حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: ’’ اللہ
تعالیٰ نے نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اعلانِ نبوت سے پہلے نبوت کی
علامتوں میں سے جو چیزخواب میں دکھائی وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر بڑے
شاق گذرتے تھے۔ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان خوابوں کا تذکرہ ام
المؤمنین حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا کرتے تھے۔ ام المؤمنین کبھی
بھی ان باتوں کو جھٹلاتی نہیں تھیں بل کہ عرض کرتیں یہ آپ کے لیے بشارت
اور خوش خبری ہے کہ آپ کے ساتھ بھلائی اور بہتری کا معاملہ ہوگا۔ ‘‘
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہـ:’’ ایک روز نبیِ کریم صلی اللہ
علیہ وسلم حسبِ معمول غارِ حرا میں عبادت و ریاضت میں مصروف تھے کہ حضرت
جبریلِ امیٖن علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ظاہر ہوئے اور
انھوں نے اپناہاتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر اور دل پر رکھااور فرمایا
آپ خوف نہ کیجیے اور نہ گھبرائیے پھر انھوں نے نبیِ کریم صلی اللہ علیہ
وسلم کو اپنے سامنے بٹھایا جیسا کے باعزت شخص کو عظمت و وقار کے ساتھ
بٹھایا جاتا ہے۔ ‘‘
نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرمایا کرتے تھے کہ:’’ مجھے جبریلِ
امیٖن نے ایک ایسے بستر پر بیٹھایاجس پر نہایت عمدہ اور نفیس نقش و نگار
بنے ہوئے تھے جو یاقوت اور موتیوں سے بنا ہوا تھا ، اور پھر اُس نے رسالت و
نبوت کی خوش خبری سنائی ۔‘‘ جب نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مکمل
اطمینان ہوگیاتو حضرت جبریلِ امیٖن علیہ السلام نے کہا ’’ اقرأ‘‘ یعنی ’’
پڑھیے‘‘ ۔
ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں :
’’ غارِ حرا میں آپ پر اچانک وحی نازل ہوئی ۔ فرشتے نے آکر آپ سے کہا ’’
پڑھیے‘‘ آپ نے فرمایا :’’ مَیں پڑھنے والا نہیں ہوں ۔‘‘ رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم نے بتلایا کہ پھر فرشتے نے زور سے گلے لگاکر مجھے دبایا
حتیٰ کہ اس نے دبانے پر پوری قوت صرف کردی ، پھر مجھے چھوڑ کر کہا :’’
پڑھیے‘‘ مَیں نے کہا :’’ مَیں پڑھنے والا نہیں ہوں۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم نے فرمایا کہ فرشتہ دوبارہ مجھے پکڑ کر بغل گیر ہوا حتیٰ کہ مجھے
پوری قوت سے دبایا ، پھر مجھے چھوڑ کر کہا:’’ پڑھیے‘‘ مَیں نے کہا مَیں
پڑھنے والانہیں ہوں۔‘‘ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایافرشتہ تیسری
بار مجھے پکڑ کر بغل گیر ہوا حتیٰ کہ پوری قوت سے مجھے دبایا، پھر مجھے
چھوڑ کر کہا:’’ اِقرأ باسمِ ربک الذی خلق خلق الانسان من علق اقرأ و ربک
الاکرم الذی علم بالقلم علم الانسان مالم یعلم (پڑھو! اپنے رب کے نام سے،
جس نے پیدا کیا ، آدمی کو خون کی پھٹک سے بنایا، پڑھو! اور تمہارارب ہی سب
سے بڑا کریم ، جس نے قلم سے لکھنا سکھایا، آدمی کو سکھایا جو نہ جانتا
تھا۔)‘‘ } مشکوٰۃباب بدء الوحی الیٰ رسولِ اللہ صلی اللہ علیہ سلم {
حافظ شہاب الدین ابن حجر عسقلانی (وفات ۸۵۲ھ) فتح الباری جلد اول صفحہ ۲۳/
۲۴) پر لکھتے ہیں :’’ جبریلِ امیٖن علیہ السلام نے نبیِ کریم صلی اللہ علیہ
سے کہا :’’ اقرأ‘‘- ’’پڑھیے‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ مَیں
پڑھنے والا نہیں ہوں۔‘‘ اور جب تین بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی
فرمایا تو جبریل امین علیہ السلام نے کہا :’’ اقرأ باسمِ ربک( پڑھو! اپنے
رب کے نام سے ) یعنی اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم آپ اپنی قوت اور معرفت سے
نہ پڑھیں بل کہ آپ اپنے رب کی دی ہوئی طاقت اور اس کی اعانت سے پڑھیںاُس
نے جس طرح پیدا کیا ہے وہ آپ کو پڑھنا سکھائے گا۔ تاکہ یہ ظاہر ہوجائے کہ
حضور نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایسے اُمّی ہیں کہ وہ کسی کے پڑھانے سے
نہیں بل کہ خود خالقِ کائنات جل شانہٗ نے جیسا اُس کی شان کے لائق ہے
پڑھایا ہے ویسا ہی پڑھیں گے ، چوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اُمّی ہونا
بھی ایک معجزہ ہے۔
حضرت جبریلِ امیٖن علیہ السلام سے یہ آیات سننے کے بعد نبیِ کریم صلی اللہ
علیہ وسلم نے اللہ جل شانہٗ کی مقدس بارگاہ کا پیغام قبول فرمالیا اور جو
کچھ حضرت جبریلِ امیٖن علیہ السلام لے کر حاضر ہوئے تھے اُسے یاد فرمالیا ۔
جب مجلس ختم ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر تشریف لے جانے کے لیے
نکلے ، راستے میں جس قدر پتھر اوردرخت تھے وہ آپ کو سلام کرتے تھے حتیٰ کہ
آپ جب اپنے گھر میں داخل ہوئے تو آپ کو یقین تھا کہ آپ حقیقت میں کوئی
بہت بڑی کامیابی اور بلندی سے مشرف ہوچکے ہیں ۔ جب حضرت خدیجہ رضی اللہ
عنہا کے پاس تشریف لائے تو فرمایا :
’’ خدیجہ! مَیں جو کچھ تمہیں اپنے خواب سنایا کرتا تھا آج اُس کاخوب اظہار
ہوگیا اور اللہ تعالیٰ نے جبریلِ امیٖن کو میرے پاس بھیجا ۔‘‘
اُس کے بعد نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جبریلِ امیٖن علیہ السلام
کے ساتھ محفل میں آپ نے جو کچھ سنا اور دیکھا تھا سب بتایا تو حضرت خدیجہ
رضی اللہ عنہا نے کہا :’’ آپ کو خوش خبری اور بشارت ہو کہ اللہ تعالیٰ آپ
کے ساتھ انتہائی بھلائی کا معاملہ فرمائے گا۔ مزید یہ کہا کہ اللہ تبارک و
تعالیٰ کی طرف سے جوبھی حکم نازل ہوگا مَیں اُسے سچّے دل سے قبول کروں گی
کہ آپ ہی اللہ تعالیٰ کے سچّے اور برحق رسول ہیں۔‘‘
ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ :’’ رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس وحی کو لے کر حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے پاس
اِس حال میں پہنچے کہ آپ پر کپکپی طاری تھی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
نے فرمایا:’’ مجھے کپڑا اڑھاؤ، مجھے کپڑا اڑھاؤ‘‘ گھر والوں نے آپ صلی
اللہ علیہ وسلم کو کپڑے اڑھائے ، حتیٰ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا خوف
دور ہوگیا۔ پھر آپ نے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کو تمام واقعہ سنایااور
فرمایا:’’اب میرے ساتھ کیا ہوگا؟ مجھے اپنی جان کا خطرہ ہے۔‘‘ حضرت خدیجہ
رضی اللہ عنہا نے عرض کی :’’ ہرگز نہیں آپ کو یہ خوش خبری مبارک ہو، اللہ
تعالیٰ آپ کو ہرگز رسوا نہیں فرمائے گا، خدا گواہ ہے کہ آپ صلہ رحمی کرتے
ہیں، سچ بولتے ہیں، کمزوروں کا بوجھ اٹھاتے ہیں نادار لوگوں کو مال دیتے
ہیں ، مہمان نوازی کرتے ہیں اور راہِ حق میں مصیبت زدہ لوگوں کی مدد کرتے
ہیں ، پھر حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو
اپنے چچا زاد بھائی ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں جو زمانۂ جاہلیت میں
عیسائی مذہب پر تھے اور انجیل کو عربی زبان میں لکھتے تھے بہت بوڑھے ہوچکے
تھے اور بینائی جاتی رہی تھی، حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے اُن سے کہا:’
’اے چچا ! اپنے بھتیجے کی بات سنیے ۔‘‘ ورقہ بن نوفل نے رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم سے کہا :’’ اے بھتیجے! آپ نے کیا دیکھاہے؟‘‘ رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم نے انھیں وحی ملنے کا تمام واقعہ سنایا ۔ ورقہ نے کہا:’’ یہ وہی
فرشتہ ہے جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس وحی لے کر آیاتھا، کاش! مَیں
جوان ہوتا ، کاش! مَیں اُس وقت تک زندہ ہوتا جب آپ کی قوم آپ کو وطن سے
نکال دے گی ۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ کیا وہ مجھ کو
واقعی نکال دیں گے؟‘‘ ورقہ نے کہا :’’ ہاں! جس شخص پر بھی آپ کی طرح وحی
نازل ہوئی لوگ اس کے دشمن ہوجاتے تھے ، اگر وقت نے مجھ کو مہلت دی تو مَیں
اُس وقت آپ کی انتہائی قوی مدد کروں گا۔ ‘‘
اس حدیثِ پاک میں ہے کہ : ’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس وحی کو لے کر
حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے پاس اِس حال میں پہنچے کہ آپ پر کپکپی طاری
تھی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ مجھے کپڑا اڑھاؤ، مجھے
کپڑا اڑھاؤ‘‘ گھر والوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کپڑے اڑھائے ، حتیٰ
کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا خوف دور ہوگیا۔پھر آپ نے ماجرا سنایا اور
فرمایا:’’ مجھے اپنی جان کا خطرہ ہے۔‘‘
اس تعلق سے علامہ یحییٰ بن شرف نووی اپنی شرح مسلم میں لکھتے ہیں :
’’ قاضی عیاض مالکی نے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خوف کی وجہ یہ
نہیں کہ آپ کو اس کلامِ الٰہی کے وحیِ الٰہی ہونے میں شک تھا ، بل کہ یہ
خوف تھا کہ اس عظیم ذمہ داری کو قبول کرنے میں کہیں آپ سے کوئی کمی نہ رہ
جائے یا آپ وحیِ الٰہی کے تقاضوں کو کما حقہٗ پورا نہ کرسکیں ۔ ‘‘
اسی طرح اِس حدیثِ پاک میں یہ بھی ہے کہ :
’’ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ورقہ بن
نوفل کے پاس لے گئیں جو ایک بڑے عیسائی عالم تھے ۔ ورقہ نے تمام ماجرا سننے
کے بعد کہا کہ یہ وہ فرشتہ ہے جو موسیٰ علیہ السلام کے پاس وحی لے کر آیا
تھا۔‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ورقہ بن نوفل کے پاس جانے کی حکمت یہ تھی
کہ لوگوں کو معلوم ہوجائے کہ جس شخص نے سب سے پہلے نبیِ کریم صلی اللہ علیہ
وسلم کی تصدیق کی وہ ایک عیسائی عالم تھا۔
پہلی وحی نازل ہونے کے بعد کچھ مدت کے لیے وحی کا نزول بند ہوگیاتو نبیِ
کریم صلی اللہ علیہ وسلم بڑے غم گین ہوئے ۔ اس دوران ام المؤمنین حضرت
خدیجہ رضی اللہ عنہا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بڑی دل جوئی کی اورآپ
کو تسلی دیتے ہوئے کہا کرتیں کہ آپ پریشان نہ ہوں اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ
بڑی بھلائی اور بہتری کا ہی معاملہ فرمائے گا۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے
نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جس انداز سے دل جوئی کی وہ اپنی مثال آپ
ہے۔ آپ نے ایک وفاشعار اور مخلص بیوی کی حیثیت سے آپ کا ہر موڑ پر ساتھ
دیا۔
|
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں