ہفتہ، 27 مئی، 2017

Roza Qayam E Sehat Ka Be Nazeer Tareeqa

روزہ قیامِ صحت کا ایک بے نظیر طریقہ
محمد رضا مرکزی 

    روزہ دین اسلام کا تیسرا رکن ہے اور ایک بہت ہی اہم ترین فریضہ ہے ۔اور یہ اہم ترین فریضہ انسانوں کی اصلاح کے لیے ہے ۔انسان کی اصلاک کی یہی صورت ہے کہ اس کے دل کی اصلاح ہو جائے اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب اس میں خوف الہی کی شمع فروزاں کر کے رکھ دی جائے اور اس کا مؤثر ترین طریقہ "روزہ " ہے ۔صبح سے شام تک کھانے پینے اور خواہشات نفسانی سے محض اس لیے مجتنب رہنا کہ اللہ تعالی نے ایسا کرنے سے منع کیا ہے ۔مسلمان اگر تنہا ہو۔کوئی آنکھ اسے دیکھ نہ رہی ہو۔ایسی حالت میں اسے سخت پیاس لگی ہے ۔ٹھنڈے پانی کی صراحی موجود ہے ۔اس کے باوجود اس کا ہر حالت میں فرمان الہی کی بجا آوری پر کار بند رہنا تقوی کا کمال ہے اور یہ مشق اسے مکمل ایک ماہ کرنی پڑتی ہے ۔اس طرح اس کے دل میں خوف خدا کا نقش گہرا ہو جاتا ہے ۔پھر اس ماہ کے بعد بھی اس سے کوئی ایسی حرکت سر زد نہیں ہو سکتی جس سے اس کے مولی کریم نے اسے منع کیا فرمایا ۔اصلاح قلب اور تزکیہ نفس کے لیے ماہ رمضان کے روزے رکھنے کا فرمان الہی اسی سال نازل ہوا جب امت مسلمہ اپنے کینہ توز اور طاقتور دشمنوں سے اپنی بقا کی جنگ لڑنے میں مصروف تھی ۔اللہ تعالی نے ہر جاندار کے جسم میں ایسا نظام بنایا ہے کہ جب تک اسے آب ودانہ مناسب مقدار میں ہر وقت حاصل نہ ہو اس کی زندگی کا قیام مشکل ہوتا ہے ،جس کی نسبت سے اس کی خوراک میں کمی بیشی واقع ہو گی اسی نسبت سے اس کی صحت متاثر ہوگی ۔ادنی حیوانات تو اپنی خوراک میں اپنے شعور کے ماتحت اعتدال کے پابند رہتے ہیں ۔لیکن انسان اشرف المخلوقات اور ذی عقل ہوتے ہوئے بھی ادنی حیوانات کے طریق کے بر عکس حد اعتدال سے بالعموم تجاوز کر جاتا ہے ۔اور اپنے بدنی نظام کے بگاڑنے اور اس میں کئی نقائص بالفاظ دیگر امراض پیدا کرنے کا خود باعث ہوتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ دوسرے حیوانات کے امراض انسانی امراض سے کوئی مناسبت نہیں رکھتے ۔مگر انسان اپنی خداداد وقل کے ذریعے اپنے امراض کے مقابلے ،یا بطور حفظ ماتقدم کئی ذرائع،طریق اور علاج اختیار کرتا ہے ۔ان نقائص اور علاج کے لیے سب سے بہتر حفظ ماتقدم جو اب ےک تجویز کر سکا ہے یہ ہے کہ کبھی کبھی کچھ عرصہ کے واسطے وہ کھانا پینا بند کر کے اپنے معدہ کو جس پر تمام بدن کی صحت وثبات کا انحصار ہوتا ہے خالی رکھے ۔تا کہ بھوک سے اس کے مواد فاسد جل کر اسے صاف کر دیں اور پھر وہ اپنا کا م صحیح طور پر کر سکے ۔
    دنیا کے تقریباً تمام مذاہب اور شریعتوں نے اپنے پیروؤں کے لیے یہی طریق تجویز کیا ہے ۔اسے مذہبی اصلاح میں "روزہ " کہتے ہیں ۔ہندو چوبیس گھنٹے کا برت یا روزہ رکھتے ہیں ۔اناج یا آگ پر پکائی ہوئی اشیاء وہ برت میں نہیں کھاتے ۔مگر کچھ پانی دودھ ،حقہ وغیرہ کھانے پینے میں کچھ مضائقہ نہیں سمجھتے ۔زمانہ حاضر کا عیسائی تو صرف گوشت ،مچھلی یا بعض چیزیں ترک کر کہ اور دوسری چیزیں کھا پی کراسے روزہ قرار دیتا ہے ۔اسی طرح یہودیوں میں بھی بعض چیزوں کی روزہ میںکھانے پینے کی ممانعت نہیں ہے ۔اسلام میں روزے مسلسل ایک ماہ قمری حساب سے رکھے جاتے ہیں ۔اور قمری و شمسی سال میں دس دن کے فرق کے باعث چھتیس سال کے عرصہ میں موسم گرما اور موسم سرما دونوں میں آجاتے ہیں ۔اسی طرح تقریباًپچاس یا زیادہ سال کی عمر کا مسلمان دونوں موسموں میں روزے رکھنے کا تجربہ کر لیتا ہے ۔ماہ رمضان کے روزے ہر عاقل ،بالغ مسلمان پر فرض ہیں ۔ان کے علاوہ اور روزے بھی اپنی مرضی سے رکھے جاتے ہیں ۔ جنہیں نفلی روزے کہا جاتا ہے ۔اسلامی روزہ پو پھٹنے سے غروب آفتاب تک ہوتا ہے اور اس عرصہ میں ہر قسم کا کھانا ،پینا احتیاط جنسی بلکہ اس کی مبادیات بھی منع ہیں ۔پان ،بیڑی ،سگریٹ ۔حقہ وغیرہ بھی منع ہیں ۔کو ئی بھی ایسی چیز استعمال کی جائے تو روزہ ٹوٹ جاتا ہے ۔اسلامی روزہ جو کہ خاص رمضان المبارک میں ہی خاص کئے گئے ہیں ۔اس قسم کا روزہ ضبط نفس یا اپنے آپ پر قابو پانے کا نے نظیر و بے مثال طریقہ ہے نو عمر جب گرمیوں میں پہلا روزہ رکھتے ہیں جب کہ پیاس کا مقابلہ کرنا بڑی ہمت کی با ت ہوتی ہے ۔وضو کرتے وقت کلیاں کرتے ہیں تو پانی کا ایک قطرہ بھی حلق سے نیچے اتر نے نہیں دیتے ۔خاص کر غسل خانے میں جب کہ کوئی دیکھنے والانہیں ہوتا ان کا پانی سے اجتناب حیرت کا باعث ہوتا ہے ۔اسلامی روزہ روحانی اور اخلاقی فوائد کے ساتھ ساتھ معدی امراض اور بدن کے گندے مواد کے لیے جھاڑو کا کام دیتا ہے یہ ضبط نفس ،بھوک اور پیاس کی شدت کے مقابلہ کی طاقت پیدا کرتا ہے اور روزہ افطار کرتے وقت کھانے پینے سے جس طرح ایک روزہ دار لطف اندوز ہوتا ہے وہ بیان سے باہر ہے ۔ڈاکڑ اور موجودہ اطباء نے روزہ سے صحت کے برقرار رہنے کا اعتراف کیا ہے اور روزہ کے بارے میں یورپی ماہریں مسلسل تحقیق کر رہے ہیں اور وہ اس بات کو تسلیم کر چکے ہیں کہ روزہ جہاں جسمانی زندگی کو نئی روح اور توانائی بخشتا ہے وہاں اس سے بے شمار معاشی پریشانیاں بھی دور ہوتی ہے کیونکہ جب امراض کم ہونگے تو ہسپتال کم ہوں گے اور ہسپتالوں کا کم ہونا پر سکون معاشرے کی علامت ہے ۔

..:: Follow us on ::..

http://www.jamiaturraza.com/images/Twitter.jpghttp://www.jamiaturraza.com/images/Facebook.jpg

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

ٹیوٹر اپڈیٹس دیکھیں اور فالو کریں