جمعہ، 22 ستمبر، 2017

2nd Muharram Ul Haram | Hazrat Maroof Karkhi Radi Allaho Anho

حضرت معروف کرخی رحمتہ اللہ علیہ کے حالات و واقعات
پیش کش: مشاہد رضوی ڈاٹ اِن ٹیم

(سلسلۂ عالیہ قادریہ برکاتیہ رضویہ کے امام)

بہر معروف و سری معروف دے بے خود سری
جند حق میں گن جنید باصفا کے واسطے

عرب کا ریگستان ہے۔ گرمی اپنے جوبن پر ہے۔ ریت کے ذرے ہیں کہ تپتے ہوئے انگارے جیسے ہیں۔ ایک ستمرسیدہ شخص کو تپتی ریت پرلٹا کر سینے پر ایک بھاری پتھر رکھ دیا گیاہے۔ تکلیف کی شدت سے آنکھیں ابل رہی ہیں حبشہ کے باشندے کی رنگت گرمی کی تپش سے مزید گہری ہو گئی ہے کمر کی کھال ادھڑ کر خون رسنے لگا ہے۔درے مار مار کر ظالم آقا بھی نیم بے ہوش ہونے کو ہے لیکن یہ دیوانہ ایسا ہے کہ مصلحت کے تمام سبق فراموش کیے ایک ہی کلمہ دہرا رہا ہے۔ ’’احد احد‘‘ ظالموں کا
ظلم اس کے پائے استقلال میں ذرا برابر بھی لغزش پیدا نہ کر سکا۔ ظلم و ستم جھیلتے ہوئے ایک عرصہ ہو گیا۔ پر احد احد کا سبق نہ بھولا۔ بالآخر اللہ کے اس نیک بندے (حضرت بلال رضی اللہ عنہ) کی آزمائش ختم ہوئی اور مکہ کے ایک باثروت اور سچے انسان امت محمدی کے پہلے مومن مرد ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اسے اس کے ظالم آقا کی غلامی سے رہائی دلائی اور آزاد کر دیا۔اس واقعے کو گزرے تقریباً ڈیڑھ صدی ہونے کو ہے۔ دوسری صدی ہجری کا دور چل رہا ہے۔ اسلام کا پیغام حجاز سے نکل کر دور دور تک پھیل چکا ہے اور اطراف عرب اللہ کے پراسرار بندوں کی جبین نیاز سے شاد و آباد ہے۔ ایسے میں عراق کے مشہور شہر بغداد کے علاقہ ’’کرخ‘‘ کے ایک عیسائی خاندان میں ایک بچہ پیدا ہوا، عیسائیوں کے مذہبی طریقے کے مطابق اسے بتیسمہ دیا گیا۔ خوشیاں منائی گئیں اور لاڈ اٹھائے گئے، لیکن یہ سعید روح مضطرب تھی۔ بچہ ذرا بڑا ہوا، والدین کو تربیت کی فکر لاحق ہوئی، درسگاہ میں داخل کرا دیا۔ایک عیسائی استاد اس کی تعلیم و تربیت پر مقرر ہوا، جو اسے عیسائیت کی تعلیم دیتا تھا۔ لیکن معصوم ذہن اسے قبول کرنے سے انکار کر دیتا ہے۔اس بچہ کا بھائی بھی اس کے ساتھ زیر تعلیم ہے جو اس کی زمانہ طالب علمی کے حالت کو یوں واضح کرتا ہے۔ ’’اللہ تعالیٰ نے اسی زمانہ سے ان کو عقیدۂ توحید کے لیے چن لیا تھا۔ میں اور وہ ایک عیسائی استاد کے پاس پڑھا کرتے تھے۔ استاد ہمیں باپ بیٹا کا عقیدہ سمجھاتا تھا لیکن آپ جواب میں ’’احد احد‘‘ فرما کر سنت بلالی رضی اللہ تعالیٰ عنہ زندہ کرتے۔ اس پر استاد انہیں بے تحاشا مارتا۔ ایک مرتبہ استاد نے اتنا مارا کہ آپ گھر سے بھاگ کھڑے ہوئے اور لاپتہ ہوگئے۔آپ کو بہت ڈھونڈا گیا، پر نہ ملے۔ ان کی والدہ رو رو کر کہتی تھیں کہ ’’اگر اللہ تعالیٰ نے معروف کو میرے پاس لوٹا دیا تو وہ جو دین چاہے گا اختیار کرنے سے نہیں روکوں گی۔‘‘کئی سال بعد آپ گھر واپس آئے تو ماں نے پوچھا ’’بیٹا! تم کس دین پر ہو؟‘‘آپ نے جواب دیا کہ ’’اسلام پر‘‘’’اس پر والدہ بھی مسلمان ہو گئیں اور پورا گھر مشرف بہ اسلام ہو گیا۔‘‘جی ہاں یہ حضرت معروف کرخی بن فیروز رحمتہ اللہ علیہ ہیں جو دوسری صدی ہجری کے مشہور اولیاء میں سے ہیں۔یہ حضرت علی بن موسیٰ الرضا رحمتہ اللہ علیہ کے آزاد کردہ غلام تھے۔ اعلیٰ پائے کے صوفی بزرگوں میں شمار ہوتے ہیں اور ان کے ملفوظات صوفیاء کرام کے لیے مشعل راہ ہیں۔ان پر کثرت نوافل سے زیادہ ذکر و فکر کا غلبہ رہتا ‌۔ آپ کا اسمِ گرامی: معروف۔ کنیت: ابو المحفوظ۔ لقب: اسد الدین۔ والد بزرگوار کا نام فیروز یا فیروزان تھا، مذہب نصاریٰ رکھتے تھے۔ اسلام لانے کے بعد ان کا نام علی رکھا گیا، جد امجد کا نام مرزبان الکرخی تھا۔ آپ دوسری صدی ہجری میں پیداہوئے۔
آپ اپنے زمانہ کے مقتدائے صدر طریقت ،رہنمائے راہ حقیقت ،عارف اسرار الٰہی، قطب وقت اور مستجاب الدعوات تھے۔ آپ حضرت امام علی رضا،اور حضرت  داؤد طائی شاگرد امام ابو حنیفہ کے پاس بیٹھے اور ان سے ظاہری و باطنی علوم تکمیل کی اور مقام علیا میں فائز المرام ہوئے۔مخدوم شیخ علی الہجویری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: کہ معروف کرخی رحمۃ اللہ علیہ ساداتِ مشائخ سے تھے، اور مردانگی میں مشہور اور پرہیزگاری میں معروف تھے، آپ کے مناقب و فضائل بہت ہیں کہ فنون علم میں آپ کا باکمال تھے۔ ( کشف المحجوب )

شیخ ابو الحسن قرشی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے  ہیں: میں چار شخصوں کو مشائخ رحمۃ اللہ علیہ میں سے جانتا ہوں کہ وہ اپنی قبروں میں زندوں کی طرح تصرّف کرتے ہیں اوّل شیخ معروف کرخی رحمۃ اللہ علیہ دوم شیخ عبد القادِر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ سوم شیخ عقیل منبجی رحمۃ اللہ علیہ چہارم شیخ حیات بن قیس رحمۃ اللہ علیہ۔ (سیرۃ غوث اعظم ) حضرت امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ اور امام یحییٰ بن معین محدث رحمۃ اللہ علیہ آپ کے پاس آیا جایا کرتے اور آپ سے تعلیم روحانی حاصل کرتے تھے،اور حضرت سری سقطی رحمۃ اللہ علیہ آپ کے خلیفۂ اعظم تھے۔
علاوہ ازیں ان کے ہم عصر ایک بزرگ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں حضرت معروف کرخی رحمتہ اللہ علیہ کے پاس گیا۔ نماز کا وقت ہوا تو انہوں نے اذان کہنی شروع کی تو ان پر اضطراب کی عجیب کیفیت طاری تھی۔حتیٰ کہ جب شہادتین پر پہنچے تو ان کی داڑھی اور ابرو کے بال کھڑے ہوگئے اور اس حد تک جھک گئے کہ مجھے یہ اندیشہ ہوا کہ آپ اذان بھی پوری کر سکیں گے یانہیں۔ اللہ کا ذکر اس کثرت سے کیا کرتے تھے کہ ایک مرتبہ حجام سے خط بنوا رہے تھے اور ساتھ ساتھ ذکر میں بھی مصروف تھے۔ حجام نے ان سے کہا کہ ’’اگر آپ تسبیح پڑھتے رہیں گے تو خط نہیں بن سکے گا۔‘‘تو فرمانے لگے۔ ’’تم تو اپنا کام کر رہے ہو، کیا میں اپنا کام نہ کروں۔‘‘حضرت معروف کرخی رحمتہ اللہ علیہ کا یہ معمول تھا کہ اگر کوئی دعوت دیتا تو سنت کے مطابق اس کی دعوت قبول فرما لیتے تھے۔ ایک مرتبہ ایک صاحب نے آپ کو ولیمہ پر بلایا تو آپ نے حسب معمول اس کی دعوت قبول فرما لی۔ وہاں پہنچے تو دیکھا کہ انواع اقسام کے پرتکلف کھانے چنے گئے ہیں اور مزید کھانے آتے جا رہے ہیں۔ ایک اور بزرگ بھی وہاں تشریف فرما تھے۔ کہنے لگے ’’حضرت آپ دیکھ رہے ہیں کہ یہ کیسے کھانے ہیں؟‘‘ان کا مطلب یہ تھاکہ ایسے پرتکلف کھانے کھانا مناسب نہیں ہے اور بار بار اس شکایت کو دہرانے لگے تو حضرت کرخی رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا ’’میں تو غلامہوں، میرا آقا مجھے جو چیز کھلاتا ہے، کھا لیتا ہوں اور جہاں لے جاتا ہے چلا جاتا ہوں۔‘‘تواضع ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ اور ہر دم اللہ کی رحمت کے طالب رہتے تھے۔ ایک مرتبہ ایک شخص لوگوں کو پانی پلا رہا تھا اور یہ آواز لگا رہا تھا کہ ’’جو مجھ سے پانی پئے اللہ اس پر رحم کرے۔‘‘آپ رحمتہ اللہ علیہ وہاں سے گزرے تو اس شخص سے پانی لے کر پی لیا۔ لوگوں نے پوچھا۔ ’’حضرت آپ تو روزہ سے تھے؟‘‘فرمایا کہ ’’شاید اس کی دعا کی وجہ سے اللہ مجھ پر رحم فرما دے۔‘‘ (نفلی روزہ ہو گا اس لیے توڑ لیا۔ بعد میں قضا کرلی ہو گی۔)جس طرح خود ہدایت کے طالب رہے اور بالآخر اس کو پا لیا، اسی طرح لوگوں کی ہدایت کی فکر میں رہا کرتے تھے۔ اگر کوئی شخص ان پر زیادتی کرتا یا ان کے سامنے گناہ کرتا تو اس کے لیے بھی دعا فرماتے تھے۔چنانچہ ایک مرتبہ آپ دجلہ کے کنارے پر بیٹھے تھے کہ سامنے سے کچھ کشتیاں گزریں جن پر کچھ لوگ سوار تھے اور گانے بجانے اور لہو و لعب میں مشغول تھے۔ لوگوں نے آپ سے کہا کہ ’’دیکھیں یہ لوگ دریا میں بھی اللہ کی نافرمانی کر رہے ہیں، ان کے لیے بددعا کیجئے۔‘‘حضرت معروف کرخی رحمتہ اللہ علیہ نے ہاتھ اٹھا کر یوں دعا فرمائی۔ ’’الٰہی میری آپ سے التجا ہے کہ جس طرح آپ نے ان نوجوانوں کو دنیا میں مسرتیں عطا فرمائی ہیں،اسی طرح ان کو (آخرت میں بھی) جنت میں بھی مسرتیں عطا فرمائیے۔‘‘لوگوں نے کہا کہ ’’ہم نے تو آپ سے بددعا کے لیے کہاتھا، تو فرمایا ’’اگر اللہ تعالیٰ نے انہیں آخرت میں خوشیاں عطا فرمائیں تو دنیا میں ان کے گناہوں کی توبہ قبول فرما لے گا، اس میں تمہارا کیا نقصان ہے۔‘‘حضرت سری سقطی رحمتہ اللہ علیہ جو کہ حضرت معروف کرخی رحمتہ اللہ علیہ کے خلیفہ خاص ہیں، فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے جو اچھی حالت بخشی ہے تو یہ سب حضرت معروف کرخی رحمتہ اللہ علیہ کی برکت سے ہے۔ایک دن میں عید کی نماز پڑھ کر واپس آ رہا تھا تو میں نے دیکھا کہ حضرت معروف کرخی رحمتہ اللہ علیہ ایک پراگندہ حال بچے کو اپنے ساتھ لے جا رہے ہیں۔ میں نے پوچھا ’’حضرت یہ کون ہے؟‘‘فرمایا ’’میں نے راستے میں کچھ بچوں کو کھیلتا ہوا دیکھا۔ یہ بچہ ان کے پاس اداس کھڑا تھا۔ میں نے پوچھا کہ تم کیوں نہیں کھیلتے تو کہنے لگا: میں یتیم ہوں، میرے ماں باپ نہیں ہیں، اس لیے اداس ہوں۔‘‘حضرت سری سقطی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں،میں نے پوچھا ’’حضرت آپ اس بچے کو ساتھ لے جا کر کیا کریں گے؟‘‘فرمانے لگے ’’اسے اپنے پاس رکھوں گا، اس کی دیکھ بھال کروں گا، کہیں سے کچھ گٹھلیاں جمع کرکے دوں گا، جس سے اخروٹ خرید کر یہ خوش ہوگا۔‘‘اس پرمیں نے عرض کیا کہ ’’یہ بچہ مجھے دے دیجئے۔ میں اس کی دیکھ بھال کروں گا۔‘‘تو انہوں نے مجھ سے وعدہ لیا کہ ’’واقعی کرو گے؟‘‘میں نے وعدہ کیا توفرمایا ’’لے جاؤ، اللہ تمہارا دل غنی کرے گا۔‘‘حضرت سری سقطی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حضرت معروف کرخی رحمتہ اللہ علیہ کی دعا کی بدولت میرے دل کی یہ حالت ہو گئی کہ مجھے حقیر سے حقیر شے سے بھی دنیا زیادہ حقیر معلوم ہوتی ہے۔
آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا وصال 2محرم الحرام 200ھ کو ہوا ۔آپ کا مزار شریف بغدادِ معلی میں زیارت گاہِ خلائق ہے۔حضرت خطیب بغدادی فرماتے ہیں:""آپ کی قبرمبارک حاجتیں اور ضرورتیں پوری ہونے کے لئے مجرب ہے۔"

ملفوظات حضرت معروف کرخی رحمۃ اللہ علیہ:

    فرمایا جوانمردی تین باتوں میں ہے، ایک وفائے بے خلاف، دوسری ستایش بے جود، تیسری عطائے بے سوال۔
    فرمایا علامت اللہ تعالیٰ کی گرفت کی یہ ہے کہ وہ بندے کو نفس کے کام میں مشغول کرتا ہے کہ وہ اس کے کام نہ آوے۔
    فرمایا علامت خدا کے دوستوں کی یہ ہے کہ ان کی فکر خدا ہی میں ہوتی ہے، اور ان کو قرار خدا ہی سے ہوتا ہے، اور ان کا شغل خدا ہی کی راہ میں ہوتا ہے۔
    فرمایا حق تعالیٰ جب بندہ کی بھلائی چاہتا ہے تو عمل کا دروازہ اُس پر کھول دیتا ہے، اور دروازہ سخن اور کسل کا بند کرتا ہے۔
    فرمایا ایسی بات میں گفتگو کرنی جس میں کسی کا فائدہ نہ ہو علامت گمراہی کی ہے۔
    فرمایا جو کسی کی برائی چاہتا ہے وہ خود برائی میں مبتلا ہوتا ہے۔
    فرمایا حقیقت وفا کی یہ ہے کہ سر اس کا خوابِ غفلت سے ہوش میں آئے اور اندیشہ اس کا فضول و آفت سے خالی ہو۔
    فرمایا تصوّف حقائق کا اختیار کرنا ہے، اور دقائق کا بیان کرنا، اور خلائق سے نا امید ہونا۔
    فرمایا ریاست کے شیدائی کو ہر گز فلاح نہیں۔
    فرمایا نزدیک تر راہ خدا کی یہ ہے کہ تو کسی سے کچھ نہ چاہے اور تیرے پاس بھی کچھ نہ ہو کہ تجھ سے کوئی چاہے۔
    لوگوں نے پوچھا کہ طاعت پر کس طرح دسترس ہوسکتی ہے، فرمایا جب دنیا کی محبت دل سے دور ہوجائے، کیونکہ اگر دنیا کی ذراسی چیز بھی تمہارے دل میں ہوگی تو جو سجدہ کرو گے اسی چیز کو کرو گے۔
    لوگوں نے محبت کی نسبت پوچھا، فرمایا یہ سیکھنے اور کسی کے بتانے کی چیز نہیں، یہ خدا تعالیٰ کے فضل و بخشش پر موقوف ہے۔
    فرمایا عارِف اگرچہ نعمت نہیں رکھتا مگر پھر بھی وہ ہمیشہ نعمت میں ہے۔
    فرمایا خدا پر توکل کر، تاکہ خدا تیرے ساتھ ہو، اور باز گشت تیری اس کی طرف ہو، اور تو تمام شکایتیں اُسی سے کرے، کیونکہ تمام خلائق تجھ کو کوئی نفع نہیں پہنچا سکتیں، اور نہ تیرا نقصان دفع کر سکتی ہیں۔
    اپنی ساری التجائیں اُس شخص کے پاس لے جا جس کے پاس اس کا علاج ہے۔
    جو کچھ کہ رنج و بلا و فاقہ سے تجھ کو پیش آوے اس کا کشود کار اس کے پوشیدہ رکھنے میں ہے ۔
    فرمایا بہشت کی طلب بغیر عمل کے گناہ ہے۔
    شفاعت کا انتظار بغیر نگہداشت سنت کے ایک قسم کا غرور ہے۔
    رحمت کی امید بحالتِ نا فرمانی جہل و حماقت ہے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

ٹیوٹر اپڈیٹس دیکھیں اور فالو کریں