پیر، 8 مئی، 2017

Kya Ahle Sunnat Kahelwana Jaez Hae?


کیا اہلِ سنت  کہلوانا جائز ہے؟
محمد افتخار الحسن رضوی
سوال:    قرآن میں اللہ تعالٰی نے مسلمانوں کو صرف "مسلم" کہہ کر مخاطب کیا ہے،  اہلِ سنت کہہ کر نہیں پکارا۔  تو کیا قرآن و سنت کی روشنی میں خود کو "اہلِ سنت" کہلوانا جائز ہے؟

الجواب:                    الحمد للہ رب العٰلمین والصلاۃ والسلام علٰی سید المرسلین  وعلٰی اٰلہ واصحابہ اجمعین
مسلمانوں نے ابتدائی دور سے ہے  فتنوں اور منافقوں کا سامنا کیا ہے۔ حالیہ  چند برسوں میں  ایک نئی شرارت نے جنم لیا ہے جو دیگر عناصر سے مل کر مسلمانوں میں جدید طرز پر  تفریق، انکارِ حدیث اور ائمہِ مجتہدین  کی  تحقیقات  پر اپنی  سوچ کو مسلط کرنے کی  کوشش  کر رہے ہیں۔ انہیں میں سے ایک شرارت خود کو صرف "مسلمان" کہلوا کر  "اہل سنت و جماعت" کا انکار کرنا ہے۔   اس سلسلہ میں  ایک نیا فرقہ پیدا ہو گیا ہے جو خود کو "جماعت المسلمین" کہلواتا ہے۔ اس نئے فرقے  کا خود کو  "جماعت المسلمین " کہلوانا از خود ایک نئے فرقے کی بنیاد رکھنے کے مترادف ہے۔   ذیل کی سطور میں ہم   چند روایات کی روشنی میں یہ  بتائیں گے کہ  "اہل سنت  و  جماعت"  برحق ہیں اور یہ نام اللہ تعالیٰ کے حبیب کریم ﷺ، ائمہ  کرام اور اکابرین اسلام کا  عطا کردہ مروجہ ، مسلمہ و مصدقہ اور نشانِ نجات و منزل ہے۔
سب سے پہلے ایک طویل روایت پیشِ خدمت ہے، اسے بغور پڑھیں گے تو فرقوں کی ابتداء بھی سمجھ آ جائے گی اور پھر اس پر رسول اللہ ﷺ کا فرمان حق کو مزید روشن فرما دے گا؛
امام ابویعلٰی رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ(307-210ھ)اپنی ''مُسْنَد ''میں فرماتے ہیں کہ ابو خیثمہ ، عمر بن یونس سے ، وہ عکرمہ بن عمار سے، وہ یزید رقاشی سے ،اور وہ حضرت سيدنا اَنَس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روايت کرتے ہيں کہ نبی غیب دان ﷺ  کے زمانہ    مبارکہ میں ایک شخص ہمارے ساتھ غزوات میں شریک ہوتا تھا جب وہ جہادسے واپس لوٹتاتواپنی سواری کو ایک جانب باندھ کر مسجد کا رخ کرتا اور نماز پڑھنے میں مشغول ہوجاتانما ز کو خوب طول دیتا (یعنی لمبی کرکے پڑھتا) یہاں تک کہ بعض صحابہ کرام علیہم الرضوان اسے خودسے افضل گمان کرنے لگے ۔

    ایک دن نبی ِمُکَرَّم،نُورِ مُجسَّمﷺ  صحابہ کرام علیہم الرضوان کے ساتھ تشریف فرماتھے کہ وہ وہاں آیا توکسی صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ ﷺ کی بارگاہ ميں عرض کی :''یا رسولَ اللہ عزوجل و ﷺ ! یہ وہ شخص ہے جس کی طرف یہاں آنے کے لئے یا تو اللہ عزوجل نے پیغام بھیجا ہے یا خود ہی آگیا ہے۔'' جب  نبیِ غیب دان   نے اسے آتے ہوئے دیکھا تو ارشاد فرمایا:'' قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ    قدرت میں میری جان ہے ! اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان شيطان کی طرف سے سیاہی (يعنی بدبختی) ہے ۔''

    جب وہ مجلس کے پاس رُکاتورسولِ کریم    نے  (غیب  کی خبر دیتے ہوئے) اس سے پوچھا:''جب تُو مجلس کے پاس ٹھہراتھا توکیا تو  نے اپنے دل میں یہ نہ کہا تھا کہ ان لوگوں میں سے کوئی بھی مجھ سے بہتر نہیں ؟ '' اس نے جواب ديا : '' ہاں! ایسے ہی کہا تھا ۔'' یہ کہہ کر وہ چل دیا پھر وہ مسجد کے ایک کونے میں آیا ۔ اوراپنے پاؤں کے ساتھ ایک خط کھینچا پھر اپنے ٹخنوں کو سیدھا کیا اورکھڑے ہوکر نماز پڑھنے لگا ۔

    اللہ کے مَحبوب،دَانائے غُیوب، مُنَزَّہ ٌعَنِ الْعُیوب   نے ارشاد فرمایا:'' تم میں سے کون ہے جو اس کی طر ف جائے اور اسے قتل کردے ؟ '' حضرت سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اسے قتل کرنے کے لئے گئےجب واپس آئے تو سرکارﷺ  نے اِستِفسارفر مایا:'' کیا تم نے اس شخص کو قتل کردیا ۔'' تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کی:'' میں نے اسے نمازکی حالت میں پایا تو قتل کرنے سے خوف محسوس کیا ۔''
    رسول اللہ ﷺ  نے دوبارہ ارشادفرمایا:'' تم میں سے کون ہے جو جاکر اِسے قتل کر دے ؟'' حضرت سیدنا عمرفاروقِ اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کی: ''یارسولَ اللہ ﷺ ! مَیں ۔''آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی تلواراٹھائی لیکن اسے نما ز کی حالت میں کھڑا دیکھ کر واپس لوٹ آئے ۔نبئ کریم ،رء وف رحیم ﷺ  نے حضرت سیدنافاروقِ اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے استفسارفرمایا:'' کیا تم نے اس شخص کو قتل کردیا ؟ ''تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کی:'' یارسولَ اللہ عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم !میں نے اسے نماز کی حالت میں پایا تو اسے قتل کرنے سے خوف محسوس کیا ۔''

آقا کریم ﷺ  نے ایک بار پھر ارشاد فرمایا: ''تم میں سے کون ہے جو اس کی طر ف جائے اور اسے قتل کردے ؟ ''حضرت سیدنا علی المرتضی کَرَّمَ اللہُ تَعَالیٰ وَجْھَہُ الْکَرِیْم نے عرض کی:
''یارسولَ اللہﷺ !اُسے میں قتل کر وں گا ۔'' تو آپ ﷺ  نے ارشادفرمایا:'' اگر تم نے اسے پالیا تو تم ایسا ضرور کروگے۔'' حضرت سیدنا علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہُ تعالیٰ وَجْھَہُ الْکَرِیْم گئے لیکن اسے نہ پاکر واپس لوٹ آئے ۔'' سرکارِ مدینہ ﷺ  نے دريافت فرمايا :''کیا تم نے اس شخص کو قتل کردیا ؟ '' آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کی :'' مجھے نہیں معلوم کہ وہ زمین میں کہاں چلا گیا ۔'' تو نبئ کریم،رء وف رحیم ﷺ نے ارشاد فرمایا:'' یہ پہلا سینگ ہے جو میری اُمت میں ظاہرہوا اگر تم اسے قتل کردیتے تو میری اُمت میں کبھی دو آدمی بھی آپس ميں اختلاف نہ کرتے، بے شک بنی اسرائیل میں اکہتر  فرقے تھے جبکہ یہ اُمت بہتر(72) فرقوں میں بٹے گی، ایک فرقہ کے علاوہ باقی سب جہنم میں جائیں گے۔''

     راوی کہتے ہیں کہ ہم نے عرض کی:'' یا رسولَ اللہ عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ! وہ فرقہ(يعنی نجات پانے والا) کون ساہوگا؟''آپ  ﷺ نے ارشادفرمایا :''وہ جماعت ہے ۔''

 (مسندابی یعلٰی الموصلی،مسندانس بن مالک،الحدیث:۴۱۱۳،ج۳،ص۴۰۴، ''احدی'' بدلہ '' واحد '')
یہ روایت بعض الفاظ کی تبدیلی کے ساتھ متعدد کتب حدیث میں موجود ہے۔ اس طویل روایت سے فرقہ بننے کا پس منظر بھی واضح ہو گیا اور پھر  فرقوں میں نجات دہندہ  اور برحق گروہ کو بھی واضح فرما دیا کہ وہ "جماعت" ہے۔  معترضین  کا یہ واویلا ہم فقط مسلم ہیں، اس کا پردہ یہاں چاک ہو گیا کہ رسول کریم ﷺ خود ہی "جماعت" فرما رہے ہیں۔
ایک اور روایت پیشِ خدمت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا؛
سَتَفْتَرِقُ أُمَّتِيْ ثَلٰثًا وَسَبْعِیْنَ فِرْقَۃً کُلُّھُمْ فِيْ النَّارِ إلاَّ وَاحِدَۃً.
''یہ امت تہتّر فرقے ہو جائے گی، ایک فرقہ جنتی ہوگا باقی سب جہنمی۔''
    صحابہ نے عرض کی:
''مَنْ ھُمْ یَا رَسُوْلَ اللہِ؟''
''وہ ناجی فرقہ کون ہے یا رسول اﷲ ؟''
    فرمایا:
 مَا أَنَا عَلَیْہِ وَأَصْحَابِيْ.
''وہ جس پر میں اور میرے صحابہ ہیں''، یعنی سنّت کے پیرو۔
(سنن الترمذي''، کتاب الإیمان، باب ما جاء في افتراق ھذہ الأمۃ، الحدیث: ۲۶۵۰، ج۴، ص۲۹۲
سنن ابن ماجہ''، کتاب الفتن، باب افتراق الأمم، الحدیث: ۳۹۹۳، ج۴، ص۳۵۳)
     دوسری روایت میں ہے، فرمایا:
 ھُمُ الْجَمَاعَۃُ.
''وہ جماعت ہے۔''
(السنۃ'' لابن أبي عاصم، باب فیما أخبر بہ النبي علیہ السلام أن أمتہ ستفترق علی... إلخ، الحدیث: ۶۳، ص۲۲)
 امام ملا علی قاری فرماتے ہیں : ما انا علیہ واصحابی کے مصداق بلا شک اہل سنت و جماعت ھی ھیں اور کہا گیا ہے کہ تقدیر عبارت یوں ہے کہ اہل جنت وە ھیں جو نبی کریم صلی الله علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب کے طریقے پر ھیں اعتقادًا ، قولاً، فعلاً ۔ اس لیے کہ یہ بات بالاجماع معروف ہے کہ علماے اسلام نےجس بات پر اجماع کر لیا وہ  حق ہے اور اس کا ما سوا باطل ہے ۔
لغت کی تمام معروف و معتبر کتب نے سنت کا معنٰی طریقہ اور راستہ لکھا ہے۔  تو جو اس سنت پر گامزن ہیں وہی اہل سنت ہیں اور جماعت کا ذکر فرما کر مسئلہ مزید واضح فرما دیا۔ یہ روایت حدیث کی دو معتبر کتب سنن ترمذی اور سنن ابن ماجہ سے لی گئی ہے۔ امت کا فرقوں میں تقسیم ہونا اور پھر ان  میں سے ایک کا "اہل سنت و جماعت" ہونا بخوبی واضح ہو گیا ۔  معجم الاوسط کی ایک روایت یہ بھی مذکور ہے کہ اس ایک جماعت کے علاوہ باقی سب جہنمی ہیں؛ چناچہ سید عالم ﷺ فرماتے ہیں؛
کُلُّھُمْ فِی النَّارِ اِلَّا وَاحِدَۃً
ترجمہ: ایک فرقے کے علاوہ باقی سب فرقے دوزخی ہیں ۔ (المعجم الاوسط، الحدیث۴۸۸۶، ج۳، ص۳۸۰)
ابن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے  رسول کریم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ؛
بے شک الله تعالی امت محمدی کو گم راہی پر جمع نہیں فرماے گا اور ا لله کا ہاتھ جماعت پر ہے اور سواد اعظم کی پیروی کرو اور جو شخص ( جماعت سے اعتقادا یا قولا یا فعلا ) الگ  ہوا وہ  آگ میں الگ ہوا۔
(ترمذی:2167،کنز العمال:1029،1030،مشکوۃ:173،174)
خود کو "جماعۃ المسلمین" کہلوانے والے اس فرقے کے عقائدِ و نظریات در حقیقت وہابیت کا نیا  "ورژن"  ہے۔ ان کے عقائد و نظریات سو فیصد محمد بن عبد الوہاب نجدی ہی کے دئیے ہوئے ہیں۔  ان کی جدید کہانی یہ ہے کہ مسلمانوں میں کوئی فرقہ نہیں صرف "جماعت المسلمین ہے۔ ان ہی کے گھر  کے ایک بڑے عالم ابن تیمیہ تہتر فرقوں کے ہونے کا  اقرار  ان الفاظ میں کیا ہے؛
"امام احمد بن حنبل اور ان کے اصحاب سے منقول ہے،وہ کہتے ہیں کہ جھمیۃ کفار ہیں اور وہ ان گمراہ۷۲فرقوں میں شامل نہیں ہیں جن کا حدیث میں ذکر کیا گیا ہے۔اسی طرح سے منافقین جوکہ اسلام ظاہر کرتے ہیں اور کفر چھپاتے ہیں وہ بھی ان ۷۲فرقوں میں داخل نہیں ہیں۔بلکہ وہ تو زندیق ہیں۔
(فتاوی ابن تیمیہ:جلد۳،ص:۳۵۱)
ابن تیمیہ ہی نے قرآن کریم کی روشنی میں اہل سنت کی حقانیت کا بیان لکھا ہے۔ چنانچہ  آیت مبارکہ " یوم تبیض وجوە وتسود وجوە "(القران ) کی تفسیر میں لکھا ہے :
 قال ابن عباس وغیرە تبیض وجوە اھل السنۃ والجماعۃ وتسود وجوە اھل البدعۃ والفرقۃ ۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں  سفید چہرے والوں سے مراد اہل سنت ہیں اور  سیاہ  چہرے والوں سے  اہل بدعت و گمراہ فرقے ہیں۔
 ( مجموع الفتاوٰی ، 278/3 )
 اور پھر لکھا کہ امت کے تمام فرقوں میں اہل سنت اس طرح وسط اور درمیانے ہیں جیسے تمام امتوں میں امت مسلمہ ۔كما فى قوله تعالى وكذلك جعلناكم أمة وسطا(البقرە: 143 ) –
 ( مجموع الفتاوی، 370/3) اور لكهافان الفرقة الناجية اهل السنة والجماعة۔ (141/3)
گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے۔۔۔ ابن تیمیہ کے ہاں تہتر فرقوں کا وجود  بھی ہے اور اہل سنت   و جماعت کہلوانا نہ صرف درست بلکہ اہل سنت کا برحق  ہونا بھی   ثابت۔ اب ابن تیمیہ اور دور حاضر  کے فتنہ پرور فیصلہ کر لیں کہ ان میں سے کوئی ایک جھوٹا تو ہے۔
مذکورہ آیت مبارکہ کی تفسیر میں  ابنِ کثیر نے بھی یہی مؤقف اختیار کیا  ہے، ملاحظہ فرمائیے؛
یعنی یوم القیامۃ حین تبیض وجوە اھل السنۃ والجماعۃ وتسود وجوە اھل البدعۃ والفرقۃ (390/1
اب یہاں بھی "اہل سنت و جماعت کا وجود ثابت ہوا۔
درجنوں دیگر کتب حدیث و تفسیر جن میں تاریخ بغداد، دیلمی،  کنز العمال، درمنثور تفسیر مظہری  وغیرہ نے اہل سنت کے برحق ہونے، ایک جماعت کے ناجی ہونے اور باقی کے باطل ہونے پر  متعدد روایات نقل کی ہیں۔
اہل سنت و جماعت  کہلوانا صحابہ کرام ، ائمہ و اکابرین اسلام سے ثابت، ان کے ادوار سے رائج اور اللہ تعالٰی کے محبوب جماعت ہونا ثابت ہے۔  سمجھنے والے   کے لئیے یہ  جواب کافی و شافی اور جس نے انکار کرنا ہو گا اس کے لئیے دفتروں کے دفتر بھی  کم ہوں گے۔
اہل سنت کا ہے بیڑا پار اصحاب حضور
نجم ہیں اور ناؤ ہے عترت رسول اللہ کی
اللہ تعالٰی دین حق کا فہم عطا فرمائے اور ہمارا خاتمہ مذہب اہل سنت و جماعت پر بالخیر فرمائے۔ آمین  والصلاۃ والسلام علٰی سید المرسلین وعلیٰ الہ واصحابہ اجمعین ۔
کتبہ: محمد افتخار الحسن رضوی ، 7  جمادی الثانی 1437مطابق  16 مارچ   2016

..:: Follow us on ::..

http://www.jamiaturraza.com/images/Twitter.jpghttp://www.jamiaturraza.com/images/Facebook.jpg

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

ٹیوٹر اپڈیٹس دیکھیں اور فالو کریں