شورِ مہ نو سُن کر تجھ تک میں دواں آیا
ساقی میں ترے صدقے مےدے رمضان آیا
شور: شہرت، دھوم
مہِ نو: نیا چاند
دواں: دوڑتا ہوا
ساقی: پلانے والا
مے دے: شراب دے
اعلیٰ حضرت رضی الله عنہ نے ایک مرتبہ رمضان شریف کا پورا مہینہ حضور علیہ السلام کے قدموں میں گزارا، اُس موقع پر یہ نعت شریف لکھی
اے میرے آقا رمضان شریف کی آمد ہو گئی ہے اور میں دوڑ کر رحمت کے مہینے رحمتہ للعالمین صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں آ گیا ہوں تاکہ (عیدی کے بہانے یا افطاری کے لیے) شرابِ محبت کا جام نصیب ہو جائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس گل کے سوا ہر پھول باگوش گراں آیا
دیکھے ہی گی اے بلبل جب وقتِ فغاں آیا
گوش: کان
گراں: بھاری، بہرا
فغاں: آہ و زاری
اے بلبلِ چمنستانِ رسالت! ذرا دیکھو تو سہی میدانِ محشر میں اس پھول (مدینے والی سرکار) کے علاوہ کوئی دوسرا پھول (نبی و رسول شفاعت کے بارے) بات سننے کی طرف نہیں آ رہا۔ مشہور و طویل حدیث شفاعۃ کی طرف اشارہ ہے جب حضور علیہ السلام کائنات کی فریاد پر؎
پیشِ حق مژدہ شفاعت کا سناتے جائیں گے
آپ روتے جائیں گے ہم کو ہنساتے جائیں گے
یہاں تک کہ اپنے آخری امتی کو بھی دوزخ سے نکال کر جنت میں لے جائیں گے۔
صلی الله علیہ وآلہ وسلم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب بامِ تجلی پر وہ نیرِ جاں آیا
سر تھا جو گرا جھک کر دل تھا جو تپاں آیا
بام: چھت، بنیرا
تجلی: روشنی
نیر: روشن کرنے والا
تپاں: تڑپتا ہوا
جب وہ روشن چہرے والے آقا میدانِ محشر میں برائے دیدار تشریف لائے تو ان کی تجلی دیکھنے کے لیے سارا محشر سراپا ادب و احترام بن گیا ہر دل میں دیدار کی تڑپ پیدا ہوئی اور ہر سر آپ کی محبت میں سرشار ہو کر جھک گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جنت کو حرم سمجھا آتے تو یہاں آیا
اب تک کے ہر اک کا منہ کہتا ہوں کہاں آیا
جنت کی خواہش ایمان کا تقاضا ہے لیکن جنت میں جا کر بھی بارگاہِ مصطفیٰ صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی تمنا عشقِ رسول کا تقاضا ہے چناچہ فرمایا جب جنت نصیب ہو گئی تو وہیں پہ دربارِ رسالت بھی سجا دیکھا تو حیران ہو گیا کہ میں یہاں آ گیا ہوں یہ سارے لوگ تو مدینہ کی گلیوں میں دیکھا کرتا تھا گویا جب مدینہ کی محبت میں جنت بھی ملی اور پھر جنت میں ادھر دیدارِ رب ہو گا اُدھر صورت محمد کی۔
صلی الله عليه وآلہ وسلم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
طیبہ کے سوا سب باغ پامالِ فنا ہوں گے
دیکھو گے چمن والو جب عہدِ خزاں آیا
اے چمن والو عنقریب تم اپنی آنکھوں سے اس حقیقت کا مشاہدہ کر لو تاکہ خزاں کا موسم (فتنوں کا دور یا قیامت کی نشانیوں کا ظہور) جب آئےگا تو باغِ طیبہ کے علاوہ ہر چمن برباد ہو جائے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سر اور وہ سنگِ در، آنکھ اور وہ بزمِ نور
ظالم کو وطن کا خیال آیا تو کہاں آیا
اے ظالم دل! تجھ کو کیا ہو گیا ہے کہ کیسے وقت میں تجھے اپنے وطن کا خیال آ گیا ہے جبکہ تیرا سر حضور علیہ السلام کی چوکھٹ پر پڑا ہے اور تو اپنی آنکھوں سے سرکار کی بارگاہ میں سجی نوری محفل دیکھ رہا ہے۔
صلی الله علیہ وآلہ وسلم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کچھ نعت کے طبقے کا عالم ہی نرالہ ہے
سکتہ میں پڑی ہے عقل چکر میں گماں آیا
طبقہ: شعبہ درجہ
سکتہ: حیرانگی کی انتہا پہ خاموشی یا غشی
گمان: وہم و خیال
حضور علیہ السلام کی نعت کہنا اور نعت لکھنا یہ ایسا بلند مرتبہ و مقام ہے کہ جہاں عقل چکرا کے رہ جاتی ہے یا اتنا مشکل کام ہے کہ عقل و شعور پہ سکتہ طاری ہو جاتا ہے بس یوں سمجھو کہ تلوار کی دھار پہ چلنے کے مترادف ہے۔
صلی الله عليه وآلہ وسلم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جلتی تھی زمیں کیسی تھی دھوپ کڑی کیسی
لو وہ قدِ بے سایہ اب سایہ کناں آیا
سایہ کناں: رحمت کا سایہ کرنے والا
قیامت کی دھوپ جتنی بھی شدید سہی گرمی کس قدر قیامت خیز ہی سہی لیکن جب وہ رحمت والے آقا صلی الله عليه وآلہ وسلم اپنی رحمت کا سایہ کر دیں گے تو قیامت کا نقشہ بدل جائے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
طیبہ سے ہم آتے ہیں کہیے تو جناں والو
کیا دیکھ کے جیتا ہے جو واں سے یہاں آیا
اے جنت والو ذرا ہمیں دیکھو تو ہم طیبہ نگر سے آئے ہیں بھلا مدینہ کو چھوڑ کر یہاں جنت میں آنے والا کس شے کو دیکھ کر زندہ رہے گا۔
جس وقت جس جگہ حضور علیہ السلام موجود ہوں گے وہی جگہ افضل ہو گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لے طوقِ الم سے اب آزاد ہو اے قُمری
چھٹی لیے بخشش کی وہ سروِ رواں آیا
طوقِ الم: غم کا پھندا
قُمری: فاختہ پرندہ
سروِ رواں: چلتا ہوا سروقد محبوب
اے باغِ رسالت کی قمریو! خوش ہو جاؤ دیکھو محشر کے میدان میں شافعِ محشر تمہاری بخشش کا اللہ کے ہاں سے رقعہ لے کر آ رہے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نامہ سے رضا کے اب مٹ جاؤ بُرے کامو
دیکھو میرے پلہ پر وہ اچھے میاں آیا
اے گناہو میرے نامہءاعمال سے فنا ہو جاؤ، دیکھو تو میرے آقائے نعمت حضرت اچھے میاں رحمتہ اللہ علیہ میری نیکیوں کا وزن بڑھانے کے لیے کتنی تیزی سے آ رہے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بدکار رضا خوش ہو بدکام بھلے ہوں گے
وہ اچھے میاں پیارا اچھوں کا میاں آیا
اے بدکار رضا (تواضعاً، حقیقتاً پرہیزگاروں کے سردار) اب خوش ہو جا، دیکھ تو تیرے آقا اچھے میاں جو اچھوں کے میاں (آقا) ہیں تیری بخشش کے لیے تشریف لا رہے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جناب عاطف اقبال صاحب
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں