ہفتہ، 7 جنوری، 2017

Islam Ka Nizam E Tilaq

اسلام کا نظامِ طلاق
زندگی کی شاہ راہوں سے جڑے تفویضِ طلاق کے عادلانہ اصول ، فسخ نکاح کے منصفانہ ضابطے اور فطری تقاضے
 از : مفتی محمد نظام الدین رضوی
صدر المدرسین و صدرشعبۂ افتا جامعہ اشرفیہ مبارک پور، ضلع اعظم گڑھ ، یوپی
نکاح میاں، بیوی کے درمیان ایک خاص قسم کا معاہدہ ہے جس کی وجہ سے عورت کے بہت سے حقوق شوہر کے ذمہ لازم ہو جاتے ہیں مثلاً رہائش کے لیے گھر کا انتظام، پہننے کے لیے لباس اور کھانے ، پینے کے لیے غذا وغیرہ کا انتظام، اور اس کے ساتھ حسن معاشرت و جنسی حقوق وغیرہ۔ انھیں حقوق اور ذمہ داریوں سے شوہر کے خاص طرح سے سبک دوش ہونے کا نام طلاق ہے۔ طلاق کے ذریعہ شوہر عورت کی حق تلفی نہیں کرتا، بلکہ اس کے حقوق سے اپنے آپ کو آزاد کر لیتا ہے اس لیے اسلام نے طلاق کا اختیار شوہر کے ہاتھ میں دیا ہے۔
کوئی شخص اپنی مرضی سے کسی تنظیم، تحریک، کمپنی، ادارے یا پارٹی کی رکنیت یا کوئی ذمہ داری قبول کرکے اس کی فلاح و بہبود اور ترقی و فروغ کے لیے کام کرنے کا معاہدہ کرتا ہے پھر اسے کوئی شکایت ہوتی ہے تو اسے اختیار ہوتا ہے کہ استعفا دے کر اس تنظیم یا تحریک وغیرہ کے حقوق اور ذمہ داریوں سے اپنے کو آزاد کر لے اور آئے دن ایسا ہوتا بھی رہتا ہے اور کوئی صاحبِ عقل و بصیرت اسے پارٹی یا تنظیم وغیرہ کی حق تلفی نہیں تصور کرتا، نہ اسے حقوق انسانی کی پامالی سمجھتا ہے کہ یہ تو اپنے ذمہ عائد ہونے والے حقوق اور ذمہ داریوں سے اپنے آپ کو سبک دوش اور آزاد کرنا ہے، اس کا کسی کے حق کی پامالی سے کیا تعلق، اسی لیے ہر پارٹی اور ہر تنظیم و ادارہ کے دستور میں اسے پارٹی اور تنظیم کو چھوڑنے کا اختیار ہوتا ہے۔ اس مثال کی روشنی میں طلاق کے حق کو بھی سمجھنا چاہیے کہ یہ شوہر کی طرف سے ایک طرح کا استعفا ہے، لہٰذا اسے کسی حقِ انسانی کی پامالی نہیں سمجھنا چاہیے اور یہاں میرا مقصود بس اسی کی تفہیم ہے۔
قرآن حکیم کی بہت سی آیات اور رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی کثیر احادیث میں طلاق کا ذکر ملتا ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ خداے پاک کا قانون ہے جو انسانیت سے بہت ہم آہنگ اور فطری تقاضوں کے مطابق ہے۔  عقل سلیم یہ باور کرتی ہے کہ جب میاں، بیوی کے درمیان رنجش اس حد کو پہنچ جائے کہ دونوں میں نباہ کی گنجائش نہ رہ جائے تو دونوں ایک دوسرے سے جدا ہوکر چین و سکون کی زندگی بسر کرنے کے راستے اپنا سکتے ہیں اور اس جدائی کا راستہ طلاق ہے اگر ایسا نہ ہو تو دونوں ایک دوسرے کے لیے الگ الگ حالات میں وبالِ جان اور سوہانِ روح بن سکتے ہیں۔ بیوی کو اگر شوہر کسی وجہ سے نامنظور ہو اور اس کے مذہب میں چھٹکارا پانے کی کوئی راہ نہ ہو تو وہ مجبور ہوکر شوہر کی زندگی کا، بلکہ کبھی کبھی اپنی بھی زندگی کا فیصلہ کر لیتی ہے۔ یوں ہی اگر شوہر کو یہ معلوم ہو کہ اس کے مذہب میں اس کی ظالم بیوی سے چھٹکارے کی راہ بند ہے تو وہ بھی کچھ اسی طرح کا اقدام کر سکتا ہے اور ایسا ہوتا بھی ہے، اخبارات میں اس طرح کی خبریں برابر شائع ہوتی رہتی ہیں لیکن جب انھیں یہ یقین ہوگا کہ ہمارے مذہب میں تعلقات کی خرابی کی صورت میں نکاح کے بندھن کو کھول کر آزاد فضا میں سانس لی جا سکتی ہے تو وہ ایک دوسرے کی زندگی کو برباد کرنے کے بجائے وہی راستہ اپنائیں گے جس میں دونوں کے لیے عافیت اور سلامتی ہو۔ اسلام کے اس فطری نظام کے خلاف آواز اٹھانا یا اس کو ختم کرنے کے لیے کورٹ کا سہارا لینا دانشمندی کی بات نہیں، بلکہ حق یہ ہے کہ یہ دینِ فطرت کے خلاف بڑا ہی غیر منصفانہ اقدام ہے۔
طلاق اسلام میں ناپسندیدہ امر ہے مگر کچھ خاص مجبوریوں کی صورت میں اس کی اجازت بھی ہے اور ایک ساتھ تین طلاقیں دینا تو ایک طرح کا مجرمانہ عمل و گناہ بھی ہے تاہم طلاقیں واقع ہو جاتی ہیں۔ گناہ ہونے کی وجہ سے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ طلاقیں نہیں پڑیں  یا ایک ہی طلاق پڑی جیسے کسی کو ناحق پتھر مارنا ایک مجرمانہ عمل اور گناہ ہے تاہم کوئی مارے گا تو مار کھانے والے کو چوٹ ضرور لگے گی اور تین پتھر مارے گا تو تین چوٹیں لگیں گی اور یہ کہہ کر اسے نہیں ٹالا جا سکتا کہ مارنے والے نے نادانی کی ہے یا گناہ کیا ہے اس لیے مار کھانے والے کو چوٹ نہیں لگی یا ایک ہی چوٹ لگی ۔  یا کسی کو شراب پلانا، زہر کھلانا بھی بلا شبہہ حرام و گناہ اور نادانی کا کام ہے مگر صرف اس وجہ سے ان کو بے اثر نہیں کہا جا سکتا کہ یہ حرام و گناہ ہیں اور اسلام ان کی اجازت نہیں دیتا ۔ اسلام میں ان کی ممانعت یا ان کا حرام و گناہ ہونا اپنی جگہ حق و درست ہے مگر ان کے برے اثرات سے انکار نہیں کیا جا سکتا، یا یہ نہیں کہا جا سکتا کہ تین بار زہر کا گھونٹ پینے سے صرف ایک بار اثر ہوگا اور شراب کے تین گھونٹ حلق سے اتارنے پر صرف ایک گھونٹ اپنا کرشمہ دِکھائے گا ، اسے یوں بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ کسی کو گالی دینا حرام و گناہ ہے، اسلام نے اس سے سخت ممانعت فرمائی ہے تا ہم اگر کوئی کسی صاحبِ عزت و وجاہت انسان کو ایک ساتھ تین بار گالیاں دے دے تو اس سکا شیشۂ دل اس سے ضرور زخمی ہوگا اور ایک بار نہیں، تین تین بار زخمی ہوگا، یہ الگ بات ہے کہ وہ دیکھنے کی چیز نہیں اس لیے اس کا مشاہدہ نہیں ہو سکتا، اب کوئی یہ کہے کہ ان سب گالیوں میں ضربِ کاری کی تاثیر کہاں، کسی ایک گالی سے کچھ ٹھیس پہنچتی ہے تو اس کے لیے خدا سے دعا ہی کی جا سکتی ہے ، الغرض اگر یہ طرز فکر غیر دانش مندانہ اور غیر منصفانہ ہے اور تقاضاے فطرت کے خلاف ہے تو تین طلاقوں کے بارے میں وہ بات بھی غیر دانش مندانہ اور تقاضاے فطرت کے خلاف ہے۔
احادیث نبویہ یہاں تک کہ احادیثِ صحیح بخاری بھی شاہد ہیں کہ تین طلاقیں دینے سے تینوں واقع ہو جاتی ہیں، قرآن حکیم کا فرمان بھی یہی شہادت دیتا ہے اور اسی پر ہمارے چاروں مذہب کے اماموں -  امام اعظم ابوحنیفہ، امام شافعی ، امام مالک اور امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہم – اور اُن ماننے والے کروڑہا کروڑ بے شمار مسلمانوں کا اتفاق و اجماع بھی ہے اس لیے اس کے خلاف کوئی اقدام مسلم پرسنل لا میں صریح مداخلت اور نہ صرف ہندوستان ، بلکہ ساری دنیا کے بے شمار مسلمانوں کی دِل آزاری ہے اگر کچھ خواتین اس طرح کی آواز اٹھاتی ہیں تو اربابِ فہم و دانش کو انھیں سمجھانے کی کوشش کرنا چاہیے۔ معاشرے میں سب یکساں نہیں ہوتے، اللہ نے پانچوں انگلیاں برابر نہیں رکھیں، اس لیے ہماری حکومت اور ہمارے فاضل جج ان باتوں پر ٹھنڈے دل سے غور فرمائیں ۔ باتیں سب کی سنی جاتی ہیں مگر فیصلہ وہ کیا جاتا ہے جو اربابِ دانش کے دل کی آواز اور بالخصوص مذہب آسمانی کا پاسبان ہو۔
ہاں ایسا بھی ہوتا ہے کہ کبھی شوہر بے رحم مل جاتا ہے اور بیوی کو ستاتا ہے، اسے لٹکائے رکھتا ہے جس کے باعث اس کی زندگی بھنور میں پھنسی رہتی ہے اور وہ اس کے آزار سے اس لیے چھٹکارا نہیں حاصل کر پاتی کہ طلاق کا اختیار اس کے ہاتھ میں نہیں، یا کبھی شوہر نامرد ہوتا ہے اس لیے عورت کی زندگی اجیرن ہو جاتی ہے اور شوہر اس کو چھوڑنا نہیں چاہتا ، یا کبھی ایسا ہوتا ہے کہ یتیم بچی کا نکاح دور کے رشتہ والے غیر مناسب شخص کے ساتھ کر دیتے ہیں اور یہ اس کے لیے باعث اذیت ہوتا ہے۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ شوہر پردیس گیا اور لا پتہ ہو گیا اس کی زندگی و موت کا کوئی حال نہیں معلوم ہوتا اور عورت اس کے گھر پر بےسہارا نان و نفقہ سے محتاج ہونے کے ساتھ وظیفۂ زوجیت سے بھی محروم ہوتی ہے۔ اور ان کے سوا بھی اس کی زندگی میں دوسری مشکلات پیش آتی رہتی ہیں جن سے دنیا اس کی نگاہوں میں تاریک سی نظر آتی ہے  ـــــ اس کا علاج کیا ہے؟  کیا اسلام نے اس کی زندگی کو معمول پر لانے اور خوش گوار بنانے کے لیے کچھ انتظامات کیے ہیں؟ یہی وہ فکر انگیز سوال یا نازک موڑ ہے جہاں بعض خواتین پہنچ کر واویلا مچانے لگتی ہیں، کیوں کہ وہ یہ سمجھتی ہیں کہ اسلام نے صرف شوہر کو طلاق کا اختیار دے کر مصیبت زدہ اور بے سہارا عورتوں سے صَرفِ نظر کیا ہے اور جب انھیں کوئی حل نظر نہیں آتا تو وہ کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹاتی ہیں۔
ہم ایسی بہنوں کو خاص کر اور تمام انسانی برادری کو عام طور پر یہ بتانا چاہتے ہیں کہ اسلام میں سارے آپشن (Option)کھلے ہوئے ہیں اور اس نے یتیم بچیوں اور دوسری بلاؤں میں پھنسی ہوئی عورتوں کو وہ سہارا عطا کیا ہے جسے محسوس کرکے زبانِ دل بےساختہ رحمتِ اسلامی کی قائل ہو جاتی ہے   ۔
اسلام ایسی عورتوں کو بڑی فراخ دلی اور بشاشت کے ساتھ یہ اجازت دیتا ہے کہ وہ اپنے علاقے کے سب سے بڑے عالمِ دین، مرجعِ فتوی کے یہاں عرض حال کریں، پھر وہ جانچ کرے اور بیانات درست ہوں تو کچھ ضروری کار روائی کے بعد نکاح فسخ کرکے بعدِ عِدّت عورت کو اپنی صواب دید کے مطابق دوسرے شخص سے نکاح کی اجازت دے دے۔
ہمارے یہاں دارالافتا جامعہ اشرفیہ [مبارک پور ، ضلع اعظم گڑھ، اترپردیش، ہند] میں ایسے تمام امور کی سماعت ہوتی ہے اور تفتیش و تحقیق کے بعد فیصلہ صادر کرکے عورتوں کی خوش گوار زندگی کا سامان مہیا کیا جاتا ہے۔
شوہر کے ممکنہ ظلم یا اس پر افتاد کی صورت میں مصیبت سے رہائی کی ایک صورت ’’ تفویضِ طلاق‘‘  بھی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ  عورت یا اس کا وکیلِ نکاح جب نکاح کا ایجاب کرے تو اس میں یہ شرط لگا دے کہ شوہر کی طرف سے پیش آنے والی مصیبت کی صورت میں اسے اپنے آپ کو طلاق بائن دینے کا حق حاصل ہوگا۔ اگر مرد عورت کی اس شرط کو نکاح میں قبول و منظور کر لیتا ہے تو اس کی طرف سے کوئی ظلم و زیادتی ثابت ہونے یا اس کے لا پتہ ہونے پر بیوی کے مصیبت سے دوچار ہونے کی صورت میں اسے یہ حق ہوگا کہ وہ اپنے آپ کو طلاق دے کر آزاد کر لے۔فقہِ اسلامی کی صدیوں پرانی کتابوں -جيسے فتاوی قاضی خاں، ہدایہ، فتح القدیر ، نہایہ، تبیینُ الحقائق ، بحر الرائق، در مختار وغیرہ  - میں اور اردو زبان کی معروف و مستند کتابوں - جیسے فتاوی رضویہ اور بہار شریعت وغیرہ - میں بھی اس کے بارے میں واضح تصریحات موجود ہیں۔ بلکہ اس کی بعض صورتوں کا ذکر تو صحیح بخاری و صحیح مسلم کی حدیثوں میں بھی ہے اور اس طرح اس کا تاریخی رشتہ عہدِ رسالت سے جُڑا ہوا ہے، ’’تفویض طلاق‘‘ کا معنی ہے ’’ طلاق کا اختیار سونپ دینا‘‘ چوں کہ ہونے والا شوہر عورت یا اس کے وکیلِ نکاح کے ذریعہ پیش کی گئی شرط پر اسے طلاق کا اختیارسونپ دیتا ہے اس لیے اسے بھی طلاق دینے کا حق مل جاتا ہے۔
اصل مالک طلاق کا، شوہر ہی ہے اور یہ بات سماج کے ہر صاحبِ فہم پر روشن ہے کہ کسی چیز کا مالک اپنے اختیار خاص سے دوسرے کو بھی اختیار سونپ کر اسے مالک بنا سکتا ہے، بلکہ بناتا بھی ہے۔  
مرجعِ فتویٰ مفتی کے ذریعہ نکاحفسخ کرکے عورت کو شوہر سے آزاد کرنے کی چند صورتیں یہ ہیں:
(۱) شوہر غربت و افلاس کے باعث نفقہ کے انتظام سے عاجز ہو۔
اور تحقیق سے یہ ثابت ہو جائے کہ عورت مسلسل  تنگیِ نفقہ کے آزار میں مبتلا ہے اور شوہر کی حالت جوں کی توں بنی ہوئی ہے یعنی محتاج ہے اور بیوی کے حق میں حاجتِ دائمہ متحقق ہے تو پہلے شوہر کو حکم ہوگا کہ وہ اپنی بیوی کو طلاق دے کر آزاد کر دے تا کہ اس کی وجہ سے وہ پوری زندگی مصیبت کے بھنور میں نہ پھنسی رہے۔
لیکن اگر شوہر کسی طرح بھی طلاق دینے پر آمادہ نہ ہو تو حرج عظیم و ضرر شدید کے ازالہ کے لیے اجازت ہے کہ اب قاضی یہ نکاح فسخ کر دے ۔
(۲) شوہر مفقود الخبر ہے یعنی ایسا لا پتہ ہے کہ اس کی موت و حیات کا بھی سراغ نہیں ملتا، ساتھ ہی وہ نقد و جنس بھی مفقود ہے جس سے عورت کا کام چل سکے۔
(۳) شوہر غائب ہے اور یہ معلوم نہیں کہ کہاں ہے؟ کب آئے گا؟ ہاں! یہ معلوم ہے کہ وہ زندہ ہے خواہ کہیں بھی ہو ۔ اس کو فقہ کی اصطلاح میں ’’ غَیْبتِ مُنقطعہ‘‘ کہتے ہیں۔
(۴) شوہر غائب ہے مگر ”غَیْبتِ مُنقطعہ“ نہیں یعنی معلوم ہے کہ فلاں جگہ ہے مگر آتا نہیں، اور نہ ہی کسی طرح اس سے نفقہ حاصل ہو پاتا ہے۔
(۵) شوہر موجود ہے مگر اس نے بیوی کو لٹکا رکھا ہے، نہ طلاق دے کر اسے آزاد کرتا ہے، نہ ہی اس کے حقوق( نان و نفقہ وغیرہ) ادا کرتا ہے۔
ظاہر ہے کہ ان صورتوں میں عورت جہاں نان و نفقہ سے محروم ہے وہیں حقوق زوجیت سے بھی محروم ہے جس کے باعث اس زمانہ میں عورتوں کے مبتلاے گناہ ہونے کا عظیم خطرہ در پیش ہے۔ یہ خود ایک سخت ضرر اور حرج ہے۔
ان تمام صورتوں میں بھی آخر کار فسخ نکاح کی اجازت ہے۔
(۶) خیار بلوغ: میاں ، بیوی کم عمر ہوں اور باپ ، دادا کے علاوہ کسی اور نے ان کا نکاح کر دیا تو انھیں یہ اختیار ہے کہ بالغ ہو کر اپنے نفس کو اختیار کریں، پھر مفتی کے یہاں عرض حال کرکے نکاح فسخ کرا لیں۔
(۷) شوہر مقطوعُ الذَکَر ہے یعنی اس کا آلۂ تناسُل کٹا ہوا ہے۔
(۸) یا عِنِّین ہے یعنی آلۂ تناسُل تو ہے مگر نامرد ہے۔
یہ دونوں صورتیں ثابت ہونے پر بھی عورت کو شریعت فسخِ نکاح کا حق عطا کرتی ہے۔
(۹) جس مرد کے خُصیے نکال لیے گئے ہوں۔
(۱۰) یا شوہر خُنثیٰ (ہجڑا) ہے اور مرد کی طرح پیشاب کرتا ہے  ــــ یہ دونوں بھی عِنّین کے حکم میں ہیں۔
مزید تفصیل کے لیے کتاب ’’  مجلس شرعی کے فیصلے‘‘ (مطبوعہ مجلس شرعی جامعہ اشرفیہ مبارک پور)  کا مطالعہ مفید ہوگا۔اس سے یہ بھی معلوم ہوگا کہ فسخ نکاح کا حق کس قاضی و مفتی کو حاصل ہے۔
جو عورت شوہر کی وجہ سے مبتلاے آفات ہو جائے اس کے لیے اسلامی شریعت نے آسانی کے جو راستے کھلے رکھے ہیں یہ ان کا ایک خاکہ ہے۔ اربابِ قانون و انصاف کے لیے دار الافتا  جامعہ اشرفیہ  [قصبہ مبارک پور ، ضلع اعظم گڑھ، اترپردیش، ہند ] کے دروازےکھلے ہوئے ہیں وہ یہاں سے مسلم پرسنل لا کے تعلق سےشرعی معلومات حاصل کر سکتے ہیں۔
محمد نظام الدین رضوی
صدر المدرسین و صدر شعبۂ افتا جامعہ اشرفیہ
مبارک پور، ضلع اعظم گڑھ، (یوپی) ہند
۲۵؍ ذو القعدہ ۱۴۳۷ھ
۲۹؍ اگست ۲۰۱۶ء، دو شنبہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

https://m.facebook.com/mushahidrazvi1979


..:: Follow us on ::..

http://www.jamiaturraza.com/images/Facebook.jpg 

http://www.jamiaturraza.com/images/Twitter.jpg


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

ٹیوٹر اپڈیٹس دیکھیں اور فالو کریں