پہلا عظیم معرکہ اسلام۔۔۔۔۔۔۔۔غزوۂ بدر
اسلام و کفر کی یہ پہلی جنگ 17رمضان المبارک کو ہوئی۔
پیر محمد تبسم بشیر اویسی (ایم اے)
اللہ تعالیٰ نے دنیا میں ہر چیز کی ضد پیدا کر کے اصل کی پہچان کروائی ۔اسی طرح حق کی ضد باطل پیدا ہوا تو حق نکھر کر سامنے آیا ۔ازل سے ابد تک حق و باطل باہم نبرآزما رہیں گے مگر ہمیشہ حق غالب رہے گا۔ غزوۂ بدر بھی حق کی سر بلندی اور باطل کی سرکوبی کا دوسرا نام ہے۔
اسباب غزوۂ بدر:غزوہ بدر حق و باطل کی طاقتوں کے مابین پہلا عظیم الشان اور یادگار رہنے والا معرکہ ہے ۔اس معرکے سے غرور باطل میدان بدر کی خاک میں مل گیا اور حق کو عروج حاصل ہوا ۔آئیے اس معرکے کے اسباب کا مطالعہ کرتے ہیں ۔اس معرکہ کے اسباب کچھ یوں تھے ۔
٭اسلام کی روز بروز ترقی اسلام دشمن عزائم کو خائف کئے ہوئے تھی ۔
٭قریش مکہ اہل اسلام پر بے انتہاء مظالم ڈھارہے تھے اورا نہیں ایذارسانی کے ذریعے ترک اسلام اور جلاوطنی پر مجبور کر رہے تھے۔ نیز جو مسلمان ہجرت کر کے مدینہ منورہ جارہے تھے ان کی جائیدادوں پر ناجائز قبضہ جمار ہے تھے ۔
٭انصاف کے قتل اور مظالم کے انتقام کیلئے مدینہ کے مسلمانوں میں ’’جذبہ جہاد‘‘ عروج پر تھا اور مسلمان کفر کے خلاف ایک فیصلہ کن جنگ کے لئے بے تاب تھے ۔قریش مکہ کے تجارتی قافلے مدینہ کے راستے شام جایا کرتے تھے ۔چونکہ قریش نے مسلمان مہاجرین پر ظلم کیا تھا اور جائیدادیں ضبط کی تھیں ۔لہٰذا ان کو سبق سکھانا ضروری تھا ۔اس لئے مسلمانوں نے قریش کے اکثر قافلوں پر حملے کئے اور حضور علیہ السلام بذات خود مسلمانوں کو لے کر نکلا کرتے تھے ۔آپ ﷺ قافلوں پر حملے کرتے ان کا تعاقب کرتے اور مال غنیمت حاصل کرتے ۔ویسے بھی کفار جو اللہ کے دشمن ہیں ۔ان کا مال و متاع اللہ کے دوستوں یعنی مسلمانوں کے لئے حلال ہے ۔فقہا نے لکھا ہے کہ :’’ مسلمانوں کے لئے سب سے پاکیزہ ترین حلال طیب چیز مال غنیمت ہے ۔پھر جائز تجارت سے حاصل کردہ نفع خصوصاً کپڑے کی تجارت پھر زراعت پھر اپنے ہاتھ کے ہنر کی کمائی ۔‘‘
چنانچہ آپ ﷺ اور آپ ﷺ کے اصحاب رضی اللہ عنہم ان تجارتی قافلوں کی تاک میں رہا کرتے تھے ۔یہ سن 2ھ کے موسم خزاں کے شروع کا واقعہ ہے کہ قریش کا ایک بہت بڑا تجارتی قافلہ ابو سفیان بن حرب کی قیادت میں شام کی طرف جارہا تھا ۔اس قافلہ میں ایک ہزار اونٹ تھے ۔جن پر تقریباً پانچ لاکھ درہم کا مال و اسباب لدا ہوا تھا۔ جب یہ قافلہ شام کی طرف جا رہا تھا تو مسلمانوں نے اس کو روکنے کی کوشش کی ۔لیکن یہ بچ نکلنے میں کامیاب ہو گیا ۔اب مسلمان اس انتظار میں تھے کہ کب یہ قافلہ واپس آتا ہے ؟
حضور اکر م ﷺ کی بدر روانگی :آپ ﷺ نے کچھ اصحاب رضی اللہ عنہم کو جاسوسی کے لئے آگے روانہ کیا تاکہ قافلے کی واپسی کی اطلاع حاصل ہو سکے ۔چنانچہ جب آپ ﷺ کو قریش کے قافلہ کی واپسی کی خبر ہوئی تو آپ ﷺ نے مسلمانوں کو جمع کیا او ر فرمایا:’’ یہ قریش کا تجارتی قافلہ ہے ۔ اس کا تعاقب کرو عجب نہیں کہ حق تعالیٰ تم کو اس قافلہ میں سے غنیمت عطاء فرمائے ۔‘‘
12رمضان المبار ک کو مسلمانوں کا لشکر جو ’’تین سو تیرہ ‘‘ خوش نصیبوں پر مشتمل تھا ۔مدینہ سے بد ر کی سمت روانہ ہوا ۔کیونکہ بدر ، مدینہ شریف اور مکہ شریف کے راستوں کا قریب ترین مقام تھا ۔جب تین سو تیرہ نفوس قدسیہ دو گھوڑوں اور چھ اونٹوں پر مشتمل یہ لشکر ’’صفواء‘‘ نامی مقام پر پہنچا تو آپ ﷺ نے احوال معلوم کرنے کیلئے ایک دستہ آگے روانہ فرمایا ۔خبر ملی کہ کفار کے جم غفیر کے پاس ساز و سامان کی کوئی کمی نہیں ہے ۔آپ ﷺ نے تمام صورتحال صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے سامنے رکھی اور مشورہ طلب فرمایا ۔سب سے پہلے یار باوفاء سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ پھر سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ عرض گزار ہوئے اور جانثاری و وفاداری کا اظہار فرمایا ۔پھر مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ اٹھے اور یہ الفاظ کہے جو ملت اسلامیہ کے لئے قابل فخر سرمایہ ہیں ’’اے اللہ کے رسول ﷺ! آپ کو جو حکم خدا کی طرف سے ملا ہے بلا جھجک اس کو گذارئیے ۔ہم دل و جان سے آپ ﷺ کے ساتھ ہیں ۔خدا کی قسم! ہر گز ہم اس طرح نہیں کہیں گے ۔جیسے بنی اسرائیل نے موسیٰ علیہ السلام سے کہا تھا کہ آپ اور آپ کا خدا دشمن سے لڑیں ہم تو یہیں بیٹھے ہیں ۔ہم تو اس کے بر عکس عرض کرتے ہیں۔ آپ جنگ کریں ہم آپ کے ساتھ ہیں ۔آپ کے دوش بدوش جنگ کریں گے ۔‘‘
بخاری کی روایت میں یہ الفاظ ہیں ۔’’ہم آپ کے دائیں بائیں اور آگے پیچھے چاروں طرف سے لڑیں گے۔‘‘ حدیث کے راوی حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے اس وقت دیکھا کہ رسول اللہ ﷺ کا چہرۂ انور فرط مسرت سے چمک اٹھا ۔ (بخاری شریف جلد2صفحہ564)
انصار کی طرف سے حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ نے تاریخی الفاظ ارشاد فرمائے :’’ اے اللہ کے رسول ﷺ ہم آپ پر ایمان لائے ہیں ۔ہم نے آپ کی اطاعت کا عہد کر رکھا ہے جو حکم ہو گا اسے بجالائیں گے ۔آپ بلا تامل اپنا ارادہ پورا فرمائیں ۔ہم دل و جان سے آپ کا ساتھ دیں گے ۔قسم ہے اس ذات پاک کی جس نے آپ کو حق دے کر بھیجا ہے ۔اگر آپ ہم کو سمندر میں کود جانے کا حکم دیں گے تو ہم سارے سمندر میں خود پڑیں گے اور ہم میں سے ایک شخص بھی پیچھے نہ رہے گا۔‘‘
پیغمبر اسلام ﷺ اپنے اصحاب رضی اللہ عنہم کے یہ جانثار انہ جوابات سن کر مسرور ہوئے اور فرمایا :’’ اللہ کے نام پر چلو ، تمہیں خوشخبری ہو کیونکہ اللہ تعالیٰ نے مجھ سے یہ وعدہ فرمایا ہے کہ ابو جہل یا ابو سفیان کی دو جماعتوں میں سے کسی ایک جماعت پر ضرور فتح و نصرت عطاء کروں گا۔‘‘(زرقانی جلد 1صفحہ616)
صف بندی: چونکہ کفار پہلے میدان بدر میں پہنچ گئے تھے ۔ چنانچہ یہاں پر سالار اسلام حضرت محمدمصطفیٰ ﷺ نے بہترین عسکری اہمیت کے فیصلے کئے۔ آپ ﷺ نے مکے سے آنے والے راستوں کو بھی نوٹ کر لیا ۔نیز اس امر کو بھی ملحوظ رکھا کہ جنگ کے دوران سورج کی تیز شعاوئوں سے مسلمان سپاہیوں کی آنکھیں خیرہ نہ ہو سکیں ۔اس چشمے کے قریبی ٹیلے پر یعنی لشکر کے پڑائوسے ذرا اونچائی پر حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کے مشورے سے آپ ﷺ کے لئے عریش (چھپر) بنوایا گیا تاکہ آپ ﷺ وہاں سے میدان جنگ کو بچشم خود دیکھ سکیں ۔آج کل اس جگہ ایک مسجد ہے ۔ جسے ’’مسجد عریش ‘‘ کہا جاتا ہے ۔
تین سو تیرہ جان نثاران اسلام ایک ہزار سپاہ سے لڑنے کے لئے تیار تھے ۔لڑائی سے قبل حضور اکرم ﷺ ایک چھڑی ہاتھ میں لئے میدان میں نکل آئے اور صفوں کو درست کیا ۔نیز کفار کے سرداروں کے مرنے کی جگہ نشانات لگائے جو علم غیب نبی ﷺ ہے۔لشکر کے میمنہ اور میسرہ پر سالار متعین کئے ۔نیز تمام لشکر کی تین جماعتیں بنائیں اور ہر ایک کو علیحدہ علیحدہ علم عطاء فرمائے ۔اس سے فارغ ہو کر آپ نے لشکر اسلام کو جو ہدایات دیں وہ اس طرح تھیں ۔
٭صفوں کو راستوںپر رکھا جائے ۔٭دوران جنگ اطاعت امیر کی سختی سے پابندی کی جائے ۔٭تیر صرف اس وقت چلائے جائیں جب کہ دشمن زد میں آجائے۔٭دشمن پیش قدمی کرے تو اس پر سنگباری کی جائے۔٭اگر قریب تر پہنچ جائے تو اس صورت میں نیز وں اور تلواروں سے مقابلہ کیا جائے ۔
سپہ سالار اسلام ﷺ نے حکم دیا کہ: جب تم قتل کرو تو اچھی طرح سے قتل کرو۔ نیز ضعیفوں ،کمزوروں ،زخمیوں ، عورتوں ، بچوں اور غیر محاربین (نہ لڑنے والے) پر ہتھیار چلانے کی ممانعت فرمائی ۔ایک آیت قرآن بھی اس وقت نازل ہوئی ۔واضربوا منھم کل بنان۔’’ان کے جوڑوں پر مارو!‘‘ معلوم ہواتاک تاک کر دشمنوں کو مارو۔نیز آپ ﷺ نے انتہائی دور اندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک محفوظ دستہ علیحدہ رکھا تاکہ نازک موقع پر کام آسکے اور زخمیوں کی مرہم پٹی کرنے ، سپاہیوں کو پانی پلانے اور میدان جنگ میں گرے ہوئے تیروں کو جمع کر کے مجاہدین کے حوالے کرنے کیلئے عورتوں کی جماعتیں بھی متعین فرمائیں ۔
تاریخ انسانی کا یادگار معرکہ:بالا ٓخر مدینہ منورہ سے 80میل دور مقام بدر پر 17رمضان المبارک 2ھ کو وہ عظیم معرکہ بپا ہوا جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی جرأت و شجاعت، بہادری و جانبازی ،اللہ کی مدد اور نصرت اور نبی کریم ﷺ کی بہترین عسکری حکمت عملی کی مثال کے طور پر تاریخ عالم میں جانا جاتا ہے ۔حضور اکرمﷺ نے دعا فرمائی ۔’’خدا یا تونے مجھ سے وعدہ کیا ہے اسے پورا کر۔ اگر آج تیرے یہ چند بندے مٹ گئے تو پھر قیامت تک کوئی تیرا نام لیوا نہیں رہے گا۔‘‘چنانچہ اس دن صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی مختصر سی جماعت نے جو تعداد اور ساز و سامان دونوں لحاظ سے دشمن سے کم تھی ایسی جرأت ،ہمت اور استقلال سے مقابلہ کیا اور اپنے امیر جناب رسول خدا ﷺ کی ایسی اطاعت کی اور رسول خدا ﷺ نے ایسے بروقت اور بر محل ماہرانہ فیصلے فرمائے کہ جن سے جنگ کا نتیجہ حیرت انگیز طور پر مسلمانوں کے حق میں نکلا اس جنگ میں ستر کافر مارے گئے ۔ستر گرفتار ہوئے اور چودہ مسلمان مقام شہادت سے سرفراز ہوئے ۔اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی برحق ﷺ کی دعا قبول کر لی اور کفا ر کو ذلیل و خوار کر دیا ۔
جنگ بدر اصول جنگ کی روشنی میں:غزوہ بدر کی تفصیلات پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ تمام اصول و قوانین جو آج دنیا نے برس ہا برس کی جنگوں کا تجربہ کر کے بنائے ہیں ۔ان پر سپہ سالار کا تجزیہ کر کے بنائے ہیں ۔ان پر سپہ سالار اسلام حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ نے آج سے چودہ سو سال پہلے عمل فرمایا تھا ۔آئیے ان اصول و قوانین جنگ کی روشنی میں غزوہ بدر کا جائزہ لیتے ہیں ۔٭اصل مقصد کا پیش نظر ہونا ۔٭بر وقت اقدام ۔ ٭فوج کی حفاظت۔٭قوت کا محتاط استعمال۔٭باہمی تعاون ۔ ٭زمین کا استعمال ۔٭جاسوسی۔
اصلی مقصد:ایک اچھے قائد کے سامنے اصلی مقصد دشمن کی اصلی فوج کو تباہ کرنا ہوتا ہے ۔نپولین اکثر کہتا تھا ۔’’میرے سامنے ایک ہی چیز ہوتی ہے ۔ دشمن کی اصلی فوج۔‘‘کالزوٹز اپنی کتاب ’’اصول جنگ‘‘ میں رقم طراز ہے ۔ ’’ہمارا مقصدیہ ہونا چاہیے کہ دشمن کے اصلی قالب پر حملہ کر کے اسے تباہ کیا جائے ۔اس مقصد کے حصول کے لئے ہمیں اپنا ساراز و رلگادینا چاہئے۔‘‘جنگ بدر میں رسول اللہ ﷺ نے دشمن کی اصل قوت کو تباہ کرنے کے لئے ہر ممکن تدبیر اختیار فرمائی ۔ جب کفار کے لشکر جرار کو ریت کے طوفان نے آگھیر ا تو رسول اللہ ﷺ نے عین موقع پر حملہ کر کے دشمن کے قلب لشکر کو تباہ کر دیا ۔
بروقت اقدام :قدیم چینی سپہ سالار جنرل سنتزو کے خیال کے مطابق دشمن کی شکست ہمارے اقدام کی صلاحیتوں میں مضمر ہوتی ہے اور ’’برن ہارڈی‘‘ کا قول ہے کہ : ’’اقدام جنگ کا زیادہ طاقتور طریقہ ہے۔‘‘اقدامی جنگ کے بہت سے فوائد ہیں ۔مثلاً:
٭اقدامی جنگ کے لئے وقت اور مقام کا انتخاب حاصل رہتا ہے ۔
٭اقدامی یعنی حملہ آور فوج اچانک حملہ کر کے دشمن کے غیر محفوظ علاقہ پر قبضہ کر سکتی ہے ۔
٭اچانک اقدام یعنی شب خون کے ذریعے دشمن کی رسد ختم کی جا سکتی ہے ۔نیز اس کے سلسلہ رسل کو منقطع کیا جا سکتا ہے ۔
٭اقدام کرنے والی فوج زخمی سپاہیوں کی مناسب دیکھ بھال کر سکتی ہے ۔جب کہ دفاع کرنے والی فوج کے زخمیوں کو حملہ آور فوج گرفتار کر لیتی ہے ۔
٭جنگ بدر میں رسول اللہ ﷺ نے اگر چہ دفاعی خط قائم کیا تھا ۔تاہم مناسب موقع پاتے ہی بر وقت اقدام بھی کیا اور دشمن کے دائیں بازو پر اپنے دستوں کو جمع کر دیا ۔اس طرح آپ نے کامیاب جرنیل ہونے کا ثبوت دیا ۔
فوج کی حفاظت:جنگ میں فوجوں کی حفاظت کی ذمہ داری امیر لشکر پر عائد ہوتی ہے ۔بے موقع محل فوجوں کو بے دریغ لڑانا بھی ہلاکت کا باعث ہوتا ہے ۔’’مارشل فاش‘‘ کہتا ہے ۔اقدام میں نسبتاً زیادہ تحفظ کی ضرورت ہوتی ہے ۔
راہنسن کا کہنا ہے ۔لڑائی میں تحفظ کی بہترین شکل یہ ہے کہ آپ اپنے ارادہ کو دشمن پر مسلط کر دیا کریں۔
جنگ بدر میں حضور اکرم ﷺ نے اسلامی فوج کی حفاظت کی ہر ممکن صورت اختیار فرمائی تھی ۔آپ ﷺ نے اسلامی لشکر کے اگلے دستوں کی حفاظت کے لئے کچھ محفوظ دستے بھی مقرر فرمائے تھے۔ جس سے تمام لشکر دشمن کے حملوں سے محفوظ رہا ۔
قوت کا محتاط استعمال:محفوظ قوت کا رکھا جانا نہایت ضروری ہوتا ہے ۔کیونکہ دشمن کسی حصے پر گھیرا ڈالنے کی کوشش کرے تو محفوظ افواج عقب لشکر سے نکل کر دشمن کر پسپا ہونے پر مجبور کر سکتی ہے ۔نیز جب دشمن گھیرے میں لے لیا جائے تو سپہ سالار کو چاہئے کہ اپنی قوت اور وسائل کا جائزہ لے کر مناسب فیصلہ کرے۔اس سلسلے میں ’’سنتزو‘‘ کا کہنا ہے ۔دشمن کو نرغے میں لینے کے بعد اپنی قوت اور وسائل کا جائزہ لیجئے ۔اگر اسے کچل دینا آپ کے بس میں ہوتو اس کا بالکل صفایا کر دیجئے ۔ورنہ اسے بے جگری سے لڑنے پر مجبور نہ کیجئے، بلکہ ایک طرف سے نکل جانے کا راستہ دیجئے ۔(اصول جنگ)
جنگ بدر میں امیر لشکر نبی کریمﷺ نے بھی اپنی مختصر سی قوت کا استعمال بڑی احتیاط سے کیا ۔تین سو تیرہ سپاہیوں کو دائیں بائیں مختلف دستوں میں تقسیم کیا ۔اس کے علاوہ ایک محفوظ دستہ علیحدہ کیا اور دوران جنگ دشمن پر اس وقت تک تیر اندازی سے مانع رہے جب تک دشمن مکمل طور پر زد میں نہیں آ گیا ۔یوں تیر بھی ضائع نہ ہوئے اور دشمن کا خاتمہ بھی ہو گیا ۔نیز جنگ کے خاتمے کے بعد آپ ﷺ نے تمام وسائل کاجائزہ لیا اور دشمن کا تعاقب نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس لئے کہ تمام لشکر میں اونٹ نہ ہونے کے برابر تھے ۔اگر آپ ایسا نہ کرتے تو دشمن بے جگری سے لڑنے پر مجبور ہوجاتا ۔اس طرح مسلمانوںکو نقصان پہنچ جانے کا اندیشہ تھا ۔لیکن سپہ سالار اسلام ﷺ نے نہایت ماہرانہ فیصلہ پل بھر میں کر لیا ۔
باہمی تعاون:فوج کے سپاہیوں اور مختلف دستوں میں تعاون فتح کے لئے نہایت لازمی امر ہے اور جہاں آپس میں اختلاف دلوں میں نفاق جیسا موذی مرض ہو وہاں بجائے فتح کے شکست وریخت مقدر بن جاتی ہے ۔جنگ بدر میں مسلمانوں کی کامیابی کی ایک بڑی وجہ باہمی تعاون بھی تھا ۔تاریخ شاہد ہے جہاں بھی اختلاف اور نفاق آجائے لشکر ہی نہیں بڑی بڑی سلطنتیں تباہ بر باد ہو گئیں ۔
زمین کا استعمال :جنگ کے لئے نشیبی زمین نہایت مضر ہوتی ہے ۔روشنی اور دھوپ کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے تاکہ لڑائی کے وقت سورج کی شعاعیں سپاہیوں کی آنکھوں کو چند ھیانہ دیں ۔ جنگ بدر میں سپہ سالار اسلام حضرت محمد مصطفیٰ ﷺنے زمین کا ماہرانہ استعمال فرمایا ۔آپ ﷺ نے حوض پر پوری طرح قبضہ کر لیا اور مسلمانوں کو پانی کی کمی کی دقت سے بچالیا ۔نیز تیر اندازوں کو بہترین جگہوں پر متعین کیا اور اس امر کا بھی خاص لحاظ رکھا کہ سورج کی شعائیں مسلمانوں کی آنکھوں کو خیرہ نہ کر سکیں ۔حتیٰ کہ اپنی نقل و حرکت سے دشمن کو ایسی جگہ پڑائو ڈالنے پر مجبورکر دیا جو ر یتلی اور کیچڑ ہونے کے باعث جنگ کے لئے نہایت نامناسب تھی ۔ بالا ٓخریہ ریتلی زمین دشمن کی ہلاکت کا باعث ہو گئی ۔
جاسوسی:فتح کے لئے ضروری ہے کہ دشمن کی نقل و حرکت اور حربی وسائل کا پہلے ہی سے علم ہو اور اس کے لئے جاسوسی نہایت ضروری ہے ۔سنتزو کہتا ہے ۔ اگر آپ اپنی اور دشمن کی طاقت سے اچھی طرح واقف ہوں تو سو لڑائیوں سے بھی خوف نہ کیجئے ۔اگر آپ اپنے سے واقف ہوں ۔لیکن دشمن کی قوت سے ناواقف ہوں تو ہر لڑائی میں آپ کو شکست ہونا ضروری ہے ۔
جنگ بدر میں آپﷺ کی اطلاعات کا نظام مکمل تھا ۔ دشمن کی ہر حرکت کی خبریں آپﷺ تک پہنچ رہی تھیں اور جنگ کے دوران بھی سانڈنی سوار پھرتی کے ساتھ پیغام رسانی کا کام نہایت حسن و خوبی سے سر انجام دے رہے تھے ۔حضور اکرم ﷺ نے لشکر اسلام کے لئے جاسوسی کا نہایت مربوط انتظام فرمارکھا تھا ۔یہی وجہ تھی کہ دشمن کی حرکت سے پہلے آپ باخبر ہو جاتے اور مناسب جواب کیلئے بھی وقت سے پہلے تیار رہتے۔
معرکہ بدر سے حاصل سبق:کفر و اسلام کے پہلے معرکہ میں نہ صرف رسول عربی ﷺ کی قائدانہ صلاحیتیں اور حربی امور کی ماہرانہ اصول اجاگر ہوئے ۔بلکہ اس عظیم معرکے میں مجاہدین اسلام کے لئے بہت سے قیمتی اسباب پوشیدہ ہیں ۔غزوہ بدرمیں ابتداء سے آخر تک آپ ﷺ نے دفاع ،حملہ اور دوسرے اہم مراحل میں لشکر اسلام پر مکمل کنٹرول قائم رکھا ۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے جذبہ جہاد و شہادت کو اجاگر کیا اور ہر حال میں امیر کی اطاعت کا حکم دیا۔ چنانچہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے میدان جہاد میں جتنے بھی کارہائے نمایاں سر انجام دئیے ۔یہ تمام ’’اطاعت امیر‘‘ کا نتیجہ تھے ۔ یہی وجہ تھی کہ اس ’’تین سو تیرہ‘‘ کے بظاہر معمولی لشکر نے وہ غیر معمولی کام کر دکھایا جو تاریخ اسلام کے ماتھے کا ’’جھومر ‘‘ ہے ۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں جذبہ جہاد اور جذبہ اطاعت اس قدر موجزن تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو کبھی مایوس نہ کیا ۔بلکہ ان کی نصرت کے لئے فرشتوں کے غول کے غول بھیج کر فتح و نصرت کو مسلمانوں کی جھولی میں لا ڈالا :
فضائے بدر پیدا کر فرشتے تیری نصرت کو اتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی
معرکہ بدر نے یہ ثابت کر دیا کہ محض وسائل اور سپاہیوں کی کثرت فتح و نصرت کے لئے کافی نہیں ۔بلکہ ایمان کی قوت اور جذبہ جہاد و شوق شہادت کی بدولت کوئی بھی اقلیت اکثریت پر غالب آسکتی ہے ۔بس مصمم ارادوں کی ضرورت ہے ۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے پیارے حبیب مکرم ﷺ کے وسیلہ سے دین و دنیا میں کامیابی عطا فرمائے ۔آمین
اسلام و کفر کی یہ پہلی جنگ 17رمضان المبارک کو ہوئی۔
پیر محمد تبسم بشیر اویسی (ایم اے)
اللہ تعالیٰ نے دنیا میں ہر چیز کی ضد پیدا کر کے اصل کی پہچان کروائی ۔اسی طرح حق کی ضد باطل پیدا ہوا تو حق نکھر کر سامنے آیا ۔ازل سے ابد تک حق و باطل باہم نبرآزما رہیں گے مگر ہمیشہ حق غالب رہے گا۔ غزوۂ بدر بھی حق کی سر بلندی اور باطل کی سرکوبی کا دوسرا نام ہے۔
اسباب غزوۂ بدر:غزوہ بدر حق و باطل کی طاقتوں کے مابین پہلا عظیم الشان اور یادگار رہنے والا معرکہ ہے ۔اس معرکے سے غرور باطل میدان بدر کی خاک میں مل گیا اور حق کو عروج حاصل ہوا ۔آئیے اس معرکے کے اسباب کا مطالعہ کرتے ہیں ۔اس معرکہ کے اسباب کچھ یوں تھے ۔
٭اسلام کی روز بروز ترقی اسلام دشمن عزائم کو خائف کئے ہوئے تھی ۔
٭قریش مکہ اہل اسلام پر بے انتہاء مظالم ڈھارہے تھے اورا نہیں ایذارسانی کے ذریعے ترک اسلام اور جلاوطنی پر مجبور کر رہے تھے۔ نیز جو مسلمان ہجرت کر کے مدینہ منورہ جارہے تھے ان کی جائیدادوں پر ناجائز قبضہ جمار ہے تھے ۔
٭انصاف کے قتل اور مظالم کے انتقام کیلئے مدینہ کے مسلمانوں میں ’’جذبہ جہاد‘‘ عروج پر تھا اور مسلمان کفر کے خلاف ایک فیصلہ کن جنگ کے لئے بے تاب تھے ۔قریش مکہ کے تجارتی قافلے مدینہ کے راستے شام جایا کرتے تھے ۔چونکہ قریش نے مسلمان مہاجرین پر ظلم کیا تھا اور جائیدادیں ضبط کی تھیں ۔لہٰذا ان کو سبق سکھانا ضروری تھا ۔اس لئے مسلمانوں نے قریش کے اکثر قافلوں پر حملے کئے اور حضور علیہ السلام بذات خود مسلمانوں کو لے کر نکلا کرتے تھے ۔آپ ﷺ قافلوں پر حملے کرتے ان کا تعاقب کرتے اور مال غنیمت حاصل کرتے ۔ویسے بھی کفار جو اللہ کے دشمن ہیں ۔ان کا مال و متاع اللہ کے دوستوں یعنی مسلمانوں کے لئے حلال ہے ۔فقہا نے لکھا ہے کہ :’’ مسلمانوں کے لئے سب سے پاکیزہ ترین حلال طیب چیز مال غنیمت ہے ۔پھر جائز تجارت سے حاصل کردہ نفع خصوصاً کپڑے کی تجارت پھر زراعت پھر اپنے ہاتھ کے ہنر کی کمائی ۔‘‘
چنانچہ آپ ﷺ اور آپ ﷺ کے اصحاب رضی اللہ عنہم ان تجارتی قافلوں کی تاک میں رہا کرتے تھے ۔یہ سن 2ھ کے موسم خزاں کے شروع کا واقعہ ہے کہ قریش کا ایک بہت بڑا تجارتی قافلہ ابو سفیان بن حرب کی قیادت میں شام کی طرف جارہا تھا ۔اس قافلہ میں ایک ہزار اونٹ تھے ۔جن پر تقریباً پانچ لاکھ درہم کا مال و اسباب لدا ہوا تھا۔ جب یہ قافلہ شام کی طرف جا رہا تھا تو مسلمانوں نے اس کو روکنے کی کوشش کی ۔لیکن یہ بچ نکلنے میں کامیاب ہو گیا ۔اب مسلمان اس انتظار میں تھے کہ کب یہ قافلہ واپس آتا ہے ؟
حضور اکر م ﷺ کی بدر روانگی :آپ ﷺ نے کچھ اصحاب رضی اللہ عنہم کو جاسوسی کے لئے آگے روانہ کیا تاکہ قافلے کی واپسی کی اطلاع حاصل ہو سکے ۔چنانچہ جب آپ ﷺ کو قریش کے قافلہ کی واپسی کی خبر ہوئی تو آپ ﷺ نے مسلمانوں کو جمع کیا او ر فرمایا:’’ یہ قریش کا تجارتی قافلہ ہے ۔ اس کا تعاقب کرو عجب نہیں کہ حق تعالیٰ تم کو اس قافلہ میں سے غنیمت عطاء فرمائے ۔‘‘
12رمضان المبار ک کو مسلمانوں کا لشکر جو ’’تین سو تیرہ ‘‘ خوش نصیبوں پر مشتمل تھا ۔مدینہ سے بد ر کی سمت روانہ ہوا ۔کیونکہ بدر ، مدینہ شریف اور مکہ شریف کے راستوں کا قریب ترین مقام تھا ۔جب تین سو تیرہ نفوس قدسیہ دو گھوڑوں اور چھ اونٹوں پر مشتمل یہ لشکر ’’صفواء‘‘ نامی مقام پر پہنچا تو آپ ﷺ نے احوال معلوم کرنے کیلئے ایک دستہ آگے روانہ فرمایا ۔خبر ملی کہ کفار کے جم غفیر کے پاس ساز و سامان کی کوئی کمی نہیں ہے ۔آپ ﷺ نے تمام صورتحال صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے سامنے رکھی اور مشورہ طلب فرمایا ۔سب سے پہلے یار باوفاء سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ پھر سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ عرض گزار ہوئے اور جانثاری و وفاداری کا اظہار فرمایا ۔پھر مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ اٹھے اور یہ الفاظ کہے جو ملت اسلامیہ کے لئے قابل فخر سرمایہ ہیں ’’اے اللہ کے رسول ﷺ! آپ کو جو حکم خدا کی طرف سے ملا ہے بلا جھجک اس کو گذارئیے ۔ہم دل و جان سے آپ ﷺ کے ساتھ ہیں ۔خدا کی قسم! ہر گز ہم اس طرح نہیں کہیں گے ۔جیسے بنی اسرائیل نے موسیٰ علیہ السلام سے کہا تھا کہ آپ اور آپ کا خدا دشمن سے لڑیں ہم تو یہیں بیٹھے ہیں ۔ہم تو اس کے بر عکس عرض کرتے ہیں۔ آپ جنگ کریں ہم آپ کے ساتھ ہیں ۔آپ کے دوش بدوش جنگ کریں گے ۔‘‘
بخاری کی روایت میں یہ الفاظ ہیں ۔’’ہم آپ کے دائیں بائیں اور آگے پیچھے چاروں طرف سے لڑیں گے۔‘‘ حدیث کے راوی حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے اس وقت دیکھا کہ رسول اللہ ﷺ کا چہرۂ انور فرط مسرت سے چمک اٹھا ۔ (بخاری شریف جلد2صفحہ564)
انصار کی طرف سے حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ نے تاریخی الفاظ ارشاد فرمائے :’’ اے اللہ کے رسول ﷺ ہم آپ پر ایمان لائے ہیں ۔ہم نے آپ کی اطاعت کا عہد کر رکھا ہے جو حکم ہو گا اسے بجالائیں گے ۔آپ بلا تامل اپنا ارادہ پورا فرمائیں ۔ہم دل و جان سے آپ کا ساتھ دیں گے ۔قسم ہے اس ذات پاک کی جس نے آپ کو حق دے کر بھیجا ہے ۔اگر آپ ہم کو سمندر میں کود جانے کا حکم دیں گے تو ہم سارے سمندر میں خود پڑیں گے اور ہم میں سے ایک شخص بھی پیچھے نہ رہے گا۔‘‘
پیغمبر اسلام ﷺ اپنے اصحاب رضی اللہ عنہم کے یہ جانثار انہ جوابات سن کر مسرور ہوئے اور فرمایا :’’ اللہ کے نام پر چلو ، تمہیں خوشخبری ہو کیونکہ اللہ تعالیٰ نے مجھ سے یہ وعدہ فرمایا ہے کہ ابو جہل یا ابو سفیان کی دو جماعتوں میں سے کسی ایک جماعت پر ضرور فتح و نصرت عطاء کروں گا۔‘‘(زرقانی جلد 1صفحہ616)
صف بندی: چونکہ کفار پہلے میدان بدر میں پہنچ گئے تھے ۔ چنانچہ یہاں پر سالار اسلام حضرت محمدمصطفیٰ ﷺ نے بہترین عسکری اہمیت کے فیصلے کئے۔ آپ ﷺ نے مکے سے آنے والے راستوں کو بھی نوٹ کر لیا ۔نیز اس امر کو بھی ملحوظ رکھا کہ جنگ کے دوران سورج کی تیز شعاوئوں سے مسلمان سپاہیوں کی آنکھیں خیرہ نہ ہو سکیں ۔اس چشمے کے قریبی ٹیلے پر یعنی لشکر کے پڑائوسے ذرا اونچائی پر حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کے مشورے سے آپ ﷺ کے لئے عریش (چھپر) بنوایا گیا تاکہ آپ ﷺ وہاں سے میدان جنگ کو بچشم خود دیکھ سکیں ۔آج کل اس جگہ ایک مسجد ہے ۔ جسے ’’مسجد عریش ‘‘ کہا جاتا ہے ۔
تین سو تیرہ جان نثاران اسلام ایک ہزار سپاہ سے لڑنے کے لئے تیار تھے ۔لڑائی سے قبل حضور اکرم ﷺ ایک چھڑی ہاتھ میں لئے میدان میں نکل آئے اور صفوں کو درست کیا ۔نیز کفار کے سرداروں کے مرنے کی جگہ نشانات لگائے جو علم غیب نبی ﷺ ہے۔لشکر کے میمنہ اور میسرہ پر سالار متعین کئے ۔نیز تمام لشکر کی تین جماعتیں بنائیں اور ہر ایک کو علیحدہ علیحدہ علم عطاء فرمائے ۔اس سے فارغ ہو کر آپ نے لشکر اسلام کو جو ہدایات دیں وہ اس طرح تھیں ۔
٭صفوں کو راستوںپر رکھا جائے ۔٭دوران جنگ اطاعت امیر کی سختی سے پابندی کی جائے ۔٭تیر صرف اس وقت چلائے جائیں جب کہ دشمن زد میں آجائے۔٭دشمن پیش قدمی کرے تو اس پر سنگباری کی جائے۔٭اگر قریب تر پہنچ جائے تو اس صورت میں نیز وں اور تلواروں سے مقابلہ کیا جائے ۔
سپہ سالار اسلام ﷺ نے حکم دیا کہ: جب تم قتل کرو تو اچھی طرح سے قتل کرو۔ نیز ضعیفوں ،کمزوروں ،زخمیوں ، عورتوں ، بچوں اور غیر محاربین (نہ لڑنے والے) پر ہتھیار چلانے کی ممانعت فرمائی ۔ایک آیت قرآن بھی اس وقت نازل ہوئی ۔واضربوا منھم کل بنان۔’’ان کے جوڑوں پر مارو!‘‘ معلوم ہواتاک تاک کر دشمنوں کو مارو۔نیز آپ ﷺ نے انتہائی دور اندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک محفوظ دستہ علیحدہ رکھا تاکہ نازک موقع پر کام آسکے اور زخمیوں کی مرہم پٹی کرنے ، سپاہیوں کو پانی پلانے اور میدان جنگ میں گرے ہوئے تیروں کو جمع کر کے مجاہدین کے حوالے کرنے کیلئے عورتوں کی جماعتیں بھی متعین فرمائیں ۔
تاریخ انسانی کا یادگار معرکہ:بالا ٓخر مدینہ منورہ سے 80میل دور مقام بدر پر 17رمضان المبارک 2ھ کو وہ عظیم معرکہ بپا ہوا جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی جرأت و شجاعت، بہادری و جانبازی ،اللہ کی مدد اور نصرت اور نبی کریم ﷺ کی بہترین عسکری حکمت عملی کی مثال کے طور پر تاریخ عالم میں جانا جاتا ہے ۔حضور اکرمﷺ نے دعا فرمائی ۔’’خدا یا تونے مجھ سے وعدہ کیا ہے اسے پورا کر۔ اگر آج تیرے یہ چند بندے مٹ گئے تو پھر قیامت تک کوئی تیرا نام لیوا نہیں رہے گا۔‘‘چنانچہ اس دن صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی مختصر سی جماعت نے جو تعداد اور ساز و سامان دونوں لحاظ سے دشمن سے کم تھی ایسی جرأت ،ہمت اور استقلال سے مقابلہ کیا اور اپنے امیر جناب رسول خدا ﷺ کی ایسی اطاعت کی اور رسول خدا ﷺ نے ایسے بروقت اور بر محل ماہرانہ فیصلے فرمائے کہ جن سے جنگ کا نتیجہ حیرت انگیز طور پر مسلمانوں کے حق میں نکلا اس جنگ میں ستر کافر مارے گئے ۔ستر گرفتار ہوئے اور چودہ مسلمان مقام شہادت سے سرفراز ہوئے ۔اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی برحق ﷺ کی دعا قبول کر لی اور کفا ر کو ذلیل و خوار کر دیا ۔
جنگ بدر اصول جنگ کی روشنی میں:غزوہ بدر کی تفصیلات پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ تمام اصول و قوانین جو آج دنیا نے برس ہا برس کی جنگوں کا تجربہ کر کے بنائے ہیں ۔ان پر سپہ سالار کا تجزیہ کر کے بنائے ہیں ۔ان پر سپہ سالار اسلام حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ نے آج سے چودہ سو سال پہلے عمل فرمایا تھا ۔آئیے ان اصول و قوانین جنگ کی روشنی میں غزوہ بدر کا جائزہ لیتے ہیں ۔٭اصل مقصد کا پیش نظر ہونا ۔٭بر وقت اقدام ۔ ٭فوج کی حفاظت۔٭قوت کا محتاط استعمال۔٭باہمی تعاون ۔ ٭زمین کا استعمال ۔٭جاسوسی۔
اصلی مقصد:ایک اچھے قائد کے سامنے اصلی مقصد دشمن کی اصلی فوج کو تباہ کرنا ہوتا ہے ۔نپولین اکثر کہتا تھا ۔’’میرے سامنے ایک ہی چیز ہوتی ہے ۔ دشمن کی اصلی فوج۔‘‘کالزوٹز اپنی کتاب ’’اصول جنگ‘‘ میں رقم طراز ہے ۔ ’’ہمارا مقصدیہ ہونا چاہیے کہ دشمن کے اصلی قالب پر حملہ کر کے اسے تباہ کیا جائے ۔اس مقصد کے حصول کے لئے ہمیں اپنا ساراز و رلگادینا چاہئے۔‘‘جنگ بدر میں رسول اللہ ﷺ نے دشمن کی اصل قوت کو تباہ کرنے کے لئے ہر ممکن تدبیر اختیار فرمائی ۔ جب کفار کے لشکر جرار کو ریت کے طوفان نے آگھیر ا تو رسول اللہ ﷺ نے عین موقع پر حملہ کر کے دشمن کے قلب لشکر کو تباہ کر دیا ۔
بروقت اقدام :قدیم چینی سپہ سالار جنرل سنتزو کے خیال کے مطابق دشمن کی شکست ہمارے اقدام کی صلاحیتوں میں مضمر ہوتی ہے اور ’’برن ہارڈی‘‘ کا قول ہے کہ : ’’اقدام جنگ کا زیادہ طاقتور طریقہ ہے۔‘‘اقدامی جنگ کے بہت سے فوائد ہیں ۔مثلاً:
٭اقدامی جنگ کے لئے وقت اور مقام کا انتخاب حاصل رہتا ہے ۔
٭اقدامی یعنی حملہ آور فوج اچانک حملہ کر کے دشمن کے غیر محفوظ علاقہ پر قبضہ کر سکتی ہے ۔
٭اچانک اقدام یعنی شب خون کے ذریعے دشمن کی رسد ختم کی جا سکتی ہے ۔نیز اس کے سلسلہ رسل کو منقطع کیا جا سکتا ہے ۔
٭اقدام کرنے والی فوج زخمی سپاہیوں کی مناسب دیکھ بھال کر سکتی ہے ۔جب کہ دفاع کرنے والی فوج کے زخمیوں کو حملہ آور فوج گرفتار کر لیتی ہے ۔
٭جنگ بدر میں رسول اللہ ﷺ نے اگر چہ دفاعی خط قائم کیا تھا ۔تاہم مناسب موقع پاتے ہی بر وقت اقدام بھی کیا اور دشمن کے دائیں بازو پر اپنے دستوں کو جمع کر دیا ۔اس طرح آپ نے کامیاب جرنیل ہونے کا ثبوت دیا ۔
فوج کی حفاظت:جنگ میں فوجوں کی حفاظت کی ذمہ داری امیر لشکر پر عائد ہوتی ہے ۔بے موقع محل فوجوں کو بے دریغ لڑانا بھی ہلاکت کا باعث ہوتا ہے ۔’’مارشل فاش‘‘ کہتا ہے ۔اقدام میں نسبتاً زیادہ تحفظ کی ضرورت ہوتی ہے ۔
راہنسن کا کہنا ہے ۔لڑائی میں تحفظ کی بہترین شکل یہ ہے کہ آپ اپنے ارادہ کو دشمن پر مسلط کر دیا کریں۔
جنگ بدر میں حضور اکرم ﷺ نے اسلامی فوج کی حفاظت کی ہر ممکن صورت اختیار فرمائی تھی ۔آپ ﷺ نے اسلامی لشکر کے اگلے دستوں کی حفاظت کے لئے کچھ محفوظ دستے بھی مقرر فرمائے تھے۔ جس سے تمام لشکر دشمن کے حملوں سے محفوظ رہا ۔
قوت کا محتاط استعمال:محفوظ قوت کا رکھا جانا نہایت ضروری ہوتا ہے ۔کیونکہ دشمن کسی حصے پر گھیرا ڈالنے کی کوشش کرے تو محفوظ افواج عقب لشکر سے نکل کر دشمن کر پسپا ہونے پر مجبور کر سکتی ہے ۔نیز جب دشمن گھیرے میں لے لیا جائے تو سپہ سالار کو چاہئے کہ اپنی قوت اور وسائل کا جائزہ لے کر مناسب فیصلہ کرے۔اس سلسلے میں ’’سنتزو‘‘ کا کہنا ہے ۔دشمن کو نرغے میں لینے کے بعد اپنی قوت اور وسائل کا جائزہ لیجئے ۔اگر اسے کچل دینا آپ کے بس میں ہوتو اس کا بالکل صفایا کر دیجئے ۔ورنہ اسے بے جگری سے لڑنے پر مجبور نہ کیجئے، بلکہ ایک طرف سے نکل جانے کا راستہ دیجئے ۔(اصول جنگ)
جنگ بدر میں امیر لشکر نبی کریمﷺ نے بھی اپنی مختصر سی قوت کا استعمال بڑی احتیاط سے کیا ۔تین سو تیرہ سپاہیوں کو دائیں بائیں مختلف دستوں میں تقسیم کیا ۔اس کے علاوہ ایک محفوظ دستہ علیحدہ کیا اور دوران جنگ دشمن پر اس وقت تک تیر اندازی سے مانع رہے جب تک دشمن مکمل طور پر زد میں نہیں آ گیا ۔یوں تیر بھی ضائع نہ ہوئے اور دشمن کا خاتمہ بھی ہو گیا ۔نیز جنگ کے خاتمے کے بعد آپ ﷺ نے تمام وسائل کاجائزہ لیا اور دشمن کا تعاقب نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس لئے کہ تمام لشکر میں اونٹ نہ ہونے کے برابر تھے ۔اگر آپ ایسا نہ کرتے تو دشمن بے جگری سے لڑنے پر مجبور ہوجاتا ۔اس طرح مسلمانوںکو نقصان پہنچ جانے کا اندیشہ تھا ۔لیکن سپہ سالار اسلام ﷺ نے نہایت ماہرانہ فیصلہ پل بھر میں کر لیا ۔
باہمی تعاون:فوج کے سپاہیوں اور مختلف دستوں میں تعاون فتح کے لئے نہایت لازمی امر ہے اور جہاں آپس میں اختلاف دلوں میں نفاق جیسا موذی مرض ہو وہاں بجائے فتح کے شکست وریخت مقدر بن جاتی ہے ۔جنگ بدر میں مسلمانوں کی کامیابی کی ایک بڑی وجہ باہمی تعاون بھی تھا ۔تاریخ شاہد ہے جہاں بھی اختلاف اور نفاق آجائے لشکر ہی نہیں بڑی بڑی سلطنتیں تباہ بر باد ہو گئیں ۔
زمین کا استعمال :جنگ کے لئے نشیبی زمین نہایت مضر ہوتی ہے ۔روشنی اور دھوپ کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے تاکہ لڑائی کے وقت سورج کی شعاعیں سپاہیوں کی آنکھوں کو چند ھیانہ دیں ۔ جنگ بدر میں سپہ سالار اسلام حضرت محمد مصطفیٰ ﷺنے زمین کا ماہرانہ استعمال فرمایا ۔آپ ﷺ نے حوض پر پوری طرح قبضہ کر لیا اور مسلمانوں کو پانی کی کمی کی دقت سے بچالیا ۔نیز تیر اندازوں کو بہترین جگہوں پر متعین کیا اور اس امر کا بھی خاص لحاظ رکھا کہ سورج کی شعائیں مسلمانوں کی آنکھوں کو خیرہ نہ کر سکیں ۔حتیٰ کہ اپنی نقل و حرکت سے دشمن کو ایسی جگہ پڑائو ڈالنے پر مجبورکر دیا جو ر یتلی اور کیچڑ ہونے کے باعث جنگ کے لئے نہایت نامناسب تھی ۔ بالا ٓخریہ ریتلی زمین دشمن کی ہلاکت کا باعث ہو گئی ۔
جاسوسی:فتح کے لئے ضروری ہے کہ دشمن کی نقل و حرکت اور حربی وسائل کا پہلے ہی سے علم ہو اور اس کے لئے جاسوسی نہایت ضروری ہے ۔سنتزو کہتا ہے ۔ اگر آپ اپنی اور دشمن کی طاقت سے اچھی طرح واقف ہوں تو سو لڑائیوں سے بھی خوف نہ کیجئے ۔اگر آپ اپنے سے واقف ہوں ۔لیکن دشمن کی قوت سے ناواقف ہوں تو ہر لڑائی میں آپ کو شکست ہونا ضروری ہے ۔
جنگ بدر میں آپﷺ کی اطلاعات کا نظام مکمل تھا ۔ دشمن کی ہر حرکت کی خبریں آپﷺ تک پہنچ رہی تھیں اور جنگ کے دوران بھی سانڈنی سوار پھرتی کے ساتھ پیغام رسانی کا کام نہایت حسن و خوبی سے سر انجام دے رہے تھے ۔حضور اکرم ﷺ نے لشکر اسلام کے لئے جاسوسی کا نہایت مربوط انتظام فرمارکھا تھا ۔یہی وجہ تھی کہ دشمن کی حرکت سے پہلے آپ باخبر ہو جاتے اور مناسب جواب کیلئے بھی وقت سے پہلے تیار رہتے۔
معرکہ بدر سے حاصل سبق:کفر و اسلام کے پہلے معرکہ میں نہ صرف رسول عربی ﷺ کی قائدانہ صلاحیتیں اور حربی امور کی ماہرانہ اصول اجاگر ہوئے ۔بلکہ اس عظیم معرکے میں مجاہدین اسلام کے لئے بہت سے قیمتی اسباب پوشیدہ ہیں ۔غزوہ بدرمیں ابتداء سے آخر تک آپ ﷺ نے دفاع ،حملہ اور دوسرے اہم مراحل میں لشکر اسلام پر مکمل کنٹرول قائم رکھا ۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے جذبہ جہاد و شہادت کو اجاگر کیا اور ہر حال میں امیر کی اطاعت کا حکم دیا۔ چنانچہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے میدان جہاد میں جتنے بھی کارہائے نمایاں سر انجام دئیے ۔یہ تمام ’’اطاعت امیر‘‘ کا نتیجہ تھے ۔ یہی وجہ تھی کہ اس ’’تین سو تیرہ‘‘ کے بظاہر معمولی لشکر نے وہ غیر معمولی کام کر دکھایا جو تاریخ اسلام کے ماتھے کا ’’جھومر ‘‘ ہے ۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں جذبہ جہاد اور جذبہ اطاعت اس قدر موجزن تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو کبھی مایوس نہ کیا ۔بلکہ ان کی نصرت کے لئے فرشتوں کے غول کے غول بھیج کر فتح و نصرت کو مسلمانوں کی جھولی میں لا ڈالا :
فضائے بدر پیدا کر فرشتے تیری نصرت کو اتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی
معرکہ بدر نے یہ ثابت کر دیا کہ محض وسائل اور سپاہیوں کی کثرت فتح و نصرت کے لئے کافی نہیں ۔بلکہ ایمان کی قوت اور جذبہ جہاد و شوق شہادت کی بدولت کوئی بھی اقلیت اکثریت پر غالب آسکتی ہے ۔بس مصمم ارادوں کی ضرورت ہے ۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے پیارے حبیب مکرم ﷺ کے وسیلہ سے دین و دنیا میں کامیابی عطا فرمائے ۔آمین
..:: Follow us on ::..
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں