حضرت سیدہ رقیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا
(19 رمضان المبارک یوم وفات پر اک مضمون)
ترتیب و پیش کش : ڈاکٹر محمد حسین مشاہد رضوی
نام و نسب:
حضرت رقیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دوسری صاحبزادی ہیں ۔اور یہ حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے چھوٹی ہیں۔حضرت رقیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی والدہ کا نام حضرت سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بنت خویلد بن اسد ہے۔یہ حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے تین برس بعد پیدا ہوئیں ۔اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر مبارک تقریبا تینتیس برس تھی۔
ابتدائی حالات:
حضرت رقیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی آغوش میں پرورش پائی۔جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان نبوت فرمایا تو اس وقت حضرت رقیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی عمر سات سال تھی۔جب حضر ت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہانے اسلام قبول کیا ۔تو ان کے ساتھ آ پکی صاحبزادیوں نے بھی اسلام قبول کیا۔
( طبقات ابن سعد ج 8 ص 24 ۔ الاصابہ لابن حجر )
قبل از اسلام سیدہ کا نکاح:
نبی کریم نے اپنی بیٹی حضرت رقیہ کا نکاح اپنے چچا ابولہب کے بیٹے عتبہ سے کیا تھا ابھی رخصتی ہونا باقی تھی ۔ جب نبی کریم خاتم النبین کے عظیم منصب پر فائز ہوئے پیغمبر اسلام کے راستہ میں رکاوٹ ڈالنے اور پیغام حق کے مقابلہ میں کفر اور شرک کی اشاعت کرنے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے و حی کا نزول کر کے ابولہب اور اس کی بیوی کی مذمت فرمائی تو ابولہب نے اپنے بیٹوں کو بلا کر کہا اگر تم محمد کی بیٹیوں کو طلاق دے کر ان سے علیحدگی اختیار نہیں کی تو تمہارا میرے ساتھ اٹھنا بیٹھنا حرام ہے ۔ دونوں بیٹوں نے حکم کی تعمیل کی اور دختران رسول سیدہ رقیہ اور سیدہ ام کلثوم کو طلاق دے دی ۔
(طبقات ابن سعد ج۔ الاصابہ الابن حجر ص 297)
سیدہ رقیہ کا سیدنا عثمان رضی اللہ عنہما سے نکاح:
جب ابولہب کے لڑکوں نے حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا اور ام کلثوم رضی اللہ عنہاکو طلاق دے دی۔
تو اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی صاحبزادی حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا کا نکاح مکہ مکرمہ میں حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے ساتھ کردیا ۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے میری طرف وحی بھیجی ہے کہ میں اپنی بیٹی رقیہ رضی اللہ عنہا کا نکاح حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے کردوں ۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کا نکاح حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے کر دیا اور ساتھ ہی رخصتی کردی
( کنزالعمال ج 6 ص 375)
سیدہ رقیہ اور سیدنا عثمان رضی اللہ عنہما کی ہجرت حبشہ:
جب کفار کے مظالم حد برداشت سے بڑھ گئے تو نبوت کے پانچویں سال نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے حبشہ کی طرف ہجرت کی اور ان کے ساتھ حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا بھی تھیں ۔ راہ خدا میں ہجرت کرنے والوں کا یہ پہلا قافلہ تھا اس موقعہ پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ جوڑا خوبصورت ہے ۔
(البدایہ والنہایہ ج 3 ص 66)
ایک عورت حبشہ سے مکہ پہنچی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے ہجرت کرنے والوں کے حال احوال دریافت فرمائے تو اس نے بتایا کہ اے محمد میں نے آپ کے داماد اور آپ کی بیٹی کو دیکھا ہے آپ نے فرمایا کیسی حالت میں دیکھا تھا ؟
اس نے عرض کیا :۔ عثمان اپنی بیوی کو سواری پر سوار کیے ہوئے جا رہے تھے اور خود سواری کو پیچھے سے چلا رہے تھے ۔ اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ ان دونوں کا مصاحب اور ساتھی ہو حضرت عثمان ان لوگوں میں سے پہلے شخص ہیں جنہوں نے لوط علیہ السلام کے بعد اپنے اہل و عیال کے ساتھ ہجرت کی ۔
(البدایہ لابن کثیر ج 3 ص 66)
مدینہ کی طرف ہجرت:
جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو پتہ چلا کہ نبہ کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ کی طرف ہجرت فرمانے والے ہیں تو حضرت عثمان چند صحابہ کرام کے ساتھ مکہ آئے اسی دوران نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کرکے مدینہ تشریف لے جا چکے تھے ۔ ہجرت حبشہ کے بعد حضرت عثمان ہجرت مدینہ کے لئے تیار ہو گئے اور اپنی بیوی حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا سمیت مدینہ کی طرف دوسری ہجرت فرمائی ۔ (الاصابہ لابن حجر ج 4 ص 298)
سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہا کی اولاد:
حبشہ کے زمانہ قیام میں ان کے ہاں ایک لڑکا پیدا ہوا جس کا نام عبداللہ رکھا گیا جس کی وجہ سے حضرت عثمان کی کنیت ابو عبد اللہ مشہور ہوئی ۔ عبداللہ کا ۶ سال کی عمر میں مدینہ منورہ میں انتقال ہوا ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز جنازہ خود پڑھی حضرت عثمان نے قبر میں اتارا ۔
(اسد الغابہ ج 5 ص 456)
سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہا کی بیماری:
2 ہجری غزوہ بدر کا سال تھا حضرت رقیہ کو خسرہ کے دانے نکلے اور سخت تکلیف ہوئی ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم بدر کی تیاری میں مصروف تھے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام غزوہ میں شرکت کے لئے روانہ ہونے لگے تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ بھی تیار ہو گئے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو خطاب کر کے فرمایا : رقیہ بیمار ہے آپ ان کی تیمار داری کے لئے مدینہ میں ہی مقیم رہیں آپ کے لئے بدر میں شرکت کرنے والوں کے برابر اجر ہے اور غزائم میں بھی ان کے برابر حصہ ہے ۔
(بخاری ج1 ص 523)
سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہا کی وفات:
جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ بدر میں شریک تھے ۔ حضور کی عدم موجودگی میں سیدہ رقیہ کا انتقال پرملال ہوا پھر ان کے کفن دفن کی تیاری کی گئی یہ تمام امور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے سر انجام دئیے
غزوہ بدر کی فتح کی بشارت لے کر جب زید بن حارثہ جس دن مدینہ شریف پہنچے تو اس وقت حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا کو دفن کرنے کے بعد دفن کرنے والے حضرات اپنے ہاتھوں سے مٹی جھاڑ رہے تھے ۔
(طبقات ابن سعد ج 8 ص 25)
چند ایام کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ پہنچے تو جنت البقیع میں قبر رقیہ پر تشریف لے گئے اور حضرت رقیہ کے لئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی ۔
ایک روایت میں ہے جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر حضرت رقیہ کی تعزیت پیش کی گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : الحمد للہ ! اللہ تعالیٰ کا شکر شریف بیٹیوں کا دفن ہونا بھی عزت کی بات ہے۔رضی اللہ تعالٰی عنہا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں