غزوہ ٔبدر،ایک مطالعہ
پیش کش : ڈاکٹر مشاہدرضوی مشاہد رضوی آن لائن ٹیم
پیش کش : ڈاکٹر مشاہدرضوی مشاہد رضوی آن لائن ٹیم
غزوۂ بدر:
بدر ایک قریہ کا نام ہے جو مدینہ طیبہ سے تقریباً(193)کیلو میٹر کے فاصلہ پر واقع ہے ۔ہجرت کے دوسرے سال، 12 رمضان المبارک بروز دوشنبہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے تین سو تیرہ (313)صحابہ کرام کے ہمراہ مدینہ منورہ سے روانہ ہوئے -جن میں ساٹھ (60) مہاجر صحابہ کرام اور دوسوترپن (253) انصار تھے، امن عالم اور تحفظ انسانیت اور اعلائِ کلمۃ الحق کے لئے کوچ کئے ہوئے اس قافلہ کے ساتھ صرف تین(3)گھوڑے اور ستر(70) اونٹ تھے باقی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پیادہ تھے۔(سیرت ابن ھشام ۔ ج1۔ص664)
فضائل اہل بدر رضی اللہ تعالی عنہم اجمعین:
صحیح بخاری ومسلم میں حدیث مبارک ہے :حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے غزوہ بدر میں شریک ہونے والے ایک صحابی سے متعلق ارشادفرمایا: یہ بدر میں حاضر ہوئے ہیں‘ تمہیں کیا خبر!یقینا اللہ تعالیٰ نے اہل بدر پر توجہ خاص فرمائی ‘ارشاد فرمایاتم جو چاہو کرو‘ تمہارے لئے جنت واجب ہوچکی اور ایک روایت میں ہے کہ میں تم کو بخش دیا ہوں۔(صحیح بخاری، باب غَزْوَةِ الْفَتْحِ، حدیث نمبر: 4274 - صحیح مسلم، باب من فضائل أهل بدر رضى الله عنهم، حدیث نمبر:6557)
صحیح بخاری شریف میں حدیث مبارک ہے :سیدنا معاذ بن رفاعہ ابن رافع رضی اللہ عنہ اپنے والدحضرت رافع رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں ہے‘آپ نے فرمایا : حضرت جبریل امین علیہ السلام ‘حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خدمت بابرکت میں حاضرہوکر عرض کئے : آپ حضرات اہل بدر کوکیسا شمار کرتے ہیں؟ ارشاد فرمایا: مسلمانوں میں سب سے افضل ،یا حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اس طرح کی اور بات ارشاد فرمائی‘حضرت جبریل علیہ السلام نے عرض کیا :اسی طرح فرشتوں میںوہ فرشتے افضل ہیں جو بدر میں حاضر ہوئے۔(بخاری، باب شهود الملائكة بدرا، حدیث نمبر:3992)
غزوۂ بدرانسانی مساوات کا بہترین نمونہ:
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر تین صحابہ کے لئے ایک اونٹ مقرر فرمایا ، جس پر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے انہیں باری باری سوار ہونے کا حکم فرمایا حتیٰ کہ آپ نے اپنی سواری مبارک کو بھی اپنے لئے خاص نہیں فرمایا ۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ ساری انسانیت کے لئے ایک بہترین نمونہ ہے، آپ نے مساوات انسانی کا ایک عظیم درس دیا کہ آپ نے اپنی مبارک سواری پر بھی باری باری سوار ہونے کی تجویز فرمائی جیسا کہ دیگر سواریوں سے متعلق حکم فرمایا ، کیونکہ اس نورانی قافلہ کی روانگی کا مقصد ہی یہ تھا کہ باطل کی ہٹ دھرمی ، گمراہی و حق تلفی ختم کی جائے ، حق کا پرچم بلند کیا جائے ، عدل و انصاف اور مساوات انسانی کاپیغام عام کیا جائے۔
میدان بدر میں تائید الٰہی:
باطل پرستوں نے جنگ کے لئے تمام اسلحہ فراہم کئے اور مسلح ہوکر میدان بدر پہنچے جن کی تعداد ایک ہزار تھی،جن کے پاس اونٹوں کے علاوہ سو (100) گھوڑے تھے۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بارگاہِ الٰہی میں بڑے عجز و نیاز سے دعا کی ، اسی وقت اللہ تعالیٰ نے یہ آیت مبارکہ نازل فرمائی :-ترجمہ :یاد کرو جب تم فریاد کررہے تھے تو اس (اللہ تعالیٰ)نے تمہاری فریاد سن لی (اور یہ ارشاد فرمایا)یقینا میں تمہاری ایک ہزار فرشتوں کے ذریعہ مدد کروں گا جو پے درپے آنے والے ہیں۔(سورۃ الانفال،آیت:9)
اور سورۂ اٰل عمرآن میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے :-ترجمہ :اور بیشک اللہ تعالی نے بدر میں تمہاری مدد کی جبکہ تم بے سروسامان تھے ، تو اللہ سے ڈرو تاکہ تم شکر گزار رہو، جب آپ مؤمنوں سے فرمارہے تھے کیا تمہارے لئے یہ کافی نہیں ؟ کہ تمہارا رب تین ہزار فرشتے اُتار کر تمہاری مدد کرے ، ہاں ! کیوں نہیں اگر تم صبر کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو اوروہ تم پر فورًا حملہ آور ہوجائیں تو تمہارا رب پانچ ہزار نشان زدہ فرشتوں سے تمہاری مدد کرے گا ۔(سورۂ اٰل عمرآن ، آیت :123تا125 )پھر اس معرکۂ حق و باطل کا آغاز ہوا، اللہ تعالیٰ نے حق کو کامیابی سے ہمکنار فرمایا اور باطل کو شکست و ذلت کا سامنا کرنا پڑا، باطل پرستوں میں (70) افراد مارے گئے اور ستر(70) قیدی بنالئے گئے۔باطل کا مقابلہ کرتے ہوئے چودہ (14)صحابۂ کرام کو شہادت نصیب ہوئی جن میں چھ(6)مہاجر صحابۂکرام تھے اور آٹھ(8)انصار تھے۔
شہداےبدررضی اللہ عنہم کے نام:
مہاجر صحابہ کرام کے نام:
(1)حضرت عبید بن حارث رضی اللہ عنہ(2)حضرت عمیر بن ابو وقاص رضی اللہ عنہ(3)حضرت ذو الشمالین عمیر بن عبد عمرو رضی اللہ عنہ(4)حضرت عاقل بن ابو بکیر رضی اللہ عنہ(5)حضرت مہجع رضی اللہ عنہ(6)حضرت صفوان بن حارث رضی اللہ عنہ
انصار صحابہ کرام کے نام:
(7)حضرت سعد بن خیثمہ رضی اللہ عنہ(8)حضرت مبشر بن عبد المننذر رضی اللہ عنہ(9)حضرت حارثہ بن سراقہ رضی اللہ عنہ(10)حضرت معوذ بن عفراء رضی اللہ عنہ(11)حضرت عمیر بن حمام رضی اللہ عنہ(12)حضرت رافع بن معلی رضی اللہ عنہ(13)حضرت عوف بن عفراء رضی اللہ عنہ(14)حضرت یزید بن حارث رضی اللہ عنہ(المواہب اللدنیۃ مع شرح الزرقانی)
جب اللہ تبارک وتعالیٰ نے اہل اسلام کے کاروان امن کو فتح و نصرت عطا فرمائی تو قرب و جوار کی تمام باطل طاقتیں پست ہمت ہوگئیں۔
بدر کے قیدیوں کے ساتھ حسن سلوک کا بے مثال نمونہ :
میدانِ بدر میں پکڑے گئے قیدیوں کو جب حضور رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا گیا تو آپ نے سب سے پہلے ان کے قیام و طعام کا انتظام فرمایا اور ان قیدیوں کو اپنے وفاء شعار صحابہ کرام کے درمیان بانٹ دیا اور یہ تاکید فرمائی کہ ان قیدیوں کا مکمل خیال رکھا جائے ، حسب استطاعت ان کے آرام اور قیام و طعام کا انتظام کیا جائے ۔
ابو عزیز -جو اس وقت تک دائرۂ اسلام میں داخل نہیں ہوئے تھے- نامی ایک قیدی کا بیان ہے کہ جب مجھے مدینہ منورہ میں ایک انصاری صحابی کے حوالہ کیا گیا تو میں نے حسن سلوک کی ایک عظیم مثال دیکھی کہ انصاری صحابی کے گھر والے کھجوروں کے کچھ حصہ پر اکتفاء کرتے اور رسول رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے پیش نظر مجھے روٹی کھلاتے ،میں انہیں روٹی تناول کرنے کے لئے اصرار کرتا لیکن وہ ہرگز روٹی تناول نہ کرتے۔ بعد میں اُن کو فدیہ کے بدلہ رہا کروالیا گیا ۔ اسلام کی عظمت اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شفقت و عنایت اور آپ کے پیکر اطاعت صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے حسن سلوک سے متاثر ہوکر لوگ دامنِاسلام سے وابستہ ہوتے گئے۔آج کل اسلام کو بدنام کرنے کی مذموم کوشش کی جاتی ہے کہ مذہب اسلام ایک سخت اور پرتشدد مذہب ہے لیکن بدر کے قیدیوں کے ساتھ جو حسن معاملہ کیا گیا اگر دنیا اس پر غور کرلے تو مذہب اسلام کی امن پسندی ، عدل و انصاف اور مساواتِ انسانی سب پر روز روشن کی طرح عیاں ہوجائے گی اور اسلام کے تعلق سے کئے گئے شکوک و شبہات یکسر ختم ہوجائیں گے۔انسانیت کے ساتھ کئے گئے عفو و درگزر ، رحمت و الفت کے واقعات میں یہ ہے کہ جب جنگ بدر کے قیدیوں کو بحفاظت و سلامتی فدیہ کے عوض چھوڑدیا گیا، ان کے ساتھ اتنا بہترین سلوک کیا گیا جس سے متاثر ہوکر وہ اسلام کی صداقت و حقانیت کے معترف ہوئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کریمہ کی بدولت کئی ایک غیرمسلم حلقہ بگوش اسلام ہوگئے ، جو قیدی فدیہ دینے سے عاجز تھے ان سے کہا گیا کہ ان کے پاس جو علوم و فنون ہیں انہیں اوروں کو سکھلائیں ؛ اس کے بدلے انہیں رہا کردیا جائے گا، انہوں نے جب غیر تعلیم یافتہ وغیر ہنر مند افراد کو اپنے پاس موجود علم وہنر سے آراستہ کردیا تو انہیں باعزت رہا کردیا گیا۔
جس کی جو مرنے کی جا ٹہراتے وہ مرتا وہیں:
اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو اولین و آخرین کے تمام علوم عطاء فرمائے کہ آپ کی نگاہ اقدس سے گزشتہ زمانہ میں اور حال ومستقبل میں پیش آنے والے تمام حوادث و واقعات ، احوال و کیفیات مخفی نہیں ، اسی لئے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ بدر کے وقوع پذیر ہونے سے قبل ہی ارشاد فرمایا کہ قسم بخدا ! میں اس وقت بھی بدر کے مقتولوں کے قتل کی جگہ دیکھ رہا ہوں ۔حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دست مبارک کو زمین پر رکھ کر ارشاد فرمایا: یہ فلاں شخص کی ہلاکت کی جگہ ہے‘ یہ فلاں شخص کی ہلاکت کی جگہ ہے ۔ راوی کہتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کفار کے مرنے کی جس جگہ نشاندہی فرمائی تھی کسی کی نعش اس جگہ سے تھوڑی بھی آگے نہیں پائی گئی۔(صحیح مسلم ،ج 2۔ص102، کتاب الجھاد والسیر، باب غزوۃ بدر ، حدیث نمبر: 7402/4721۔ شرح مواہب زرقانی، ج 2، ص 304)
اجازتِ حبیب پاک ﷺ کے بغیر واپس نہ آنا :
علامہ قاضی ثناء اللہ پانی پتی نقشبندی رحمۃ اللہ علیہ نے ابن سعد اور ابوشیخ کے حوالہ سے تفسیر مظہری میں حدیث پاک ذکر فرمائی :جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم غزوۂ بدر سے فارغ ہوئے تو جبرئیل علیہ السلام سرخ گھوڑی پر سوار ‘ جنگی لباس پہنے ہوئے ‘ نیزہ ہاتھ میں لئے حاضر ہوئے اور عرض کیا: اے پیکر حمد و ثنا اور لائقِ ہرستائش و خوبی حبیب پاک صلی اللہ علیہ وسلم !بے شک اللہ تعالیٰ نے مجھ کو آپ کی خدمت میں بھیجا ہے اور یہ حکم فرمایا ہے کہ میں آپ کے پاس سے اس وقت تک نہ جاؤں جب تک آپ مجھ سے راضی نہ ہوجائیں ، حضور ! کیا آپ مجھ سے راضی ہیں ؟ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :ہاں! میں راضی ہوں، تب جبرئیل علیہ السلام واپس ہوئے ۔ (طبقات کبریٰ، ابن سعد ،ج1ص26،غزوۃ بدر ۔ تفسیرمظہری ، ج1،ص 1449، سورۃ الانفال ، آیت :9)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں