ہفتہ، 27 مئی، 2017

Roza Dunyavi Wo Ukhruvi Fawaed Ka Mazhar

روزہ:دنیوی و اخروی فوائد کا مظہر
پیش کش: ڈاکٹر مشاہدرضوی آن لائن ٹیم 

    اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی عبادت اور بندگی بندہ کا حقیقی مقصود ہے ، اسے اس بات کی فکر ہونی چاہئے کہ میری زندگی کے اوقات اور شب وروز اپنے مقصود کو پورا کرنے میںگزریں، ساری زندگی رب العالمین کی عبادت وبندگی کر نے ،اس کی بارگاہ کا قرب حاصل کرنے کے لئے بسرہو، چنانچہ اس فکرکو عملی جامہ پہنانے کے لئے اللہ رب العزت نے ہمیں مختلف انداز میں اس کی بارگاہ میں حاضر ہونے اورعبادت کرنے کے سنہری مواقع عطافرمائے ، کبھی نماز کی صورت میں عبادت کا سلیقہ عطافرمایا، کبھی راہ حق کی طرف قدم بڑھاتے ہوئے خانہ کعبہ کا حج کرنے کا حکم فرمایا او رکبھی مخلوقِ خدا کی خدمت کرنے کے لئے زکوۃ وصدقات کی صورت میں عبادتوں کاقرینہ عطافرمایا ۔عبادت کے انہی مختلف طریقوں میں ایک بہترین طریقہ ’’روزہ‘‘ بھی ہے جواسلام کا چوتھا رکن ہے ،اس کے شرعی معنی صبح صادق کے طلوع ہونے سے سورج غروب ہونے تک بندئہ مومن کو کھانے ، پینے اور ازدواجی تعلقات سے رکے رہنے کے ہیں۔رمضان المبارک وہ مہینہ ہے ، جس میں رب العالمین اپنے بندوں کو فضل ومہربانی سے سرشار فرماتا ہے، اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کی رحمت کا صدقہ اورخیرات سے انہیں سرفراز فرماتا ہے اور انہیں رمضان المبارک کی رحمتوں،برکتوں اور بخشش سے بہرہ ور فرماتا ہے ، جیسا کہ ترمذی شریف میں حدیث پاک ہے :حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، انہوں نے فرمایا ، حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :جب رمضان المبارک کی پہلی رات آتی ہے تو شیطان اور سرکش جن جگڑدئے جاتے ہیں، دوزخ کے دروازوں کو بندکردیا جاتا ہے اور ان میں کوئی دروازہ کھولا نہیں جاتا ، اور جنت کے دروازوں کو کھول دیا جاتا ہے اور ان میں کوئی دروازہ بند نہیں کیا جاتا ، اور ایک ندا دینے والاندا دیتا ہے :اے بھلائی کے طلبگار !(اس کی طرف) متوجہ ہوجا،اور اے برائی چاہنے والے !(گناہوں سے)دورہوجا ،اور اللہ تعالی کی جانب سے دوزخیوں کو آزاد ی ملتی ہے اور یہ سلسلہ رمضان کی ہر رات ہوتا ہے ۔(جامع الترمذی، کتاب  الصوم،باب ماجاء فی فضل شھررمضان ،حدیث نمبر:684)رمضان المبارک میں رب العالمین کی سخاوت اورعطاکا یہ معاملہ ہوتا ہے کہ اس میں ایمان والوں کو عبادتوں کا خصوصی موقع عنایت کیا جاتا ہے ، شرح ثواب میں اضافہ کیا جاتاہے ،شیاطین کو جکڑدیا جاتا ہے، تاکہ وہ بندگان خدا کونہ بھٹکا سکیں ، انہیں عبادتوں سے نہ بہکاسکیں۔اللہ سبحانہ وتعالیٰ اپنے بندوں کو سرفراز کرتے ہوئے ماہ رمضان کی ہر رات گنہگار بندوں کو دوزخ سے آزاد فرماتا ہے ،ماہِ رمضان جو دوسخااور فیاضی کا معاملہ رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی ہواکرتا ہے ، آپ بھی اپنی امت کو سرفراز فرماتے اور اپنی رحمت کا صدقہ عطافرماتے ہیں ،جیسا کہ روایت ہے :حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنھما سے روایت ہے؛ آپ نے فرمایا:جب ماہ رمضان شروع ہوتا تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہر قیدی کو آزادکر دیتے اور ہر مانگنے والے کوعطافرماتے۔(شعب الایمان،فضائل شھر رمضان،حدیث نمبر:3475۔مجمع الزوائد،حدیث نمبر4838۔کنز العمال، حدیث نمبر:18060 )اسی برکتوں والے مہینہ میں رب قدیر نے بندوں کے لئے ’’روزہ‘‘ کی صورت میں عبادت کرنے کاایک سنہری موقع عطافرمایا،چنانچہ ہجرت کے دوسرے سال شعبان المعظم کے مہینہ میں روزہ کی فرضیت کا اعلان فرمایا اور ماہ رمضان کی خصوصیت کو بیان فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا:ترجمہ:رمضان وہ مہینہ ہے ، جس میں قرآن نازل کیا گیا، اس حال میں کہ وہ لوگوں کے لئے ہدایت ہے اور اس میں حق وباطل میں تمیز کرنے والی روشن دلیلیں ہیں ، تم میں جو کوئی اس مہینہ کو پائے وہ اس کے روزہ رکھے !(سورۃ البقرۃ۔185) روزہ ایک ایسی عبادت ہے ، جو اگلی امتوں پر بھی فرض تھی، انہیں بھی رب العالمین نے روزہ کا اہتمام کرنے کا حکم فرمایا تھا ،وہ ایسی عظیم عبادت ہے ؛جس کی برکت سے انسان تقوی وطہارت کا پابندہوجاتا ہے ،چنانچہ رب العالمین نے ہمارے لئے بھی روزہ کو تقوی اور پرہیزگاری اختیار کرنے کا بہترین ذریعہ بنایا ،جیساکہ ابھی خطبہ میں جو آیت مبارکہ پڑھی گئی اس میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :اے ایمان والو!تم پر روزے فرض کئے گئے؛جیسا کہ تم سے پہلے لوگوں پرفرض کئے گئے تھے ،تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ!(سورۃ البقرۃ ۔183)روزہ ایک ایسا فرض ہے، وہ خدا کی ایک ایسی عبادت ہے  کہ بندئہ مومن جب تک سرورکونین صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل نہ کرے اسے ادا نہیں کرسکتا ،رب العالمین نے روزہ دار کے حق میںایسا معاملہ فرمایا کہ وہ رب کی عظیم عبادت روزہ کا آغاز کرنا چاہے تو وہ سحری کھائے بغیر روزہ شروع نہیں کرسکتا اور اگر سحری کھائے بغیر روز ہ رکھ بھی لے تو وہ خلاف سنت عمل کا مرتکب ہوگا، اس لئے کہ حبیب پاک علیہ الصلوٰۃ والسلام نے سحری کھانے سے متعلق آگاہ فرمادیا اور ہم غلاموں کو اس کی توجہ دلائی اوریہ حکم فرمایا :حضرت عبدالعزیز بن صہیب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں، میں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے سنا ، انہوں نے فرمایا ، حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :سحری کھایا کرو!کیوں کہ سحری میں برکت ہے ۔(صحیح البخاری ، کتاب الصوم ، باب برکۃ السحور من غیر ایجاب ،حدیث نمبر:1923)اسی طرح روزہ کے اختتام پر افطار کرنا ، یہ بھی رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کریمہ ہے ، گویا رب العالمین نے روزہ کو حبیب پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی دوسنتوں کے درمیان رکھ دیا، خدائے تعالیٰ کی اس عبادت کو اپنا کر روزہ دار جہاںصفت الہی کا مظہر ہوجاتاہے، وہیں وہ سنت نبوی کا پیکر بھی بن جاتا ہے ، چونکہ کھانا تناول فرماناحضورپاک علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سنت ہے اور خدا کی ذات کھانے، پینے سے پاک ہے ، اس بنیاد پر بندہ جب روزہ رکھتا ہے تو وہ تجلیات ربانی اور انوار نبوی سے اپنے ظاہر وباطن کو روشن ومنور کرلیتا ہے ۔دنیا اور آخرت میں روزہ کے بے شمار فوائد ہیں ، روزہ دار کے حق میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے دنیا وآخرت میں بے شمار برکتیں اور سعادتیں رکھی ہیں، روزہ خدائے تعالیٰ کی وہ عبادت ہے کہ جس کی برکتیں دیگر عبادتوں میں اور ان کے ثواب میں نہیں پائی جاتیں ، بندئہ مومن کو نیکی کرنے کی وجہ سے اجروثواب تو ضرور دیا جاتا ہے ، لیکن وہ اجروثواب ‘روزہ اور اس کے اجروثواب کے مماثل نہیں ہوسکتا ، حدیث شریف میں آتا ہے :حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، انہوں نے فرمایا، حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:بے شک تمہارا پروردگا ر فرماتا ہے :ہر نیکی کا اجر دس(10) گناسے سات سو(700)گناتک دیا جاتا ہے اور روزہ (خالص ) میر ے لئے ہے اور میں ہی اس کا صلہ عطاکرتا ہوں ،روزہ ‘دوزخ کے لئے ڈھال ہے اور روزہ دار کے منہ کی بو اللہ تعالی کے نزدیک مشک سے زیادہ خوشبودار ہے ، اور اگر کوئی ناداں تم میں کسی روزہ دار سے نازیبا حرکت کرے توا سے چاہئے کہ وہ کہے:میں روزہ دار ہوں۔(جامع الترمذی، کتاب الصَّوْمِ، باب مَا جَاءَ فِی فَضْلِ الصَّوْمِ، حدیث نمبر:769)حدیث شریف میں مذکور کلمہ وانا اَجزِی بہ  کو وانااُجْزیٰ بہ بھی پڑھاگیا ، جس کا ترجمہ یہ ہے کہ میں خودہی روزہ کا بدلہ ہوجاتا ہوں ۔اس حدیث شریف سے یہ بات آشکا ر ہوتی ہے کہ رب قدیر نے ہر عبادت کا بدلہ او راس کی ہر اطاعت کا صلہ ثواب کی شکل میں مقرر کیا ہے ، لیکن روزہ خدائے تعالیٰ کی ایک ایسی عبادت ہے؛ جس کا بدلہ خود خالق کائنات ہوجاتا ہے اور روزہ دار کو اپنے دیدار پر انوار سے مشرف فرماتا ہے ۔روزہ ایک ایسی عبادت ہے جس میں خاص طور پر ریا کاری کا کوئی شائبہ نہیں، اس میں دکھاوے کا کوئی دخل نہیں ، اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے روزہ دار کے لئے خصوصی سرفرازی کا جووعدہ فرمایا؛ اسی سے متعلق تفصیل بیان کرتے ہوئے شارح صحیح بخاری علامہ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ رقمطراز ہیں :اللہ تعالی ہی بہتر جانتا ہے، دراصل اس نے روزہ کو اس لئے مخصوص فرمایا؛ چونکہ روزہ انسان کے عمل سے ظاہر نہیں ہوتا ،اس لئے کہ وہ دل ہی میں پوشیدہ چیز ہے اور اس بات کی تائید حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد سے ہوتی ہے کہ روزہ میں دکھاوا نہیںہے۔ ۔ ۔ امام زہری رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:بات یہ ہے کہ اعمال حرکات کے ساتھ ہوا کر تے ہیں، لیکن روزہ صرف نیت پر موقوف ہوتا ہے اور نیت لوگوں سے پوشیدہ رہتی ہے ۔( فتح الباری شرح صحیح البخاری،کتاب الصوم،باب فضل الصوم)روزہ دار اپنے مولی کو راضی کرنے کے لئے سورج کی حرارت کو برداشت کرتا ہے ،لیکن پانی کا ایک قطرہ اپنے حلق کے نیچے جانے نہیں دیتا ،بھوک کی شدت پر بھی صبر کرتا ہے ، لیکن کھانے کا ایک دانہ اپنے پیٹ میں جانے نہیں دیتا اورروزہ دار کے اس عمل کا کسی کو شعور نہیں ہوتا ،حتی کہ وہ تنہائی میں ہوتا ہے ، اس کے ساتھ کوئی اور شخص نہیں ہوتا ایسے وقت اگروہ کچھ کھالے اور پی لے تو اس سے کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا ،تب بھی وہ کوئی چیز کھانے پینے کی جرأت نہیں کرتا ، کیونکہ اس کے دل میں خدائے تعالیٰ کا خوف ہوتا ہے ۔محض وہ اللہ رب العزت کی رضا اور خوشنودی حاصل کرنے کے لئے ان ظاہری صعوبتوں کو سہتاہے، نفسانی خواہشات سے پرہیز کرتا ہے، گناہوں سے گریز کرتا ہے، شیطان کے وسوسوں سے بچنے کی کوشش کرتا ہے، یہی وجہ ہے کہ حدیث شریف میںروزہ کودوزخ کی آگ سے بچنے کا ’’ڈھال‘‘ کہا گیا ۔چونکہ روزہ دار جب اللہ تعالیٰ اور اسکے حبیب پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت میں اخلاص و للہیت کے ساتھ ہمہ تن مصروف ہوجاتا ہے اور شریعت مطہرہ کی خلاف ورزی سے وہ اپنے دامن کو بچالیتا ہے تو ’’روزہ‘‘اس کے حق میں دوزخ کے لئے ڈھال بن جائے اور اسے روزہ کے باعث دوزخ سے چھٹکارانصیب ہوجائے۔ جب روزہ دار اپنے مولا کا قر ب حاصل کرنے کے لئے ‘اخلاص وللہیت کے ساتھ روزہ اداکرنے کے لئے مشقتیں برداشت کرتا ہے ، نفسانی خواہشات کو پا مال کردیتا ہے تو رب العالمین نے روزہ دار بندہ کو اپنی خوشنودی سے سرفراز کرنے اور اسے اپنی خصوصی رحمتوں سے نوازنے کا وعدہ فرمایا ہے ، جس کی خبر ہمیں نبی برحق‘ مخبرصادق صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ،چنانچہ ایک موقع پرحضور پاک علیہ الصلوۃ والسلام نے حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کو نصیحت کرتے ہوئے ارشاد فرمایا :حضرت سعید بن زید بن عمرو بن نفیل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ،انہوں نے فرمایا ، میں نے حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ، آپ نے حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف متوجہ ہوکر ارشاد فرمایا:اے اسامہ !تم جنت کی راہ پرگامزن رہو اور اس کے علاوہ راستہ پرچلنے سے بچے رہو!توانہوں نے عرض کیا :یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم !اس راستہ پر تیزی سے پہنچانے والی کونسی چیزہے ؟ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :گرمیوں میں پیاسارہنا اور دنیوی خواہشات سے نفس کو روکنا۔ اے اسامہ!تم روزہ رکھا کرو !کیوںکہ وہ اللہ تعالی کا قرب عطا کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک روزہ دار کے منہ کی بواورکھانے پینے کو رضائے الہی کی خاطر چھوڑنے سے بہتر کوئی پسندیدہ چیز نہیں،اگر تم ایساکرسکتے ہو کہ تمہارے انتقال کے وقت تمہارا پیٹ بھوکا اور جگرپیاسا ہو ‘ توتم ایسا کرو !جس کے سبب تم آخرت میں بلند مقامات پالوگے اور انبیاء کرام کی خدمت میں رہوگے، اور تمہارے ان کی خدمت میں حاضر ہونے کی وجہ سے وہ خوش ہوں گے او راللہ سبحانہ وتعالیٰ تم پر رحمتیں نازل فرمائے گا۔(تاریخ دمشق ، حرف الالف ، اسامہ بن زید بن حارثہ ) روزہ کے منجملہ فوائد میں یہ بھی ہے کہ اس میں روزہ دار کی عملی واخلاقی تربیت ہوتی ہے ، وہ نعمتوں کی قدردانی کرنے والا اورخدا کی عطاپر شکر کرنے والا بنتا ہے، مصائب ومشکلات پر صبرکرنے کا عادی ہوجا تا ہے اور خود کھانے پینے سے رکے رہنے کی وجہ سے غریب ونادار اور بھوک وفاقہ سے دوچار افراد سے متعلق اس کے دل میں غمگساری کا جذبہ پیدا ہوتا ہے ۔طبی لحاظ سے بھی روزہ کے کئی فوائد ہیں ،باضابطہ روزہ رکھنے سے انسانی صحت برقرار رہتی ہے ۔ طبی ماہرین کا بیان ہے کہ معدہ کو طویل وقت تک غذا سے خالی رکھنا کئی جسمانی امراض کا علاج ہے، بھوک کی وجہ سے معدہ کے فاسد مادے زائل ہوجاتے ہیں،علاوہ ازیں روزہ انسان کو درپیش ہونے والے کئی امراض کا موثر ذریعہ علاج ہے ،بلڈ پریشر، نظام ہاضمہ، شوگر اور اس جیسے کئی عوارض جسمانیہ کی روک تھام کیلئے بے حد مفید ہے۔ان خوبیوں اور فوائد کے پیش نظر روزہ کو صرف رمضان کی حدتک محدود نہیں کیا گیا ، بلکہ جس طرح فرض نمازوں کے علاوہ نفل نمازیں بھی اداکی جاتی ہیں، صدقہ واجبہ اور زکوۃ کے علاوہ نفل صدقہ ‘خیرات اور عطیات دئے جاتے ہیں؛ اسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نفل روزہ کی بھی ترغیب دلائی اور اسے جنت میں داخل ہونے کا بہترین ذریعہ قرار دیا، جیسا کہ مسند امام احمد میں حدیث  پاک ہے :حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، انہوں نے فرمایا :میں حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا :مجھے ایسے عمل کا حکم فرمائیے؛ جو مجھے جنت میں داخل کرے!حضور پاک علیہ الصلوٰۃوالسلام نے ارشاد فرمایا:تم روزہ کا اہتمام کرو !کیونکہ کوئی عمل اس کے مماثل نہیں ،میںحضور پاک علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں دوبارہ حاضر ہوا تو آپ نے ارشاد فرمایا :تم روزہ کا اہتمام کرو!۔(مسندالامام أحمد ، حدیث أبی أمامۃ الباہلی،22805)خدائے تعالی کی یہ سرفرازی اور کرم نوازی اپنے نیکوکار ، روزہ دار ، عبادت گزار اور پرہیزگار بندوں کے لئے ہے ، جو اپنے مولی کی اطاعت کرتے ہیں،اس سے خوف کرتے ہیں اور ہمیشہ ان پر خشیتِ الہی طاری رہتی ہے ، اخلاص وللہیت کے ساتھ وہ معبود حقیقی کی عبادت کرتے ہیں ، اسی بنیاد پر رب العالمین انہیں اپنے فضل وکرم میںلے لیتا ہے،ان ہستیوں سے قطع نظر جو بندے خدائے تعالیٰ کی نافرمانی کرتے ہیں ، اس کی اور اس کے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت سے روگردانی کرتے ہیں ،وہ عبادت تو ضرور کرتے ہیں ،لیکن اس میں اخلاص نہیں ہوتا، وہ روزہ تو رکھتے ہیں ؛لیکن گناہوں سے نہیں بچتے تو ایسے افراد کی عبادت دربارِالہی میں شرف قبولیت حاصل نہیں کرتی ، جیسا کہ صحیح بخاری شریف میں حدیث پاک ہے :حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، انہوں نے فرمایا :حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :جو شخص (روزہ میں )جھوٹ بات ( اور بے ہودہ عمل)کو نہیں چھوڑتا تو اللہ تعالیٰ کو کوئی پرواہ نہیں کہ وہ کھانا پینا چھوڑدے ۔(صحیح البخاری،کتاب الصوم، باب من لم یدع قول الزور۔ ۔ ۔ حدیث نمبر 1903) ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اس متبرک مہینہ کی قدر کریں ، روزوں اور تراویح کا اہتمام کریں ، بلاعذرشرعی روزہ نہ چھوڑیں اور بطورِخاص روزہ کی حالت میں ناجائز وحرام کاموں کے علاوہ مکروہات ومشتبہات سے بھی بچتے رہیں۔اخیر میں دعا ہے کہ اللہ تعالی ہمیں رمضان المبارک کی رحمتوں ،برکتوںاور عنایتوں سے مالامال فرمائے،احکام شریعت پر پابندی کرنے اور برائیوں سے اجتناب کر نے کی توفیق عطا فرمائے!  آمین

..:: Follow us on ::..

http://www.jamiaturraza.com/images/Twitter.jpghttp://www.jamiaturraza.com/images/Facebook.jpg

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

ٹیوٹر اپڈیٹس دیکھیں اور فالو کریں