اتوار، 13 دسمبر، 2015

Agar Bidat Hae to Juloos E Eid Miladun Nabi kiyoN k ....................



اگر بدعت ہے تو ربیع الاول کا جلوس محمدی کیوں کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمارے پیارے آقا حضور اکرم نور مجسّم حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی ولادت با سعادت دو شنبہ کے روز ہوئی۔ دو شنبہ ہی کو آپ کی بعثت و ہجرت ہوئی اور وصال مبارک بھی دو شنبہ ہی کو ہوا۔ ابو قتادہ رضی اللہ تعالٰی عنہ بیان کرتے ہیں۔ دو شنبہ کے دن روزہ رکھنے کے بارے میں ایک شخص نےرسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم سے دریافت کیا۔ آپ نے ارشاد فرمایا! اسی دن میری ولادت ہوئی اور اسی دن مجھ پر وحی نازل ہوئی۔   
(صحیح مسلم
 

بارہ ربیع الاول کو رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم اس خاکدان عالم میں جلوہ گر ہوئے۔ سیرت نبوی کے سب سے قدیم و مستند تاریخ نگاہ محمد بن اسحٰق یسار (ولادت 85ھ۔ وصال 150ھ) نے یہی دن اور یہی تاریخ لکھی ہے۔ طبری و ابن خلدون جیسے مؤرخین نے بھی یہی لکھا ہے۔ سیرت کی مقبول کتاب الموھب اللدنیہ کے مؤلف علامہ احمد بن محمد قسطلانی (ولادت 851ھ۔ وصال 923ھ) یہی دن اور تاریخ لکھنے کے بعد مسلمانوں کے درمیان رائج ایک مستحسن طریقہ کا ذکر اس طرح کرتے ہیں۔
(ترجمہ) رسول کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی ولادت طیبہ کے مہینہ میں اہل اسلام محافل و تقریبات منعقد کرتے رہتے ہیں۔ دعوتوں کا اہتمام اور شب ولادت میں صدقات و خیرات ان کا معمول ہے۔ اظہار فرح و سرور کرتے ہیں۔ خوب نیکیاں کرتے ہیں۔ ولادت طیبہ کے احوال و واقعات پڑھتے پڑھاتے ہیں۔ جس سے ان پر بڑی برکتیں نازل ہوتی ہیں۔ (المواہب)
حجاز مقدس، یمن، عراق، شام، مصر، لیبیا، ترکی، افغانستان، اور دیگر بلاد اسلامیہ میں قدیم روایات کے طرز پر آج بھی محافل ذکر ولادت کا انعقاد ہوتا ہے۔ جن میں ولادت رسول، فضائل رسول، سیرت رسول، دعوت رسول، کا بیان ہوتا ہے۔ اور مسلمان ذوق و شوق کے ساتھ انھیں سنتے سناتے ہیں۔ اظہار مسرت اور اداء شکر نعمت کے لئے صدقات و خیرات کرتے ہیں۔ اور یہ ساری چیزیں کتاب و سنت کی روشنی میں نہ صرف جائز بلہ محمود و مستحسن ہیں۔ دین میں ان کی اصل اور حکم ہے۔ اور ہر دور کے لحاظ سے اہل اسلام یہ امور خیر انجام دیتے رہتے ہیں۔ جائز حدود کے اندر رہتے ہوئے شکل وہئیت کی تبدیلی سے اصل حکم پر کوئی اثر اور فرق واقع نہیں ہوتا۔
جس حادث و جدید چیز کا سنت و شریعت کے کسی حکم اور کسی اصل سے تصادم ہو اسے اصطلاح شریعت میں سنت سیئہ کہا جاتا ہے۔
مبادی و معتقدات اسلام نہایت جامع و کامل و مکمل ہیں۔ان میں کسی ترمیم و تغیر اور حذف و اضافہ کی گنجائش نہیں۔ کتاب و سنت و کتب دینیہ میں اعتقادی و عملی احکام اسلام اجمالاً و تفصیلاً مسطور و مذکور ہیں۔ فقہ اسلامی کے اصول و ضوابط اور مسائل و جزئیات صدیوں پہلے مدون و مرتب ہو چکے ہیں۔ اور سارا عالم اسلام ان سے واقف اور ان پر عامل ہے۔ سنت و شریعت سے انحراف اور ان میں کسی قسم کی آمیزش بدعت ضلالت ہے۔ یہ وہ مسئلہ ہے جس میں اہل حق کا ذرا بھی اختلاف اور ان کے درمیان کہیں بھی دو رائے نہیں۔ سنت رسول و سنت خلفاء راشدین کی اتباع کا یہی مطلب ہے اور سنت و شریعت کا یہی مطلوب و مقصود ہے۔ جسے ہر لمحہ پیش نظر رکھنا ہر مسلمان کے اوپر لازم ہے۔
عہدرسالت مآب صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے بعد جو بھی نئی چیز عالم ظہور میں آئے اس کے صحیح یا غلط ہونے کا معیار یہ ہے کہ سنت و شریعت کی اصل اور ان کے دائرہ میں ہو اور کسی اصل و حکم کے معارض و متصادم نہ ہو تو جائز ہے ورنہ ناجائز ہے۔ بدعات و محدثات امور کے قبول و انکار کا یہی ضابطہ اور معیار علماء اسلام و محدثین کرام سے بتصریح ثابت ہے۔ اسی کے مطابق مسلمانان عالم کا عمل بھی ہے۔ اور حضرت عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں۔ جس چیز کو مسلمان بہتر سمجھیں وہ اللہ کے نزدیک بھی بہتر ہے۔
بدعت یعنی نئی چیز ناجائز وہی ہے جو سنت و شریعت کے حکم اور کسی اصل کے خلاف ہے۔ قدیم و مستند محدثین و فقہاء و علماء اسلام مثلاً علامہ ابن حجر عسقلانی، علامہ بدرالدین عینی، علامہ قسطلانی، امام نووی شافعی، شیخ عبدالحق محدث دہلوی، علامہ زرقانی، علامہ ابن عابدین شامی وغیرہ ہم نے یہی تحریر فرمایا ہے۔
علامہ جلال الدین سیوطی شافعی حدیث کل بدعۃ ضلالۃ کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔ (ترجمہ) اس سے ایسی نئی باتیں مراد ہیں جن کی صحت کی شہادت شریعت سے نہ مل سکے۔ (ص234۔ جلد2، حاشیہ سیوطی سنن نسائی)
مؤلف نیل الاوطار محمد بن علی شوکانی حضرت امام شافعی کا یہ قول نقل کرتے ہیں۔ (ترجمہ) نئی چیزیں دو طرح کی ہوتی ہیں۔ ایک وہ جو کتاب یا سنت یا اثر یا اجماع کے خلاف ہو۔ اور یہی بدعت ضلالت ہے۔ اور دوسری وہ جس کی ایجاد میں کوئی خیر ہو۔ اس کے بارے میں امت کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے۔ اور یہ بدعت مذمومہ نہیں ہے۔ (ص33۔ القول المفید)
بہت نئی چیزیں ایجاد مستحسن کے حکم میں ہیں۔ عہد رسالت و عہد رسالت و عہد صدیقی میں باجماعت نماز تراویح کا معمول نہیں تھا۔ حضرت عمر فاروق کے دور میں ہوا جسے دیکھ کر آپ نے فرمایا نعمت البدعۃ ھذہ یہ کتنی اچھی بدعت (نئی چیز) ہے۔ (صحیح بخاری ) حضرت علی مرتضٰی کے حکم سے ابوالاسود دئلی نے عربی گرامر یعنی نحو کے قواعد وضع کئے۔ جس کا جاننا آج عربی و عجمی ہر ایک کے لئے ضروری ہے۔ حجاج بن یوسف ثقفی کے حکم سے قرآن حکیم پر اعراب (زیر، زبر، پیش) لگایا گیا۔ آج اس اعراب کے بغیر قرآن حکیم چھپنے چھپانے کا تصور بھی نہیں ہے۔
قرآن میں رکوع کی نشاندہی، تیس پاروں میں اس کی طباعت، رحل پر رکھ کر اسے پڑھنا ان دینی چیزوں کا عہدرسالت و عہد صحابہ میں کوئی ذکر بھی نہ تھا۔
احادیث نبوی کی سند ، ان پر جرح و تعدیل، صحیح و حسن و ضعیف وغیرہ کی تقسیم، سب نئی دینی چیزیں ہیں۔ اصول حدیث کے قواعد و ضوابط نئے ہیں۔ فقہ اسلامی کے اصول، اس کی تدوین سب نئی چیزیں ہیں۔ اسی طرح قرآن فہمی کے لئے وضع کردہ تفسیر بھی نیا دینی فن ہے۔ یہ وہ چیزیں ہیں جس کا مذہب اور علوم اسلامیہ سے تعلق ہے۔ ان نئے علوم و فنون اور امور دنیاوی کا شمار مشکل ہے جن کے جائز ہونے پرتو ساری دنیا متفق ہے۔
ایک نئی چیز محفل ولادت نبوی کا انعقاد بھی ہے۔ جس کی اصل ذکررسول ہے۔ اور یہ اصل قرآن و سنت سے ثابت ہے۔ قدیم و جدید علماء عرب کے علاوہ علماء ہند میں دہلی کے شاہ عبدالحق محدث دہلوی، شاہ ولی اللہ محدث دہلوی، شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی، شاہ ابو سعید مجددی دہلوی، شاہ ابوالخیر مجددی دہلوی وغیرہم اور سہار نپور کے حاجی امداد اللہ مہاجرمکی، مولانا فیض الحسن سہارنپوری، مولانا رحمت اللہ کیرانوی، مولانا عبدالسمیع بیدل سہارنپوری، حاجی عابد حسین قادری بانی مدرسہ اسلامی عربی دیوبند، (موجودہ دارلعلوم دیوبند) وغیرہم جس کے جواز و اتحسان کے قائل ہی نہیں بلکہ اس کے عامل بھی رہے ہیں۔ ان حضرات کی تحریرات و تصدیقات اس پر شاہد عدل ہیں۔ لیکن آج محافل میلاد کو بدعت کہا جا رہا ہے۔ اور سہارنپور کے جلوس محمدی کو بزورطاقت روکا جا رہا ہے۔
عہد رسالت و عہد صحابہ میں عصر حاضر جیسی عظیم الشان ومزین مساجد نہیں تھیں، عمارت اوردینی نصاب تعلیم کے ساتھ دارالعلوم نہیں تھے۔ آج جیسے دینی جلسہ و جلوس کا کوئی رواج نہیں تھا۔ دینی سمینار اور کانفرنسیں نہیں ہوتی تھیں۔ مدارس سے تکمیل علوم کے بعد سند نہیں دی جاتی اور دستار بندی بھی نہیں ہوتی تھی۔ مگر ان دینی چیزوں میں سے کوئی چیز مسلمانوں کی نظر میں معیوب و مذموم نہیں، بدعت کہہ کر انھیں کوئی چھوڑنے کو تیار نہیں۔
1950ء کی دہائی میں جماعت اسلامی پاکستان نے تزک و احتشام کے ساتھ غلاف کعبہ تیار کراکے جلوس کی شکل میں شہر شہر گھمایا اور مکہ مکرمہ بھیجا۔ اخبارات میں خوب چرچا ہوا۔ کچھ لوگوں نے اعتراض کیا کہ یہ تو بدعت ہے۔ مولانا ابوالاعلٰی مودودی نے اس کا تحریری جواب دیا کہ بدعت نہیں ہے اس میں کوئی چیز مزاج شریعت کے خلاف نہیں ہے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ جماعت اہل حدیث کے علماء اپنی مذہبی شناخت کے لئے ناصر الدین البانی کی دی ھوئی شناخت کےبعد سلفی اور اثری لکھتے ہیں۔ یہ بھی بدعت نہیں ہے۔ دہلی سے سہارنپور کے مشہور مدارس ختم بخاری کے جلسے کراتے ہیں۔ یہ بھی بدعت نہیں ہے۔ تبلیغی جماعت کے دین کے نام پر سہ روزہ و چالیس روزہ چلے اور گشت ہوتے ہیں۔ یہ بھی بدعت نہیں ہے۔ نماز عصر کے بعد بالالتزام تبلیغی نصاب و فضائل اعمال کا درس ہوتا ہے۔ یہ بھی بدعت نہیں ہے۔ دیوبند کا صد سالہ دینی جشن منایا جاتا ہے۔ یہ بھی بدعت نہیں ہے۔ ندوہ کا پچاسی سالہ جشن منایا جاتا ہے۔ یہ بھی بدعت نہیں ہے۔
علماء دیوبند سیرۃ النبی کےمذھبی جلسے اور کانفرنسیں کرتے ہیں۔ یہ بھی بدعت نہیں ہے۔ اپنے علماء پر سمینار کراتے ہیں۔ یہ بھی بدعت نہیں ہے۔ جمعیۃ العلماء ہند کے جلسے اور کانفرنسیں ہوتی ہیں۔ یہ بھی بدعت نہیں ہے۔ بھوپال (انڈیا) رائے ونڈ (پاکستان) ڈھاکہ (بنگلہ دیش) میں سالانہ تبلیغی اجماعات ہوتے ہیں۔ یہ بھی بدعت نہیں ہے۔ جمعیۃ العلماء کی قیادت میں کانپور میں ہر سال جلوس میلادالنبی نکلتا ہے۔ یہ بھی بدعت نہیں ہے۔ مشہور دیوبندی مولوی عبدالعلیم فاروقی کی قیادت میں لکھنئو میں دینی جلوس مدح صحابہ نکلتا ہے۔ یہ بھی بدعت نہیں ہے۔
اگر بدعت ہے تو بارہ ربیع الاول کا جلوس محمدی! کیونکہ اس سے ایک جماعت کی بالادستی اور انا مجروح ہوتی ہے اور میلاد النبی کی محفلیں بھی بدعت ہیں؟


..:: Follow us on ::..

http://www.jamiaturraza.com/images/Twitter.jpghttp://www.jamiaturraza.com/images/Facebook.jpg


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

ٹیوٹر اپڈیٹس دیکھیں اور فالو کریں