کنزالایمان
کا ادبی و لسانی جائزہ
ڈاکٹر
عبدالنعیم عزیزی ۱۰۴، جسولی، بریلی شریف
مجدد اسلام اعلیٰ
حضرت امام احمد رضا کے اردو ترجمۂ قرآن ’’کنزالایمان فی ترجمۃ القرآن‘‘ سے قبل متعدد
مترجمین کے تراجم شائع ہو چکے تھے۔ جیسے:
شاہ رفیع الدین،
شاہ عبدالقادر، ڈپٹی نذیر احمد، سرسید احمد خاں، عاشق الٰہی میرٹھی، مولوی فتح محمد
جالندھری، نواب وحیدالزماں، عبداللہ چکڑالوی اور مولوی اشرف علی تھانوی وغیرہ کے تراجم
قرآن۔
اور اعلیٰ حضرت
کے بعد کے مترجمین ہیں:
ابوالکلام آزاد،
ابوالاعلیٰ مودودی، عبدالماجد دریاآبادی
اعلیٰ حضرت کا
ترجمہ قرآن معروف بہ ’’کنزالایمان‘‘ ۱۳۳۰ھ میں مکمل ہوا۔ وہ
بھی کتب تفسیر و لغت کو دیکھے بغیر بہ ذریعہ املا فی البدیہہ برجستہ اور پھر جب اس
ترجمہ کا کتب تفسیر سے تقابل کیا جاتا تو تفاسیر معتبرہ کے بالکل مطابق پایا جاتا۔
’’کنزالایمان‘‘
کے بعد سنی علما کے تراجم قرآن منظر عام پر آئے لیکن یہاں ان کا ذکر مقصود نہیں۔
’’کنزالایمان‘‘
لاریب! خزانۂ ایمان ہے اور صرف خزانۂ ایمان ہی نہیں بلکہ علم و زبان و ادب کا بھی
خزانہ ہے۔ ’’کنزالایمان‘‘ کی خوبیوں کی بابت اپنوں کے علاوہ بیگانے بھی معترف ہیں۔
لکھتے ہیں:
(۱) علامہ سعید بن یوسف زئی:
’’بہ وقت ترجمہ
جناب مولانا احمد رضا خاں صاحب نے یہاں پر بھی اوروں کی طرح صرف لفظی و لغوی ترجمہ
سے کام نہیں چلایا ہے بلکہ صاحب مَایَنْطِقُ
عَنِ الْھَوٰی اور وَرَفَعْنَالَکَ ذِکْرَک کے مقام عالی شان کو ہر جگہ ملحوظ رکھا
ہے۔ یہ ایک ایسی خوبی ہے جو دیگر تراجم میں بالکل ناپید ہے۔‘‘
(مضمون: کنزالایمان اہل حدیث کی نظر میں،مشمولہ معارف رضا کراچی
۱۹۸۳ء،
ص ۹۰تا۱۰۰)
(۲) جماعت اسلامی ہند کا ترجمان ماہ نامہ الحسنات رام پور:
’’فقہ میں جدالممتار
اور فتاویٰ رضویہ کے علاوہ ایک اور علمی کارنامہ ترجمۂ قرآن مجید ہے جو ۱۳۳۰ھ میں ’’کنزالایمان
فی ترجمۃ القرآن‘‘ کے نام سے منظر عام پر آیا اور جس کے حواشی ’’خزائن العرفان فی تفسیرالقرآن‘‘
کے نام سے مولوی نعیم الدین مراد آبادی نے تحریر فرمائے۔ یہ ترجمہ اس حیثیت سے ممتاز
نظر آتا ہے کہ جن چند آیاتِ قرآنی کے ترجمہ میں ذرا سی بے احتیاطی سے حق جل مجدہ اور
آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں بے ادبی کا شائبہ نظر آتا ہے۔ احمد رضا
خاں نے ان کے بارے میں خاص احتیاط برتی ہے۔‘‘ (شخصیات نمبر،سال نامہ ۱۹۷۹ء ص۵۴۔۵۵)
ماہ نامہ ’’معارف‘‘
اعظم گڑھ اور مولانا ماہرالقادری نے بھی ’’کنزالایمان‘‘ کو سراہا ہے۔ بہ خوف طوالت
زیادہ حوالے نہیں دیے گئے۔
ادبی
و لسانی جائزہ :
قرآن کریم، رب
عظیم کا کلام بلاغت نظام ہے اور کسی بھی زبان میں قرآن کے ترجمہ کی سعادت جو بھی حاصل
کرے گا وہ اپنی استعداد و فکر کے اعتبار سے بعض معانی و مقاصد ہی بیان کر سکے گا لہٰذا
کوئی بھی یہ دعویٰ نہیں کرتا کہ وہ کلام اللہ کے تمام معانی و مقاصد کو ترجمہ کی زبان
میں منتقل کر رہا ہے۔ کنزالایمان کے اسلوب کی بابت پروفیسر طاہر القادری رقم طراز ہیںکہ
:
’’میرا عقیدہ
ہے کہ اعلیٰ حضرت کا ترجمۂ قرآن، الفاظ قرآن کی توجہ اتحادی کے فیضان سے معمور ہے
جو حسن خوبی، ربط و نظم اور روانیِ بیان الفاظِ قرآنی میں ہے ان کی جھلک اعلیٰ حضرت
کے ترجمۂ قرآن میں بہ درجۂ اتم دکھائی دیتی ہے۔‘‘
(کنزالایمان اور اس کی فنی حیثیت، ص۳۲۔۳۳)
لسانی
جائزہ
(۱) لفظ ’’پوجا‘‘ کا استعمال:
کچھ لوگوں نے
امام احمد رضا کے لفظ ’’پوجا‘‘ پر اعتراض کیا ہے کہ یہ تو ہندو اپنی عبادت کو کہتے
ہیں اور وہ مشرک ہیں لہٰذا یہ لفظ ان کی عبادت کا مفہوم ادا کرتا ہے لیکن معترضین حضرت
امام قدس سرہ العزیز کے اس لفظ کے استعمال کی معنویت کو نہیں سمجھ سکے۔
جہاں تک لفظ
بندگی کا تعلق ہے تو اس لفظ سے عبادت الٰہی کا پورا مفہوم ادا نہیں ہوتا۔ لفظ بندگی
اللہ کے سوا دوسرے کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ اس سے مراد’’ غلامی‘‘ بھی ہے اور آداب
و تعظیم بھی مراد ہے۔ اب رہی بات ’’پوجا‘‘ کی تو یہ عام ہندوستانی لفظ ہے گو اس کا
ماخذ سنسکرت ہے۔ ’’پوجا‘‘ سے مراد عبادت بھی ہے اور تعظیم و تکریم بھی۔ جیسے ہندی میں
استاد (گرو) یا والد (پِتا) وغیرہ کے لیے اس طرح لکھا یا بولا جاتا ہے:
(۱) پوجیہ گروجی- یعنی قابل
تعظیم استاد محترم
(۲) پوجیہ پِتاجی- یعنی قابل
تعظیم یا واجب الاحترام والد صاحب
لیکن جب مشرکین
عبادت کرتے ہیں تو اسے بھی ’’پوجا‘‘ کہتے ہیں۔ وہ جسے بھی پوجتے ہیں، اس کے ساتھ پوری
وفاداری اور خود سپردگی کا اظہار کرتے ہیں اور اسی کو معبود سمجھ کر پوجتے ہیں لیکن
امام احمد رضا نے یہ کہہ کر کہ ’’ہم تجھی کو پوجیں‘‘ شرک کی جڑ کاٹ دی اور بتا دیا
کہ ہم اس کو پوجتے ہیں جو سارے جہان کا رب ہے اور معبود حقیقی ہے اور اس کا کوئی ساجھی
ہے نہ شریک! اس طرح امام احمد رضا نے اللہ وحدہٗ لا شریک اور معبود حقیقی سے کامل وفاداری
اور خود سپردگی کا اظہار فرمادیا۔
(۲) ’’نبی‘‘ کا ترجمہ:
یٰٓـاَ
یُّھَاالنَّبِیُّ کے چند تراجم دیکھیے:
(الف) اے نبی…
(شاہ عبدالقادر)
(ب) اے نبی…
(مولوی اشرف علی)
(ج)اے پیغمبر…
(ڈپٹی نذیر احمد)
(د)اے نبی…
(شاہ رفیع الدین)
قرآن مقدس میں
لفظ ’’نبی‘‘ اور’’ رسول‘‘ متعدد مقامات پر آئے ہیں۔ مترجم کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ
ان الفاظ کا صحیح ترجمہ کرے۔ ’’رسول‘‘ کا ترجمہ تو ’’پیغمبر‘‘ ظاہر ہے لیکن ’’نبی‘‘
کا ترجمہ ’’پیغمبر‘‘ نامکمل ہے۔ اب امام احمد رضا کا ترجمہ ملاحظہ کیجیے : ’’اے غیب
کی خبر بتانے والے۔‘‘
حضرت امام نوراللہ
مرقدہ نے ’’نبی‘‘ کا ترجمہ اس اسلوب سے کیا ہے کہ لفظ کی معنویت اور حقیقت آشکارا ہوکر
سامنے آ گئی۔
قاموس اور صراح
وغیرہ لغات میں ’’نبی‘‘ کا معنی ’’غیب کی خبر دینے والا‘‘ ہی لکھا ہے۔ مصباح اللغات
میں مولوی عبدالحفیظ بلیاوی نے ’’نبی‘‘ کا معنی ’’غیب کی خبر دینے والا‘‘ ہی لکھا ہے
یعنی ’’اللہ تعالیٰ کے الہام سے غیب کی باتیں بتانا، پیشین گوئی کرنا، خدا کی طرف سے
پیغام بری!
ہندی
اور علاقائی زبانوں کا استعمال
حضرت امام احمد
رضا قدس سرہ نے ترجمہ کو عام فہم اور معنویت سے پر بنانے کے لیے آسان ہندی اور خطہ
روہیل کھنڈ کی زبان کا بھی استعمال کیاہے۔
اُوْتُواالْکِتٰبَ (النسآء:۴۷) اور
اَہْلَ الْکِتٰبِ (آل عمران:۶۴)
کے تراجم دیکھیے:
امام احمد رضا
نے کہیں تو ان کے ترجمے میں ’’کتاب والو‘‘ لکھا ہے اور کہیں ’’کتابیو‘‘ لکھا ہے۔ دونوں
عام فہم الفاظ ہیں اور مطلب ہے’’اہل کتاب‘‘ یعنی جنھیں کتاب دی گئی لیکن ’’کتاب والو‘‘
اور ’’کتابیو‘‘ لکھنے میں حکمت یہ ہے کہ جن قوموں کو کتابیں یعنی توریت، زبور اور انجیل
دی گئیں انھوں نے ان کتابوں کی تکذیب کی اور ان پر عمل نہ کیا اور رسولوں کی بھی تکذیب
کی اور دین حق سے پھر گئے لہٰذا وہ ’’کتاب کے اہل‘‘ یعنی کتاب کے ماننے والے نہ رہے
البتہ وہ کتاب والی قوم کے ضرور تھے یعنی ’’کتابیو‘‘ اور ’’کتاب والے‘‘ ضرور رہے۔
لفظ
’’نیگ‘‘ اور لفظ ’’کامیوں‘‘ کا استعمال:
آیت نمبر۱: اِنَّ
الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُواالصّٰلِحٰتِ وَاَقَامُواالصَّلٰوۃَ وَاٰ تَوُاالزَّکٰوۃَ
لَھُمْ اَجْرُھُمْ (البقرۃ:۲۷۷)
ترجمہ: بے شک وہ جو ایمان لائے اور اچھے کام کیے اور نماز
قائم کی اور زکوٰۃ دی ان کا نیگ ان کے رب کے پاس ہے۔
آیت نمبر۲: خٰلِدِیْنَ
فِیْھَا ط وَنِعْمَ اَجْرُ الْعٰمِلِیْنَ (آل عمران:۱۳۶)
ترجمہ: ہمیشہ ان میں رہیں اور کامیوں کا کیا اچھا نیگ ہے۔
امام احمد رضا
نے آیت نمبر۱؍
میں ’’اجر‘‘ کے لیے اجرت، اجر یا ثواب وغیرہ نہ لکھ کر ’’نیگ‘‘ لکھا ہے اور آیت نمبر
۲؍میں
عاملین کے لیے کام کرنے والے یا اچھا کام کرنے والے وغیرہ کے بجائے ’’کامیوں‘‘ لکھا
ہے۔
آجر یا مزدور
یا کام کرنے والا اجرت یا محنتانہ کے لیے کام کرتا ہے اور ایک مقررہ وقت کے لیے کام
کرتا ہے نہ کہ مالک کی رضا اور خوش نودی کے لیے لیکن ’’کامی‘‘ اسے کہتے ہیں جو بغیر
کسی اجر کی لالچ کے مالک کی خوش نودی کے لیے محنت اور لگن سے کام کرتا ہے۔ اب یہاں
لفظ ’’نیگ‘‘ پر غور کریں۔
شادی بیاہ کے
موقعوں پر یا کسی خوشی کی تقریب میں رشتہ داروں کو ’’نیگ‘‘ دیا جاتا ہے۔ یہ ایک ہندوستانی
رسم ہے۔ نیگ سے مراد ہے خوشی کا انعام و اکرام اور بخشش وغیرہ۔ یہ تو اللہ تعالیٰ عاملین
کو نوازتا ہے اور یہ اس کا فضل و احسان ہے وہ عاملین کو ’’نیگ‘‘ دیتا ہے یعنی نوازتا
ہے اور عاملین بہت کام کرنے والے، نیکی کرنے والے صرف اور صرف رضاے الٰہی کے لیے محنت
اور لگن سے کام کرنے والے کو ’’کامی‘‘ اور کام کرنے والوں کو’’ کامیو‘‘ کہا جاتا ہے
۔ یہ روہیل کھنڈ کی بولی ہے۔ بس امام احمد رضا نے منشاے قرآن کے مطابق ’’نیگ‘‘ اور
’’کامیو‘‘ کے استعمال سے ترجمہ کو معنویت سے پر کر دیا ہے۔
لفظ
’’بیر‘‘ کا استعمال:
امام احمد رضا
نے بغضاء اور اعداء کے لیے ’’دشمن‘‘ یا ’’دشمنی‘‘ نہیں لکھا ہے جیسا کہ دیگر مترجمین
نے یہاں اس طرح لکھا ہے:
’’جب تم باہم
دشمن تھے‘‘… یا ’’تم میں باہم دشمنی تھی‘‘ لیکن امام احمد رضا نے لکھا ہے:ـ’’جب
تم میں بیر تھا‘‘ بیر ہندی کا لفظ ہے اور اس میں بڑی بلاغت ہے۔
لفظ
’’کوتکوں‘‘ اور’’ کرتوتوں‘‘ کا استعمال:
وَمَا اللّٰہُ
بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ o (آل عمران:۹۹)
ترجمہ: اور اللہ تمہارے کوتکوں سے بے خبر نہیں۔
امام احمد رضا
نے تَعْمَلُوْنَکے لیے ’’کرتوتوں‘‘ بھی لکھا ہے اور ’’کوتکوں‘‘ بھی۔ عام طور سے ’’کرتوت‘‘
کا استعمال برے کام ہی کے لیے کیا جاتا ہے جیسے ’’کالے کرتوت‘‘۔ ’’کوتک‘‘ سے مراد کام
بھی ہے اور اس کا ایک معنی ’’فریب‘‘ اور ’’ناشائستہ حرکت‘‘ بھی ہے لہٰذا ان لفظوں میں
بڑی معنویت ہے اور امام احمد رضا نے یہاں بھی منشاے قرآن کا خاص خیال رکھا ہے اور یہ
ترجمہ بھی اسلوب قرآن سے قریب تر ہے۔
لفظ
’’کرنی‘‘ کا استعمال:
وَلَنَآ اَعْمَالُنَا
وَلَکُمْ اَعْمَالُکُمْ وَنَحْنُ لَہٗ مُخْلِصُوْنَ (البقرۃ:۱۳۹)
ترجمہ: اور ہماری کرنی ہمارے ساتھ اور تمہاری کرنی تمہارے
ساتھ اور ہم نرے اسی کے ہیں۔
امام احمد رضا
نے یہاں بجائے عمل کے لفظ ’’کرنی‘‘ لکھا ہے۔ جس طرح ’’عمل‘‘ کا استعمال ’’عملِ بد‘‘
اور ’’عملِ خیر‘‘ بولتے ہیں اسی طرح ’’کرنی‘‘ بھی اچھی اور بری دونوں کے لیے بولتے
ہیں لیکن ’’کرنی‘‘ لفظ میں جو معنویت ہے وہ عمل میں نہیں ہے۔ علاوہ اس کے بجائے ’’خالص‘‘
کے ’’نری‘‘ کا استعمال بھی بہت پر بلاغت ہے۔
نوٹ:
کنزالایمان میں محاورات کی بہار بھی لائق دید ہے۔ بہ خوف طوالت راقم ان محاورات کو
نہیں پیش کر رہا ہے۔ ویسے راقم نے ’’کنزالایمان‘‘ میں شامل محاورات کو اپنے مضمون
’’کنزالایمان میں محاوروں کی بہار‘‘ میں پیش کر چکا ہے جو ماہ نامہ ’’معارف رضا‘‘ کراچی
میں شائع ہو چکا ہے۔
ادبی
جائزہ
قرآن حکیم، اللہ
عزوجل کا کلام بلاغت نظام ہے۔ اس کا ہر ہر لفظ معانی کا ایک جہان ہے۔ اس کے آہنگ، صوتی
حسن اور حسن و خوب صورتی کے دونوں پہلو جمال و جلال، شکوہ و وقار، ترنم و تغنم وغیرہ
کا کوئی جواب نہیں۔ قرآن ادب کا وہ شاہ کار ہے جو نہ کسی ادب میں پیدا ہو سکا نہ ہو
سکتا ہے۔ اس مقدس کلام میں مضامین کے تنوع کے باوجود آیات کے درمیان معنوی ربط برقرار
رہتا ہے۔ قرآن میں تکرار مضامین بھی ہے لیکن ہر بار انھیں نئی حکمت و موعظت کے ساتھ
بیان کیا گیا ہے اور قارئین کو ہر بار نیا لطف ملتا ہے۔
صوتی
حسن:
قرآن کا مطالعہ
کرنے والے اس کے اس اعجاز سے بہ خوبی واقف ہیں کہ جب اس کلام کو خوش الحانی کے ساتھ
پڑھا جاتا ہے تو لگتا ہے کہ جیسے اَن گنت آب شاروں کا ترنم پھوٹ رہا ہے اور سننے والا
جھوم جھوم اٹھتا ہے۔
حضرت امام احمد
رضا نوراللہ مرقدہ کی یہی خوبی ہے کہ انھوں نے ترجمہ میں اس صوتی حسن اور تغنم کا کافی
حد تک خیال رکھا ہے۔
مندرجہ ذیل آیات
کو خوش الحانی کے ساتھ پڑھیے اور پھر امام احمد رضا کا ترجمہ دیکھیے تو یہاں بھی ترنم
و تغنم کا احساس ہوتا ہے۔
اِذَاالشَّمْسُ
کُوِّرَتْo وَاِذَاالنُّجُوْمُ انْکَدَرَتْo
وَاِذَاالْجِبَالُ سُیِّرَتْo وَاِذَاالْعِشَارُ عُطِّلَتْo وَاِذَاالْوُحُوْشُ
حُشِرَتْo وَاِذَاالْبِحَارُ سُجِّرَتْo وَاِذَاالنُّفُوْسُ زُوِّجَتْo وَاِذَاالْـمَـوْئُ
دَۃُ سُئِلَتْo بِـاَیِّ
ذَنْبٍ قُتِلَتْo وَاِذَاالصُّحُفُ
نُشِرَتْo وَاِذَاالسَّمَآئُ کُشِطَتْo وَاِذَاالْجَحِیْمُ سُعِّرَتْo وَاِذَاالْجَنَّۃُ اُزْلِفَتْo عَلِمَتْ نَفْسٌ
مَّآ اَحْضَرَتْo (التکویر: ۱-۱۴)
ترجمہ: جب دھوپ لپیٹی جائے اور جب تارے جھڑ پڑیں اور جب
پہاڑ چلائے جائیں اور جب تھلکی اونٹنیاں چھوٹی پھریں اور جب وحشی جانور جمع کیے جائیں
اورجب سمندر سلگائے جائیں اور جب جانوں کے جوڑے بنیں اور جب زندہ دبائی ہوئی سے پوچھا
جائے کس خطا پر ماری گئی اور جب نامۂ اعمال کھولے جائیں اور جب آسمان جگہ سے کھینچ
لیا جائے اور جب جہنم بھڑکایا جائے اور جب جنت پاس لائی جائے ہر جان کو معلوم ہو جائے
گا جو حاضر لائی۔
سورۃ الواقعہ
کی ان آیات کا ترجمہ بھی ملاحظہ کریں:
اِنَّآ اَنْشَاْ نٰھُنَّ
اِنْشَآئً o فَجَعَلْنٰھُنَّ اَبْکَارًا
o عُرُبًا
اَتْرَابًا (الواقعہ:۳۵-۳۷)
ترجمہ: بے شک ہم نے ان عورتوں کو اچھی اٹھان اٹھایا تو
انھیں بنایا کنواریاں، اپنے شوہروں پر پیاریاں، انھیں پیار دلاتیاں، ایک عمر والیاں۔
تشبیہات
و استعارات:
(۱) وَالْقَمَرَ قَدَّرْنٰـہُ
مَنَازِلَ حَتّٰی عَادَکَا الْعُرْجُوْنِ الْقَدِیْمِ (یٰس ٓ:۳۹)
ترجمہ: اور چاند کے لیے ہم نے منزلیں مقرر کیں یہاں تک
کہ پھر ہو گیا جیسے ’’کھجور کی پرانی ڈال‘‘
(۲) وَبُسَّتِ الْجِبَالُ بَسًّا o فَکَانَتْ ھَبَآئً مُّنْبَثًّا o (الواقعہ:۵-۶)
ترجمہ: اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہو جائیں گے چورا ہوکر تو ہو
جائیں گے جیسے ’’روزن کی دھوپ میں غبار کے باریک ذرے پھیلے ہوئے۔‘‘
قومے میں درج
کلمات سے تشبیہات کا حسن ملاحظہ کر سکتے ہیں۔
مجاز
و کنایہ:
(۱) ھُنَّ لِبَاسٌ لَّکُمْ وَاَنْتُمْ لِبَاسٌ لَّھُنَّ (البقرۃ:۱۸۷)
ترجمہ
: ’’وہ تمہاری لباس ہیں اور تم ان کے لباس‘‘…
یعنی مردو عورت دونوں ایک دوسرے کے لبا س ہیں اور اپنی بیوی کا شوہر سے کسی طور کا
پردہ نہیں اور نہ شوہر کا بیوی سے۔
(۲) فَلَمَّا تَغَشّٰھَا حَمَلَتْ حَمْلًا خَفِیْفًا ( الاعراف:۱۸۹)
ترجمہ
: پھر جب مرد اس پر چھایا اسے ایک ہلکا سا
پیٹ رہ گیا۔
ایجاز
و بلاغت:
(۱) وَاُشْرِبُوْا فِیْ قُلُوْبِھِمُ الْعِجْلَ … (البقرۃ:۹۳)
ترجمہ : اور
ان کے دلوں میں بچھڑا رچ رہا تھا… لفظ ’’رچنا‘‘ میں جو بلاغت ہے اس کا جواب نہیں۔
(۲) تِلْکَ اَمَانِیُّھُمْ …
( البقرۃ:۱۱۱)
ترجمہ
: یہ ان کی خیال بندیاں ہیں… خیال بندیاں کی
ترکیب بھی لائق دید ہے نیز حسن بلاغت بھی۔
امام احمد رضا
کا ترجمۂ قرآن ’’کنزالایمان‘‘ زبان اردو کا سب سے زیادہ مقبول، درست و پاکیزہ، اللہ
و رسول اور انبیا کی حقیقی شان کا غماز اور زبان و بیان و ادب کا شاہ کار ہے۔ ٭٭٭
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں