اسلام نے عورتوں کو بڑا بلند مقام دیا ہے
۔ اسلامی طریقۂ زندگی ان کی عزت و عصمت کی حفاظت کاحقیقی ضامن ہے۔ بعض
سرپرست لڑکی کی رضا کے بغیر زور زبرستی کرکے ان کا نکاح اپنے اختیار سے
کہیں بھی کرادیتے ہیں۔ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک دور میں بھی
ایسا ایک واقعہ پیش آیا تھا۔زمانۂ رسالت میں عورتوں کے لیے حضرت عائشہ
صدیقہ رضی اللہ عنہا کا حجرۂ مبارک عدالتِ عالیہ کا درجہ رکھتا تھا۔ چناں
چہ وہ لڑکی جس کے سرپرستوں نے زبردستی لڑکی کا نکاح کردیا تھا وہ اسی حجرے
پر حاضر ہوئی۔ اس وقت نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں تشریف فرما
نہیں تھے۔
اس لڑکی نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہاسے عرض کیا کہ :’’ میرے والد نے
زبردستی میرا نکاح اپنے بھتیجے کے ساتھ کردیا ہے تاکہ میرے ساتھ نکاح کرنے
سے ان کی(دنیاوی) حیثیت اور مرتبہ بڑھ جائے اور اس (لڑکے) کا رتبہ کم ہوسکے
حال آں کہ مَیں اس نکاح سے ناخوش ہوں۔‘ ‘
ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہانے اس لڑکی کو اپنے پاس بٹھا
لیا ۔ جب نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم گھر تشریف لائے تو آپ ﷺ کے سامنے
بات پیش کی گئی ۔ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لڑکی کے باپ کو بلایا
اور لڑکی کو اپنا مختار آپ بنادیا ۔ یہ سن کر لڑکی نے عرض کیا یارسول
اللہ! میرے باپ نے جو کچھ کیا ، مَیں اب اُس میں راضی ہوں ، میرا مقصد صرف
یہ تھا کہ عورتوں کو اپنے حقوق معلو م ہوجائیں ۔ ‘‘
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا : علوم و فنون کا پیکر
ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا معلمِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی
صحبتِ بابرکت سے فیض یافتہ تھیں ۔ وہ مختلف علوم و فنون کا حسین سنگم تھیں
۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ (حضرت ) عائشہ (رضی اللہ عنہا)
سے بڑھ کر علم قرآن و فرائض اور حلال و حرام ، شعر و تاریخ عرب ، نسب اور
فقہ و طب میں کوئی نہ دیکھا ۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اورعلم تفسیر
ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو علم تفسیر میں بھی دَرک
حاصل تھا۔ حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے نقل فرمایا ہے کہ :’’ حضرت
عروہ بن زبیررضی اللہ عنہما نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے ارشادِ
باریِ تعالیٰ : ان الصفا والمروۃ من شعائر اللّٰہ فمن حج البیت اوعتمر فلا
جناح علیہ ان یطوف بہما (سورۃ البقرہ آیت ۱۵۸)
ترجمہ: ’’بے شک صفا اور مروہ اللہ کے نشانوں میں سے ہیں۔ تو جو اس گھر کا
حج یا عمرہ کرے اس پر کچھ گناہ نہیں کہ ان دونوں کے پھیرے کرے ۔‘‘ ___ کے
بارے میں پوچھا اور کہا کہ واللہ ! کوئی گناہ نہیں اس آدمی پر جو ان دونوں
کا طواف نہ کرے ۔‘‘
تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا اے میریبھانجے! تم نے بہت بُری بات
کہہ ڈالی اگر یہ آیت کریمہ اس طرح ہوتی جیسے تم بیان کررہے ہو تو صاف
طریقے سے کہہ دیا جاتا کہ جو ان کا طواف نہ کرے اسے کوئی گناہ نہیں ۔ بل کہ
حقیقت یہ ہے کہ آیت کریمہ انصار کے بارے میں نازل ہوئی ہے کہ جب وہ اسلام
قبول کرنے سے پہلے بتوں کے نام پر تلبیہ( لبیک ) پڑھا کرتے تھے ۔ اور جب
کوئی بتوں کے نام پر تلبیہ (لبیک) پڑھتا تو اس وادی کا طواف کرنے میں بڑا
حرج سمجھتا تھا۔
جب انصار نے اسلام قبول کرلیا تو نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں
حاضر ہوکر پوچھا یارسول اللہ ! ہمیں صفاو مروہ میں طواف کرتے ہوئے حرج
محسوس ہوتا ہے ۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی : ان الصفا
والمروۃ من شعائر اللہ ۔ ’’بے شک صفا اور مروہ اللہ کے نشانوں میں سے
ہیں۔‘‘
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ صفا و مروہ میں طواف مسنون قرار
دیا گیا ہے ۔ لہٰذا کسی کے لیے اسے چھوڑنا جائز نہیں ۔حضرت عروہ بن زبیر
رضی اللہ عنہمافرماتے ہیں کہ مَیں نے ابوبکر بن عبدالرحمن رضی اللہ عنہماکو
بتایا تو انھوں نے فرمایا کہ یہ علم تو آج تک مجھے بھی نہ معلوم ہوسکا
البتہ مَیں نے اہل علم حضرات کو یہ فرماتے ہوئے سناہے کہ کچھ لوگ پچھلے
زمانہ میں ایسے تھے جیسا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے ذکر کیا وہ بتوں کے نام
پر تلبیہ( لبیک) پڑھتے تھے اور صفا و مروہ کے درمیان طواف کیا کرتے تھے۔ جب
اللہ تعالیٰ نے طواف بیت اللہ کا تذکرہ قرآن مجید میں فرمایا اور صفا و
مروہ کا ذکر ترک کیا تو ان لوگوں نے نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا
یارسول اللہ! اگر ہم صفا و مروہ کا طواف کرتے ہیں تو کو ئی حرج ہے ؟ تو یہ
آیتِ کریمہ نازل ہوئی : ’’ان الصفا والمروۃ من شعائر اللہ ‘‘
یعنی ’’بے شک صفا اور مروہ اللہ کے نشانوں میں سے ہیں۔‘‘
حضرت ابوبکر بن عبدالرحمن رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ:’’ میرا گمان ہے کہ
یہ آیت کریمہ دونوں فریقین کے لیے نازل ہوئی ہے وہ لوگ جو زمانۂ جاہلیت
میں صفاو مروہ کے طواف کو گناہ سمجھتے تھے اور وہ لوگ زمانۂ جاہلیت میں تو
طواف کرتے تھے اور اسلام قبول کرنے کے بعدصفا و مروہ کے طواف کو گناہ
سمجھتے تھے۔ ‘‘
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اورعلم شعرو طب
ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہااپنے زمانے کے مریضوں کے علاج
و معالجے کاکام بھی کیا کرتی تھیں۔عرب کے اشعار یاد رکھنے میں بھی ان کو
بڑی مہارت حاصل تھی۔ وہ برجستہ اور بر محل شعراے عرب کے اشعار سنادیا کرتی
تھیں۔ حضرت عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہمافرماتے ہیں کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی
اللہ عنہاکو جب کوئی حادثہ پیش آتا تو اس کے متعلق ضرور کوئی نہ کوئی شعر
پڑھ دیتی تھیں۔
ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو علم طب میں تو گویا ملکہ
حاصل تھا، آپ کے بھانجے حضرت عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں
کہ:’’ ایک مرتبہ مَیں نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہاسے عرض کیاکہ اے
اماںجان! مجھے آپ کے فقیہ ہونے پر تعجب نہیں ہے کیوں کہ آپ نبیِ کریم صلی
اللہ علیہ وسلم کی زوجۂ محترمہ ہیں۔ اور آپ کے علم و شعر اور تاریخ عرب
پر بھی مجھے تعجب نہیں کیوں کہ آپ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی صاحب
زادی ہیں۔ وہ خود ایک بہت بڑے تاریخ داں تھے ، لیکن مجھے تعجب ہوتا ہے کہ
آپ کو طب سے کیوں کر واقفیت ہوئی؟ اور یہ علم آپ نے کہاں سے حاصل کرلیا۔
حضرت عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ
عنہانے میرے کندھے پر ہاتھ مارتے ہوئے فرمایا اے عروہ! آخری عمر میں نبیِ
کریم صلی اللہ علیہ وسلم مریض ہوگئے تھے اور لوگ دوردور سے آپ ﷺ کی عیادت
کے لیے آتے تھے ۔ لوگ علاج کے مختلف طریقے بتاتے مَیں ان کے ذریعہ نبیِ
کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا علاج کیا کرتی تھی ۔ لہٰذا علم طب سے آگاہی
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی آخری عمر شریف کا صدقہ ہے۔ ‘‘
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اورعلم فرائض
حضرت عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کاارشاد ہے کہ :’’ مَیں نے حضرت عائشہ
صدیقہ رضی اللہ عنہا سے بڑھ کر کوئی قرآن کا عالم اور فرائضِ اسلام اور
حلال وحرام کا جاننے والااور عرب کے واقعات اوراہل عرب کے نسب سے واقفیت
رکھنے والا نہیں دیکھا۔‘‘
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا علمِ تفسیر ، شعر و طب ، فقہ وغیرہ علوم و
فنون کی طرح علم فرائض میں بھی دسترس رکھتی تھیں ۔ چناں چہ ابن عبدالبر نے
حضرت مسروق رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے کہ وہ قسم کھا کر فرماتے کہ
مَیں نے اکابر صحابہ رضوان اللہ علیہ م اجمعین کو فرائض کے بارے میں حضرت
عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہاسے سوال کرتے ہوئے دیکھا ہے ۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی علمی قابلیت کے بارے میں امام زہری رحمۃ
اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اگر تمام ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن اور ساری
عورتوں کا علم جمع کیاجائے تو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہاکاعلم سب سے
بڑھ کر ہوگا۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی تواضع
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہابڑی نرم دل اور منکسر المزاج تھیں ۔ آپ کی
طبیعت میں سختی اور درشتی کا دور دور تک نشان نہ تھا۔ امام ابوحاتم
رحمۃاللہ علیہ نے نقل کیا ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما ایک مرتبہ
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہاکے مکان پر تشریف لائے اور اندر آنے کی
اجازت طلب کی۔ ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہانے فرمایا کوئی
ضرورت نہیں ۔ حضرت ابوبکر بن عبدالرحمن رضی اللہ عنہما نے عرض کیا یہ آپ
کے نیک بیٹوں میں سے ایک ہیں اور آپ کی عیادت کے لیے تشریف لائے ہیں ۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا چلو آنے دو۔
گھر میں داخل ہونے کے بعد جب حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا اماں
جان! آپ کے لیے خوش خبری ہے کہ آپ کے اور نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم
کی ملاقات کے درمیان صرف روح نکلنے کا فاصلہ ہے۔ نبیِ مکر م صلی اللہ علیہ
وسلم کی تمام بیویوں میں آپ سب سے زیادہ محبوب اور چہیتی تھیںاور آپ پاک
چیزوں سے ہی محبت رکھتے تھے۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے یہ بھی فرمایا کہ ذات الجیش کے مقام پر
آپ کا ہار گم ہوگیا تھا اور تمام لوگوں نے اس حال میں صبح کی تھی کہ ان کے
پاس پانی نہ تھا اللہ تعالیٰ نے یہ آیتِ کریمہ نازل فرمائی : ’’ فلم تجدوا
مائً فتیمموا صعیدًاطیبًا‘‘ (سورۃ المائدہ۶)
ترجمہ : ان صورتوں میں پانی نہ پایا تو پال مٹی سے تیمم کرو ۔‘‘
یہ حکم نازل ہونا بھی آپ ہی کی برکت سے تھا کہ جس میں اللہ تعالیٰ نے امت
کے لیے آسانی فرمادی ۔ اے پیاری ماں ! یہ آپ کا امت پر بڑا احسان ہے۔ اور
مسطح ( رضی اللہ عنہ) کا معاملہ بھی عجیب تھا کہ اللہ تعالیٰ نے سات
آسمانوں سے آپ کی براء ت نازل فرمادی ۔ اب کوئی مسجد ایسی نہیں جس میں
اللہ کا ذکر ہو اور آپ کا ذکر نہ ہو ۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے جب یہ سنا تو تواضع اور انکساری کی پیکر
ہماری اس مقدس ماں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے جو تاریخی کلمات
فرمائے وہ آپ کی تواضع کا روشن ثبوت اور جھوٹی تعریفوں پر گھمنڈ کرنے
والوں کے لیے تازیانۂ عبرت اور سبق ہے۔ فرمایا ام المؤمنین حضرت عائشہ
صدیقہ رضی اللہ عنہانے کہ:’’ اے ابن عباس چھوڑو اس تذکرے کو اور میرے تزکیہ
کو مَیں تو یہ چاہتی ہوں کہ مَیں بالکل بھلادی جاؤں کہ میرا تذکرہ بھی نہ
ہو۔ ‘‘
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا جذبۂ ایثار و قربانی
ا م لمؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہاایثار و قربانی اور صلۂ رحمی
کے جذبات سے سرشار تھیں جس کا اندازہ ذیل کی روایت سے لگایا جاسکتا ہے ۔
امام مالک رحمۃ اللہ علیہ مؤطا میں نقل فرماتے ہیں کہ :’’ حضرت عائشہ
صدیقہ رضی اللہ عنہافرماتی ہیں کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے
’’مقامِ غابہ‘‘ میں موجود اپنے کھجورکے درختوں میں سے بیس وسق کھجوریں
انھیں تحفہ کے طور پر دینے کے لیے مخصوص کر لیے تھے۔ لیکن جب حضرت سیدنا
ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی وفات کا وقت قریب آیا تو انھوں نے حضرت عائشہ
صدیقہ رضی اللہ عنہاکو بلا کر فرمایا بیٹی! بخدا دنیا میں میرے لیے تم سے
بڑھ کر کوئی نہیں ہے اور نہ ہی میرے بعد تمہاری تنگ دستی سے بڑھ کر کسی اور
کے لیے کوئی چیز تکلیف دہ ہے۔
مَیں نے تم کو دینے کے لیے بیس وسق کھجوریں مختص کرلی تھیں۔ گر تم نے وہ
کھجوریں اتروالی ہیں اور ان کا ذخیرہ کرلیا ہے تو پھر وہ تمہاری ہی ہیں
نہیں تو آج کے بعد یہ وراثت کا مال ہے اور اس کے وارث تمہارے دوبھائی اور
دو بہنیں ہیں ۔ اس لیے میرے اس چھوڑے ہوئے مال کو میرے بعد قرآنی احکام کی
روشنی میں تقسیم کرلینا۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا ابا جان! اگر مجھے اس سے بھی
زیادہ مال آپ عطیہ دے دیتے تو مَیں پھر بھی میراث کی تقسیم کی خاطر اس مال
سے دست بردار ہوجاتی۔ لیکن ابا جان! میری ایک بہن اسما ہوئی دوسری بہن کون
ہے؟ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تمہاری دوسری بہن وہ ہے جو میری
بیوی حبیبہ بن خارجہ رضی اللہ عنہا کے شکم میں ہے۔
حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اُس طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ’’اراہا جایۃ‘‘
میراخیال ہے کہ بچّی پیدا ہوگی۔ چناں چہ بعد میں ایسا ہی ہوا اور ام کلثوم
بنت ابوبکر رضی اللہ عنہا اس حمل سے پیداہوئیں ۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ
عنہانے تمام متروکہ مال کو کتاب اللہ کی روشنی میں تقسیم فرمادیا اور خود
انھیں جو بطور تحفہ دیا گیا تھا اسے بھی اپنے بھائیوں بہنوں کے لیے چھوڑ کر
ایثار و قربانی کی مثال قائم فرمادی ۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی انصاف پسندی
ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہاکی ابتدائی تربیت تو ان کے
والد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمائی لیکن آپ کی خصوصی تربیت
کائنات کے معلمِ اعظم حضور احمد مجتبیٰ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے
کاشانۂ اقدس میں آنے کے بعد ہوئی ۔ یہی وجہ ہے کہ آپ رضی اللہ عنہا کی
ذات خوبیوں اور کمالات کا ایک حسین مجموعہ بن گئی ۔عام طور پر دیکھا یہ گیا
کہ جو شخص خوددار ہوتا ہے اُس کے اندرانصاف پسندی کا مادہ کم ہی پایا جاتا
ہے ۔ لیکن حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہافیضانِ نبوت کی تربیت یافتہ تھیں
وہ بَلا کی خوددار تو تھیں ہی ساتھ میں وہ ایسی انصاف پسند تھیں کہ ان کا
یہ وصف اسلامی تاریخ میں مثالی حیثیت رکھتا ہے۔
ایک مرتبہ مصر کے ایک صاحب حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہاکی خدمت میں حاضر
ہوئے ، ام المؤمنین رضی اللہ عنہا نے دریافت فرمایا کہ میدانِ جنگ میں
تمہارے ملک کے موجودہ حاکم کا رویہ کیسا ہوتا ہے؟ جواب میں اُس نے عرض کیا
کہ اب تک ہم کو کوئی ایسی بات نہیں دکھائی دی جس پر اعتراض کیا جاسکے۔ اگر
جنگ میں کسی کا اونٹ مرجاتا ہے تو وہ دوسرا اونٹ دے دیتے ہیں خرچ کی ضرورت
پڑتی ہے تو خرچ بھی دیتے ہیں۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہانے ارشاد فرمایاکہ انھوں نے میرے بھائی محمد
بن ابوبکر رضی اللہ عنہما کے ساتھ جو بھی بدسلوکی کی ہے اس پر مَیں یہ حق
بات بتانے سے نہیں رک سکتی کہ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے اس گھر
میں تشریف فرماکر یہ دعا فرمائی تھی کہ :’’ اے اللہ! جو میری امت کا حاکم
ہو ، اگر وہ امت پر سختی کرے تو تُو بھی اس کے ساتھ سختی کرنا ، اور جو
میری امت پر نرمی کرے تُو بھی اس کے ساتھ نرمی کا معاملہ فرمانا ۔‘‘
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی حق گوئی
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہابڑی حق گو اور قرآن و حدیث کے واضح حکم کو
بیان کرنے میں کسی کی رورعایت نہیں فرماتی تھیں۔ حق کا برملا اور دوٹوک
اظہار کیا کرتی تھیں ۔
چناں چہ حضرت عمرو بن غالب تابعی رحمۃ اللہ علیہ روایت کرتے ہیں کہ:’’ مَیں
حضرت عمار اور اشترام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہاکی خدمت میں
حاضر ہوئے حضرت عمار رضی اللہ عنہ نے سلام عرض کیا :’’ اے امی جان السلام
علیک ! حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہانے فرمایا: والسلام علیٰ من اتبع
الھدیٰ ، یعنی ہدایت کی پیروی کرنے والے پر سلامتی ہو۔ یہاں تک کہ حضرت
عمار نے دویا تین مرتبہ اسی سلام کو دہرایا۔
پھر عرض کیا : اگرچہ یہ بات آپ کو بُری لگے مگر اللہ کی قسم ! آپ رضی
اللہ عنہا ہماری ماں ہیں۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہانے پوچھا یہ
تمہارے ساتھ کون ہے؟ عرض کیا یہ اشتر ہیں تو آپ رضی اللہ عنہا نے فرمایا
تم وہی اشتر ہو جس نے میرے بھائی کو قتل کرنے کا ارادہ کیا ہے۔ اشتر نے
جواب دیا : جی ہاں! مَیں نے ہی اُ ن کے قتل کا ارادہ کیا ہے۔ حضرت عائشہ
صدیقہ رضی اللہ عنہانے فرمایا: اگر تو نے اس کو قتل کردیا تو تُو کبھی فلاح
نہیں پاسکے گا۔ باقی عمار تم نے نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ حدیثِ
مبارک سن رکھی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا ہے کہ : کسی مسلمان کا خون کسی صورت
میں حلال نہیں ہے سواے تین صورتوں کے پہلی صورت کوئی شادی شدہ انسان زنا کا
ارتکاب کرے ، یاکوئی اسلام کے بعد ارتداد اختیار کرلے ، یاکسی کو قتل کرنے
کے بدلے میں قصاص کے طور پر اس کو قتل کردیا جائے۔‘‘
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا زہدو فقر
نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم سید الزاہدین تھے۔ پیٹ بھرنے اور مزے دار
چیزیں حاصل کرنے اور سامان جمع کرنے کو ناپسند فرماتے تھے ۔ ایک مرتبہ آ پ
ﷺ نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہاسے فرمایا :’’ اے عائشہ! اگر مَیں
چاہوں تو میرے ساتھ سونے کے پہاڑ چلیں ، میرے پاس ایک فرشتہ آیا جس کی
قامت کا یہ عالم تھا کہ اس کی کمر کعبہ تک پہنچ رہی تھی ۔ اس نے مجھ سے کہا
کہ آپ کے رب نے آپ کو سلام فرمایا ہے اور یہ ارشاد فرمایا ہے کہ اگر آپ
چاہیں تو عام بندوں کی طرح بندہ اور نبی بن کر رہیں اور اگر چاہیں تو نبی
اور بادشاہ بن کر رہیں ۔ مَیں نے جبریل امین علیہ السلام کی طرف مشورہ لینے
کے طور پر دیکھا تو انھوں نے اشارہ کیا کہ تواضع اختیار کرو۔ لہٰذا مَیں نے
جواب دے دیا کہ مَیں نبی ہوتے ہوئے عام بندوں کی طرح ہو کر رہنا چاہتا ہوں
۔ ‘‘
نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فقر اور زہد اختیاری تھا اگر آپ چاہتے تو
آپ کے ساتھ سونے کے پہاڑ چلتے لیکن آپ ﷺنے تواضع پسند فرمائی اور یہی
عادتِ کریمہ جملہ ازواجِ مطہرات امہات المؤمنین رضی اللہ عنہن میںبھی
آئیں ۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی شان فقر پر کئی روایتیں ملتی
ہیںجن میں سے بعض پچھلے صفحات پر ’’حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی
گھریلو زندگی‘‘ عنوان کے تحت نقل کی جاچکی ہیں۔ ذیل میں حضرت امام بخاری
رحمۃ اللہ علیہ کی ایک روایت بیان کی جاتی ہے وہ لکھتے ہیں کہ :’’ حضرت ابن
ایمن فرماتے ہیں کہ مَیں ایک مرتبہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہاکے پاس
گیا آپ نے ایک موٹی چادر اوڑھ رکھی تھی جس کی قیمت پانچ درہم تھی۔ اس وقت
آپ رضی اللہ عنہا کی خادمہ بھی وہاں موجود تھیں ۔ آپ نے اس کی طرف اشارہ
کرتے ہوئے فرمایاذرا میری اس خادمہ کو دیکھو یہ اس چادر کو گھر میں اوڑھنے
سے بھی انکار کرتی ہے ۔ اور فرمایا نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے
میں میرے پاس ایک ایسی ہی چادر تھی ۔جسے مدینۂ منورہ میں لوگ دلہن کو
سجانے کے لیے مانگ کر لے جاتے اور رخصتی کے بعد واپس کردیتے تھے۔ ‘‘
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی سخاوت
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اس سخی باپ یعنی حضر ت ابوبکر صدیق رضی
اللہ عنہ کی آغوشِ تربیت کی پروردہ تھیں جنہوں نے ایک غزوہ کے موقع پر
اپنا پورا مال و اسباب بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں پیش
کردیا تھا اور سخاوت و فیاضی اور محبت و ایثار کی وہ لافانی مثال قائم کی
کہ تاریخ میں اس کی نظیر نہیں ملتی ۔ چناں چہ روایتوں میں آتا ہے کہ حضرت
عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اور ان کی بڑی بہن حضر ت اسما بنت ابوبکر رضی
اللہ عنہا بھی اس عظیم صفت سے متصف تھیں۔ یہ دونوں سخاوت و فیاضی میں بڑا
مقام و مرتبہ رکھتی تھیں۔ حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں
کہ :’’ مَیں نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہااور حضرت اسمارضی اللہ
عنہاسے بڑھ کر کوئی عورت سخی نہیں دیکھی لیکن دونوں کی سخاوت میںایک فرق
تھا اور وہ یہ کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہاتھوڑا تھوڑا جمع کرتی رہتی
تھیں یہاں تک کہ جب خاصی مقدار میں جمع ہوجاتا تو ضرورت مندوں میں تقسیم
فرما دیتی تھیں اور حضرت اسما رضی اللہ عنہا کا یہ حال تھا کہ وہ کل کے لیے
کچھ بھی نہیں رکھتی تھیں۔
حضرت ام ذرہ رضی اللہ عنہاسے روایت ہے کہ :’’ مَیں حضرت عائشہ صدیقہ رضی
اللہ عنہاکے پاس جایا کرتی تھی۔ ایک مرتبہ عبداللہ ابن زبیر نے ان کے پاس
مال بھیجا جو تقریباً ایک لاکھ اسی ہزار کی مالیت تھی۔ حضرت عائشہ صدیقہ
رضی اللہ عنہانے تھال منگوایااور اس کو درہموں سے بھر کر اسی وقت تقسیم
کرنا شروع کردیا ۔ جب شام ہوئی تو کچھ بھی نہ تھا۔
اُس دن حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا روزے سے تھیں۔انھوں نے خادمہ سے
فرمایا افطار لاؤ۔ تو آپ رضی اللہ عنہا کی خادمہ سوکھی روٹی اور زیتون کا
تیل لے کر آئی ۔‘‘ حضرت ام ذرہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ: ’’ مَیں نے عرض
کیاآج سارادن آپ نے جو مال تقسیم کیا اگر اس میں تھوڑا رکھ لیتیں تو شام
میںافطار کے لیے گوشت وغیرہ کا انتظام کرلیتیں تو اچھا ہوتا۔ ‘‘ حضرت عائشہ
صدیقہ رضی اللہ عنہانے فرمایا کہ اب کہنے سے کیا ہوتا ہے اس وقت تم یاد
دلاتیں تو مَیں اس کا خیال کرلیتی۔
ایک دن کا واقعہ ہے جسے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا خود بیان فرماتی
ہیں کہ :’’ میرے پاس ایک عورت آئی جس کے ساتھ دو لڑکیاں تھیں اس نے سوال
کیا ۔ اس وقت میرے پاس ایک کھجور کے سوا کچھ نہ تھا مَیں نے وہی دے دی۔ اس
نے کھجور کو لے کر دوٹکڑے کر کے دونوں بچیوں کو ایک ایک ٹکڑا دے دیا اور
خود نہ کھایا ۔ اس کے بعد وہ چلی گئی اور اس کے بعد ہی نبیِ کریم صلی اللہ
علیہ وسلم حجرے میں تشریف لائے ۔ مَیں نے آپ ﷺ کے سامنے واقعہ بیان کیا تو
آپ ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص ان لڑکیوں کی پرورش میں ذرا بھی مبتلا کیا گیا
اور ان کے ساتھ اچھا برتاو کیا تو یہ لڑکیاں اس کے لیے دوزخ کی آڑ بن
جائیں گی۔ (مشکوٰۃ شریف)
حضرت عروہ بن زبیررضی اللہ عنہما اپنا آنکھوں دیکھا واقعہ بیا ن فرماتے
ہیں کہ :’’ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہانے ایک روز ستر ہزار کی مالیت
ضرورت مندوں میں تقسیم فرمادی اور اپنا حال یہ تھا کہ تقسیم کرتے وقت اپنے
کرتے میں پیوند لگارہی تھیں۔ ‘‘
حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہاکی
خدمت میں سچے موتیوںسے بھراہوا ایک طبق بہ طورِ ہدیہ روانہ فرمائے ۔ جن کی
قیمت ایک لاکھ درہم تھی۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہانے ہدیہ قبول
فرمالیا لیکن اپنے علاوہ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام ازواجِ
مطہرات میں اس کو تقسیم فرمادیا۔
حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ حضرت عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کی ایک
روایت یوں نقل فرماتے ہیں کہ انھوں نے فرمایاکہ :’’ حضرت عائشہ صدیقہ رضی
اللہ عنہاکے پاس جو بھی مال آتا آپ اسے صدقہ کردیا کرتی تھیں۔( بخاری
شریف)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا خوفِ خدا اور تقویٰ
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہااس قدر بلند و بالا مقام و مرتبے پر فائز ہونے
کیساتھ ساتھ زاہدہ اور متقیہ تھیں اور اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والی اور آخرت
کی ہمیشہ فکر کرنے والی مقدس خاتون تھیں۔
ایک مرتبہحضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہاکو دوزخ یاد آگئی تو آپ رضی اللہ
عنہا نے رونا شروع کردیا ۔ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے رونے کا سبب
پوچھا تو عرض کیا مجھے دوزخ کا خیال آگیا ہے اسی لیے رو رہی ہوں۔ ( مشکوٰ
ۃ شریف)
امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نقل کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ
عنہانے فرمایا: ’’ ایک مرتبہ میرے رضاعی چچا میرے گھر تشریف لائے اور گھر
میں آنے کی اجازت چاہی تو مَیں نے انکار کردیا اور کہا کہ مَیں نبیِ مکرم
صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھوں گی جب آپ ﷺ تشریف لائے تو مَیں نے عرض کیا
آج میرے رضاعی چچا تشریف لائے تھے اور گھر میں آنے کی اجازت چاہی تو میں
نے انکار کردیا ۔ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہارے رضاعی چچا
تم سے مل سکتے ہیں ان کا پردہ نہیں وہ محرم ہیں ۔ اس واقعہ سے ظاہر ہوتا ہے
کہ ہماری مقدس ماں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہاپردے کا کس قدر لحاظ
فرمایا کرتی تھیں۔
ایک مرتبہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے دربارِ رسالت مآب صلی اللہ
علیہ وسلم میں عرض کیا :’’ یارسول اللہ! جب سے آپ نے منکر نکیر کی( ہیبت
ناک آواز )کااور قبر کے بھینچنے کا ذکر فرمایا ہے ۔ اس وقت سے مجھے کسی
چیز سے تسلی نہیں ہوتی (اور دل کی پریشانی دور نہیں ہوتی) آپ ﷺ نے ارشاد
فرمایا کہ اے عائشہ! منکر نکیر کی آواز مومن کے کانوں میں ایسی معلوم ہوتی
ہے (جیسے آنکھوں میںسرمہ) اور قبر کا مومن کو دباناایسا ہوتا ہے جیسے کسی
کے سر میں درد ہواور اس کی شفقت والی ماں آہستہ آہستہ اس کے سر کو دبائے
اور وہ اس سے آرام و راحت پائے۔ پھر فرمایا نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم
نے کہ اے عائشہ ! اللہ کے بارے میں شک کرنے والوں کے لیے بڑی خرابی ہے اور
وہ قبر میں اس طرح بھینچے جائیں گے جیسے انڈے پر پتھر رکھ کر دبایا جائے ۔
( شرح الصدور اردو ترجمہ قبر کے حالات)
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہافرماتی ہیں کہ :’’ ایک دن میرے پاس ایک
یہودی عورت گھر میں آئی اور اس نے قبر کے عذاب کا ذکر کیا ۔ ذکر کرتے کرتے
اس نے مجھ سے کہا ’ اَعَاذَکِ اللّٰہُ مِنْ عَذَابِ القَبرِ‘ (اللہ تعالیٰ
تجھے قبر کے عذاب سے پناہ میں رکھے) ۔
جب نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو مَیں نے عذاب قبر کے بارے
میں سوال کیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ عذاب قبرحق ہے۔ اس کے بعد نبیِ کریم صلی
اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ ہر نماز کے بعد عذابِ قبر سے اللہ کی پناہ
مانگتے تھے۔ (اور یہ عمل امت کی تعلیم کے لیے تھا)( بخاری و مسلم شریف)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی عبادتوں کا حال
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہازیادہ تر روزے سے رہا کرتی تھیں۔ حضرت عروہ
بن زبیر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ:’’ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا
کثرت سے روزے رکھا کرتی تھیں۔‘‘نیز حضرت قاسم بن محمد بن ابوبکر رضی اللہ
عنہما فرماتے ہیں کہ:’’ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا طویل زمانے تک روزہ
رکھتی تھیں گویا صائم الدہر ہوں آپ یومِ عید یا یومِ عیدالاضحی کو افطار
فرماتی تھیں۔ ‘‘
فرض نمازوں کے علاوہ نوافل کی بہت زیادہ کثرت کیا کرتی تھیں۔ چاشت کی نماز
کاخاص اہتمام کرتی تھیں،اس وقت آپ رضی اللہ عنہا آٹھ رکعت پڑھا کرتی تھیں
اور فرمایا کرتی تھیں کہ میرے ماں باپ بھی اگر (قبر) سے اٹھ کر آجائیں تب
بھی یہ نماز نہ چھوڑوں گی۔ ( بل کہ ان کی خدمت کرتے ہوئے بھی مَیں یہ نماز
پڑھوں گی) ( مشکوٰ ۃ شریف)
حضرت قاسم بن محمد بن ابو بکر رضی اللہ عنہما فرماتے تھے کہ میر ا ہمیشہ سے
یہ معمول رہا ہے کہ جب صبح کو گھر سے نکلتا تو سب سے پہلے حضرت عائشہ صدیقہ
رضی اللہ عنہاکے گھر جاتا اور سلام کرتا (یہ ان کے بھائی کے بیٹے تھے) ایک
مرتبہ مَیں جب ان کے پاس گیا تو دیکھا کہ وہ کھڑی ہوئی نفل نماز پڑھ رہی
ہیں اور بار بار اس آیتِ کریمہ پڑھ رہی ہیں اور رو رہی ہیں ’ فَمَنَّ
اللّٰہُ عَلَیْنَا وَوَقَانَا عَذَابَ السَّمُوْمْ‘( ترجمہ: اور اللہ نے ہم
پر احسان کیا اور لُو کے عذاب سے بچالیا، سورۂ طور آیت ۳۷) مَیں سلام
پھیرنے کے انتظار میں کھڑا رہا ۔ یہاں تک کہ میری طبیعت اکتا گئی اور مَیں
ان کو اِسی حال میں چھوڑ کر اپنی ضرورت کے لیے بازار چلا گیا۔ پھر جب واپس
آیا تو دیکھا وہ اب بھی اسی طرح نماز میں کھڑی ہیں اور رورہی ہیں۔‘‘
روایتوں میں آتا ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہانبیِ کریم صلی اللہ
علیہ وسلم کے ساتھ تہجد کی نماز بھی پابندی سے پڑھا کرتی تھیں۔ حتیٰ کہ
نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال فرماجانے کے بعد بھی آپ کا یہ معمول
جاری رہا ۔ روزوں کی کثرت ان کا خاص شغل تھا۔ ایک مرتبہ سخت گرمی کے موسم
میں عرفہ کے دن یعنی نویں ذی الحجہ کو روزہ سے تھیں ۔ سخت گرمی کی وجہ سے
سر پر پانی کے چھینٹے مارے جارہے تھے ۔ حضرت عبدالرحمن بن ابوبکر رضی اللہ
عنہما نے ( جو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاکے بھائی تھے) فرمایا اس گرمی میں
(نفل) روزہ کوئی ضروری نہیں ہے افطار کرلیجیے۔ یہ سن کر حضرت عائشہ صدیقہ
رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ بھلا نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سننے
کے بعد کہ عرفہ کے دن روزہ رکھنے سے سال بھر کے گناہ معاف ہوجاتے ہیں ۔
مَیں اپنا روزہ توڑدوں گی؟‘‘ ( مسند احمد)
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہاشریعت میں منع کی گئیں معمولی معمولی چیزوں
سے بھی سختی کے ساتھ بچتی تھیں۔ راستے سے گذرتے وقت اگر گھنٹے کی آواز
آجاتی توکنارے ٹھہر جاتیں تاکہ اس کی آواز کانوں میں نہ آسکے ۔ نیکیوں
کو پھیلانے کے ساتھ ساتھ برائیوں سے روکنا بھی ان کا خاص مشغلہ تھا، اور اس
کے لیے ہر ممکن طاقت خرچ کردینا ضروری سمجھتی تھیں۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی حیا
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہابڑی باغیرت اور حیادار خاتون تھیں۔ آپ پردے
کا بڑا اہتمام فرمایا کرتی تھیں ۔ روایتوں میں آتا ہے کہ جب آپ رضی اللہ
عنہا نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے روضۂ مبارک پر حاضر ہوتیں تو بغیر
پردے کے جایا کرتی تھیں اور وہ یہی گمان فرماتی تھیں کہ اس میںنبیِ کریم
صلی اللہ علیہ وسلم اور میرے والد ہی تو ہیںان سے کیا پردہ کرنا۔ لیکن جب
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اس حجرے میں مدفون ہوگئے تو حضرت عائشہ صدیقہ
رضی اللہ عنہاکبھی بھی بغیر پردے کے روضۂ مبارک میں قدم نہیں رکھا ۔ خود
فرماتی ہیں کہ : ’’ مجھے عمر (رضی اللہ عنہ) سے حیا مانع تھی۔ ( مسند احمد)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی ایک عظیم فضیلت
نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مرض الموت جب شدت اختیار کرچکا تو اس وقت
نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہاکے مکان میں
آرام فرمارہے تھے ۔ آپ ﷺ کے سرہانے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیٹھی ہوئی
تھیں اور نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان سے ٹیک لگائے ہوئے تشریف فرما
تھے۔
اتنے میں ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہاکے بھائی حضرت
عبدالرحمن بن ابوبکر رضی اللہ عنہما گھر میں داخل ہوئے ۔ان کے ہاتھوں میں
تازہ مسواک تھی۔ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی طرف دیکھا ۔ حضرت
عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہاجو کہ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مزاج شناس
تھیں فرماتی ہیں کہ :’ ’ مَیں سمجھ گئی کہ آپ ﷺ مسواک کرنا چاہتے ہیں ۔
مَیںنے مسواک اُن سے لی اور اسے اچھی طرح چبا کر نرم کیااور پھر آپ ﷺ کو
پیش کردی نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اچھی طرح مسواک فرمائی ۔ ‘‘
بعد میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہافرمایا کرتی تھیں کہ نبیِ کریم صلی
اللہ علیہ وسلم کی تمام بیویوں میں مجھے یہ شرَف حاصل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے
نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری وقت میں میرے اور آپ ﷺ کے لعاب کو
جمع فرمادیا ۔(مسلم شریف)
|
|
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں