور نہ ہی اس کا کوئی جواز و امکان ہے۔ اسی لیے کنزالایمان اردو ادب کا ایک عظیم شاہ کار ہے کہ اردو نثر میں اس سے بڑا اور کوئی شاہ کار اب تک دیکھنے کو نہیں ملا۔ میری اس تحریر کو مبالغہ آرائی اور بے جا مدح و ستائش پر محمول نہ کیا جائے کہ یہ حقیقت ہے۔ اس میں کذب ودروغ یا لاف و گزاف کی کوئی گنجائش نہیں۔ دل سے دعائیں نکلتی ہیں کہ کنزالایمان سلامت رہے۔ اس کی لطافتوں رعنائیوں کو سلام اور اس کی خوب صورت ترتیب و تدوین کو ہزاروں سلام۔ یہ وہ خورشید تاباں ہے کہ ہزار پابندیوں کے باوجود ان کی تابانیاں مدھم نہیں ہو سکتی۔

..:: Follow us on ::..

http://www.jamiaturraza.com/images/Twitter.jpghttp://www.jamiaturraza.com/images/Facebook.jpg


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

ٹیوٹر اپڈیٹس دیکھیں اور فالو کریں