ہفتہ، 28 نومبر، 2015

Masla E Isteanat Awr Imam Ahmed Raza



مسئلہ استعانت اور امام احمد رضا
غلام مصطفیٰ قادری رضوی، رحمت عالم  گلی ، باسنی ، ناگور ، راجستھان
            استعانت بالا نبیا و الاولیا کے مسلّمہ معمول اور عقیدہ کے خلاف ایک عرصہ سے دیوبندی مکتب فکر نے شور مچا رکھا ہے جب کہ یہ دلائل قاطعہ و ساطعہ سے ثابت کردیا گیا ہے کہ غیر اللہ سے مدد مانگنا جائز اور درست ہے ان ذوات قدسیہ کا وسیلہ اختیار کرنا بھی درست ہے جو مقر بین الٰہی ہیں اور بفضلہ تعالیٰ یہ خاصانِ خدا ہماری فریادرسی فرماتے بھی ہیں اور اپنے محبین پر خصوصی نگاہ کرم فرماتے ہیں ۔
            قرآن مجید کی آیت کریمہ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ کی تفسیر میں فرمایا گیا :
            ’’ یعنی ہم جیسے عبادت صرف تیری ہی کرتے ہیں اسی طرح مدد بھی صرف تجھی سے طلب کرتے ہیں ،تو ہی کارساز حقیقی ہے تو ہی مالک حقیقی ہے ہر کام میں ، ہر حاجت میں تیرے سامنے ہی دست سوال دراز کرتے ہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس عالم اسباب میں اسباب سے قطع نظر کرلی جائے بیمار ہوئے تو علاج سے کنارہ کش ، تلاش رزق کے وقت و سائل معاش سے دست بردار ، حصولِ علم کے صحبت استاذ سے بیزار ، اس طریقۂ کار سے اسلام اور توحید کو کوئی سرو کار نہیں ، کیونکہ وہ جو شافی ، رزاق اور حکیم ہے، اسی نے ان نتائج کو ان اسباب سے وابستہ کردیا ہے اس نے ان اسباب میں تاثیر رکھی ہے اب ان کی طرف رجوع استعانت بالغیر نہیں ہوگی اسی طرح ان جملہ اسباب میں سے قوی تر اور اثر آفریں سبب دعا ہے ۔ حضور علیہ الصلاۃ و السلام نے فرمایا  الدعاء یردالقضاء کہ دعا تقدیر کو بھی بدل دیتی ہے اور اس میں بھی کلام نہیں کہ محبوبانِ خدا کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ وہ ان کی عاجزانہ اور نیاز مندانہ التجائوں کو ضرور شرف قبول بخشے گا چنانچہ حدیث قدسی جسے امام بخاری اور دیگر محدثین علیہم الرحمۃ و الرضوان نے روایت کیا ہے میں مذ کو رہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے مقبول بندوں کے متعلق ارشاد فرماتا ہے لَاِنْ سَأَلَنِیْ لَاُ عْطِیَنَّہٗ وَلَاِنِ اسْتَعَاذَنِیْ لَاُ عِیْذَنَّہٗ اگر میرا مقبول بندہ مجھ سے مانگے گا تو میں ضرور اس کا سوال پورا کروں گا اور اگر وہ مجھ سے پناہ طلب کرے گا تو میں ضرور اسے پناہ دوں گا ۔ تو اب اگر کوئی شخص ان محبوبان الٰہی کی جناب میں خصوصاً حبیب کبریا علیہ التحیۃ و الثنا کے حضور میں کسی نعمت کے حصول یا کسی مشکل کی کشود کے لئے التماس دعا ہے تو یہ بھی استعانت بالغیر اور شرک نہیں بلکہ عین اسلام اور عین توحید ہے ۔ ‘‘  ۱؎
            محدث بریلوی مسلمانوں کے ایمان و عقیدے کی حفاظت کے لئے زندگی بھرکوششیں کرتے رہے ۱۲۸۶ھ میں آپ نے قلم ہاتھ میں پکڑا اور آخری دم تک متواتر چون (۵۴)سال قلمی جہاد میں شبانہ روز مصروف رہے ۔ تحفظ نا موس رسالت کے لئے آپ کی مساعیِ جلیلہ آب زر سے لکھنے کے قابل ہیں ۔ غیر اسلامی عقائد و نظریات کے خلاف آپ نے درجنوں کتابیں لکھیں او رہر اٹھنے والے باطل فتنے کو بیخ و بن سے اکھاڑ پھینکنے میں کوئی کسرا ٹھانہ رکھی ، محبوبان الٰہی سے مسلمانوں کے رشتہ کو مستحکم کرنے کے لئے خوب خوب جدوجہد فرمائی اور ان کی بارگاہوں سے وابستہ رہنے کی زندگی بھر تلقین کرتے رہے نیز ان کے بلند درجات ، مقامات و کمالات سے آشنا کرتے رہے اور بقول پروفیسر محمدمسعود احمد صاحب مظہری : ’’اس نے انسان کی فکر و حیات کی اصلاح کا بیڑا اٹھایا ۔ نرمی سے ، پیار سے ، شدت سے جس طرح بن پڑا اصلاح فکرو خیال کا فریضہ اداکیا ۔ احمد رضا کا خیال تھا کہ انسان میں اصل اس کا فکر و خیال ہے اگر یہ صحیح ہے تو زندگی صحیح ہے ، معاشرہ صحیح ہے ،سیاست و حکومت صحیح ہے اور فکر و خیال ہی صحیح نہیں تو کچھ بھی صحیح نہیں ۔‘‘  ۲؎
            فتنۂ و ہابیت اور دیوبندیت اسی لئے و جود میں آیا کہ مسلمانوں کے فکر و خیال میں فساد پید اکیا جائے ان کی اسلامی فکر کو شیطانی فکر میں تبدیل کیا جائے اسی لئے ایک لمبے عرصے سے یہ تحریک مسلمانوں کے فکر و خیال تبدیل کرنے کے درپے ہے اوران کے مسلّمہ عقائد و نظریات پر شب خون مارنے کے لئے نہ جانے کتنی کوششیں کرتی رہی افسوس کہ اس تحریک کے بنانے اور چلانے والے اپنے مقاصد میں کچھ کامیاب بھی ہوگئے اور نہ جانے کتنے خوش عقیدہ مسلمان ایمان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے ۔ انبیاو اولیا سے مسلمانوںکی عقیدت و محبت ختم کرنے کے لئے نہ جانے کیسی کیسی سازشیں انہوں نے کیں اور چراغ عشق مصطفوی کو گل کرنے میں لگ گئے ۔
            امام احمد رضا اہلسنت و جماعت کو کتنی پیاری رائے دیتے ہیں وہ فرماتے ہیں:
            ’’ مذہب و ہابیہ کی بنا ہی حتی الامکان حضور سید الانس والجان علیہ و علیٰ آلہ و اصحابہ افضل الصلاۃ و السلام کے ذکر شریف مٹانے اور محبوبان خدا ( جل و علا) و علیہم الصلاۃ و الثنا کی تعظیم قلوب مسلمین سے گھٹانے پر ہے ۔ مسلمان صحیح العقیدہ ان کے ناپاک اقوال پر کان ہی کیوں دھریں ؟ ‘‘  ۳ ؎
            انبیا واولیا سے استعانت اور استغاثہ پر جب فرقۂ وہابیہ شرک و بدعت کے فتوے دے رہے تھے اس وقت بھی امام موصوف نے اہلسنت کی رہنمائی فرمائی اور بحسن و خوبی احقاقِ حق اور ابطال باطل کا فریضہ انجام دیا ۔ قرآن ، حدیث اور اقوال صحابہ و صالحین سے ثابت فرمایا کہ یہ عقیدہ درست بھی ہے اور مسلّمہ بھی ، کہ محبوبان خدا کو پکارنا ان سے مدد مانگنا چاہئے ، اس طرح آپ نے واضح اور نا قابل تردید دلائل و بر اہین کے ذریعہ اہل اسلام کی ہمدردی و خیرخواہی کا حق ادا کیاہے تا کہ وہ اسلاف کرام کے مسلک پر گامزن رہیںاور متاخر علماو صلحا کی اتباع و تقلید میں لگے رہیں اس موضوع پر آپ نے مستقل کتب و رسائل بھی تصنیف فرمائے جن میں مندرجہ ذیل رسائل و کتب قابل ذکر اور لائق مطالعہ ہیں :
(۱)  انوار الانتباہ فی حل ندائے یارسول اللّٰہ
(۲)  برکات الامداد لاھل الاستمداد
(۳)  الا ھلال بفیض الاولیاء بعدالو صال
(۴)  الامن والعلی لناعتی المصطفیٰ بدافع البلاء
            ۱۳۱۱ھ / ۱۸۹۳ء میں دہلی سے مولوی کرامت اللہ خاں صاحب نے امام احمد رضا خاں بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں استفتا بھیجا کہ رئیس المبتد عین مولوی محمد اسمٰعیل دہلوی (المتوفی ۱۲۴۲ھ/ ۱۸۳۱ء) کے گستاخ ٹولے سے بعض مولوی درود تاج کا پڑھنا شرک بتاتے اور سم قاتل ٹھہراتے پھر رہے ہیں کیونکہ اس میں دافع البلاء و الوباء وغیرہ الفاظ ایسے بھی موجود ہیں جو حبیب پرور دگار صلی اللہ علیہ وسلم کے خدا داد اختیارات کے اظہار و بیان پر مشتمل ہیںجن سے وہابیوں کے قلب و جگر شق ہونے لگتے ہیں کیونکہ ان کی شیطانی توحید میں نبی کو بھائی کہنا جائز و معمول اور عاجز ونادان بتانا ، ذرۂ ناچیز سے کمتر چمار سے بھی ذلیل ٹھہرانا معقول و مقبول ہے اس صورت حال کے پیش نظر موصوف نے اعلیٰ حضرت امام احمد رضا فاضل بریلوی رحمۃ اللہ علیہ سے مدلل جواب لکھنے کی درخواست کی ۔
            حضرت امام اہلسنت مجدد مائۃ حاضرہ قدس سرہ نے ’’الامن والعلی لنا عتی المصطفیٰ بدافع البلاء‘‘ (۱۳۱۱ھ) کے تاریخی نام سے جواب مرحمت فرمایا حبیب پرور دگار صلی اللہ علیہ وسلم کے خداداد اختیارات و تصرفات کا واضح ثبوت دینے والا یہ ایمانی دلائل کا گلدستہ ساٹھ (۶۰) آیات کریمہ اور تین سو (۳۰۰) احادیث مطہرہ سے مزین و منورو معطر ہے یہ مقدس رسالہ محبوب رب العالمین کے اختیارات بیان کرنے والاعجالہ چوراسی سال سے لاجواب ہے ۔‘‘  ۴؎
            ظاہر ہے کہ اختیارات و تصرفات جسے دئیے جاتے ہیں وہ اپنے پکار نے والوں کی فریادرسی فرماتے ہیں ان سے توسل واستعانت رائیگاں نہیں جاتی بلکہ حاجات پوری کی جاتی ہیں ۔ امام موصوف نے مذکورہ رسالہ میں انبیا و اولیا سے استعانت و استمداد پر بھی خوب سیر حاصل بحث فرمائی ہے اور مطمئن کرنے والے کلمات دلائل و براہین سے پیش کئے ہیں ۔ غیر اللہ سے استعانت کے اثبات میں ایک حدیث نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
            حدیث صحیح و جلیل و عظیم سخت و ہابیت کش جسے نسائی و ترمذی و ابن ماجہ و ابن خزیمہ و طبرانی و حاکم و بیہقی نے سیدنا عثمان بن حنیف رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کیا اور امام ترمذی نے حسن غریب صحیح اور طبرانی و بیہقی نے صحیح اور حاکم نے بر شرط بخاری و مسلم صحیح کہا اور امام حافظ الحدیث زکی الدین عبدالعظیم منذری وغیرہ ائمہ نقد و تنقیح نے اس کی تصحیح کو مسلم و برقرار رکھا جس میں حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے نابینا کو دعا تعلیم فرمائی کہ بعد نماز کہے :
            اللّٰھم انی اسئلک واتوجہ الیک بنبیک محمد نبی الرحمۃ یا محمد انی اتوجہ بک الی ربّی فی حاجتی ہٰذہ لیقضٰی لی اللّٰھم فشفعہ فیo
            ’’ الٰہی میں تجھ سے مانگتا اور تیری طرف توجہ کرتا ہوں ، تیرے نبی محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے وسیلے سے جو مہربانی کے نبی ہیں ، یارسول اللہ ! میں حضور کے وسیلے سے اپنے رب کی طرف اپنی اس حاجت میں توجہ کرتا ہوں تا کہ میری حاجت روائی ہو الٰہی انہیں میرا شفیع کر ان کی شفاعت میرے حق میں قبول فرما ۔ ‘‘
            اس حدیث مبارکہ کو نقل فرمانے کے بعد امام احمد رضا نے جو نوٹ لکھا وہ بڑا جان دار ہے نفاست بھرے یہ جملے پڑھئے اور سردھنیے ۔ فرماتے ہیں :
            ’’ یہ حدیث خود ہی بیماردلوں پرزخم کا ری تھی جس میں رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو حاجت کے وقت ندا بھی ہے اور حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم سے استعانت و التجا بھی ، مگر حصن حصین شریف کی بعض روایات نے سر سے پانی تیر کردیا ۔ اس میں لِتَقْضِیَ لِیْ بصیغۂ معروف ہے یعنی یارسول اللہ حضور میری حاجت روا فرمادیں ۔ مولانا فاضل علی قاری علیہ رحمۃ الباری حرزثمین شرح حصن حصین میں فرماتے ہیں :
            وفی نسخۃ بصیغۃ الفاعل ای لتغضی الحاجۃ لی و المعنی تکو ن سببًا لحصول حاجتی ووصول مرادی فالاسنا دمجازی o
            اب دافع البلا کو شرک ماننے کا مول تول کہیے ۔
ثم اقول : سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے زمانۂ اقدس میں نابینا کو دعا تعلیم فرمائی کہ بعد نما زیوں عرض کرو ہمارانام پاک لے کر ندا کر و،ہم سے استمداد و التجا کرو۔ شرک و ہابیت کو قعر جہنم میں پہنچانے کو یہی بس تھا ۔ ‘‘   ۵؎
            امام موصوف نے اپنی اس کتاب میں استعانت واستمداد کے مسلّمہ معمول و عقیدہ پر ایک اور حدیث نقل فرمائی ہے ۔ ملاحظہ ہو۔
             صحیح مسلم شریف و سنن ابی دائود و سنن ابن ماجہ و معجم کبیر طبرانی میں سیدنا ربیعہ بن کعب اسلمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ہے ۔
            قال کنت ابیت مع رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم فاتیتہ بوضوئہ و حاجتہ فقال لی سل ( ولفظ الطبرانی فقال یومًا یا ربیعۃ سلنی فا عطیک رجعناالیٰ لفظ مسلمٍ ) قال فقلت اسئلک مرافقتک فی الجنۃ فقال اوغیر ذٰلک قلت ھوذاک قال فاعنی علیٰ نفسک بکثرۃ السجود o
            ’’ میں حضور پر نور سید المرسلین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے پاس رات کو حاضر رہتا ایک شب حضور کے لئے آب وضو وغیرہ ضروریات حاضر لایا ( رحمت عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا بحررحمت جو ش میں آیا) ارشاد فرمایا مانگ کیا مانگتا ہے کہ ہم تجھے عطا فرمائیں میں نے عرض کی میں حضور سے سوال کرتا ہوں کہ جنت میں اپنی رفاقت عطا فرمائیں ، فرمایا : کچھ اور ۔ میں نے عرض کی ، میری مراد توصرف یہی ہے : ع
کہ حیف باشد از و غیر او تمنائے
سائل ہوں ترا مانگتا ہوں تجھ سے تجھی کو
معلوم ہے اقرار کی عادت تری مجھ کو
            سید عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا تو میری اعانت کر اپنے نفس پر کثرت سجود سے ۔
            اب دل و دماغ کو مشام جاں بنکر معطر کرنے والے امام احمد رضا کے وہ جملے بھی پڑھئے جو مذکورہ حدیث کے تحت آپ نے رقم فرمائے ہیں ۔ فرماتے ہیں :
            الحمد للہ ! یہ جلیل و نفیس حدیث صحیح اپنے ہر ہر جملے سے وہابیت کش ہے حضور اقدس خلیفۃ اللہ الاعظم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا مطلقاً بلا قیدو بلا تخصیص ارشاد فرمانا : سَلْ ، مانگ کیا مانگتا ہے ۔جان وہابیت پر کیسا پہاڑ ہے جس سے صاف ظاہر کہ حضور ہر قسم کی حاجت روا فرماسکتے ہیں دنیا و آخرت کی سب مراد یں حضور کے اختیار میں ہیں ۔ جب تو بلا تقیید (بغیر قید لگائے )ارشاد ہوا مانگ کیا مانگتا ہے یعنی جو جی میں آئے مانگو کہ ہماری سرکار میں سب کچھ ہے   ؎
اگر خیریت دنیا و عقبیٰ آرزو داری
بدرگاہش بیائو ہر چہ می خواہی تمنا کن
            شیخ شیوخ علماء الہند ، عارف باللہ ، عاشق رسول اللہ ، برکۃ المصطفیٰ فی ھذہ الدیار سیدی شیخ محقق مولانا عبدالحق محدث دہلوی قدس سرہ القوی شرح مشکوٰۃ شریف میں اس حدیث کے نیچے فرماتے ہیں :
            از اطلاق سوال کہ فرمود سَلْ ،بخواہ تخصیص نکرد بمطلوبے خاص معلوم میشود کہ کار ہمہ بدست ہمت و کرامت اوست صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ہرچہ خواہد وہر کر اخواہد باذن پرور دگار خود دہد ۔   ۷؎
فَاِنَّ ِمنْ جُوْدِکَ الدُّنْیَا وَ ضَرَّ تَھَا
وَمِنْ عُلُوْ مِکَ عِلْمَ اللَّوْحِ وَالْقَلَمٖ
            چند سطور بعد امام احمدرضا رقم طراز ہیں:
            پھر اس حدیث جلیل میں سب سے بڑھ کر جان وہابیت پر یہ کیسی آفت کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے اس ارشاد پر حضرت ربیعہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ خو دحضور سے جنت مانگتے ہیں کہ اَسْئَلُکَ مُرَافَقَتَدَ فِی الْجَنّۃِ  یا رسول اللہ ! میں حضور سے سوال کرتا ہوں کہ جنت میں رفاقت والا عطا ہو ۔
            وہابی صاحبو! یہ کیسا کھلا شرک و ہابیت ہے جسے حضور مالکِ جنت علیہ افضل الصلاۃ والتحیۃ قبول فرما رہے ہیں ۔ وَلِلّٰہ الْحُجَّۃُالسَّامِیَۃُ    ۷؎
            وہابیہ دیابنہ نے شرک و بدعت کی مشین سے ہر مسلّم مسائل کو ختم کرنے کی کوششیں کیں ۔ اس سلسلے میں ان کی کفری عبارتیں بھری کتب شاہد و عادل ہیں ۔ صحیح العقیدہ مسلمانوں نے جب ایسا حال اور ماحول دیکھا تو امام احمد رضا سے اس کی تفصیلات و وضاحت معلوم کرنے کی کوشش کی اور اپنے عقائد و معمولات پر پابندی سے عمل کرنے کے لئے آپ سے رہنمائی حاصل کی ۔ چنانچہ اسی تعلق سے آپ کی خدمت میں ۱۳۰۴ھ میں ایک استفتا پیش ہوا:
            ’’ زید مسلمان جو خدا کو خدا اور رسول کو رسول جانتا ہے نماز کے بعد اور دیگر اوقات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کلمہ ’یا‘ سے ندا کرتا ہے اور الصلاۃ و السلام علیک یا رسول اللّٰہ اسئلک الشفاعۃ یا رسول اللّٰہ کہا کرتا ہے یہ کہنا جائز ہے یا نہیں ؟ اور جو لوگ اسے اس کلمہ کی وجہ سے کافرو مشرک کہیں ۔ ان کا کیا حکم ہے؟
            اعلیٰ حضرت نے اس کے جواب میں ایک مختصر رسالہ ایک جز یعنی ۱۶؍ صفحات کا تحریر فرمایا جس کا نام ہے ’’ انوار الانتباہ فی حل ندائے یارسول اللہ ‘‘ اس میں بھی دلائل قاہرہ سے مسئلہ مذکورہ کا جواز ثابت فرمایا قرآن و سنت اور اقوال سلف صالحین اور خاصانِ خدا کے واقعات سے بھی اطمینان بخش جواب عطا فرمایا۔ ایک جگہ رقم طراز ہیں :
            حضور سید عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو ندا کرنے کے دلائل سے ’’ التحیات‘‘ ہے جس میں نمازی، حضور سے عرض کرتا ہے السلام علیک ایھا النبی ورحمۃ اللّٰہ و برکاتہ اگر ندا معاذاللہ شرک ہے تو عجیب شرک ہے کہ عین نمازمیں شریک و دخیل ہے اور یہ جاہلانہ خیال کہ التحیات زمانۂ اقدس سے ویسی ہی چلی آتی ہے تو مقصود ان لفظوں کی ادا ہے نہ نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی ندا۔ حاشاو کلا ، عالمگیری ،شرح قدوری ،تنویر الابصار ، درمختار، مراقی الفلاح وغیرھا کتب معتبرہ میں ہے : ویقصد بالفاظ التشھد معناھا مرادۃ لہ علیٰ وجہ الانشاء کا نہ یحی اللّٰہ تعالیٰ ویسلم علیٰ نبیہ و علیٰ نفسہ و اولیائہ لاالا خبار عن ذٰلک ذکرہ فی المجتبی یعنی اور قصد کرے الفاظ تشہد سے اس کے معانی مراد لے کر بر طریق انشاے کلام ، گویا اللہ تعالیٰ کی تحیت کرنا رسول اللہ پر درود بھیجنا اور اپنے نفس اور اولیا پر ۔ نہ اس سے خبر دینا ، یہ مجتبی میں ہے ۔  ۸؎
            حدائق بخشش امام احمد رضا کے منظوم کلام کا مجموعہ ہے جس میں محبت رسول اور عقیدت اولیاو صالحین کے جلوے ہی جلوے نظر آتے ہیں ۔ جس کے مطالعہ سے ایمان کو جلا ملتی ہے اور عقیدت و الفت کو پختگی ، عقائد و معمولات اہلسنت کو شعری رنگ میں بیان کرنا فاضل بریلوی کا اہم حصہ ہے ۔ مذکورہ مسئلۂ استعانت کا بھی آ پ نے اپنے کلام میں خوب اظہار کیا ہے ۔ ترنم میں پڑھا جائے تب بھی سرور و کیف ملتا ہے اور تنہائی میں بھی محبت بھرے انداز میں ان اشعار کو پڑھنے سے عجیب روحانی مسرت حاصل ہوتی ہے ۔ عقیدت کے اظہار پر مندرجہ ذیل اشعا ر ملاحظہ ہوں   ؎
مانگیں گے مانگے جائیں گے منھ مانگی پائیں گے
سرکار میں نہ ’’لا‘‘ ہے نہ حاجت اگر کی ہے
منگتا کا ہاتھ اٹھتے ہی داتا کی دین تھی
دوری قبول و عرض میں بس ہاتھ بھر کی ہے
سائلو! دامن سخی کا تھام لو
کچھ نہ کچھ انعام ہو ہی جائے گا ۹؎
            اور سنیے کتنی بے باکی کے ساتھ فرماتے ہیں   ؎
آج لے ان کی پناہ آج مدد مانگ ان سے
پھر نہ مانیں گے قیامت میں اگر مان گیا
وہ جہنم میں گیا جو ان سے مستغنی ہوا
ہے خلیل اللہ کو حاجت رسول اللہ کی  ۱۰؎ 
            امام احمد رضا کا عقیدہ تھا کہ فضل رب سے سرکار سب کچھ دیتے ہیں اس لئے اپنے چاہنے والوں کو ان کی بارگاہ سے مانگنے کی تعلیم بھی دیتے ہیں اور منکرین تو سل و استعانت سے بحث و مباحثہ سے پرہیز کی بھی تاکید کرتے ہیں   ؎
سنیو! ان سے مدد مانگے جائو
پڑے بکتے رہیں بکنے والے
            اور بارگاہ حید ر کرار مشکل کشا کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم میں یوں عرض کرتے ہیں   ؎
مرتضیٰ شیر خدا مرحب کشا خیبر کشا
سرورا لشکر کشا مشکل کشا امداد کن
یا شہید کربلا یا دافع کرب و بلا
گل رُخا شہزادۂ گلگوں قبا امداد کن ۱۲؎ 
            اپنی عقیدت کا اظہار کرتے ہوئے بارگاہ غوثیت میں یوں عرض گزار ہیں   ؎
تو قوت دے میں تنہا کام بسیار
بدن کمزور دل کاہل ہے یا غوث
کہا تو نے کہ جو مانگو ملے گا
رضاؔ تجھ سے ترا سائل ہے یاغوث ۱۳؎ 
            ڈاکٹر نجم القادری صاحب کے ان جملوں پرمیں اپنی گفتگو ختم کررہا ہوں جو امام احمد رضا کے بارے میں لکھے گئے ہیں :
            ’’ دین داروں کو بے دین ہونے ، مسلمانوں کو کفر والحاد کی وادی میں گرفتار ہونے سے آپ کی پیہم للکار ، قلمی وار اور مسلسل یلغار نے باز رکھا ، لادینی ولامذہبی مختلف چولے اور جامے ، زرق برق خوش پوش لباس میں نمودار ہورہی تھی اور حیرت یہ کہ جو تحریک بھی اٹھتی اس کے ایک ہاتھ میں قرآن اور دوسرے میں حدیث حوالے کو موجود رہتے ۔ ایک ایسی مکدر فضا میں حق کو باطل سے چھانٹ لینا ، حسن و قبح میں امتیاز کرلینا ۔ ایمان و کفر کو نگاہ اولین ہی میں پر کھ لینا کسی صاحب دل ، صاحب نظر اور صاحب علم و فکر ہی کا کارنامہ ہو سکتا تھا۔ ‘‘  ۱۴؎

حوالے
(۱)       تفسیر ضیاء القرآن ، پیر کرم شاہ ازھری،ج ۱ ، ص ۲۴۔۲۵
(۲)       اجالا،پروفیسر محمد مسعود احمد مظہری ، ص ۱۷
(۳)      الامن والعلیٰ، بحوالہ سالنامہ تجلیات رضابریلی ۲۰۰۳ء ، ص ۷۶
(۴)      مقدمہ ، الامن والعلیٰ ، از علامہ عبدالحکیم اختر شاہ جہاںپوری ، ص ۲۷۔۲۸
(۵)      الامن والعلیٰ ، امام احمد رضا محدث بریلوی قدس سرہٗ ،ص۱۹۲۔ ۱۹۳
(۶)       ایضاً، ص ۱۸۹۔ ۱۹۰
(۷)      ایضاً، ص ۱۹۱۔ ۱۹۲
(۸)      انوار الانتبا ہ فی حل ندائے یارسول اللہ ، امام احمد رضا محدث بریلوی ، ص۲۹
(۹)       حدائق بخشش ، امام احمد رضا محدث بریلوی ، ص ۱۵۰۔۱۵۲۔۲۶
(۱۰)     ایضاً ، ص ۳۳۔ ۱۰
(۱۱)      ایضاً، ص ۲۶
(۱۲)     ایضاً ، ص۲۲۵۔۲۲۷
(۱۳)     ایضاً ، ص ۱۷۷۔۱۸۱
 (۱۴)     امام احمد رضا اور عشق مصطفی ، ڈاکٹر غلام مصطفی نجم القادری ، ص ۳۸۳ ۔ ۳۸۴

..:: Follow us on ::..

http://www.jamiaturraza.com/images/Twitter.jpghttp://www.jamiaturraza.com/images/Facebook.jpg


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

ٹیوٹر اپڈیٹس دیکھیں اور فالو کریں