حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کانکاح اور مدینہ منورہ
ہجرت
جب ام المؤمنین حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا اِس دنیا سے رخصت ہوگئیں تو نبیِ
کریم صلی اللہ علیہ وسلم تھوڑے غمگین رہنے لگے، تو حضرت عثمان بن مظعون رضی
اللہ عنہ کی بیوی حضرت خولہ بنت حکیم رضی اللہ عنہا نبیِ کریم صلی اللہ
علیہ وسلم کے پاس آئیں اور عرض کیاکہ :
’’ یارسول اللہ! آپ دوسرا نکاح فرمالیجیے۔‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ کس سے کروں؟‘‘
حضرت خولہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا :’’ آپ چاہیں تو بیوہ عورت سے یا
کنواری لڑکی سے نکاح کرلیں ۔ ‘‘آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ کون
کنواری ہے اور کون بیوہ ہے؟‘‘
حضرت خولہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا :’’ بیوہ تو سودہ بنت زمعہ ہیں اور
کنواری تو اُس آدمی کی بیٹی ہیں جو ساری کائنات میں آپ کو بہت عزیز ہے
یعنی عائشہ بنت ابو بکر ۔ ‘‘
نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ :’’ بہتر ہے کہ تم عائشہ کے
بارے میں بات چیت کرو۔‘‘
حضرت خولہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ مَیں اس کے بعد سیدھا اُمِّ رومان
رضی اللہ عنہا کے پاس گئی اور ان سے کہا کہ:’’ تمہارے لیے بہت عظیم خوش
خبری ہے جس میں دنیا و آخرت کی بھلائیاں چھپی ہوئی ہیں۔‘‘ انھوں نے کہا کہ:’’
وہ کون سی خوش خبری ہے؟‘‘ مَیں نے کہا :’’ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم
عائشہ کا ذکر فرمارہے تھے۔ ‘‘ انھوں نے کوئی جواب دینے کی بجاے کہا: ’’
تھوڑا انتظار کرو ابھی میرے شوہر ابوبکر(رضی اللہ عنہ) تشریف لانے ہی والے
ہیں ۔‘‘ حضرت خولہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ : ’’کچھ ہی دیر بعد حضرت
ابوبکر رضی اللہ عنہ تشریف لے آئے تو مَیں نے اُن سے اِس بات کا تذکرہ
کیاتو انھوں نے فرمایا کہ کیا یہ اُن کے لیے صحیح ہے عائشہ تواُن کی بھتیجی
ہے ۔‘‘
حضرت خولہ رضی اللہ عنہا نے واپس آکر نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس
بارے میں پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ :’’ ابوبکر میرے
اسلامی بھائی ہیں اور اسلامی بھائیوں کے یہاں نکاح کرنا جائز ہے۔‘‘
جب یہ بات حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو معلوم ہوئی تو انھوں نے
اس مبارک ترین رشتے کو فوراًقبول کرلیا ۔ لیکن چوں کہ اس سے پہلے حضرت
عائشہ رضی اللہ عنہا کی نسبت جبیر بن مطعم کے بیٹے سے طے کی جاچکی تھی۔
وعدہ خلافی نہ ہوجائے اس لیے اُن لوگوں سے بھی پوچھنا ضروری تھا۔ حضرت خولہ
رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ :’’ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ جبیر بن مطعم کے
گھر تشریف لے گئے اور فرمایا آپ لوگوں نے ہماری بچی کا رشتہ مانگا تھا اب
تم اس بارے میں کیا کہتے ہو؟ جبیر بن مطعم کے گھر والے اب تک مسلمان نہ
ہوئے تھے، مطعم (رضی اللہ عنہ ) نے اپنی بیوی سے اس بارے میں پوچھاتو اس نے
کہا کہ اگر یہ لڑکی (عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا) ہمارے گھر آگئی تو ہمارا
لڑکا بھی اپنے باپ دادا کے دین سے پھِر جائے گا اس لیے ہمیں کسی صورت یہ
بات منظور نہیں۔‘‘
حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ان دونوں کی راے جان لینے کے بعد وہاں
سے تشریف لے آئے اب انھیں وعدہ خلافی کا کوئی خطرہ نہ تھا۔ خوشی اور مسرت
کی کوئی انتہا نہ تھی۔ آنے کے بعد حضرت خولہ رضی اللہ عنہا سے کہا کہ :’’
نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جاکر کہو کہ آپ کا پیغام مجھے بسر و چشم
قبول ہے، آپ تشریف لے آئیے۔‘‘
حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا پیغام سُن کر نبیِ کریم صلی اللہ
علیہ وسلم تشریف لائے تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی
اللہ عنہا سے آپ کا نکاح کردیا۔ مہر کی مقدار چار سودرہم مقرر ہوئی ۔
حضرت ابوعمر بن عبد البر کہتے ہیں کہ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے حضرت
عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا نکاح شوال کے مہینے میں ہوا، اور رخصتی بھی
شوال میں ہوئی۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اسی کو پسند فرمایا کرتی
تھیں کہ عورتوں کا نکاح بھی شوال میں ہو اور رخصتی بھی شوال میں ہو۔ آپ
رضی اللہ عنیا فرماتی ہیں کہ :’’ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے
نکاح بھی شوال میں فرمایا اوررخصتی بھی شوال میں فرمائی ۔ بھلا ایسی کون سی
بیوی ہے جو آپ کو مجھ سے زیادہ پیاری ہو ۔‘‘ صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم
اجمعین بھی شوال ہی میںشادی پسند فرماتے تھے ۔نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم
کا نکاح حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے نبوت کے دسویں سال ہجرت سے تین
سال پہلے ہوا اوررخصتی مدینۂ منورہ میں ہوئی ۔آپ رضی اللہ عنہا نوسال تک
نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہیں ۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی مدینۂ منورہ ہجرت
نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نکاح ہونے کے بعد حضرت عائشہ صدیقہ رضی
اللہ عنہا قریب تین سال تک اپنے والدین کے گھر میں رہیں ۔ ان تین برسوں میں
سے دوسال تین مہینے ہجرت سے پہلے یعنی مکۂ مکرمہ میں رہیں اور سات یا آٹھ
مہینے ہجرت کے بعد مدینۂ منورہ میں رہیں۔
جب مکۂ مکرمہ کے کافروں، مشرکوں اور اسلام کے دشمنوں نے مسلمانوں پر ظلم و
ستم کی انتہا کردی اور انھیں طرح طرح سے بے جاپریشان کرنا شروع کردیا تو
اللہ جل شانہٗ کے حکم سے نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مکۂ مکرمہ کو
چھوڑ کر مدینۂ منورہ ہجرت فرمانے کا ارادہ کرلیا۔
ہجرت کے اس اہم واقعہ کو ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے
خود یوں بیان فرمایا ہے کہ:’’ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ روز کا
معمول تھا کہ آپ ہردن صبح یا شام کو ہمارے گھر تشریف لایا کرتے تھے۔ اس
وقت مَیں اور میری بہن (حضرت) اسما( رضی اللہ عنہا ) دونوں بیٹھی ہوئی
تھیں۔ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ سلم نے پکار کر ارشاد فرمایا:’ ابوبکر ذرا
اپنے قریب سے لوگوں کو ہٹا دیں مجھے تم سے کچھ ضروری باتیں کرنی ہیں۔‘
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ :’ یارسول اللہ! یہاں کوئی
دوسرا نہیں ہے بل کہ صرف آپ کے اہلِ خانہ ہی ہیں ۔ تشریف لائیے۔ چناں چہ
نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں تشرف فرما ہوئے اور مکۂ مکرمہ سے
مدینۂ منورہ کی طرف ہجرت کا خیال ظاہر فرمایا۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ
عنہا فرماتی ہیں کہ مَیں اور (حضرت ) اسما(رضی اللہ عنہا ) نے مل کر سفر
کاسامان تیار کیا اور دونوں حضرات نے اپنے وطن کو الوداع کہا اور مدینۂ
منورہ کی طرف روانہ ہوئے۔ اس وقت ان دونوں حضرات نے اللہ عزوجل پر بھروسہ
کرتے ہوئے اپنے تمام گھر والوں کو بھی مکۂ مکرمہ میں چھوڑ دیا۔ ‘‘
نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے مکۂ
مکرمہ سے مدینۂ منورہ ہجرت فرمالی اورجب یہاں کے حالات بہتر ہوئے تو نبیِ
کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اہل و عیال اور رشتے داروں کو جنھوں نے
اسلام قبول کرلیا تھا لانے کے لیے حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ اور اپنے
ایک غلام حضرت ابورافع رضی اللہ عنہ کو ۵۰۰؍ درہم دے کرمکۂ مکرمہ کی طرف
روانہ فرمایا۔ اسی طرح امیر المؤمنین حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے
بھی ایک آدمی کو مکۂ مکرمہ بھیجا تاکہ وہ اُن کے گھر والوں کو مدینۂ
منورہ لے آئے۔
حضرت عبداللہ بن ابوبکر رضی اللہ عنہما اپنی والدہ ماجدہ حضرت اُمّ رومان
رضی اللہ عنہا اور دونوں بہنوں حضرت عائشہ صدیقہ اور حضرت اسما رضی اللہ
عنہن کو مکۂ مکرمہ سے لے کر مدینۂ منورہ کی طرف قصد کیا۔ امام بخاری رحمۃ
اللہ علیہ باب الہجرت میں فرماتے ہیں کہ اتفاق سے جس اونٹ پر حضرت عائشہ
صدیقہ اور ان کی والدہ حضرت اُمّ رومان رضی اللہ عنہن بیٹھی ہوئی تھیں وہ
بِدکا اور تیزی سے بھاگنے لگا، اس کی رفتار ایسی تیز تھی کہ یوںلگ رہا تھا
جیسے اونٹ پر بندھی ہوئی ڈولی جس میں حضرت عائشہ صدیقہ اور ان کی والدہ رضی
اللہ عنہن سوار تھیں اب گرتی ہے اب گرتی ہے۔
اونٹ تیز رفتاری سے دوڑا جارہا تھا اور حضرت ام رومان رضی اللہ عنہا اپنی
لاڈلی بیٹی کی فکر میں گریہ و زاری کررہی تھیں ۔لیکن اللہ تعالیٰ کی غیبی
مدد یوں ہوئی کہ غیب سے آواز آئی کہ’ اونٹ کی نکیل چھوڑ دو۔‘ حضرت عائشہ
صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ مَیں نے اس کی نکیل چھوڑ دی تو وہ آرام
کے ساتھ ٹھہر گیااور اللہ کی مدد سے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے
اپنی والدہ ، بہن اور بھائی کے ساتھ مکۂ مکرمہ سے مدینۂ منورہ سلامتی کے
ساتھ ہجرت فرمائی ۔
کاشانۂ نبوت میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی تشریف آوری
ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا جب مکۂ مکرمہ سے ہجرت فرماکر
مدینۂ منورہ تشریف لائیں تو اس وقت آپ اپنے رشتے داروں کے ساتھ بنو حارث
ابن خزرج کے محلے میں قیام فرمایا۔ یہاں آپ اپنی والدہ کے ساتھ سات یا
آٹھ مہینے تک مقیم رہیں۔ اس وقت مدینۂ منورہ کی آب و ہوا بڑی سخت تھی جس
کی وجہ سے مدینۂ منورہ ہجرت کرکے آنے والے اکثر حضرات بیمار ہونے لگے۔
خود حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور ان کی صاحب زادی حضر ت عائشہ صدیقہ رضی
اللہ عنہا بھی بیمار ہوگئے۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا جب صحت یاب ہوئیں تو حضرت ابوبکر صدیق رضی
اللہ عنہ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور
درخواست کی کہ:’’ یا رسول اللہ ! آپ اپنی بیوی کو اپنے گھربلوالیجیے۔‘‘
نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’ اس وقت میرے پاس مہر ادا
کرنے کے لیے رقم نہیں ہے۔‘‘ حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے عرض کی کہ
:’’یارسول اللہ ! میری دولت قبول فرما لیجیے ۔ ‘‘
چناں چہ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بارہ اوقیہ اور ایک نش یعنی سو
روپے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے قرض لے کر حضرت عائشہ صدیقہ رضی
اللہ عنہاکے پاس بھجوادیے۔ اس کے بعد انصارِ مدینہ کی چند عورتیں دلہن کو
لینے کے لیے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے گھر آئیں۔ حضرت امّ رومان
رضی اللہ عنہا نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہاکو آواز دی وہ اس وقت
اپنی سہیلیوں کے ساتھ جھولا جھولنے میں مصروف تھیں۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہاکی والدہ حضرت اُمّ رومان رضی اللہ عنہ نے
اُن کا منہ دھلایا ،بال سنوارے اور پھر اُن کو اس جگہ لے آئیں جہاں انصار
کی خواتین بیٹھی ہوئی تھیں۔ جب حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہادلہن بنی
ہوئی وہاں پہنچیں تو مہمانوں نے ’’ علی الخیر والبرکۃ و علی خیر طائر‘‘
یعنی تمہارا آنا خیرو برکت پرہے اور نیک فال ہے ۔ کی صدا لگاکر دلہن کا
شان دار طریقے سے بڑھ کر استقبال کیا۔
تھوڑی دیر بعد نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی تشریف فرما ہوئے۔ حضرت
اسما بنت یزیدرضی اللہ عنہا جو کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہاکی سہیلی
ہیں بیان کرتی ہیں کہ اس وقت حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہاکے گھر والوں
نے نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم جیسے معزز ترین مہمان کی خاطر مدارت کے
لیے ایک پیالہ دودھ پیش کیا گیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُسے خوش دلی
کے ساتھ قبول فرمالیا اور اس میں سے تھوڑا سا دودھ پی کر اسے حضرت عائشہ
صدیقہ رضی اللہ عنہاکی طرف بڑھایا۔ چناں چہ انھوں نے حیا کرتے ہوئے پیالہ
لے لیا اور اس میں سے تھوڑا سا دودھ پی لیا۔
اس طرح شوال کے مہینے میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نبیِ کریم صلی
اللہ علیہ وسلم کے مقدس کاشانے میں بڑی سادگی سے رخصت ہوکر آگئیں ۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی کنیت
جب حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہاکی رخصتی ہوئی اس وقت ان کی بہن حضرت
اسما بنت ابوبکر زوجہ حضرت زبیر رضی اللہ عنہماکا زمانۂ ولادت نزدیک تھا،
انھوں نے ہجرت کرکے قبا میں قیام کیا تھااور وہیں بچّے کی ولادت ہوئی ۔ جس
کانام اسلامی تاریخ میں عبداللہ بن زبیر رضی اللہ سے مشہور ہوا ۔ ان کی
پیدایش سے مسلمانوں میں خوشی و فرحت کا جو ماحول ہوا وہ اسلامی تاریخ کے
صفحات میں روشن باب کے طور پر مانا جاتا ہے ۔ اُس کی وجہ یہ تھی کہ یہودیوں
نے یہ مشہور کررکھا تھا کہ ہم نے مسلمانوں پر سخت جادو کردیا ہے اب اُن کے
یہاں کوئی اولاد نہیں ہوگی ۔ جب حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ پیدا
ہوئے تو یہودیوں کے جھوٹ کی قلعی کھل گئی۔
امام ابو حاتم رحمۃ اللہ علیہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہاسے روایت نقل
کرتے ہیں کہ اُم المؤمنین فرماتی ہیں : ’’ جب عبداللہ بن زبیر (رضی اللہ
عنہ) پیدا ہوئے تو مَیں ان کو لے کر نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس
آئی تو آپ نے اُن کو اپنی گود میں لے لیا اور ایک کھجور منگا کر اپنے
مبارک منہ میں چبائی پھر بچّے کے منہ میں ڈال دی اس طرح اُن کے پیٹ میں سب
سے پہلے جانے والی چیز نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا لعابِ مبارک تھا
اور آپ نے فرمایا ان کا نام عبداللہ ہے اور تم یعنی عائشہ اُمّ عبداللہ
ہو۔ آپ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ اُس دن سے میری کنیت ’’اُم عبداللہ‘‘
پڑ گئی ۔ ‘‘
ایک دوسری روایت میں یوں منقول ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ
عنہابارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا :’’
یارسول اللہ! آپ نے اپنی تمام بیویوں کی کنیت وضع فرمائی ، میری بھی کنیت
وضع کیجیے۔‘‘ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ تمہاری کنیت
تمہاری بہن کے بیٹے کے نام سے ’’اُمّ عبداللہ‘‘ ہے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں