جمعرات، 1 جون، 2017

Hazrat Aaisha Siddiqa Ka Naam Wo Nasab Kunniyat Khandan Bachpan Awr Taleem Wo Tarbiyat

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا نام و نسب کنیت ، خاندان، بچپن اور تعلیم و تربیت


ڈاکٹر مشاہدرضوی ، مالیگاؤں کی کتاب ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے

ام المؤمنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا نام ’’عائشہ‘‘ اور لقب ’’صدیقہ‘‘ اور ’’ حمیرا‘‘ہے۔ اُن کی کنیت ’’اُم عبداللہ ‘‘ اور خطاب ’’ اُم المؤمنین‘‘ ہے۔ آپ ہمارے پیارے نبی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی سب سے محبوب بیوی ہیں۔ آپ کے والد ماجد خلیفۂ اول امیر المؤمنین حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ اور والدۂ ماجدہ مشہور صحابیہ حضرت ام رومان رضی اللہ عنہا ہیں۔ والدِ گرامی حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی طرف سے آپ کا سلسلۂ نسب اس طرح ہے:
’’ عائشہ بنت ابو بکر بن ابو قحافہ بن عثمان بن عامر بن عمر بن کعب بن سعد بن تیم بن مرہ بن کعب بن لوی بن غالب بن فہر بن مالک۔‘‘

والدۂ ماجدہ حضرت ام رومان رضی اللہ عنہا کی طرف سے ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا سلسلۂ نسب اس طرح ہے:
’’ ام رومان بنت عامر بن عویمر بن عبد شمس بن عتاب بن اذنیہ بن سبع بن دھمان بن حارث بن غتم بن مالک بن کنانہ۔‘‘
No automatic alt text available.
پیارے نبی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم اور ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا سلسلۂ نسب ساتویں پشت میں جاکر مل جاتا ہے اور والدۂ ماجدہ حضرت ام رومان رضی اللہ عنہا کی طرف سے بارہویں پشت پر کنانہ سے جاملتا ہے۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے والدِ ماجد حضرت سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے مردوں میں سب سے پہلے اسلام قبول کیا۔ اعلانِ نبوت سے پہلے اور بعد نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سفر و حضرکے ساتھی حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی اسلام کی تبلیغ و اشاعت کے لیے جو بے مثال قربانیاں ہیں وہ اسلامی تاریخ کے صفحات پر جگمگا رہی ہیں ۔ آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے یارِ غاراور مسلمانوں کے پہلے خلیفہ کے لقب سے سرفراز ہوئے۔ آپ کی شرافت اور بزرگی بڑی بے مثال ہے ، وصال کے بعد بھی آپ کو نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو میں دفن ہونے کی سعادت نصیب ہوئی۔ اسی طرح حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی والدۂ ماجدہ حضرت ام رومان رضی اللہ عنہا بھی اسلام اور پیغمبرِ اسلام کے لیے اپنی بے لوث خدمات کی وجہ سے عظیم المرتبت صحابیات میں نمایاں مقام کی حامل ہیں۔آپ کی وفات ۶ ؁ھ میں ہوئی ۔ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم خود اُن کی قبر میں اترے اور فرمایا کہ:’’ جو کوئی جنت کی حورِ عین کو دیکھنا چاہتا ہو وہ امِ رومان (رضی اللہ عنہا ) کو دیکھ لے۔‘‘

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی ولادت
اُم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی والدۂ ماجدہ حضر ت اُم رومان رضی اللہ عنہا کا پہلا نکاح عبداللہ ازدی سے ہوا۔ عبداللہ کی موت کے بعد آپ حضرت سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے نکاح میں آئیں ۔ اللہ تعالیٰ نے اُن کے بطن سے حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو ایک بیٹا حضرت عبدالرحمان اور ایک بیٹی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما نصیب فرمائے ۔

اُم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے سنہ ولادت کے بارے میں تاریخ و سیرت کتابیں خاموش نظر آتی ہیں۔ لیکن یہ بات متفقہ طور پر تسلیم کی گئی ہے کہ ہجرت کے وقت آپ کی عمر شریف ۶؍ سال تھی۔ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ کا نکاح ۶؍ کی عمر میں ہی ہوا ،شوال ۱ ؁ھ میں آپ ۹؍ سال کی تھیں کہ رخصتی ہوئی، ۹؍ سال نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ساتھ رہیں، یعنی جب آپ کی عمر شریف ۱۸؍ برس ہوئی تو ربیع الاول ۱۱ ؁۔ھ میں نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہوا۔ اس طرح اُم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی ولادت کی تاریخ اعلانِ نبوت کے پانچویں سال کا آخری حصہ ہوگا ، یعنی شوال ۹ ؁۔ھ قبل ہجرت بہ مطابق جولائی ۶۱۴ ؁ء ۔

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا سنہری بچپن
ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہانے خلیفۃ المسلمین حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے اس مقدس اور مبارک خاندان میں پیداہوئیں ۔ جس میں سب سے پہلے اسلام کی کرنوں نے اپنا اجالا بکھیرا۔ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا گھر ابتدا ہی سے نبوت کے نور سے روشن و منور رہا ۔ کفر و شرک کا اس گھرانے میں دور دور تک پتا نہ تھا اسی نورانی ماحول میں آنکھ کھولنے والی ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہاکا دامن بھی ہمیشہ کفر وشرک کی گندگیوں سے پاک و صاف رہا۔ بچپن ہی سے آپ نے اسلامی اور ایمانی فضا میں اپنی گزر بسر کی ۔

جب نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے گھرمیں بنی ہوئی مسجد میں تشریف لاتے اور قرآن پاک کی تلاوت فرماتے تو ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا ایسے وقت میں موجود رہتیں اور فیض اٹھاتیں ۔ ہر چند کہ بچپن کازمانہ بچپن کا زمانہ ہی ہوتا ہے لیکن اللہ رب العزت جل شانہٗ جن مقدس بندوں کو نوازنا اور بلند مقامات پر پہنچانا ہوتا ہے وہ ابتدا ہی سے انھیں بے پناہ صلاحیتوں اور خوبیوں سے مالامال فرمادیتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے اپنے بچپن کے اس دور کو ضائع ہونے نہیں دیا بل کہ اللہ تعالیٰ کے عطا کیے ہوئے قیمتی حافظے سے کام لیتے ہوئے بہت کچھ یاد کیاجو بعد میں امت کے لیے منافع کا سبب بنا۔ چناں چہ حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ روایت کرتے ہیں کہ فرمایا حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہ : ’’ جب یہ آیت نازل ہوئی تھی -بل الساعۃ موعدہم والساعۃ ادھی وامر - ترجمہ: تو مَیں کھیل رہی تھی۔ ‘‘

اسی طرح کا ایک واقعہ حضرت اما م ولی الدین محمد بن عبداللہ الخطیب رحمۃ اللہ علیہ مشکوٰۃ شریف میں نقل فرماتے ہیں کہ : ’’ایک دفعہ کا واقعہ ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا گڑیوں سے کھیل رہی تھیں ۔ اُن گڑیوں میں ایک گھوڑا بھی تھا ، جس کے دائیں بائیں دو پر لگے ہوئے تھے، نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا وہاں سے گذر ہوا تو آپ ﷺ نے گھوڑے کے بارے میں دریافت فرمایا تو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے جواب دیا کہ یہ گھوڑا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایاکہ : ’گھوڑوں کے پر تو نہیں ہوتے۔‘‘ تو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فوراً جواب دیا: ’کیوں ؟ حضرت سلیمان علیہ السلام کے گھوڑوں کے پر تو تھے۔‘‘

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی تعلیم و تربیت
ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بچپن ہی سے بے پناہ ذہین اور مثالی قوتِ حافظہ کی مالکہ تھیں۔ آپ کے والدِ ماجد خلیفۃ المسلمین سیدناصدیق اکبر رضی اللہ عنہ بھی بڑے علم و فضل والے اور حکمت و دانائی کے مجموعہ تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے اپنی دوسری اولاد کی طرح حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی خصوصی تربیت فرمائی ۔اور انھیں تاریخ و ادب کے علاوہ اُس زمانے کے ضروری علوم بھی پڑھائے۔ جب نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا نکاح ہوگیا اُس کے بعد بھی اُن کے والد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تعلیم و تربیت فرماتے رہے۔ والدِ ماجد کی اِن ہی تربیت کا اثر تھاکہ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکاح میں آجانے کی وجہ سے مسلمان عورتوں کے زیادہ ترمسائل اور اُن کی ضروریات کی باتیں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے توسط سے ہی پہنچیں ۔

ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اپنے والدِ گرامی کے زیرِ سایا تعلیم و تربیت حاصل کرتی رہیں اورجلد ہی انھوں نے اپنے خداداد مثالی قوتِ حافظہ اور ذہن کی وجہ سے علوم و فنون میں مہارت حاصل کرلی۔ جب آپ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح میں آگئیں تو یہ دور اُن کی تعلیم و تربیت کا حقیقی دور بنا۔ نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے کاشانۂ اقدس میں آکر حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے جو کچھ سیکھا وہ آج پوری امتِ مسلمہ خصوصاً مسلمان عورتوں کے لیے بھلائی اور نجات کا سامان بناہوا ہے۔

نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم پوری کائنات کے معلمِ اعظم کی حیثیت سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی تربیت فرماتے رہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی جملہ ازواج کے ایک ایک فعل کی نگرانی فرماتے اور کہیں کوئی لغزش نظر آتی تو فوراً اصلاح فرماتے ۔اس سلسلے میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو جو امتیاز حاصل ہوا وہ ایک مثال رکھتا ہے۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی عمرشریف نکاح کے وقت کم تھی اس کی وجہ یہی ہے کہ ان کے ذریعہ امت کی عورتوں کی تعلیم و تربیت کاکام لینامقصود تھا۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو اللہ رب العزت نے ذہانت عطا فرمائی تھی اس کے ہوتے آپ کے سامنے جب بھی کوئی مسئلہ درپیش آتا تو آپ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھ لیتیں اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسئلہ واضح فرمادیتے تو وہ انھیں ازبر کرلیتیں ۔ یہی وجہ ہے حدیث کی کتابوں میںحضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت کردہ حدیثوں کی کافی تعداد ہے۔امام بخاری اور امام مسلم علیہم الرحمۃ کے مطابق حضرت ابوہریرہ اور حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کے علاوہ کسی دوسرے صحابی نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے زیادہ حدیث روایت نہیں کی۔شارح بخاری مفتی محمد شریف الحق امجدی علیہ الرحمہ ’’نزہۃ القاری شرح بخاری‘‘ میں لکھتے ہیں کہ : اِن(حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا) سے ۲۲۱۰؍ حدیثیں مروی ہیں ، علما فرماتے ہیں کہ دین کا چوتھائی حصہ آپ سے مروی ہے۔ ‘‘(ص ۱۷۷)

ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے پڑھنے کے ساتھ لکھنا بھی سیکھا ، ناظرہ قرآن پڑھا، علم انساب سے واقفیت حاصل کی، علمِ طب میں مہارت پیدا کی ، شریعت کے باریک باریک نکات یاد کیے،خطابت میں عبور حاصل کیا، ضروریاتِ دین اور قرآنی و نبوی علوم میں ملکہ پیدا کیا۔ اللہ جل شانہٗ نے آپ رضی اللہ عنہا کو قرآن و سنت سے مسائل کو سمجھنے اور ان کو حل کرنے کا شعور بخشا ۔ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت کے اثر نے آپ کو امت کی ایک بہترین فقیہ اور عالمہ بنا دیا ۔ یہی وجہ ہے کہ بڑے بڑے صحابہ مشکل سے مشکل مسائل میں آپ کی طرف رجوع کرتے اور تسلی بخش جواب پاتے۔

..:: Follow us on ::..

http://www.jamiaturraza.com/images/Twitter.jpghttp://www.jamiaturraza.com/images/Facebook.jpg

 
 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

ٹیوٹر اپڈیٹس دیکھیں اور فالو کریں