مشاہدؔرضوی کی نعت میں محسوساتی عمل
٭پروفیسر مناظر عاشق ہرگانوی
محمد حسین مشاہدؔرضوی
بسیار نویس اور زود گو ہیں ۔ نثر و شعر میں اُن کے قلم کی چلت پھرت پر کبھی کبھی حیرت
ہوتی ہے ۔ لیکن یہ مرحلۂ شوق آسودگی بخش ہے۔ وہ نعت گوئی کی طرف متوجہ ہوئے تو دیوان
سامنے لے آئے ۔ اس طرح عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں ان کا جوش و خروش پورے طور
پر متوجہ کرتا ہے۔
انسان کے وجود
کی انفرادیت یہ ہے کہ وہ زندگی میں بے بس و لاچار ہے اور مختار و آزاد بھی ہے۔ حیاتِ
انسانی کی یہ گرفتاری و آزادی دو دھاری تلوار کی مانند ہے جس پر چلتے رہنا مردِ مومن
کے بس کا کام ہے ۔ ہم شب و روز دیکھتے ہیں کہ اگر اللہ نیک جذبہ بخشے تو انسان فکر
و تخیل کا نور پھیلانے لگتا ہے۔ اگر مولیٰ توفیق عطا کرے تو انسان چٹانوں اور ویرانوں
میں گل کھلادیتا ہے اور باری تعالیٰ کسی انسان کو وسیلہ بنادے تو وہ نئی دنیا آباد
کردیتا ہے ۔ یہ بخششیں توفیق او روسیلے کی دنیا انسان کی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی
ہے۔ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ مبارک سے دو منور نکتے سامنے آتے ہیں
، ایک بنیادی ارکانِ اسلام کی ادایگی اور دوسرا انسانوں کے حقوق کا پورا کرنا۔
حضور صلی اللہ
علیہ وسلم کی ذاتِ اقدس ، چہرۂ انور ، قد و قامت ، خال و خد ، وجاہت و شجاعت ، سخاوت
و ذہانت ، صبر و استقامت ، راستی و دیانت ، فرض شناسی و عالی ظرفی ، وقار و انکسار،
تقویٰ و طہارت ، عدل و انصاف ، فصاحت و بلاغت جیسے اوصاف سے بھرپور ہے ۔ آپ صلی اللہ
علیہ وسلم کی ذہانت ، آپ کے مقدس اور بلند رتبے کی دلیل ہے۔ ایسے میں نعت گوئی نازک
فن ہے ۔ اگر چہ اس صنفِ سخن کی فضا بہت وسیع ہے مگر اس میں پرواز کرنا اس لیے مشکل
ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے تعارف کے لیے شریعت نے کچھ حدود مقرر
کیے ہیں۔
محمد حسین مشاہدؔرضوی
کی نعت گوئی سے ایمان میں تازگی اور روح میں بالیدگی پیداہوتی ہے۔ مشاہدؔرضوی نے نعت
کہتے وقت انفرادیت کو راہ دی ہے ؎
اوروں
کا کام کرکے مسرت سمیٹ لو
اخلاق
کا انھیں سے یہ درسِ حسیں ملا
-----
قاہرہ
بھایا نہ مجھ کو کاشغر اچھا لگا
مجھ
کو تو بس دوستو! طیبہ نگر اچھا لگا
-----
کثرتِ
جرم سے میں تباہ ہوگیا ، نامہ عصیاں سے میرا سیاہ ہوگیا
کر
علاجِ گنہ اے مرے چارہ گر ، مصطفی مصطفی یارسولِ خدا
-----
سعادتوں
نے سعادت ہے آپ سے پائی
سعید
آپ ، سعادت کی آبرو بھی آپ
-----
شمعِ
جمالِ شہِ سے روشن ظلمت خانہ دل کا ہوگا
برسے
گی جب نبوی طلعت فکرِ دنیا ہوگی رخصت
-----
آج
دہشت کا بڑھنے لگا سلسلہ
امن
کو دیں بقا الغیاث الغیاث
مشاہدؔرضوی کی
حضور آقاے دوجہاں صلی اللہ علیہ وسلم سے نسبت و عقیدت نے الفاظ و معانی کی مدد سے
مدحتِ خیرالبشر صلی اللہ علیہ وسلم کا روپ اختیار کرلیا ہے۔ یہ وہ منزل ہے جس میں قدم
قدم پر بڑی احتیاط ، بڑی پاکیزگیِ نفس ، بڑی باخبری ، بڑی توفیق اور بڑی نسبت و عقیدت
درکار ہوتی ہے ۔ مشاہدؔنے یہ راہ ثابت قدمی کے ساتھ طَے کی ہے ؎
ہے
ایمان اپنا نبی کی محبت
مشاہدؔ
انھیں ہم سے بھی پیار ہوگا
-----
اہلِ
جہاں کرتے ہیں آقا لمحہ لمحہ ہم کو پریشاں
قلبِ
مشاہدؔ سے کردیجے دور خدارا ہر اک کلفت
-----
زمانہ
ہے ان سے طلب گارِ بخشش
بنایا
انھیں رب نے مختارِ بخشش
-----
اُن
سے روشن ہیں شانتی کے چراغ
امن
و انصاف و آشتی کے چراغ
-----
بیواؤں
اور یتیموں کی نصرت نبی نے کی
کمزوروں
کو عطا ہوئی توقیر ہر طرف
-----
جو
بھی رکھتے ہیں مصطفی سے ربط
اُن
کا ہوتا ہے کبریا سے ربط
تصوف کے مختلف
مدارج میں فنا فی الشیخ کے ساتھ فنا فی الرسول کا مقام آتا ہے ۔ یہ نازک تر مقا م
ہے کیوں کہ ایک طرف رب العالمین ہے تو دوسری طرف رحمۃ للعالمین کی ذاتِ اقدس ہے ۔ اس
پل صراط سے نور کی شعاعیں جب نکلتی ہیں تو مشاہدؔرضوی جیسے نعت گو شاعر جنم لیتے ہیں
جو کامیابی سے اس پل کو پار کر گئے محسوساتی عمل کو واضح کرتے ہیں ؎
فردوس
بھی ہے جس پر قربان یارسول
بے
شک وہ آپ کا ہے ایوان یارسول
-----
دونوں
جہاں کے آپ ہیں سلطان یارسول
اس
بات پر ہے میرا ایمان یارسول
-----
نبیوں
کے سردار محمد صلی اللہ علیہ وسلم
دوجگ
کے مختار محمد صلی اللہ علیہ وسلم
-----
آپ
معظم ، آپ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم
مرسلِ
اعظم ، نورِ مجسم صلی اللہ علیہ وسلم
آپ
محمد ، آپ ہیں احمد ، آپ ہیں محمود ، آپ ہیں حامد
آپ
سراپا رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم
-----
رحمتِ
عالم ، نور کے مخزن صلی اللہ علیہ وسلم
دونوں
جہاں ہیں آپ سے روشن صلی اللہ علیہ وسلم
عشقِ آقاے دوعالم
صلی اللہ علیہ وسلم میں مشاہدؔرضوی بہت بلند مقام پر ہیں جہاں سے مقامِ رسالت کا انھیں
بخوبی ادراک ہوتا ہے ؎
ہیں
سراپا نور میرے مصطفی
ہیں
وہی مہرِ عرب ماہِ عجم
-----
آپ
منگتا کو عطا کرتے ہیں بے مانگے شہا
سب
سے اعلیٰ شان والا آپ کا جود و کرم
-----
آپ
یٰٓس ، آپ طٰہٰ ، آپ شاہِ انس و جاں
نورِ
یزداں ، جانِ ایماں ، چارہ سازِ بیکساں
ذہن کو روشن
تر اور روح کو بالیدہ کرنے والی محمد حسین مشاہدؔرضوی کی نعتیہ شاعری فکر کی رسائی
و توانائی اور اسلوب کی انفرادیت کا احساس دلاتی ہے ۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں