ہفتہ، 27 مئی، 2017

Hazrat Kadijatul Kubra Ka Pyare Nabi Ko Nikah Ka paigham Awr Izdwaji Zindagi

حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کا پیارے نبی ﷺ کو نکاح کا پیغام اور ازدواجی زندگی


ڈاکٹر مشاہدرضوی ، مالیگاؤں انڈیا کی کتاب ام المؤمنین خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا سے ایک ورق

حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا خود بھی بڑی سمجھ دار، نہایت مدبرہ اور بہت عقل مند خاتون تھیں ۔ آپ نے جب نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ صفات اور اَخلاقِ کریمانہ دیکھا تو اِتنا متاثر ہوئیں کہ انھوں نے رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس یعلیٰ بن امیہ کی بہن نفیسہ کے ذریعہ ایک پیغام بھیجا ۔ جس میں آپ نے عرض کیا کہ :
’’ مجھے اچھی طرح معلوم ہے کہ آپ اپنی قوم (خاندان) میں نہایت شریف ، دیانت دار ، باعزت ، امیٖن ، صادق ، اور انتہائی کریمانہ اَخلاق کے حامل ہیں اور پھر میری آپ سے اتنی رشتہ داری تو پہلے ہی سے ہے کہ آپ خاندانِ قریش کے قابلِ فخر فرزند ہیں اور مَیں بھی قریش قبیلہ سے ہی ہوں۔اگر آپ مجھ سے شادی کرلیں تو یہ میرے لیے بہت بڑی سعادت کی بات ہوگی اور مَیں زندگی بھر آپ کی احسان مند رہوں گی۔ ‘‘

جب نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا یہ پیغام پہنچا تو آپ نے اپنے چچا حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ اور ابوطالب سے اس سلسلے میں مشورہ فرمایا۔ انھوں نے اس رشتے کو بہ خوشی پسند فرمایا خود نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس رشتے کو منظور فرمالیا۔ چناں چہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ حضرت خدیجہ کے والد خویلد بن اسد کے پاس گئے اور نکاح کا پیغام دیا۔جسے انھوں نے خوشی خوشی منظور کرلیا۔ بعد اس کے نکاح کے لیے حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ اور ابوطالب اور خاندان کے دوسرے بزرگ حضرات حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہاکے مکان پر آئے اور نکاح عمل میں آیا۔ روایتوں میں آتا ہے کہ نکاح کے وقت حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے والد وفات پاچکے تھے۔ اس لیے اس نکاح میں ان کے چچا عمر بن اسد شریک تھے اور اُن کے علاوہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے اپنے خاندان کے دوسرے بزرگوں کو بھی نکاح میں دعوت دی تھی۔ عمرو بن اسد کے مشورہ سے ۵۰۰؍ درہم مہر مقرر ہوا ۔ ابوطالب نے نکاح کا خطبہ پیش کیا۔ اس طرح حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا حضور نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح میں آکر ام المؤمنین کے خطاب سے سرفراز ہوئیں۔

نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے بہت محبت فرمایا کرتے تھے ۔ جب تک آپ ظاہری طور پر زندہ رہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسری شادی نہ فرمائی۔ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو جس قدر اولاد ہوئی وہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا ہی سے ہوئی البتہ ایک بیٹے حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا سے پیدا ہوئے۔

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ :
’’ زمانۂ جاہلیت میں مکّہ والوں کی عورتیں ایک خوشی کے موقع پر جمع ہوئیں اُن میں حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا بھی موجود تھیں ۔ اچانک وہیںایک شخص ظاہر ہوا۔ جس نے بلند آواز سے کہا کہ اے مکّہ کی عورتو! تمہارے شہر میں ایک نبی ظاہر ہوگا، جسے لوگ احمد کہیں گے ، تم میں سے جو عورت اُن سے نکاح کرسکے ضرور کرے۔ یہ بات سُن کر دوسری عورتوں نے بھُلادیا لیکن حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے گرہ باندھ لی اور اس پر عمل کرکے کامیاب ہوکر رہیں۔ ‘‘

نبیِ کریم ﷺ کے بارے میں ورقہ بن نوفل کی تصدیق
حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا بھی قبیلۂ قریش سے تھیں ۔ وہ خویلد بن اسد کی بیٹی تھیں ۔ اُن کے ایک چچا زادبھائی ورقہ بن نوفل کے نام سے جانے جاتے تھے۔ جن کا عرب میں ایک بڑا مقام و مرتبہ تھا۔ وہ عیسائی اور آسمانی کتابوں کے ایک جیّد عالم تھے۔ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آسمانی کتابوں میں بیان کی گئی نشانیوں اور علامتوں کو انھوں نے پڑھ رکھا تھا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے تو ورقہ بن نوفل نے عرب کے لوگوں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں کافی باتیں سنیں۔ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عادات و اطوار اور اَخلاقِ کریمانہ کے واقعات اُس زمانے میں کافی عام ہوچکے تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب کہ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی نبوت کا اعلان نہیں فرمایا تھا۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے جب ورقہ بن نوفل سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کیا تو انھوں نے کہا کہ :
’’ اے خدیجہ ! دیکھو جو کچھ مَیں لوگوں سے سُن رہا ہوں اگر یہی سچ ہے تو یہ آدمی ضرور بہ ضرور اِس اُمّت کا نبی ہوگا۔‘‘ ورقہ بن نوفل نے مزید یہ کہا کہ :’’ مجھے اچھی طرح معلوم ہے کہ لوگ ایک مدت سے ایک نبی کا انتظار کررہے ہیں۔ ‘‘

ابوطالب کا خطبۂ نکاح
حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے گھر حضور نبیِ کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے چچاسید الشُہَداء حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ اور ابوطالب کے علاوہ خاندان کے دوسرے بزرگ اور قبیلہ مضر کے دوسرے بڑے بڑے سردار جمع ہوئے ۔ اس موقع پر ابوطالب نے ایک بڑا پیارا اور بلیغ خطبہ دیا جس کا ترجمہ ذیل میں پیش کیا جارہا ہے:
’’ تمام تر تعریفیں اللہ عزوجل کے لیے ہیں۔ جس نے ہم کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی نسل میں سے پیدا فرمایا۔ پھر ہماری نسل کو معد اور مضر قبیلے سے منتخب کیا۔ اس پر خوبی یہ کہ ہمیں اللہ تعالیٰ نے بیت اللہ کا محافظ اور متولی بنایا۔ ہمارے لیے ایک ایسا گھر بنایا کہ جس کا ارادہ کرکے لوگ دور دراز سے آتے ہیں اور حج کرتے ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس گھر کو امن و سلامتی کا مرکز بنایا اور ہمیں تمام لوگوں پر برتری بخشی۔

میرا یہ پیارا بھتیجامحمد ابن عبداللہ(ﷺ) ایسی عظمت اور شان و شوکت والا ہے کہ دنیا کے کسی بھی آدمی سے اِس کا موازنہ کیا جائے تو یہی بلند رتبے والا اور بڑی شان والا ثابت ہوگا۔ اگرچہ اس کے پاس مال و دولت نہیں لیکن مال و دولت تو ویسے بھی آنے جانے والی چیز ہے اس کا کوئی بھروسہ نہیں۔

محمد (ﷺ) سے میری کیا رشتے داری ہے یہ تم سب لوگ اچھی طرح سے جانتے ہو۔ انھوں نے خدیجہ بنت خویلد بن اسد کو نکاح کا پیغام دیا ہے اور اس کے لیے انھوں نے مہر بھی مقرر کی ہے۔ اللہ کی قسم ! اس کے بعد میرے پیارے بھتیجے کی شان بڑی بلند و بالا اور عظمت و رفعت والی ظاہر ہوگی۔‘‘

یہ فصاحت و بلاغت سے بھرا ہوا خطبہ دے کر ابوطالب نے نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نکاح حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے کرادیا۔

حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے تحفے تحائف
صحابیِ رسول حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ :’’ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں وقتاً فوقتاً کچھ تحفے تحائف اور ہدیے وغیرہ بھیجا کرتی تھیں۔تاکہ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم وہ تحفے اور ہدیے اُن کی طرف سے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے والد خویلد کو پیش کریں جس کی وجہ سے خویلد کے دل میں محبت پیدا ہوجائے اور وہ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہاکا نکاح کروانے کے لیے راضی ہوجائیں۔‘‘

تمام علماے اسلام اس بات پر متفق ہیں کہ نبوت کے اعلان سے پہلے نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا ہی سے نکاح فرمایاتھااور جب تک اُن کی وفات نہ ہوئی آپ نے دوسری شادی نہ فرمائی جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شادی حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے ہوئی تو اُس وقت ام المؤمنین حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی عمر چالیس سال تھی۔ وہ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چوبیس سال رہیں جب آپ کی وفات ہوئی تو عمر شریف اکسٹھ سال اور دوسری روایت میں پینسٹھ سال تھی۔

..:: Follow us on ::..

http://www.jamiaturraza.com/images/Twitter.jpghttp://www.jamiaturraza.com/images/Facebook.jpg

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

ٹیوٹر اپڈیٹس دیکھیں اور فالو کریں