بسم
اللہ الرحمٰن الرحیم
واقعات کربلا-پس منظر، پیش منظر اور ما بعد
ڈاکٹر سید سراج اجملی،علی گڑھ مسلم یونیورسٹی
اہل بیت مصطفی رضوان اللہ تعالیٰ علیہم کا ئنات انسانی کی وہ منتخب
ہستیاں ہیں جن کے فضائل و مناقب کا سلسلہ نص قطعی سے شروع ہوکر کتب احادیث، اقوال صلحا،
تحریرات سلف، ملفوظات صاحبان دل سے ہوتا ہوا معاصر صاحبان قلم تک پہنچا ہے۔ چوں کہ
اس سلسلہ کا آغاز خود خالقِ کائنات نے اپنے لازوال کلام سے فرمایا ہے، اس لئے ذکر کے
اس سلسلہ کی تکمیل اس روز ہی ممکن ہے جس روز یہ کار خانۂ ہست و بود سمیٹ لیا جائے
گا۔ اس درمیان میں تاریخ اسلام کوئی عہد یا کوئی ایک زمانۂ حکومت، یا کوئی ایسا مرحلۂ
تہذیب پیش کرنے سے قاصر ہے جس میں سلسلۂ مناقب اہل بیت رکا ہو۔ سبب اس کا یہ ہے کہ
ان مقدس ہستیوں کی خدمات اور قربانیاں بے مثال ہیں۔ اسلام کی حقانیت، پیغمبر اسلام
صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات، آپ کی سنتیں،شعائر اسلام کے استحکام کی جملہ صورتیں،
اگر آج زندہ ہیں اور ان سے ایمان والے اس طرح وابستہ ہیں کہ ان کی حرمت پر اپنی جان
قربان کرنے کا نہ صرف جذبہ رکھتے ہیں بلکہ اس جذبہ کا عملی مظاہرہ بھی کرتے رہتے ہیں
تو یہ سب احسان ہے اہل بیت رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کا کہ انہوں نے اقامت دین اور حفاظت دین کی راہ
میں اپنی قربانیوں سے نشانات امتیاز قائم کر دیے ہیں۔
اہل بیت کی قربانیوں پر اللہ کے کلام کی گواہی قیام قیامت تک کے لئے
موجود ہے، الجوہر المنظم کے حوالے سے علامہ عزیز الحق کوثر ندوی قادری نظامی نے اپنی
معرکۃ الآرا تصنیف ’’مناقب اہل بیت‘‘ میں مشہور مفسر ثعلبی کی پیش کردہ اس روایت کو
معتبر بتایا ہے کہ حسنین بیمار ہوئے اور ان کے والدین کریمین نے بارشاد نبوی صلی اللہ
علیہ وسلم شفا کے لئے نذر کے تین روزے رکھے۔ دونوں شاہزادوں نے بھی ان کی پیروی کی
اور گھر کی کنیز نے بھی اور افطار کے لئے قرض پر کچھ جَو آیا جسے حضرت سیدہ نے پیسا،
تینوں روز ایسا اتفاق ہوا کہ افطار سے پہلے کوئی حاجت مند سامنے تھا۔ حضرت علی، حضرت
فاطمہ ، حضرات حسنین اور گھر کی کنیز غرض کہ سب نے اپنا کھانا اس کو دے دیا اور پانی
سے افطار کر کے اگلے دن کا روزہ پانی پی کر ہی رکھا، پہلے روز ایک مسکین آیاتھا، دوسرے
روز یتیم اور تیسرے دن اسیر اس واقعہ پر یہ آیت نازل ہوئی:
ترجمہ: اور یہ لوگ اللہ کی محبت میں مسکین، یتیم اور اسیر کو کھاناکھلاتے
ہیں۔ (قرآن حکیم، سورۂ انسان: ۸)
یہ شاید اہل بیت کے ذریعہ پیش کی گئی اولین اجتماعی قربانی ہے کہ جس
پر خالق کائنات گواہ ہے اور یہ گواہی اس کی مقدس کتاب میں ابد الآباد تک کے لئے رقم
ہو گئی ہے ۔ کہنے کو تو یہ ایک چھوٹا سا واقعہ ہے لیکن اصل بات یہ ہے کہ یہ چھوٹا سا
واقعہ قربانیوں کے اس فقید المثال سلسلہ کا دیباچہ ہے جس کا ایک اہم باب محرم ۶۱ھ کے عاشورہ
کو کربلا میں مکمل ہوا اور وہاں سے ایک نئے سلسلہ کا آغاز ہوا۔ بقول حضرت سید محمد
اکمل اجملی رحمۃاللہ تعالی علیہ سجادہ نشین دائرہ شاہ اجمل ، الہ آباد ؎
یہ کربلا ہے، بہتّر چراغ روشن ہیں
بڑھا یہاں سے محبت کا سلسلہ آگے
۶۱ھ کا عاشورۂ محرم وہ تاریخ ہے جس روز حق کا نام لے کر باطل
کو استحکام بخشنے والے اور بقول کسے تقدیس جائے نماز کو جام شراب میں غرق کردینے والے
نمائندۂ ملوکیت نے، روئے زمین پر حق کے سب سے بڑے نمائندے فرزند رسول الثقلین سید
جوانان جنت، حضرت امام حسین علیہ السلام سے مطالبۂ بیعت کا جواب نفی میں پاکر قتال
کے ناپاک ارادے کو پایۂ تکمیل تک پہنچایا۔
جس طرح نمائندۂ حق حضرت امام حسین علیہ السلام کی تربیت مزاج اور
تطہیر نفس کا فریضہ انجام دینے کے لئے خالق کائنات نے خصوصی ہدایات کے ذریعہ ایک نصاب
تیار کردیا تھا جس کا نفاذ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اور جس پر
عمل کا سلسلہ ہر پروردۂ آغوش رسالت نے روا رکھا، خواہ وہ سیدنا علی مرتضیٰ ہوں، سیدہ
فاطمہ زہرا ہوں، حضراتِ حسنین کریمین ہوں یا ان سے وابستہ کوئی اور شخص یا غلام یا
کنیز۔ اس کی ایک مثال اوپر گذر چکی ہے۔دوسری مثال کے طور پر واقعۂ مباہلہ کو پیش کیا
جاسکتا ہے جس میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد قرآنی کے مصداق کے طور
پر ’’انفسنا‘‘ کے زمرے میں سیدنا علی مرتضی، ’’نسائنا‘‘ کے زمرے میں فاطمہ زہرا، اور
’’ابنائنا‘‘ کے زمرے میں حضرات حسنین کریمین کو ساتھ لیا۔ تاریخ گواہ ہے کہ نجران کے
نصاریٰ اس نورانی جماعت سے اس طرح خوف زدہ ہوئے کہ راہ فرار اختیار کرنا ہی انہیں سب
سے زیادہ آسان محسوس ہوا۔
حضرات اہل بیت کی سیرت سے اللہ کے ارشادات اور جناب رسول اللہصلی اللہ
علیہ وسلم کے مشن کو آگے بڑھانے کے سلسلے میں
قربانیوں کی مثالیں اور بھی پیش کی جاسکتی ہیں کہ ان افراد خانۂ رسالت اور صاحبان
شرف و جلالت کی پوری زندگی آیات قرآنی کی عملی تفسیر نظر آتی ہے۔ ان حضرات کی حیات
مبارکہ میں ایک ایسا واقعہ پیش کرنے سے بھی تاریخ قاصر نظر آتی ہے جہاں انہوں نے احکام
الٰہی اور ارشادات نبویصلی اللہ علیہ وسلم
پر ذاتی اغراض کو ترجیح دی ہو۔ سواد اعظم اہل سنت انبیاء علیہم السلام کے علاوہ
کسی انسان کے حوالے سے عقیدۂ عصمت کا قائل نہیں، لیکن عجیب و غریب بات خانوادۂ رسالت
میں یہ نظر آتی ہے کہ اس کا ہر فرد زندگی کے تمام معاملات میں اپنی مرضی، اپنے افکار
و خیالات، یہاں تک کہ اپنی جان کو بھی اللہ و رسول کی مرضی کے تابع کیے ہوئے نظر آتا
ہے۔ اس کی زندگی کا صرف ایک مقصد ہے اور وہ یہ کہ زندگی کے ہر رویے سے اللہ و رسول
کے احکام پر عمل ہو اور معاشرے میں ہونے والا کوئی تغیر اگر خلاف احکام خدا و رسول
ہو تو اس کی بیخ کنی کے لئے جذبۂ فاتح بدر و حنین کے ساتھ جان کی بازی لگادی جائے۔
تاریخ اسلام کا ہر غیر جانبدار طالب علم افراد خاندان رسالت کی سیرت کے مطالعے میں
اس جذبے کو صاف محسوس کرتا ہے اور تمام کتب تاریخ و سیر اس طرح کے واقعات سے بھری پڑی
ہیں۔
امیر المؤمنین سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد جو سب
سے نقصان دہ بات اسلامی معاشرے کو پیش آئی وہ آپ کے عہد خلافت تک قائم رہنے والے دبدبے
اور ہیبت میں کمی تھی جس نے کئی گورنروں اور امراء کو من مانی کرنے اور ارشادات رسولصلی
اللہ علیہ وسلم پر عمل اور تقویٰ و پرہیز گاری
سے دور کردیا۔
نتیجے کے طور پر مروان بن حکم اور مغیرہ بن شعبہ جیسے لوگ قوی ہوتے
گئے۔ سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی شہادت کا دردناک واقعہ پیش آیا اور سیدنا علی
مرتضیٰ کی خلافت ٹھیک سے قائم بھی نہیں ہونے پائی تھی کہ قصاص عثمان رضی اللہ عنہ کے
نام پر سیاست شروع ہوگئی، جس کا اخلاص سے دور کا بھی واسطہ نہ تھا۔ سیدنا علی مرتضیٰ
امیرالمؤمنین اور خلیفۂ برحق تسلیم کر لئے گئے اور قیام قیامت تک کے لئے یہ منصب
آپ کے نام نامی سے وابستہ ہوگیا، ساتھ ہی اس منصب کی فضیلت اور عظمت بھی۔ اب آپ کے
خلاف کسی نے بھی تلوار اٹھائی اور جنگ کی تو اس کے بارے میں سواد اعظم اہل سنت کے مشہور
عالم دین حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی کے یہ الفاظ دہرائے جاتے رہیں گے۔ آپ اپنی
مشہور کتاب تحفۂ اثناعشریہ میں ارشاد فرماتے ہیں:
’’و ہمیں است مذہب اہل سنت کہ حضرت امیر در مقا تلات خود برحق بود و
مصیب، و مخالفین اوبر غیر حق و مخطی‘‘ (تحفہ اثنا عشریہ، ص: ۲۱۹)
ترجمہ: اور اہل سنت کا مذہب یہی ہے کہ حضرت امیر المؤمنین (علی کرم
اللہ وجہہ) اپنی جنگوں میں حق پر بھی تھے اور صواب پر بھی اور آپ کے مخالفین ناحق پر
تھے اور خطا پر تھے۔
بحیثیت خلیفۂ راشد اور امیر المؤمنین سیدنا علی مرتضیٰ کے معاملات
عین مرضی خدا و رسول کے مطابق اور نظام اسلامی کے رواج و نفاذ کی راہ میں بڑھنے والے
صائب قدم کی حیثیت رکھتے ہیں جو ایسے افراد کو کب پسند آسکتے تھے جن کا مطمح نظر مولائے
کائنات سے مختلف ہو، ایسے لوگوں کو تاریخ اسلام خوارج کے نام سے موسوم کرتی ہے، لیکن
مخالفتِ نظریات و طریقۂ مولائے کائنات میں صرف خوارج ہی شامل نہیں تھے۔ نتیجے کے طور
پر سیدنا علی مرتضیٰ کی شہادت کا واقعہ عین مسجد کوفہ میں پیش آیا۔ اور سیادت و امارت
اور تکمیل خلافت راشدہ کے لئے نواسۂ رسول سیدنا حسن مجتبی کا انتخاب ہوا۔ آپ جس روز
تک خلافت راشدہ کے منصب پر رہے خلافت علیٰ منہاج النبوۃ رہی جس کی کل مدت حدیث رسولصلی
اللہ علیہ وسلم کے مطابق تیس سال تھی اور آپ کی دستبرداری کے بعد وہ ملوکیت میں تبدیل
ہوگئی۔
امیر المؤمنین سیدنا حسن مجتبیٰ کی خلافت سے دستبرداری اصل میں خلافت
راشدہ اور خلافت علیٰ منہاج النبوۃ کے خاتمے اور بادشاہت و ملوکیت کے آغاز سے عبارت
ہے۔ ظاہر سی بات ہے کہ کسی بادشاہ سے وہ مطالبات کیے ہی نہیں جاسکتے جو امیر المؤمنین
اور خلیفۂ راشد سے کیے جاسکتے ہیں، مثلاً یہ صرف مسجد نبوی میں امیر المؤمنین سیدنا
صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے ذریعہ ہی ممکن تھا کہ وہ فرماتے کہ اہل ایمان اگر مجھ میں
کوئی کمی دیکھیں تو انہیں حق ہے کہ اپنی تلوار سے اسے دور کردیں۔ یا سیدنا عمر فاروق
اعظم سے بیت المال کی تقسیم کے تعلق سے برسر منبر سوال کرلیا جائے کہ آپ دو کرتوں کے
کپڑوں سے بنا ایک کرتا کیونکر استعمال کرسکتے ہیں؟ اور وہ صاحبان اتقا ہر وقت خشیت
الہٰی سے لرزتے ہوں، لیکن جب خلافت، ملوکیت میں تبدیل ہو تو ملوکیت کو سیدنا ابو ذر
غفاری رضی اللہ عنہ جیسے کسی جید اور مستند صحابی کا اعتراض نا گوار گذر سکتا ہے جو
اس کے عمل سے متعلق ہو۔ اس طرح خلافت راشدہ کے خاتمے کے بعد کے بیس سال تک اسلامی معاشرہ
طرح طرح کے امتحانات سے گزرتا رہا اس درمیان ۵۰ہجری میں
نواسۂ رسول امیر المؤمنین سیدنا حسن مجتبیٰ کی شہادت کا واقعہ پیش آیا۔ خلافت راشدہ
کے اختتام کے بعد بنی امیہ کا زمانۂ اقتدار عام طور پر اہل بیت رسالت کے لئے زمانۂ
امتحان ہی کہا جاسکتا ہے، لیکن امتحان کے اس دورانئے میں سب سے زیادہ شدت ۶۰ہجری میں
آئی۔ ۶۰ہجری کا زمانہ وہ ہے جس میں بقول مولانا کوثر:
’’یہ مسلمانوں کے لئے بہت بڑی بلا اور اسلام کیلئے بہت ہی بڑی مصیبت
تھی کہ یزید جیسا شرابی، نشہ باز، فاسق اور فاجر خلافت رسول کی مسند پر بٹھا دیا گیا۔
یہ واقعہ ۶۰ ہجری کا ہے
جس کی بنا پر یہ سن فتنۂ عظیم کا سرچشمہ ہے اور اسی لئے حدیث میں اس سن سے پناہ مانگنے
کی ہدایت فرمائی گئی ہے۔ امام احمد اور امام بزار مسند صحیح میں حضرت ابو ہریرہ رضی
اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں اور ابو ہریرہ ان مخصوص صحابہ کرام میں سے ہیں جنہیں آنحضرت
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسلمانوں کے مستقبل سے با خبر کردیا تھا۔‘‘ (مناقب اہل
بیت- ص: ۵۳۵)
امام بیہقی کی روایت ہے کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ مدینے کے بازار
میں یہ کہا کرتے تھے:
’’
یا اللہ! میں ۶۰ ہجری کا زمانہ نہ پاؤں … خدایا میں لڑکوں کی حکومت کا زمانہ
نہ پاؤں‘‘ (بحوالہ خصائص کبریٰ، جلد ۲، ص: ۱۳۹)
اللہ نے ان کی دعا قبول کی اور ۵۹ ہجری میں ہی ان کا انتقال ہوگیا۔ یزید کی تخت نشینی اسلامی معاشرے
کا سب سے بڑاامتحان تھا۔ اس معاشرے کے خواص سے سب سے پہلے مطالبۂ بیعت کرنا یزید نے
اپنی حکومت کے استحکام کے لیے سب سے زیادہ ضروری جانا اور اس بارے میں ایک حکم نامہ
گورنر ولید بن عقبہ کے ذریعے خواص و اشراف مدینہ کو عموماً اور نواسۂ رسول سیدنا امام
حسین علیہ السلام کو خصوصاً بھجوایا، یہ واقعہ رجب سن ۶۰ہجری کا ہے،
ظاہر سی بات ہے کہ اپنے عہد میں حق کے سب سے بڑے علم بردار اور آیۃ من آیات اللہ حسین
ابن علی اس مطالبے کو کیونکر تسلیم کرسکتے تھے؟ لیکن انکار بیعت یزید کا نتیجہ کیا
کیا شکلیں دکھا سکتا تھا یہ بھی نواسۂ رسول علیہ السلام پر خوب واضح تھا اور یہ قطعی
ممکن نہ تھا کہ فرزند رسول صلی اللہ علیہ وسلم
کے جیتے جی حرم نبوی کو افواج یزید کے ناپاک قدم پامال کریں اور وہاں اہل بیت
کا مقدس خون بہے۔ اللہ کے دین اور اس کے شعائر کی حرمت کی حفاظت امام حسین علیہ السلام
کا مقصد حیات تھا، انکار بیعت فاسق امام حسین علیہ السلام کی ذمہ داری تھی اور آپ اس
سے عہدہ برا ہوئے لیکن سر دست اس کی قیمت یہ ادا کرنی پڑی کہ مدینۃ الرسول اور شہر
دلبر اور آرام گاہ سید کائنات کو سلام آخر کر کے وہاں سے بمع خاندان مکہ مکرمہ کے لئے
روانہ ہوئے امام حسین کی مدینے سے روانگی کی تاریخ ماہ رجب المرجب ۶۰ہجری کی ۲۸؍ ویں تاریخ ہے۔
مکہ مکرمہ میں بھی فرزند رسول کو چین کے لمحات گزارنے کا موقع نہیں
ملا مطالبۂ بیعت شدت اختیار کرتا جا رہا تھا اور جو خطرہ مدینۃ الرسول کا قیام ترک
کرنے کا باعث بنا تھا یعنی حرم نبوی کی حرمت وہی خطرہ مکہ شریف میں بھی بڑھنے لگا اس
لئے کہ یزید ہر قیمت پر اپنی حکومت اور اپنے اقتدار پر خانوادۂ رسالت سے مہر تسلیم
لگوانا چاہتا تھا وہ جانتا تھا کہ جب تک بیت الشرف اس کی حکومت پر پسندیدگی کی مہر
نہ لگائے۔ اس کو عرب میں کوئی اہمیت نہیں دی جائے گی۔ امام حسین کی موجود گی اس کے
اقتدار کے استحکام کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ تھی جسے دور کرنے کے دو ہی راستے تھے
یا تو امام حسین مع رفقا بیعت یزید کر لیں یا پھر انہیں مع رفقا ختم کردیا جائے۔ اول
الذکر یوں ممکن نہ تھا کہ بقول محمد علی جوہر امام حسین کا پیغام ہی یہ تھا کہ ؎
چڑھ جائے کٹ کے سر تیرا نیزے کی نوک پر
لیکن تو فاسقوں کی اطاعت نہ کر قبول
اور ثانی الذکر کا خطرہ ہر لمحہ بڑھتا جا رہا تھا، ادھر یزید کی عیاشیاں
اور دین سے دوریاں بڑھتی جارہی تھیں جس کے نتیجے میں عوام میں بے چینی پھیل رہی تھی،
خاص طور پر کوفے کے عوام میں کہ جو مولائے کائنات امیر المؤمنین سیدنا علی مرتضیٰ
کے دور خلافت میں دار الخلافہ بھی رہ چکا تھا۔ وہاں کے لوگوں نے فرزند رسول کو خطوط
لکھے اور مطالبہ کیا کہ آپ تشریف لاکر شعائر اسلام کے ساتھ کی جانے والی یزید کی بدسلوکیوں
کا قلع قمع کریں۔ ہم آپ کی بیعت کے لئے تیار ہیں۔
امام حسین نے ان خطوط کے جواب میں اپنے بھائی اور سفیر حضرت مسلم بن
عقیل کو کوفہ بھیجا جہاں آپ کے پہنچتے ہی ہزار ہا لوگوں نے آپ کے دست حق پرست پر امام
حسین کی بیعت کی۔ اس کی خبر ملتے ہی یزید نے گورنر کوفہ حضرت نعمان بن بشیر کو معزول
کر کے ایک سفاک، بے ر حم اور ظالم شخص عبید اللہ ابن زیاد کو گورنر بنایا۔ اس نے کوفہ
آتے ہی احکام صادر کیے کہ یزید کی بیعت فسخ کرنے والوں کو بچوں سمیت قتل کیا جائے گا
اور ان کے گھروں کو ڈھا دیا جائے گا۔ اہل کوفہ اس حکم سے سہم گئے اور نمائندۂ خانوادۂ
رسالت حضرت مسلم بن عقیل تنہا رہ گئے، عبید اللہ ابن زیاد نے آپ کو بڑی بے دردی کے
ساتھ شہید کردیا۔ ادھر مکہ شریف سے امام حسین روانہ ہوچکے تھے آپ کے ساتھ مخدراتِ عصمت،
اعزہ، خاندان اہل بیت کے معصوم بچے اور آپ کے اعوان و انصار تھے۔ راستے میں جگہ جگہ
لوگ آپ کے قافلے کے ساتھ ہوجاتے اس امید پر کہ امام حسین اقتدار پر قبضہ کرنے جارہے
ہیں تو اس کا فائدہ انہیں بھی حاصل ہو، ایسے ہر مرحلے پر امام حسین بار بار خطبہ ارشاد
فرماتے اور بعد از حمد و صلوٰۃ فرماتے کہ ’’لوگو! میں اللہ کے دین کے استحکام و قیام
اور فسق و فجور کا قلع قمع کرنے کے لئے نکلا ہوں اس راہ میں جو چیز مطلوب و مقصود ہوتی
ہے وہ شہادت ہے اس لئے یہ بالکل نہ سمجھا جائے کہ اس سفر کا مقصد دنیاوی اقتدار حاصل
کرنا ہے‘‘ وغیرہ وغیرہ۔
ان خطبات کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایک دو منزل کے بعد وہی لوگ ہمراہ رہتے
جو اس سفر حسین کا اصل مقصد نہ صرف سمجھتے تھے بلکہ انہوں نے اپنی جانوں کو نائب اللہ
فی الارض ،فرزند رسول، حسین علیہ السلام کے ہاتھوں بیچ رکھا تھا۔ راستے ہی میں امام
حسین کو کوفے کے تازہ حالات کا علم ہوا۔ راستے ہی میں آپ کو حضرت مسلم بن عقیل اور
ان کے دونوں معصوم شہزادوں کی شہادت کی خبر ملی آپ نے ’’انا للہ و انا الیہ راجعون‘‘
پڑھا اور راہ حق میں آگے قدم بڑھایا۔ راستے ہی میں کئی ایسے لوگ ملے جنہوں نے فرزند
رسولصلی اللہ علیہ وسلم کو اس سفر سے باز رکھنے
کی بھی کوشش کی لیکن امام حسین اس سفر کا اصل مقصد ارشاد فرماتے اور اپنے مقصود یعنی
شہادت عظمیٰ کی جانب مع اعوان و انصار و اہل بیت بڑھتے گئے۔ راستے میں فوج یزید کا
ایک رسالہ آپ کی راہ میں حائل ہوا جس کا سردار حر تھا۔ حر بن یزید ریاحی نے بحکم یزید
جب آپ کے قافلے کو روکا تو اس وقت حر کے رسالہ کی حالت پیاس سے ابتر تھی۔ نواسۂ ساقی
کوثر نے اپنے افراد خاندان کو حکم دیا کہ حر اور اس کی فوج کو پانی پلایا جائے یہی
نہیں ان کے جانور بھی پیاسے ہیں انہیں بھی پانی پلایا جائے۔ ظاہر سی بات ہے اس حکم
امام کی تعمیل ہوئی، تاریخ بتاتی ہے کہ خود امام عالی مقام اپنے دست مبارک سے حرکے
رسالے کو پانی پلا رہے تھے۔ اب امام حسین کے قافلے کے ساتھ حر کا رسالہ بھی چل رہا
تھا۔ دوسری محرم ۶۱ھ کو یہ قافلہ دریائے فرات کے کنارے جس مقام پر پہنچا تاریخ
نے اس کے نام نینوا اور کربلا بیان کیے ہیں۔
کربلا ہی وہ مقام ہے جہاں عظیم معرکۂ حق و باطل پیش آیا۔ یہاں حضرت
امام حسین علیہ السلام نے قیام کرنے اور خیام نصب فرمانے کا حکم دیا۔ آہستہ آہستہ یہاں
یزیدی فوج کے مختلف رسالے آتے گئے۔ سنان ابن انس، حرملہ بن کاہل، خولی اور شمر نامی
سرداران یزید اپنے اپنے رسالوں کے ساتھ آتے گئے۔ کربلا میں افواج یزیدی کا سر براہ
عمرو بن سعد تھا۔ یہ سب سرداران یزید شقاوت و سفاکی میں ایک سے بڑھ کر ایک تھے اس پر
مستزاد، ان کو یزید اور عبید اللہ ابن زیاد کی طرف سے ہر طرح کی سختی کی اجازت اور
ان کی عادت تھی جس نے سب سے پہلے طریقۂ صفین کو اس طرح دہرایا کہ خیام حسینی پر دریائے
فرات سے پانی کی فراہمی کو معطل کردیا اور دریا پر پہرے بٹھا کر امام حسین علیہ السلام
اور ان کے اعوان وانصار و اہل بیت پر پانی بند کردیا یہ ۷ویں محرم
۶۱ ہجری کا واقعہ
ہے۔
حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ جس منصب پر فائز تھے وہ نیابت رسول اور
وراثت مولائے کائنات سیدنا علی مرتضیٰ کا منصب تھا جس کا اولین تقاضہ تھا کہ امت کو
حتی المقدور جہنم سے بچایا جائے۔ یہ کوشش آپ نے آخر تک جاری رکھی اس کے ثبوت کے طور
پر طبری، ابن کثیر، ابن اثیر وغیرہ سے لے کر معاصر تاریخ نویسوں تک کے یہاں تواتر کے
ساتھ یہ بات ملتی ہے کہ آپ نے افواج یزیدی کے سامنے خطبات ارشاد فرمائے۔ آپ نے حسب
روایت اہل بیت خطبات میں حمد و صلوٰۃ کے بعد اپنے شرف مرتبے، اوامر و نواہی کے حوالے
سے اہل اسلام کارویہ، تقویٰ کے تقاضے اور حمایت حق وغیرہ کی فضیلت بتا کر افواج یزیدی
کو جرم عظیم کرنے اور نتیجے کے طور پر جہنم کو اپنا ٹھکانہ بنانے سے بچانے کی ہر ممکن
کوشش کی، لیکن ان کے قلوب، سماعتوں اور بصارتوں پر تو مہر لگ چکی تھی اور بقول حسن
احمد صدیقی ’’یزید کے سبھی کارندے یزید ہی جیسا مزاج رکھتے تھے۔ پھر غالباً انہیں تو
اوپر سے ہدایات بھی یہی تھیں کہ نرمی نہ برتی جائے اور جلد از جلد معاملات کو قابو
میں کیا جائے۔ اس لئے وہ بے چارے مجبور بے بس بھی تھے اور انہیں اپنے آقا کی رضا حاصل
کرنے کے لئے جانور پن کا ثبوت دینا ہی تھا۔‘‘ (شہید کربلا کا دفاع …، ص۲۱۳، مکتبہ روحانی
دیوبند)
سیدنا امام حسین نے خطبات کا یہ سلسلہ ۹ویں محرم
تک جاری رکھا اور قعر جہنم کی جانب بخوشی و رضا مندی جانے والوں کو روکنے کی کوشش فرماتے
رہے جس کے نتیجے کے طور پر یزید کی فوج کا وہ سردار جو آپ کو سب سے پہلے ملا تھا اور
کربلا تک لایا تھا راہ صواب پر چل پڑا اور اپنے فرزند اور غلام کے ساتھ صبح شہادت امام
حسین سے معافی طلب کر کے سب سے پہلے جام شہادت نوش کرنے والا بن گیا۔ یہ حر بن یزیدریاحی تھا جسے تقدیر نے نہ صرف قعر جہنم سے
کھینچ کر مستحق جنت بنادیا بلکہ سیدنا امام حسین کے ۷۲؍ رفقا میں شامل کر کے ہمیشہ کے لئے قابل عزت، سزا وار رحمت اور
حضرت حر بنا دیا۔
۹ـویں محرم کا دن گزرنے کے بعد جو رات آئی اسے تاریخ اسلام میں
شب عاشورہ کہا جاتاہے۔ شب عاشورہ ٔ محرم بایں معنیٰ نہایت فضیلت والی رات ہے کہ اس
رات روئے زمین پر حق کے سب بڑے نمائندوں کی جماعت مستقل اپنے رب کی عبادت میں مشغول
رہی اور اس بات پر شکر رب ادا کرتی رہی کہ اسے سب سے بڑا فریضہ ادا کرنے اور اللہ و
رسول کی نظروں میں سب سے زیادہ پسندیدہ عبادت کرنے کی توفیق نصیب ہوئی۔
مؤرخین نے لکھا ہے کہ اس شب بھی سیدنا امام حسین نے خطبہ ارشاد فرمایا
لیکن وہ خطبہ اہل جہنم اور دشمنان حق کے سامنے نہیں بلکہ حامیان حق، خواہشمندان لیلائے
شہادت اور اسیران محبت خاندان رسالت کے سامنے ارشاد فرمایا۔ امام نے فرمایا تھا کہ
’’یزید کی فوج صرف ان سے مطالبۂ بیعت کر رہی جس کے انکار پر ان کا سر قلم کرنا چاہتی
ہے ان کے اعوان و انصار کا نہیں۔‘‘ آپ نے یہ بھی فرمایا تھا کہ ’’میں تمہاری گردنوں
سے اپنی بیعت اٹھاتا ہوں مجھے ذرا ناگوار نہیں لگے گا اس مجمع میں سے جو واپس جانا
چاہے جاسکتا ہے۔‘‘ روایت تو یہاں تک ہے کہ آپ نے چراغ گل کر کے اندھیرا کر دیا کہ جانے
والوں کو شر مندگی نہ ہو لیکن جب کچھ دیر کے بعد چراغ دوبارہ روشن ہوا تو فرزند رسول
کے نگاہوں نے دیکھا کہ مجمع ویسے ہی بیٹھا ہے اور زبان بے زبانی سے کہہ رہا ہے کہ ابن
رسول اللہ! آپ کی رفاقت میں سفر حیات کا یہ مرحلہ طے کرنے اور جام شہادت نوش کرنے کے
نتائج سب پر روشن ہوچکے ہیں، آپ کی تعلیمات نے نفوس کو نفس مطمئنہ کے منصب پر فائز
کردیا ہے اور اب یہاں کی فانی زندگی ہو یا وہاں کی باقی زندگی، سب آپ کے ہی قدموں میں
بسر ہوگی۔ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ وَ رَضُوْاعَنْہٗ ذٰلِکَ لِمَنْ خَشِیَ رَبَّہ۔
عاشورۂ محرم ۶۱ ہجری کو نماز فجر کے بعد ہی قربانیوں کا وہ غیر معمولی سلسلہ
شروع ہوا جو شاید دنیا میں اپنی طرح کا پہلا اور آخری واقعہ ہے۔ میرے محدود مطالعے
کے مطابق تاریخ انسانی ایسا کوئی واقعہ اور قربانی کی ایسی کوئی دوسری مثال نہیں پیش
کرتی جس میں ایک شخص نے اپنی جان کی قربانی پیش کرنے سے پہلے اپنے ہر طرح کے متعلق
اور ہر رشتہ سے عزیز کو راہ خدا میں نذر کیا ہو۔ کربلا میں صبح عاشور سے عصر عاشور
تک امام حسین علی جدہ و علیہ السلام نے یہ کار نامہ انجام دیا۔ تاریخ نے صرف خاندان
بنی ہاشم کے ۱۸؍ افراد کے
نام کربلا کے شہدا کی فہرست اپنے دامن میں رکھے ہیں جن میں بطور خاص اولاد جناب ابو
طالب صدفی صد موجود ہے۔ مولائے کائنات سیدنا علی مرتضیٰ کے حضرت امام حسین و حضرت عباس
سمیت ۷؍ بیٹے، حضرت
امام حسین کے تین بیٹے، حضرت امام حسن کے ایک بیٹے، حضرت عقیل بن ابی طالب کے دو بیٹے،
عبد اللہ بن جعفر بن عقیل بن ابو طالب کے دو بیٹے، حضرت مسلم بن عقیل کے دو بیٹے شامل
ہیں۔ ان کے علاوہ اعوان و انصار اور غلامان امام حسین علی جدہ و علیہ السلام باری باری
سے اپنی جانوں کا نذرانہ بارگاہ احدیت میں پیش کرتے رہے۔ احباب اعوان اور انصار کی
شہادت کا سلسلہ مکمل ہوا تو آل علی ابن ابی طالب کی شہادت کا سلسلہ شروع ہوا اور نصف
النہار پر اپنی گرمی سے قہر ڈھانے والے سور ج نے حامیان حق اور نمائندگان صداقت پر
ڈھائے جانے والے مظالم کا مشاہدہ کیا۔ آل علی کی شہادت کا سلسلسہ آغاز ہوا تو ہر عمر
اور ہر سن کے مجاہد نے داد شجاعت دی۔ تاریخی طوپر ثابت ہے کہ تین دن سے ان مجاہدوں
پر پانی بند تھا، بنی امیہ کی معروف شقاوت کے نمونے کربلا میں اپنی پوری شدت کے ساتھ
نظر آرہے تھے۔ دوسری طرف وارثین میراث سیادت صبر و ثبات کا کوہ گراں بنے ہوئے کربلا
کو اپنے مقدس خون سے ہر دور کے اہل ایمان کا مرکز عقیدت بنا رہے تھے۔ امام حسین کبھی
بھائیوں کے جنازے کو دفن کرتے تو کبھی بھانجوں اور بھتیجوں کی پامال لاشیں اور آخر میں شبیہ پیغمبر جناب علی
اکبر کو بھی اللہ کی راہ میں قربانی کے لئے خود اجازت عطا کر کے میدان کار زار میں
بھیجا اور ان کی شہادت پر رضا و تسلیم کا وہ ثبوت پیش کیا جس پر قیام قیامت تک آنے
والے صابرین آفریں کہتے رہیں گے۔ لیکن صبر حسینی کا آخری امتحان ابھی باقی تھا جو اس
طرح لیا گیا کہ امام حسین علیہ السلام اپنے دست مبارک پر ایک شیر خوار کو لئے میدان
میں تشریف لائے تاریخ اس شیر خوار کو خاندان رسالت کی جانب سے حضرت حق میں پیش کیے
جانے والے سب سے کم عمر فدیہ کی حیثیت سے سلام کرتی ہے اور اس کا نام علی اصغر بتاتی
ہے۔ جب تمام رفقا و احباب، اعوان و انصار اور اعزہ فدیۂ راہ خدا ہوچکے تو سرکار امام
حسین نے ارادۂ جہاد فرمایا۔ میدان جنگ میں تشریف لائے اور آخری کوشش کے بطور ایک مرتبہ
پھر ان بد بختوں کو تلقین کی لیکن انہیں ہوس زر نے نا بینا کر رکھا تھا اور راہ صواب
ان پر بند ہوچکی تھی۔ جواب میں انہوں نے تیروں کی بارش کی، فرزند رسول نے شمشیر کے
جوہر دکھائے اور اپنے وارث فاتح خیبر ہونے کا عملی ثبوت پیش کیا لیکن تابکے؟ وقت موعود
آچکا تھا۔ اللہ رب العزت کے حضور سرخروئی کے ساتھ حاضری کی گھڑی قریب تھی۔ فرزند رسول
کو نشانہ بنانے والوں میں سنان ابن انس، خولی اور شمر کے نام تاریخ نے ہمیشہ کے لئے
دشنام کے مترادف کے بطور اپنے سینے میں دفن کر رکھے ہیں۔ سنان ابن انس نے نیزے سے حملہ
کیا، خولی نے تلوار چلائی اور شمر نے سجدۂ آخر میں ابن رسول اللہ کو پس گردن سے ذبح
کردیا۔ اناللہ و انا الیہ راجعون۔
مفتوح کے خاتمے کے بعد فاتح اور وہ فاتح جو کسی ضابطۂ اخلاق کا پابند
نہ ہو کیا کیا کرسکتا ہے اس کی تفصیل کے لئے کتب تاریخ میں فاتحین کے کار ناموں کی
داستانیں انسانیت کو شرمندہ کرنے کے لئے موجود ہیں۔ ان فاتحین نے بھی وہی سب کیا جو
ایک جابر، سفاک اور ظالم بادشاہ کے فوجی کرتے ہیں۔
سید اہل بیت عابد بیمار سید الساجدین امام زین العابدین علی جدہ و
علیہ السلام اور مخدرات عصمت کو رسن بستہ کیا۔ بغیر کجاوے کے اونٹوں پر سوار کیا اور
شہدا و سید الشہدا کے سر نیزوں پر لے کر اپنے امیر کی خوشنودی کے لئے کوفہ و دمشق کی
جانب روانہ ہوئے۔ خوشنودیٔ رب کے لئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والے شہدا کے سر
نیزوں پر بلند ہوکر بھی دعوت حق و صداقت دے رہے تھے اور مظلوم افراد خاندان رسالت اپنے
انداز و اطوار سے ان کے سچے وارث اور دین متین کو ساری دنیا تک اس کی اصل شکل میں پہنچانے
کے سب سے بڑے ذمہ دار، حصار ظلم و ستم میں بھی نظر آرہے تھے۔
حضرت امام حسین علی جدہ و علیہ السلام اور ان کے ۷۲؍ رفقا جنہوں نے کر بلا میں اپنا نذرانۂ جان عزیز دین متین کی
بقا اور حفاظت کے لئے بارگاہ رب بے نیاز میں پیش کیا ان کی فہرست بانی دائرہ شاہ اجمل
حضرت شیخ محمد افضل الہ آبادی کے بھتیجے، داماد اور خلیفہ حضرت شیخ محمد یحییٰ المعروف
شاہ خوب اللہ الہ آبادی نے اپنے مکتوبات میں دی ہے، جو سجادہ نشین دائرہ شاہ اجمل سید
حسین نجم الثاقب اجملی کے کتاب خانے میں قلمی صورت میں موجود ہے اور شہدائے کربلا کی
مطبوعہ فہرست بھی انہیں کی ملکیت ہے جو ان کے شکرئے کے ساتھ یہاں پیش کی جارہی ہے:
۱
حضرت امام حسین
۲
حضرت عباس بن علی
۳
حضرت عبد اللہ بن علی
۴
حضرت جعفر بن علی
۵
حضرت عثمان بن علی
۶
حضرت محمد بن علی
۷
حضرت ابوبکر بن علی
۸
حضرت علی اکبر بن حسین
۹
حضرت علی اصغر بن حسین
۱۰
حضرت عبد اللہ بن حسین بن علی
۱۱
حضرت قاسم بن حسن بن علی
۱۲
حضرت عون بن عبد اللہ بن جعفر
۱۳
حضرت محمد بن عبد اللہ بن جعفر
۱۴
حضرت مسلم بن عقیل بن ابی طالب
۱۵
حضرت جعفر بن عقیل بن ابی طالب
۱۶
حضرت عبد اللہ بن مسلم بن عقیل
۱۷
حضرت ابو عبد اللہ بن مسلم بن عقیل
۱۸
حضرت محمد بن ابو سعید بن عقیل
۱۹
حضرت سلمان غلام امام حسین
۲۰
حضرت قارب غلام امام حسین
۲۱
حضرت مخجیہ غلام امام حسین
۲۲
حضرت مسلم بن عوسجہ
۲۳
حضرت سعید بن عبد اللہ الحنفی
۲۴
حضرت بشیربن الغمر
۲۵
حضرت یزید بن حصین
۲۶
حضرت عمران بن کلب
۲۷
حضرت نعیم بن عجلان
۲۸
حضرت زہیر بن قین
۲۹
حضرت عمرو بن قرضہ انصاری
۳۰
حضرت حبیب بن مظاہر
۳۱
حضرت حر بن یزید ریاحی
۳۲
حضرت عبد اللہ بن عمر الکلبی
۳۳
حضرت نافع بن ہلال
۳۴
حضرت انس اسدی
۳۵
حضرت قیس مسخر سعید
۳۶
حضرت عبد اللہ بن عروہ غفاری
۳۷
حضرت عبد الرحمان بن عروہ غفاری
۳۸
حضرت شہیب بن عبد اللہ
۳۹
حضرت جون غلام ابوذر غفاری
۴۰
حضرت حجاج بن زید سعدی
۴۱
حضرت قاشط بن زبیر الکلابی
۴۲
حضرت مقسط بن زبیر الکلابی
۴۳
حضرت کنانہ بن عتیق
۴۴
حضرت ضرغام بن مالک
۴۵
حضرت جون بن مالک
۴۶
حضرت زید بن ثبیت القیسی
۴۷
حضرت زید بن ثبیت القیسی
۴۸
حضرت عبد اللہ بن ثبیت
۴۹
حضرت عامر بن مسلم
۵۰
حضرت قعنب بن عمرو
۵۱
حضرت سالم عامر بن حکم
۵۲
حضرت سیف بن مالک
۵۳
حضرت زبیر الخاطمی
۵۴
حضرت زید بن میقل الجوفی
۵۵
حضرت حجاج بن مسروق
۵۶
حضرت مسعود بن حجاج
۵۷
حضرت مسعود بن حجاج
۵۸
حضرت مجمع بن عبد اللہ العیزی
۵۹
حضرت عمار بن حسن طائی
۶۰
حضرت حیان بن حارث
۶۱
حضرت جندب بن حجیر
۶۲
حضرت عمر بن خالد
۶۳
حضرت سعید غلام عمر بن خالد
۶۴
حضرت یزید بن زید الکندی
۶۵
حضرت ظاہر غلام عامر بن انس
۶۶
حضرت جبالہ بن علی شیبانی
۶۷
حضرت سالم غلام بانی الکلمی
۶۸
حضرت اسلم بن خطیر
۶۹
حضرت زبے بن سلیم
۷۰
حضرت قاسم بن حبیب العضدی
۷۱
حضرت عمربن الاخدوف الخرم
۷۲
حضرت ابو شمامہ عمربن عبد اللہ
۷۳
حضرت حنظلہ بن السعد شاہی
واقعۂ کربلا کے اصل مجرمین یزید و ابن زیاد، شمر، خولی، حصین بن نمیر،
حرملہ بن کاہل وغیرہ وغیرہ اس روز سے تا یوم الدین مستحق لعنت قرار پائے۔ اس روز شدید
کے بعد سے شاید ہی کوئی لمحہ ایسا گذرا ہو کہ جس میں ان اشقیا پر لعنت نہ بھیجی گئی
ہو۔ ان میں سے ہر نام مسلم امت میں گالی سے زیادہ ناگوار یا کم از کم گالی کا مترادف
تو بن ہی چکا ہے۔
علمائے حقانی اور اولیائے ربانی نے یزید کو ملعون کہا اور لکھا ہے۔
علامہ کوثر ندوی نے اپنی کتاب ’’مناقب اہل بیت‘‘ میں تیرہویں صدی ہجری کے دنیائے اسلام
کے سب سے بڑے مفسر علامہ شہاب سید محمود آلوسی بغدادی (م ۱۲۷۰ھ) کی تفسیر
’’روح المعانی‘‘ کا ایک اقتباس پیش کیا ہے۔ ہم مناقب اہل بیت سے روح المعانی کا اقتباس نذر قارئین کرتے ہیں:
’’علما کی ایک جماعت نے بالکل صاف صاف الفاظ میں یزید پر لعنت بھیجی
ہے۔ انہیں میں ناصر سنت حافظ ابن جوزی بھی ہیں۔ ان سے پہلے قاضی ابو یعلیٰ نے صاف الفاظ
میں یزید پر لعنت بھیجی ہے۔ علامہ تفتا زانی کا قول ہے: ’’ہم یزید کے معاملے میں کوئی
توقف نہیں کرتے بلکہ ہمیں اس کے کہنے میں بھی کوئی تامل نہیں کہ اس کو ایمان ہی نہ
تھا۔ یزید پر بھی اللہ کی لعنت اور اس کے حامیوں اور مدد گاروں پر بھی۔‘‘
حافظ جلال الدین سیوطی نے بھی کھلے الفاظ میں یزید پر لعنت بھیجی ہے۔
تاریخ ابن الوردی اور کتاب الوافی بالوفیات میں ہے کہ جب شہدائے کربلا کے سر اور اہل
بیت کی عورتیں قید کر کے یزید کے پاس لائی جارہی تھیں تو یزید انہیں دیکھنے کے لئے
کوہِ جیروں کی گھاٹی تک پہنچا۔ وہاں یہ دیکھا کہ علی و حسین کی مستورات اور بچے (جو
قید میں جکڑے ہوئے ہیں) اور مقتولوں کے سر گھاٹی پر نظر آرہے ہیں۔ یزید نے دیکھا ہی
تھا کہ ایک کوا بولنے لگا اس پر یزید یہ اشعار پڑھنے لگا ؎
لما بدت تلک الحمول و اشرفت
تلک الرؤس علی شفا جیرون
(جب کوہ جیرون کے کنارے پر (اسیران کربلا) کی سوار یاں نظر آئیں اور
مقتولوں کے سر نظر آئے)
نصب الغراب فقلت قل اولا تقل
فقد اقتضیت من الرسول دیونی
(تو کوا بولا! اس نے کہا بول یا نہ بول میں نے رسول سے اپنا قرض چکا
لیا)
اس میں یزید نے یہ مطلب ادا کیا ہے کہ رسول نے غزوۂ بدر میں یزید
کے نانا عتبہ اور اس کے (والد کے) ماموں خالد ولد عتبہ وغیرہ کو جو قتل کرایا ہے اس
کے بدلے میں رسول کی اولاد کو اس نے قتل کرایا اور رسول سے پورا بدلہ لے لیا (ظاہر
ہے کہ یہ کھلا ہوا کفر ہے)۔ جب یہ صحیح روایت ہے تو یزید اپنی اس (بکواس سے ) کافر
ہوگیا۔
اسی طرح ان اشعار کو پڑھ کر بھی وہ کافر ہوگیا جو عبد اللہ بن زبعری
نے قبول اسلام کے پہلے (غزوۂ احد میں حضرت حمزہ وغیرہ کی شہادت پر خوشی مناتے ہوئے)
کہے تھے۔ ان میں سے ایک شعر یہ بھی ہے جسے یزید نے پڑھا تھا۔
لست من جندب ان لم انتقم
من بنی احمد ما کان فعل
(احمد نے بدر میں ہمارے بڑوں کو قتل کرانے کا جو کام کیا ہے اگر احمد
کی اولاد سے میں اس کا بدلہ نہ لوں تو میں جندب کی نسل سے نہیں)(روح المعانی جلد ۲۶، ص ۶۶، بحوالہ
مناقب اہل بیت ، ص: ۸۹، ۴۸۸۹،کوثر اکیڈمی، بنارس)
مناقب اہل بیت صفحہ ۴۷۳ پر مستدرک کے حوالے سے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی یہ روایت
بخط جلی لکھی ہے کہ فرمایا حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے:
’’اللہ نے میرے پاس وحی بھیجی ہے کہ میں نے یحییٰ بن زکریا کے خون کا
بدلہ ستر ہزار سے لیا کہ اتنے قتل ہوئے اور تمہارے نواسے کے خون کا بدلہ ستر ہزار اور
ستر ہزار (ایک لاکھ چالیس ہزار) سے لوں گا کہ اتنی تعداد میں قتل ہوں گے۔
تاریخ کی نگاہوں نے دیکھا کہ ۶۵ ہجری میں ایک شخص نمودار ہوا جسے مختار ثقفی کہا گیا جس نے لوگوں
کو شہادت حسین اور آپ کے آل و انصار کے قتل پر احتجاج اور قصاص کے لئے جمع کیا۔ روایت
کی جاتی ہے کہ اس نے امام حسین کے قاتلوں سے پورا پورا انتقام لیا اور ایک لاکھ چالیس
ہزار دشمنان امام کو قتل کر کے حدیث کے الفاظ کو سچ ثابت کیا۔
مختار ثقفی نے موصل میں اپنا جو عامل مقرر کیا تھا کاتب اس پر فوج
کشی کی جس کے مقابلے کے لئے مختار ثقفی نے ابراہیم بن اشہد کو بھیجا۔ بقول صاحب مناقب
اہل بیت ۲۱؍ ذی الحجہ
۶۶، ہجری کو موصل کی نہر خازر کے کنارے پہنچے۔ رات بھر فوجی تیاری
اور ذکر الہٰی میں بسر کی۔ صبح کو نماز پڑھا
کر فوج کے سامنے انتقال حسین پر بڑی پر زور تقریر کی۔ تھوڑی دیر بعد ابراہیم اور ابن
زیاد کی فوجیں صف آرا ہوئیں۔ ابن زیاد کی فوج بہت زیادہ تھی۔ لڑائی کا سلسلہ کئی روز
تک جاری رہا لیکن کب تک، ایک دن ابراہیم کی فوج نے اس زور و شور سے حملہ کیا کہ دشمن
کے قدم اکھڑ گئے۔ بے شمار قتل ہوئے جو بھاگے ان کا تعاقب ہوا۔ دشمن دریا میں ڈوب کر
مرے۔ ڈوبنے والوں کی تعداد مقتولوں سے بڑھ گئی۔
ابن زیاد خود ابراہیم کے ہاتھوں مارا گیا، اس کا سرکاٹ کر کوفے میں
مختار کے پاس بھیج دیا گیا اور اس کی لاش کو آگ میں جلا دیا گیا۔
یہ عجیب اتفاق ہے کہ جس روز ابن زیاد مارا گیا محرم کی دسویں تاریخ
تھی۔ مختار کے جوانوں نے ابن سعد، شمر، سنان ابن انس، حرملہ بن ہل مل خولی، غرض امام
مظلوم کے تمام قاتلوں کو چن چن کر قتل کیا جو جان بچا کر بھا گے وہ اللہ کے ناگہانی
عذاب میں مرے۔ غرض ان لعینوں میں سے ایک بھی زندہ نہیں بچا۔ مختار اور اس کی فوج کے
ہاتھ سے ایک لاکھ چالیس ہزار دشمنان دین قتل ہوئے۔
یہ وہ خون چکاں داستان ہے کہ جسے صاحب ذبح عظیم اور صاحب خلق عظیم
کے وارث سیدنا امام حسین علیہ السلام نے اپنے خون کے قطر وں سے قرطاس وقت پر اس طرح
تحریر کیا کہ پروردگار نے اسے ابد الآباد تک کے لئے امام حسین اور ان کے اعوان و انصار
کے لئے وجہ شرف و فضیلت اور یزید اور اس کے اعوان و انصار و احزاب کے لئے باعث ذلت
و لعنت بنا دیا ہے۔ بقول اقبال ؎
غریب و سادہ و رنگیں ہے داستان حرم
نہایت اس کی حسین ابتدا ہیں اسماعیل
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں