پیر، 25 دسمبر، 2017

Khateebul Baraheen Awr Khanqahe Barkaatiya

خطیب البراہین اور خانقاہ برکاتیہ
ضیاء المصطفی نظامی *
برصغیر ہندوپاک کی قادری خانقاہوں میں خانقاہ برکاتیہ مارہرہ مطہرہ کو ایک ممتاز مقام حاصل ہے ،یہ خانقاہ حضور صاحب البرکات سیدنا شاہ برکت اللہ عشقی قدس سرہٗ [ولادت ۱۰۷۰ھ وصال ۱۱۴۲ھ ]کے مقدس ہاتھوں بارہویں صدی ہجری کے آ غاز میں معرض وجود میں آئی۔بے شمار مقتدر ومایہ ناز شخصیتیں اس خانقاہ سے فیض یاب ہوئیں۔
اسی سرچشمۂ روحانیت سے سیراب ہونے والوں میں خطیب البراہین محی السنہ عارف باللہ حضرت علامہ الحاج الشاہ صوفی مفتی محمد نظام الدین برکاتی رضوی محدث بستوی نور اللہ مرقدۂ کواپنے دور میں نمایاں مقام حاصل ہے ،آپ کے ذریعہ لاکھوں تشنگان معرفت سیراب ہوئے ، آپ نے سلسلہ قادریہ برکاتیہ کے فروغ واستحکام میں اہم اور نمایاں کردار پیش کیا۔
نام ونسب:۔آپ کا نام محمد نظام الدین ہے۔اور سلسلۂ نسب یہ ہے:محمد نظام الدین بن نصیب اللہ , بن بیتاب علی, بن محمد اسحاق علیہم الرحمہ۔
مولدومسکن:۔ضلع بستی کے صدر مقام سے تقریبًا ۳۰؍کلومیٹر کے فاصلہ پر جانب شمال مشرق تپہ اجیار کے مردم خیزاور مشہور گاؤں ’’اگیا‘‘ (جوپہلے ضلع بستی میں تھا اور اب سنت کبیر نگر میں آگیا ہے)کے ایک پابندصوم وصلاۃ گھرانے میں مورخہ ۱۵؍جنوری ۱۹۲۸ء کوآپ کی ولادت باسعادت ہوئی،والد بزرگوارنے اسی مسرت وشادمانی کے عالم میں دل میں یہ طے کرلیا کہ میں اس بچے کو عالم دین بناؤںگا اس لیے آپ کی پرورش اور نشوونما خالص اسلامی ماحول میں ہوئی۔والدہ عابدہ زاہدہ تلاوت قرآن پاک کے ساتھ ساتھ دلائل الخیرات کی تلاوت کی پابند تھیں ۔تہجد گزار والدہ کی دعاے سحرگاہی کا مظہر بن کر آپ کی شخصیت جلوہ افروز ہوئی آپ بچپن ہی سے متبع شریعت رہے ۔
تعلیم وتربیت : آپ شعور کی جب اس منزل پر پہنچے جہاں سے تعلیمی سفر کا آغاز ہوتا ہے تو آپ کومقامی مکتب میں داخل کردیا گیا جہاں قرآن کریم اور چند ابتدائی کتابوں کی آپ نے تعلیم حاصل کی،دارالعلوم اہل سنت تدریس الاسلام بسڈیلہ میں مولانا محمدفاروق احمد فیض آبادی سے میزان الصرف سے شرح وقایہ اور شرح جامی کا علم حاصل کیا۔
 ۱۹۴۷ء میںاعلیٰ تعلیم کے لیے اپنے دوساتھیوںکی معیت میں مدرسہ اسلامیہ اندر کوٹ میرٹھ کا رخ کیا ۔وہاں پر ایک سال رہ کر اپنے روحانی مربی حضرت علامہ حاجی مبین الدین محدث امروہوی[متوفی ۱۴۰۸ھ/ ۱۹۸۸ء] اور امام النحوحضرت علامہ غلام جیلانی میرٹھی  [متوفی ۱۹۷۸ء ]قدس سرہماسے اکتساب فیض کرتے رہے۔
  ۱۹۴۸ء میں ملک کی عظیم دانش گاہ الجامعۃ الاشرفیہ مبارکپور میں داخلہ لیا اورچار سال تک جلالۃ العلم حضور حافظ ملت مولاناشاہ عبدالعزیز مرادآبادی [ متوفی۱۳۹۶ھ/ ۱۹۷۶ء]،مولاناحافظ عبدالرؤف بلیاوی[متوفی ۱۳۹۱ھ/ ۱۹۷۱ء] ،مولاناالحاج عبدالمصطفیٰ اعظمی اور شیخ العلما مولاناغلام جیلانی علیہم الرحمہ سے اکتساب علم کرتے رہے ۔
 دستار فضیلت: ۱۹۵۲ء میں حضور حافظ ملت اور دیگر علما ومشائخ نے آپ کو دستار فضیلت سے سرفراز فرماکر خدمت دین متین کی ذمہ داریوں پر مامور کیاآپ نے ان ذمہ داریوں کو کچھ اس طرح نبھایا کہ آج دنیا آپ کو خطیب البراہین ،محدث بستوی ،محی السنہ، عارف باللہ ،مفتی صاحب اور صوفی صاحب جیسے مہتم بالشان القابات سے یاد کررہی ہے۔(۱)
تبحر علمی : حضور خطیب البراہین کو درس نظامی پر کامل دستر س حاصل تھی علم حدیث ،تفسیر ،فقہ اصول فقہ پر آپ کو ید طولیٰ حاصل تھاعلم تصوف واخلاق کے جملہ شعبوں میں آپ کو مہارت تھی۔
غرض یہ کہ علوم وفنون میں آپ کے کمالات کی تشریح وتوضیح کیوں کر ہوسکتی اسی طرح علوم باطن میں آپ کے مراتب قرب وکمالات اوراتصال باطن دوربیں نگاہیں بہ خوبی جانتی اور پہچانتی ہیں عبادات وریاضات ،اورادووظائف،اذکاروافکار،اعمال واشغال وغیرہ پر غور کیجیے اور متقدمین اولیائے کرام کے شبانہ روز سے ملاتے جائیے،تو ان کی زندگی کا ہر پہلو سیرت نبوی کی عملی تفسیر نظرآئے گا۔
آپ کی تبحر علمی ،فراست وذکاوت،جودت طبع ،نکتہ رسی ،محدثانہ بصیرت کا اعتراف بڑے بڑے اصحاب علم وفضل کو تھا اور آج بھی ہے ،اپنے تو اپنے غیروں نے بھی آپ کے فضائل وکمالات کا اعتراف کیا۔
اوقات کی پابندی: آپ نے اپنے اوقات مختلف دینی وملی،علمی وفنی ،تقریری وتحریری،اورادووظائف ،تلاوت قرآن کریم ، دلائل الخیرات جیسے امور کے لیے بانٹ رکھے تھے جن کی ہرحالت میں پابندی فرماتے اور دوسروں کو بھی اس کی تلقین فرماتے۔
 آداب وسنن اور احکام شرعیہ کی مکمل پابندی فرماتے ،نماز باجماعت ادافرماتے ۔اکثر وبیشتر زبان مبارک حضور اکرم ﷺ کی مدح وستائش اور ذکر خدا سے تررہتی تھی اور محبت رسول اور اطاعت حکم رسول میں اپنی زندگی کا بیشتر اثاثہ صرف فرمادیا
 ا ن تمام شغل واذکار کی مصروفیات کے باوجود درس و تدریس میں اوقات کی پابندی فرماتے ، اپنی تمام ترمصروفیات کے باوجود تمام اسباق کا درس دیتے ۔درس کی تقریر مختصراور جامع ہواکرتی تھی کتاب کے مضمون پر وارد ہونے والے اعتراضات درسی تقریر سے ہی حل ہوجاتے تھے۔آپ کم گو نپے تلے جملے بولنے کے عادی تھے اور دوسروں سے بھی مختصر باتیں سننے کے عادی تھے، مگر جوباتیں ارشادفرماتے نہایت ہی باوزن قابل قبول ہوتیں۔(۲)
تدریسی خدمات:آپ نے تحصیل درس نظامی وتکمیل علوم اسلامیہ کے بعد اترپردیش ،گجرات کے متعدد مدارس اسلامیہ میں ۵۶ سال تک تدریسی فرائض انجام دیتے رہے،جس کی تفصیل کچھ اس طرح ہے۔
(۱) دارالعلوم اہل سنت فیض الاسلام مہنداول ضلع (بستی)سنت کبیرنگر(یوپی)
(۲)دارالعلوم اہل سنت شاہ عالم احمدآباد گجرات
(۳) دارالعلوم اہل سنت فضل رحمانیہ پچپڑوا ضلع (گونڈہ)بلرام پور(یوپی)
(۴)دارالعلوم اہل سنت تنویر الاسلام امرڈوبھا ،بکھرہ ضلع(بستی)سنت کبیرنگر(یوپی)
آپ نے۱۴؍اپریل ۱۹۶۳ء میںدارالعلوم تنویرالاسلام امرڈوبھا کا انتخاب کیا اور  ۲۰۰۹ء تک طالبان علوم نبویہ کو درس بخاری دیتے رہے ۔ جس میں اخیرکے بیس سال تک آپ نے فی سبیل اللہ درس بخاری دیا اور ادارہ سے کوئی معاوضہ نہیں لیا ۔
آپ کی درس گاہ ِفیض سے شعور وآگہی کی دولت حاصل کرنے والے طلبہ ہزاروں کی تعداد میں ملک وبیرون ملک میں پھیلے ہوے ہیں ،جو اہل سنت وجماعت کی ترویج واشاعت میں مصروف ہیں ۔(۳)
دعوت وتبلیغ :آپ نے جہاں ایک طرف اساتذہ ،مفکرین ،ادبا اور دانشوروں کاایک عظیم دستہ قوم کو عطاکیا وہیں پر اپنی مدلل ومبرہن تقریروںکے ذریعہ دشمنان اسلام کو دعوت فکر دیتے رہے ۔
بحرالعلوم حضرت علامہ مفتی عبدالمنان اعظمی مصباحی[ متوفی ۱۴۳۴ھ/ ۱۲۰۱۲] علیہ الرحمہ آپ کی شخصیت اورخطابت کے تعلق سے یوں تحریر فرماتے ہیں:
’’ حضرت مولانا مولوی مفتی محمد نظام الدین صاحب ، شیخ الحدیث دارالعلوم تنویر الاسلام امرڈوبھا، ضلع بستی علماے اہلِ سنت میں ایک ذی وقار عالم اور مدرسین میں ایک بلند پایہ شیخ الحدیث ، جن کے کثیر التعداد شاگرد پورے ہندوستان میں پھیلے ہوئے ہیں، مرشدین میں ایک گراں قدر مرشد اور کثیر المریدین شیخ وقت اور پیر طریقت شمار کیے جاتے ہیں ، اور رشد وہدایت اور وعظ و تقریر میں پورے ہندوستان کے طبقہ اہلِ سنت میں خطیب البراہین کے نام سے معروف ومشہور ہیں۔
مولانا نے اپنے وعظ وتقریر میں ایک طرز ِخاص ایجاد فرمائی ، زبان صاف اور سیدھی اندازِ بیان واضح اور سلجھا ہوا ، مگر پابندی اس امر کی کہ جو بات بھی کہی جائے اسے حوالوں سے آراستہ کردیا جائے۔ مولانا اپنے بیان کی کیفیات میں خود ڈوب جاتے ہیں اور سننے والوںکا یہ حال کہ ہر شخص ششدر اور حیران ٹکٹکی باندھے ان کا چہرہ دیکھ رہاہے اور ان کی باتیںسن رہاہے اور دل میں سوچ رہاہے، یا اللہ !کتنا وسیع مولانا کا علم ہے اور کتنا قوی ان کا حافظہ ؟۔(۴)
ذوق عبادت:۔ دور طالب علمی میں ہی آپ حصول علم کی لگن کے ساتھ ذوق عبادت اور تقویٰ وپرہیزگاری کے اوصاف حمیدہ سے متصف تھے۔
حضرت مولانا علی احمد صاحب مبارک پوری علیہ الرحمہ کو دارالاقامہ کی نگرانی سپردتھی وہ حضرت خطیب البراہین کے متعلق فرماتے تھے:
’’تعلیمی دور میں طلبہ کو صبح کے وقت نماز کے لیے بیدار کرتا تھا ،مگر جب بھی گیٹ کھولتاتو   مولانانظام الدین بستوی کو وضو سے فارغ پاتا یا وضوکرتے پاتا‘‘۔
آپ زمانہ طالب علمی ہی سے نہایت ہی پرہیز گار اور تقوی شعار رہے ۔آپ کے تقوی شعاری کا عالم یہ تھا کہ آپ نے ایک بار حضور حافظ ملت کی درس گاہ میں یہ عریضہ پیش کیا کہ حضور میرے یہ احباب مجھے ’’صوفی صاحب‘‘ کہتے ہیں میں اپنے آپ کو اس کا مصداق نہیں پاتا،اس لیے آپ ان لوگوں سے فرمادیں کہ مجھے اس نام سے نہ پکاریں۔ تو حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ نے ارشاد فرمایا !جی ہاں ہم بھی آپ کو صوفی صاحب کہتے ہیں۔آپ صوفی ہیں اسی لیے تو لوگ آپ کو صوفی صاحب کہتے ہیں ۔
اس مردحق شناس کے منھ سے نکلے ہوئے جملے ربِّ کریم کی بارگاہ میں اس قدر مقبول ہوئے کہ آج دنیا آپ کو صوفی صاحب ہی کے خطاب سے جانتی پہچانتی ہے۔(۵)
 تحریری خدمات :تدریسی ،تقریری ،تبلیغی مصروفیات اور معمولات واذکار کے بعد آپ کو اتنا وقت کہاں میسر آتاکہ آپ تصنیف وتالیف کی جانب توجہ فرماتے مگر ان تما م اشغال کے باوجود اصلاح اُمّت کے لیے درجنوں مفید اور نافع کتابیں تصنیف فرمائیں۔
(۱) داڑھی کی اہمیت (۲) کھانے پینے کا اسلامی طریقہ (۳) برکات مسواک (۴) اختیارات امام النبیین (۵) فلسفہ قربانی (۶) برکات روزہ (۷)حقوق والدین (۸) فضائل مدینہ (۹) فضائل تلاوت قرآن مبیں (۱۰)فضائل درود (۱۱) خطبات خطیب البراہین ۔
حج وزیارت:۔  دیارحبیب  کی حاضری اور فریضۂ حج کی ادائیگی دونوں جہان کی برکتوں اور سعادتوں کا ذریعہ ہے آپ  ۱۹۹۰ء میں اپنی والدہ ماجدہ اور اپنے صاحبزادے حبیب العلما حضرت علامہ محمد حبیب الرحمٰن صاحب قبلہ کے ساتھ حج پر تشریف لے گیے۔
 شرف بیعت :آپ نے دوران تعلیم ہی ۷؍ربیع النور ۱۳۷۰ھ مطابق ۱۶؍جنوری ۱۹۵۱ء کو تاجدار اہل سنت آفتاب رشدو ہدایت سرکار مفتی اعظم ہند مولانا شاہ مصطفی رضا خان [متوفی۱۴۰۲ھ/۱۹۸۱] علیہ الرحمۃ والرضوان کے دست حق پرست پر شرف بیعت حاصل کیا۔(۶)
اجازت وخلافت : حضرت خطیب البراہین علیہ الرحمہ کو خانقاہ برکاتیہ سے عشق کی حد تک لگاؤ تھا ،مارہرہ مطہرہ کی حاضری آپ کا معمول تھا،اسی لگاؤ ومحبت کی وجہ سے سرکاران مارہرہ کا کچھ ایساکرم ہواکہ عرس قاسمی کے موقع پر ۲۰ صفر المظفر۱۴۰۵ھ مطابق ۱۵؍نومبر ۱۹۸۴ء بروز جمعرات کو حضور احسن العلماء حضرت علامہ مولاناسیدشاہ مصطفی حیدر حسن میاں[ولادت ۱۳۴۵ھ/۱۹۲۷ء وصال۱۴۱۶ھ/۱۹۹۵ء]علیہ الرحمۃ والرضوان نے علما ومشائخ کی موجودگی میں سلسلہ عالیہ قادریہ برکاتیہ کی خلافت واجازت سے سرفرازفرماکرآپ کی ہمہ گیری وجامعیت میں ایک نئی روشنی پیدافرمادی۔
اسی طرح آپ کے مشفق استاذ رئیس الاتقیاء حضرت علامہ الحاج حافظ مبین الدین فاروقی محدث امروہوی[متوفی۱۴۰۸ھ/ ۱۹۸۸]قدس سرہٗ نے۵؍محرم الحرام ۱۴۰۷ھ کو’’النوروالبھاء‘‘ میں مذکور پچیس سلاسل قرآن وحدیث وسلاسل اولیا ء اللہ کی سند اجازت کے ساتھ سلسلۂ رضویہ کی بھی اجازت مرحمت فرمائی۔ 
آپ اپنی خلافت کا تذکرہ یوں فرماتے: جس وقت حضور احسن العلما علیہ الرحمہ نے میری خلافت کا اعلان فرمایا اور میرے سر پہ سبزدستار باندھی اس وقت میرے اوپر فیضان وبرکات،انواروتجلیات کی ایسی برسات ہوئی کہ میرا باطنی خلاپُر ہوگیا اور میری کیفیت کیا ہوئی اسے الفاظ میں نہیں بیان کیا جاسکتا۔
مشائخ مارہرہ سے ربط وتعلق :آپ کو خانوادئہ مارہرہ مطہرہ کے دوعظیم المرتبت بزرگوںکی خدمت کا موقع ملا اُن میں سے ایک حضور سیدالعلماء مولانا سیدشاہ آل مصطفی قادری[ولادت ۱۳۳۳ھ وصال۱۳۹۴ھ]علیہ الرحمہ کی ذات گرامی تھی اوردوسری گرامی شخصیت مرشد اجازت حضور احسن العلماء مولانا سیدشاہ مصطفی حیدرحسن میاں [ولادت ۱۳۴۵ھ وصال۱۴۱۶ھ] علیہ الرحمہ کی تھی۔
دونوں حضرات ہندوستان کے ممتاز ترین عالم دین اور بہت عالی شان خانقاہ کے سجادہ نشین تھے،اُن بزرگوں کے دلوں میں آپ کے لیے کتنی محبت وشفقت تھی اس کااندازہ چندجملوں سے بخوبی لگایا جاسکتاہے۔حضور سید العلماء نے ضلع بستی کے ایک مشہور گاؤں’’بسڈیلہ ‘‘ میں حضرت صوفی صاحب علیہ الرحمہ کے خطاب سے مثاثر ہوکر فرمایاتھا:
’’ یہ کوئی تملق وچاپلوسی نہیں ہے ایک دن وہ آئے گا کہ لوگ دوردورسے انھیں بلائیںگے‘‘
صوفی صاحب قبلہ فرماتے ہیں بحمدہٖ تعالیٰ وبکرم حبیبہٖ الاعلیٰﷺمقتدائے اہل سنت مخدوم مکرم کی زبان فیض ترجمان کا یہ اثر ہوا کہ ملک کے بیشتر صوبوں میں میرا تقریری پروگرام ہوا اور آج بھی سلسلۂ عالیہ قادریہ برکاتیہ کی ترویج واشاعت کے لیے ملک کے مختلف علاقوںمیں میرا آناجانا ہوتا ہے۔اس جملہ کی صداقت لوگوں پر آفتاب سے زیادہ واضح ہوئی
حضورسید العلما امرڈوبھا ضلع سنت کبیر نگر کے ایک جلسہ میں تشریف لائے جب حضرت صوفی صاحب ملاقات کے لیے حاضر ہوئے تو فرمایا:
  ’’ آئیے صوفی صاحب !مجھے آپ کو صوفی کہنے میں بڑی لذت محسوس ہوتی ھے"
حضور احسن العلماء علیہ الرحمہ آپ سے بہت محبت فرماتے تھے،جب آپ مارہرہ مقدسہ جاتے توآپ بہت خیال فرماتے تھے،پہونچنے پرآپ خود ہاتھ پکڑکر بٹھاتے ،کھانا وغیرہ کا خود انتظام کرتے اور پوچھتے رہتے کہ آپ کیسے ہیں؟مولانا بشیرمرحوم وغیرہ سے فرماتے تھے کہ صوفی صاحب کا خیال فرمائیے گا، جب آپ خطاب کرنے کے لیے منبر رسول پر حاضر ہوتے تو حضور احسن العلما اعلان فرماتے کہ اب وہ تقریرکرنے کے لیے آرہے ہیں جن کی تقویٰ وطہارت وپرہیزگاری مسلم ہے،حدیث بیان فرماتے ہیں تو عشق رسول میں ڈوب کر اور جو بیان کرتے ہیں اس پر عمل بھی کرتے ہیں، تقریر سنتے اور جھومتے، جب ختم کرنا چاہتے تو آپ فرماتے اور بولیے،کیوںکہ آپ کی تقریر قرآن وحدیث اور برمحل اعلیٰ حضرت کے اشعار سے مملوہوتی ہے۔
مولاناغلام حسین صاحب برکاتی نظامی فرماتے ہیں کہ کھڑک والی مسجدممبئی میں آپ کے خلفاء میں سے حضرت صوفی صاحب قبلہ کے بارے میں کسی نے کہا کہ آپ کے خلیفہ حضرت صوفی صاحب کے ذریعہ بحمدہٖ تعالیٰ سلسلۂ عالیہ قادریہ برکاتیہ کا خوب خوب فروغ ہورہا ہے،حضرت اٹھ کر بیٹھ گیے اور انتہائی انبساط میں فرمانے لگے کہ جی ہاں!یہ حسن کا انتخاب ہے،پھرمزید دعاؤںسے نوازتے رہے۔
حضرت خطیب البراہین علیہ الرحمہ اپنے مرشد اجازت حضور احسن ا لعلمامولاناسید شاہ مصطفی حیدرحسن میاں برکاتی علیہ الرحمہ کے متعلق یوں فرماتے ہیں :
آپ کی ذات اقدس اس بابرکت بوئے گل کی طرح ہے جو اپنی خوشبو سے ہمہ دم مشام اہل سنت کو مہکائے رہتی ہے،آپ علم وفضل ،دین ودیانت ،دانش وحکمت،زہدوتقویٰ،خوش خلقی وخداترسی ، حق گوئی وبیباکی سے متصف تھے،اعلیٰ درجے کے خطیب بہترین نثرنگار اور شاعر خوش گفتارتھے،تقویٰ شعار،حق شناس، عابد شب زندہ دارتھے بایں ہمہ آپ علماء کرام کے سامنے عجزو انکساری کے پیکر نظر آتے اس سلسلہ میں آپ کی ذات ہمارے لیے نمونۂ عمل تھی،آپ کے درپرجو پہونچا فیضیاب ہوکر لوٹا ، عقیدت مندوں سے اس قدر محبت فرماتے کہ لوگ یہی سمجھتے کہ حضرت سب سے زیادہ مجھی کو چاہتے ہیں۔(۷)
خانقاہ برکاتیہ:حضرت خطیب البراہین خانقاہ برکاتیہ کے علمی وقار کے بارے فرماتے ہیں: ’’خانوادۂ برکاتیہ مارہرہ شریف کے علمی وروحانی وقار کے بارے میںمجھ جیسے کم علم کو کچھ کہنے کی جرات کیسے ہوسکتی ہے ،جس خانقاہ کے آقایان نعمت وسرکاران والاتبار علم ظاہر وعلم باطن کے شہنشاہ اور ہر ایک شریعت وطریقت کے مجمع البحرین رہے ہوں جنہیں اکابرین اہل سنت نے اپنے اپنے دور میں ایسے ایسے القابات وخطابات سے یاد فرمایا جو ان کے علمی وروحانی فضل وکمال پر دلالت کرتے ہیں ،کسی کو ’’صاحب البرکات‘‘تو کسی کو ’’شمس دین‘‘سے یاد کیا گیا کسی کو ’’خاتم الاکابر ‘‘کہاگیا تو کسی کو ’’تاج العلما‘‘ ’’سید العلما‘‘ اور ’’احسن العلما‘‘سے یادکیاگیا ۔یہ خانوادہ ہمیشہ سے علمی وروحانی اقدار کا حامل رھا ھے (8)  آپ نے سلسلۂ برکاتیہ سے فیض یابی حاصل کرتے ہوئے اسی کے مطابق تشنگان علوم ومعرفت کے مابین فیض تقسیم فرماتے رہے،جن کے اِرد گرد علوم وفنون کے طالب ،تزکیۂ باطن کے متلاثی ،پندومواعظت کے شائق صف بستہ نظر آتے ،جن کی تابانیوں سے ضمیر کی اصلاح اور تاریک دلوں میں تجلیو ں کا ظہور رونما ہوجاتا،آپ کے ذریعہ سلسلہ برکاتیہ کا خوب فروغ ہوا،اس لیے آپ کے مریدین لاکھوںکی تعداد میں ہیں،مگر خلفا کی تعداد صرف دوہے (۱)حبیب العلما حضرت علامہ محمد حبیب الرحمن جانشین حضور خطیب البراہین (۲)شہزادہ رئیس الاتقیاء حضرت ڈاکٹر شجاع الدین فاروقی صاحب امروہہ ضلع مرادآباد۔ 
انتقال پر ملال : یکم جمادی الاولیٰ ۱۴۳۴ھ مطابق ۱۴؍مارچ ۲۰۱۳ء کو صبح آٹھ بجے آپ نے اپنی حیات مستعار کی آخری سانس لی اور اس دارفانی سے دارجاودانی کی جانب رحلت فرما گیے’’اناللہ واناالیہ راجعون‘‘ ۱۵؍مارچ ۲۰۱۳ء بروز جمعہ مبارکہ کو آپ کے آبائی گاؤں ’’اگیا‘‘ضلع سنت کبیر نگر (یوپی)میں تدفین عمل میں آئی جس میں لاکھوں فرزندان توحید نے شرکت فرماکر اپنے اس عظیم قائد کو نم ناک آنکھوںسے سپرد خاک کیا،آپ کی نمازجنازہ آپ کے جانشین حبیب العلما حضرت علامہ الحاج الشاہ محمدحبیب الرحمٰن صاحب قبلہ دامت برکاتہم القدسیہ نے پڑھائی۔
حوالہ جات
(۱) سہ ماہی پیام نظامی لہرولی سنت کبیر نگر خصوصی شمارہ اپریل تاجون۲۰۱۳ء  ص۱۸
سال نامہ ضیائے حبیب خانقاہ عالیہ قادریہ برکاتیہ نظامیہ اگیاضلع سنت کبیر نگر(یوپی) ص:۶
 (۲) خطیب البراہین حیات وخدمات دارالقلم نظامی مارکیٹ لہرولی سنت کبیر نگر ص:۱۷،۱۸
(۳) نظام حسن ومبیں مکتبہ نظامیہ حبیبیہ نظامی مارکیٹ لہرولی سنت کبیر نگر ص:۱۷،۱۸،۱۹،۲۰ملخصاً
(۴)خطبات خطیب البراہین،تقریظ ، ص۴،۵ ،۶،ملخصا ً،مکتبہ برکاتیہ نظامیہ ، اگیا چھاتا ، سنت کبیر نگر )
(۵) ضمیہ خطیب البراہین روزنامہ راشٹریہ سہاراگورکھ پور ۲۱اپریل ۲۰۱۳ء صفحہ ۶
(۶) روز نامہ راشٹریہ سہار اگورکھ پور خطیب البراہین نمبرصفحہ:۱۸
(۷؍8)انٹرویو خطیب البراہین نمبر راشٹریہ سہارا گورکھپور،ص:۴۶،۴۷؍سالنامہ ضیائے حبیب ص:۱۸۹،۹۰،۹۱،۹
18 جنوری 2018 کو ہے
موضع اگیا پوسٹ چھاتا ضلع سنت کبیر نگر یوپی انڈیا


..:: Follow us on ::..

http://www.jamiaturraza.com/images/Twitter.jpghttp://www.jamiaturraza.com/images/Facebook.jpg


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

ٹیوٹر اپڈیٹس دیکھیں اور فالو کریں