امام حسن مجتبیٰ کے اقوالِ زریں
( ماخوذ:تذکرۂ اہل بیت ، مرتبین: پروفیسر ڈاکٹر محمد امین میاں قادری و ڈاکٹر احمد مجتبیٰ صدیقی ، ص 219)
حضرت امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حکمت ومعارف کے خزانے حاصل تھے، ان کے ہر جملے میں حکمتوں کے خزانے پوشیدہ ہوتے تھے اور اگر انسان انہی حکمتوں کی روشنی میں اپنی زندگی بسر کرے توعام انسانوں سے اس کا رتبہ بلند وبالا ہو جاتاہے ۔حضرت امام حسن کا قول ہے :
’’ لاادب لمن لا عقل لہ ،ولا مودۃ لمن لا ھمۃ لہ ولاحیاء لمن لا دین لہ ، وراس العقل معاشرۃ الناس بالجمیل وبالعقل تدرک الدارین جمیعاً ومن حرم العقل حرمھا جمیعاً۔‘‘
جس کو عقل نہیں ملی اس کو ادب بھی نہیں ملا اور جس کو ہمت نہیں حاصل ہوئی وہ محبت نہیں پاسکا اور جس کو شرم نہیں ہے اس کو مذہب سے بھی تعلق نہیں ہے ۔عقل کا تقاضایہ ہے کہ لوگوں کے ساتھ میل جول اور بھلائی کی زندگی بسر کی جائے ۔ اور عقل ہی سے دونوں گھر یعنی دنیا وآخرت حاصل ہوتے ہیں، جو شخص عقل سے محروم ہو گا وہ دونوں گھروں سے بھی محروم ہو گا ۔
حضرت امام حسن نے یہ بھی فر مایا :
’’ھلاک الناس فی ثلاث، الکبر والحرص والحسد، فالکبر ھلاک الدین وبہ لعن ابلیس ۔والحرص عدو النفس والحسد رائد سوء ومنہ قتل ھابیل وقابیل‘‘
تین برائیوں سے لوگ تباہ وبر باد ہو جاتے ہیں وہ یہ ہیں تکبر ، حرص ، اور حسد۔ تکبر سے دین مٹ جاتا ہے ،اسی وجہ سے ابلیس ملعون قرار پایا ، اور حرص انسان کی جان کا دشمن ہے، یعنی جس شخص میں حرص پیدا ہوئی وہ اپنا آپ دشمن ہو گیا ۔ اور حسد برائی کا پیغام لانے والا ہے ،اسی سبب سے قابیل نے اپنے حقیقی بھائی ہابیل کو قتل کیا۔
حضرت امام حسن یہ بھی فر ماتے تھے کہ جب والد ماجد امیر المومنین حضرت علی کرم اللہ تعالیٰ وجہہ کی وفات کا وقت قریب آیا تو میں بہت پریشان ہوا حضرت نے فر مایا: حسن تم کیوں گھبرارہے ہو، میں نے عرض کیا کہ حضرت آپ کو اس حال میں دیکھ کر گھبراہٹ کیوں نہ ہو گی، اس موقع سے حضرت علی نے فر مایا: بیٹے چار باتیں ہمیشہ یاد رکھنا، اگر تم انہیں یاد رکھو گے تو ہمیشہ تمہیں ہر مصیبت سے نجات ملتی رہے گی اور کبھی گھبراہٹ نہ ہوگی وہ چار چیزیں یہ ہیں:
۱- لا غنی اکثر من العقل
عقل سے بہتر کوئی تونگری نہیں
۲- ولا فقر مثل الجہل
جہالت سے بڑھ کر کوئی محتاجی نہیں
۳- ولاوحشۃ اشد من العجب
خود پسندی سے زیادہ کوئی وحشت نہیں
۴- ولا عیش الذ من حسن الخلق
حسن خلق سے زیادہ مزے کی کوئی زندگی نہیں
(تاریخ ائمہ ،سید حیدر علی، ص251)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں