پیر، 11 ستمبر، 2017

Aalahazrat Ki Aruuzi Ghalati

⚡️اعلیٰ حضرت کی عروضی غلطی ⚡️
علامہ لقمان شاہد صاحب قبلہ کے زرنگار قلم سے

ایک مہربان نے سیدی اعلیٰ حضرت کے شعر پر  اعتراض کرتے ہوئے کہا:

" فاضل بریلوی کا صنعت اقتباس میں ایک  شعر ہے :

من زار تربتی وجبت لہ شفاعتی
ان پر درود جن سے نوید ان بشر کی ہے

یہ شعر وزن رواں: مفعول فاعلات مفاعیل فاعلن میں ہے ، لیکن اس کا مصرع اول ساقط الوزن ہے ، کیوں کہ:
'  لہ ' کی " ہ " کو ساکن کردیا گیا ہے -
اگر اشباع ہوتا تو ہم مان لیتے کہ عروضی قاعدہ ہے ، لیکن متحرک کوساکن کردینا کس قاعدے سے درست ہو گیا ؟
اس لیے مان لینا چاہیے کہ امام احمد رضا معصوم عن الخطا نہیں تھے "

اِس مبنی برجہالت اعتراض پر معترض  کو میں کیا کہوں اور کیا نہ کہوں !!

دانائی وعلم پر تجھے اتنا ناز
پھر اُس پہ یہ اِفہام کا اوچھا انداز

تو کس کوپڑھا رہا ہے ، او طفل مزاج!
دیتا ہے کوئی ہوا کو درسِ پرواز ؟

سیدی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا رحمہ اللہ دیگر علوم کے ساتھ عروض کے بھی ایسے ماہر تھے کہ مثال نہیں ملتی ؛ لیکن " ولی را ولی می شناسَد "  صاحب فن کو صاحب فن ہی پہچان سکتا ہے -

نصیرگولڑوی کہتے ہیں:

نکتہ رس ، ناقد ، رُباعی گو ، یَم فنِ عروض
پاک جوہر ، خوش بیاں ، شیریں کلام احمد رضا

یَم سمندر کو کہتے ہیں ، یم فن عروض کامطلب ہے " عروض کا سمندر " -

یہ اُس شخص کی بات ہے جس کا باپ داد بھی شاعرتھا ، اور وہ خود بھی شاعرِ ہفت زباں تھا -

اور ایک معترض صاحب ہیں کہ........کچھ نہ پوچھیے!

سیدی اعلیٰ حضرت رحمہ اللہ کا اقتباس میں شعر سوفی صد درست ہے ، لیکن اِس کے وزن کو سمجھنے کے لیے کلامِ اساتذہ کے وسیع مطالعے کی ضرورت ہے جس سے معترض کوسوں دور ہے !

شاعر جب اقتباس کرتا ہے تو اُسے وزن شعری برقرار رکھنے کے لیے مقتبس الفاظ میں ترمیم واضافے ،  اشباع واسقاط اور تسکین کی اجازت ہوتی ہے ؛  اس کی بیسیوں مثالیں اردو وفارسی شعرا کے کلام میں موجود ہیں -

یہاں ہم " مشتے نمونہ ازخروارے " صرف متحرک کوساکن کرنے کی کچھ مثالیں پیش کرتے ہیں ، کیوں کہ معترض کو اِسی پر اعتراض ہے -

☀️ اردو زبان کے عظیم شاعر ، ولی دکنی ( متوفیٰ قریب:  1725 ء ) کہتے ہیں:

تمام پات یسبح بحمدہ کے بہ حکم
زبان حال سوں کرتے ہیں ذکرسبحانی

( کلیات ولی ، مرتب نورالحسن ہاشمی ، درمدح حضرت شاہ وجیہہ الدین ، ص 293 ، الوقار پبلی کیشنز لاہور 2016ء )

یہ شعر بحرمجتث مثمن مخبون محذوف مسکن میں ہے ، تفعیل: مفاعلن فَعِلاتن مفاعلن فعلن

اس میں قرآنی آیت:

تُسَبِّحُ لَهُ ٱلسَّمَٰوَٰتُ ٱلسَّبْعُ وَٱلْأَرْضُ وَمَن فِيهِنَّ ۚ وَإِن مِّن شَىْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَٰكِن لَّا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ  إِنَّهُ كَانَ حَلِيمًا غَفُورًا - (بنی اسرائیل ، 44 )

سے اقتباس کیا ہے -

لیکن یسبح کی "ح"  آیت کی طرح متحرک نہیں ، ساکن باندھی ہے ؛ بالکل اسی طرح جیسے سیدی اعلیٰ حضرت نے وجبت لہ کی " ہ "  ساکن باندھی ہے -

یہاں یہ بھی یاد رہے کہ ولی دکنی کوئی عام ہستی نہیں ، یہ عالم فاضل اور صوفی طبیعت ہونے کے ساتھ ایسے بلند پایہ شاعر ہیں کہ میرتقی میر بھی جن کا عاشق ہے ؛ میرایک غزل میں کہتا ہے :

خوگر نہیں ہم یوں ہی کچھ ریختہ کہنے سے
معشوق جواپنا تھا ، باشندہ دکن کا تھا

( کلیات غزلیاتِ میر ، مرتبہ ڈاکٹرعلی محمد خاں ، غ 170 ، ص 148 ، فیصل ناشران وتاجران کتب لاہور ، 2013 ء )

☀️  خاقانی ہند ابراہیم ذوق (متوفیٰ 1854 ء ) کہتے ہیں:

گر قتل ہی کرنا ہے ، عاشق کہیں ہو جلدی
لاحول ولا قوۃ ، کیا دیر لگائی ہے

( کلیات ذوق ، مرتبہ ڈاکٹر تنویر احمد علوی ، غ 205 ، ص 235 ، مجلس ترقی ادب لاہور 1430 ھ )

یہ شعر بحرہزج مثمن اخرب میں ہے ، تفعیل: مفعول مفاعیلن مفعول مفاعیلن -

اس میں الفاظ:
لاحول ولاقوة الا باللہ سے اقتباس کیا ہے اور قوۃَ کو قُوَتْ باندھا ہے ؛ ایک تو حرکت اڑادی ہے اور دوسرا "ۃ " کو ہ کے بجائے ت سے بدل دیا ہے -

☀️ عالم بے بدل پیرسید مہرعلی شاہ گولڑوی ( متوفیٰ 1937ء ) کہتے ہیں:

لم یکن احد لک کفوا ولم
لیس شیئا  مثلک یا ذالکرم

( کلام حضرت پیر مہر علی شاہ گولڑی رحمۃ اللہ علیہ ، انتخاب پیرسید ارتضیٰ علی کرمانی ، مثنوی المعروف گومگو ، ص 65 ، عظیم اینڈ سنز پبلشرز لاہور ، 1424 ھ )

یہ شعر بحررمل مسدس محذوف میں ہے  ،تفعیل: فاعلاتن فاعلاتن فاعلن -
اِسے سورت اخلاص سے اقتباس کیا  ہے ، اِس میں پیر صاحب قبلہ نے احد کی "ح" کو ساکن باندھا ہے اور کفُوا کے " ف" کو بھی ساکن  -
بالکل اسی طرح جیسے میرے امام نے لہ کی " ہ " کوساکن باندھا ہے -

میری طرف سے مقتبس متحرک کو ساکن کرنے کی یہ  مثالیں معترض کی علمی ضیافت کے لیے بہت کافی ہیں-

اب میں " ماہرِ عروض " معترض صاحب کے ذمے بھی کچھ لگاتا ہوں :

یہ بتائیں کہ مولانا روم نے صنعت اقتباس کے اِن اشعار میں کس کس جگہ متحرک کوساکن باندھا ہے!

¹ تاالیہ یصعد اطیاب الکلم
صاعداً منا الیٰ حیث علم

( د 1 ، ش882 )

² لاجرم ابصار ما لا تدرکہ
وھو یدرک بین تو از موسیٰ وکہ

( د1، ش 1135 )

³ باھوا و آرزو کم باش دوست
چون یُضلک عن سبیل اللہ اوست

( د 1، ش 2957 )

⁴ دستِ او راحق چوں دست خویش خواند
تا یداللہ فوق ایدیھم براند

( د 1، ش 2972)

( یہ چاروں اشعار مثنوی معنوی مطبوعہ تہران 1387 سے نقل کیے ہیں ، علامت"  د " سے مراد دفتر ہے ،  اور " ش" سے مراد شعر )

اِن دلائل قاہرہ سے بھی اگر معترض " مرحوم " کی تسلی نہ ہوئی تو اللہ کی رحمت سے میں نے :

سعدی ، جامی ، کاکوروی ، کاشانی ، خاقانی ، قاآنی ، خواجوی ، اھلی ، ساوجی ،  اور فیضی جیسے ائمہ سخن کے کلام سے متحرک کو ساکن کرنے کی متعدد مثالیں ڈھونڈ رکھی ہیں -

آخر میں معترض کو صنعت اقتباس میں کچھ نصیحت کرتا ہوں تاکہ آئندہ محتاط رہے :

لیا جس نے ہم سے عداوت کا پنجہ
سُنُلقِی عَلَیھِم عَذاباً ثَقِیلا

کہستاں میں ماریں اگر آہ کا دم
فَکانَت جِبال َکثِیباً مَہِیلا

✍لقمان شاہد عفی عنہ

شب جمعہ مبارک
7/9/2017

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

ٹیوٹر اپڈیٹس دیکھیں اور فالو کریں