حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا عرب کی
ایک مشہورو معروف ، مال دار، نہایت نیک ، پاک باز اور شریف تاجرخاتون تھیں
۔ جن کی شرافت کو دیکھ کر لوگ اُن کو’’ طاہرہ‘‘یعنی ’’پاک باز‘‘ کے نام سے
یاد کرتے تھے۔ وہ اپنا مال و اسباب تاجروں کو دیا کرتی تھیں ۔ تجارت پیشہ
حضرات جب اُن کا مال فرخت کردیا کرتے تھے تو وہ انھیں اپنے منافع میں شامل
کرتی تھیں۔ اس زمانے میں قبیلۂ قریش کے لوگ بڑے مانے ہوئے تاجر سمجھے جاتے
تھے۔ خصوصاً رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اُن کی امانت داری اور سچائی
کی وجہ سے لوگ ’’امین‘‘ اور ’’صادق‘‘ کے خطاب سے یاد کرتے تھے۔
حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہاکو جب رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق و
عادات اور شرافت و دیانت کا پتا چلا تووہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت ہی
زیادہ متاثر ہوئیں اور انھوں نے نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ پیغام
بھیجا کہ اگر آپ میرا مال لے کر تجارت کے لیے ملک شام تشریف لے جائیں تو
مَیں جتنا حصہ دوسروں کو دیتی ہوں آپ کو اُن سے دُگنا دوں گی۔ اس سفر میں
حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہانے رسولِ کونین صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنے
ایک غلام میسرہ کو بھیجنے کی پیش کش بھی کی۔
نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی اِس نیک تاجر خاتون کی عادات و اطوار سے
واقف تھے ۔ چناں چہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے
اِس پیغام کو قبول فرمالیا۔ چند روز بعد حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہاکے مالِ
تجارت اور میسرہ کو ساتھ لے کرنبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم ملکِ شام کے
سفر پر روانہ ہوئے۔ شام میں نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جگہ پر
قیام فرمایا۔ وہاں عیسائیوں کی ایک عبادت گاہ تھی جس کے قریب ہی ایک درخت
بھی تھا۔ پیارے نبی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم اُس درخت کے نیچے
بیٹھ گئے۔ گرجا گھر میں ایک راہب تھا جب اُس نے نبیِ کریم صلی اللہ علیہ
وسلم کے مبارک اور روشن چہرے کو دیکھا تو بہت متاثر ہوا ۔ اُس نے حضرت
خدیجہ رضی اللہ عنہاکے غلام میسرہ سے پوچھا:
’’ اُس درخت کے نیچے بیٹھا ہوا آدمی کون ہے؟ ‘‘
اُس نے جواب دیا: ’’ یہ ایک قریشی نوجوان ہے جو مکہ میں رہتا ہے۔ ‘‘
اُس راہب نے کہا : ’’ میرا بڑا طویل تجربہ ہے ۔ جس درخت کے نیچے تمہارا یہ
ہم سفر ساتھی بیٹھا ہوا ہے اُس کے نیچے آج تک نبی کے بغیر کوئی نہیں بیٹھ
سکا ۔ ‘‘
پھر چندہی روز میں نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت خدیجہ رضی اللہ
عنہاکے جو تجارتی سازوسامان وغیرہ اپنے ساتھ لائے تھے اُسے اچھے داموں میں
فروخت کیا اور جو کچھ خریدنا چاہتے تھے وہ سب خریدا اور پھر مکۂ مکرمہ کے
لیے واپس روانہ ہوئے۔
کتابوں میں آتا ہے کہ میسرہ کا بیان ہے جب دوپہر کے وقت شدید گرمی ہوتی تو
دو فرشتے آتے اور نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر سایا کرتے اور آپ اپنے
اونٹ پر سوار اپنا سفر جاری رکھے ہوئے ہوتے۔ جیسے جیسے آپ آگے بڑھتے جاتے
سایا بھی ساتھ ساتھ چلتا۔ شام سے واپس ہوکر جب نبیِ کریم صلی اللہ علیہ
وسلم کی سواری مکۂ مکرمہ میں داخل ہوئی تو دوپہر کا وقت تھا، اُس وقت حضرت
خدیجہ رضی اللہ عنہا اپنے بالا خانے میں بیٹھی ہوئی تھیں ان کی نظر نبیِ
کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر پڑی تو دیکھا کہ دو فرشتے آپ پر سایا کیے ہوئے
ہیں ۔
جب نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم مکۂ مکرمہ واپس تشریف لائے اور حضرت
خدیجہ رضی اللہ عنہا کو وہ مال پیش کیا تو اُس کا منافع عام حالات سے بڑھ
کر کئی گنا یا اُس کے قریب ترتھا۔اسی طرح میسرہ نے حضرت خدیجہ رضی اللہ
عنہا کوشام کے راہب اور دوفرشتوں کا سایا کرنے والے واقعات سنائے تو حضرت
خدیجہ رضی اللہ عنہا نے آپ کی امانت و شرافت ، عام حالات سے بڑھ کر منافع
اور دیانت داری دیکھ کر بہت زیادہ متاثر ہوئیں۔
| |
|
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں