منگل، 31 جولائی، 2018

Syed Fazil Ashrafi Ki Taqdeesi Shaeri

سیدفاضل اشرفی کی تقدیسی شاعری 
ڈاکٹر محمد حسین مشاہدرضوی


سید فاضل اشرفی میسوری جنوبی ہند کے جواں سال عالم دین اور زود نویس و زود گو شاعر ہیں ۔ جن کا اشہبِ قلم بچپن ہی سے مدحتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایوانوں میں سرپٹ دوڑ رہا ہے۔ اساتذہ کے کلام با لخصوص اعلیٰ حضرت بریلوی ،حسن ؔرضا بریلوی، پیر نصیرؔ گولڑوی ،اخترؔ کچھوچھوی، مظفرؔ وارثی حافظ مظہر الدین مظہرؔ، حفیظ ؔتائب، احمدندیم قاسمی وغیرہم کو روح کی غذا بنا نے والے فاضل اشرفی خوش نما بندش اور خوب صورت آرایشِ ترکیب کے ساتھ نعت و منقبت کے حسین و جمیل گل بوٹے کھلانے میں لمحہ لمحہ مصروف ہیں ۔ میدانِ نعت میں ان کی مسلسل ریاضتیں دیکھ کر بے ساختہ قلب و روح میں مسرتیں انگڑائیاں لینے لگتی ہیں اورسبحان اللہ ماشآء اللہ کی داد و تحسین کے بغیر چارہ نہیں رہ جاتا ۔ان کے کلام کو دیکھتے ہوئے وجدان یہ کہہ اٹھتاہے کہ ان پر سرورِ کونین صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصی عطا وبخشش کی رم جھم روز بہ روز افزوں تر ہے ، خود کہتے ہیں ؂
خامہ ہے سجدہ ریز پَے نعت روز روز
مجھ پر کرم کی ہوتی ہے برسات روزروز
سید فاضل میسوری کے جستہ جستہ کلام سماجی رابطے کی مشہور سائٹ فیس بک پر بارہا باصرہ نواز ہوتے رہے ۔ نت نئی ردیفوں ، انوکھے قافیوں ،نرالی لفظیات اور البیلی تراکیب کا جو نگار خانہ آپ کی نعتوں میں آراستہ و مزین دکھائی دیتا ہے وہ آپ کی زبان دانی اور فنی علو کا حسین و جمیل اور مستحکم اشاریہ ہے ۔ مختلف نعتوں سے اخذ کردہ چند خوش نما بندش و تراکیب ِ لفظی آپ بھی نشانِ خاطر کریں تاکہ سید فاضل اشرفی میسوری کی زبان دانی کی ایک دل کش جھلک آپ بھی دیکھ لیں :قطرہاے شبنمیں / شعلہ ہاے آتشیں /زبانِ عنبریں / ظرفِ دیدار / ہم رتبۂ دارا و سکندر / لمسِ نقشِ پا / عذابِ دشت / انکساریوں کا نصاب / ناسخِ انجیل / خوش نما بندش و آرایش ترکیب / طاقِ اظہار / فکر و فن کی قحط سالی / ابروؤں کی کشتہ / مکتبِ سیدِ کونین کے جزداں / مطلعِ زندگی کی شفق / شہرِ تخیلات / ذائقۂ انبساط / بت خانۂ ظلمات / طورِ تخیل / مصحفِ نعت / طوافِ کعبۂ عشقِ نبی / صلوٰۃ کے احرام /سرنامۂ نجات / طاقِ خیال / شمعِ مدحت /نبضِ بقا / فیضِ عاجزی / خیراتِ رہبری /آمادۂ نمو/ کوچۂ بخشش / گرویدۂ تمدنِ افرنگ /کاسۂ دست /تریاقِ مجرب / ہجومِ تجلیات - وغیرہ وغیرہ 
No automatic alt text available.  
عشق و محبت رسولِ صلی اللہ علیہ وسلم کے مخلصانہ جذبات اور والہانہ احساسات سے سجی سنوری سید فاضل اشرفی میسوری کی نعتیں صرف عقیدے و عقیدت اور تعظیم و توقیر ذاتِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی آئینہ دار ہی نہیں ہیں بلکہ مدحتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے انوکھی اور اچھوتی لفظیات کے انسلاک سے فاضل میسوری نے اپنے کلام کو دو آتشہ بنادیا ہے۔ آپ کی تقریبا ہر نعت میں ایسے اشعارموجود ہیں جوذہن ودل کو اپنی طرف کھینچتے ہوئے قلب و روح کو براہِ راست متاثر کرتے ہیں ۔ مجھے ذاتی طور پر فاضل میسوری کے بعض مطلعوں نے کافی لطف دیا ، لیجیے آپ بھی سُروراٹھائیں ؂
سنگساروں کو بھی گلبار بنا دیتا ہے
دشمنِ جاں کو بھی وہ یار بنا دیتا ہے
چلو حضور کی عزت پہ مر کے دیکھتے ہیں
یہ جرم ہے تو سرِ عام کر کے دیکھتے ہیں
ہم کہ آدابِ قلم لہجۂ لب جانتے ہیں
مدحتِ سرورِ کونین کا ڈھب جانتے ہیں
بندگی مستند ہو گئی نعت سے
زندگی بن گئی زندگی نعت سے
کیف و تسکین میسر ہوا دن رات مجھے
مطمئن رکھتے ہیں مدحت کے خیالات مجھے
نعت لکھنی ہے مگر نعت کی تہذیب کے ساتھ
پاک الفاظ و مضامین و اسالیب کے ساتھ
کتنی پاکیزہ و شستہ ہے مری عمر رواں
نعت کے دم سے شگفتہ ہے مری عمر رواں
آمادۂ نمو جو ترے رنگ ہو گئے
جتنے بھی دیدہ ور تھے سبھی دنگ ہوگئے
علامہ کوکب نورانی اوکاڑوی نے کہیں لکھا تھا کہ : ’’ہر عالم شاعر نہیں ،اور ہر شاعر عالم نہیں ہوتا ‘‘لیکن سید فاضل میسوری اس مدحت نگار کا نام ہے جو بیک وقت عالم بھی ہیں اور شاعر بھی ، یہی وجہ ہے کہ ان کے اشعار کی زیریں رَو میںعالمانہ رفعتوں کے جِلو میں شاعرانہ نزاکتوں کے ساتھ خود آگہی ، کائنات آگہی اور خدا آگہی کا آفاقی تصور دکھائی دیتا ہے ۔ جو ہر اعتبار سے لائق تحسین و آفرین ہے ۔
سید فاضل اشرفی میسوری نے بڑی فن کارانہ مہارت اور ادیبانہ شان کے ساتھ اپنی نعتوں کو معنی آفرینی ، شوکتِ ادا، جدت و ندرت ، جذبہ و تخیل ، محاورات، روزمرہ ، صنائع لفظی و معنوی ، استعارات کے ماہ و نجوم سے روشن و درخشاں کیا ہے ۔سہل پسندی کے اس دور میں سید فاضل اشرفی میسوری کا قلم اردو کے ذخائرِ نعت میں جس رنگا رنگی، فنی تہہ داریت اورمحاسنِ شعری کے ساتھ مسلسل مصروف ہے اس کو دیکھتے ہوئے اردو نعت میں معیاری کلام کے اضافہ سے ناامیدی نہیں ہوتی۔ فاضل میسور ی کے چند نمایندہ اشعار نشانِ خاطر کیجیے ؂
عروجِ آدمیت اللہ اللہ 
دنیٰ کے شہر میں مسند نشیں ہے
تیرا دیدار ہی تریاقِ مجرب ٹھہرا
اس پہ محمول ہے بیمار کا اچھا ہونا
اولیت کا شرف،مرتبۂ خاتمیت 
مستزاد اس پہ ترا صاحبِ قرآں ہونا
سنا ہے اس کی تہوں میں بلندیاں ہیں نہاں
تو بحرِ عشق نبی میں اتر کے دیکھتے ہیں
سرمد ہوں جامِ عشقِ رسالت مآب کا
میں دار پر ہوں میری بقا ان کے پاس ہے
جذبِ بلال و خالد انہیں کیا ملے کہ جو
گرویدۂ تمدنِ افرنگ ہوگئے
سید فاضل میسوری اشرفی کی زنبیلِ شاعری میں حمد و نعت اورسلام کے ساتھ ایک بڑا حصہ مناقب و قصائد کا بھی ہے ۔ علاوہ ازیں انھوں نے غزل اور نظم میں بھی طبع آزمائی کے جوہر بکھیرے ہیں ۔ ان کے موے قلم سے نکلی ہوئی منقبتیں اور قصیدے اپنے ممدوح کے تئیں مخلصانہ رویوں کے جلومیں محتاط وارفتگی کے رنگ و آہنگ لیے ہوئے ہیں ۔ اپنے مرشد گرامی حضرت سید جیلانی میاں نورؔ کچھوچھوی قبلہ کی پیہم حوصلہ افزائیوں کے زیرِ سایہ سخن فہمی اور سخن کاری میں سید فاضل اشرفی میسوری کا یہ سلسلۂ خیرپوری آب و تاب کے ساتھ جاری و ساری ہے ، دعا ہے کہ وہ اسی طرح اپنے جدِ کریم علیٰ صاحبہاالصلوٰۃ والتسلیم کی بارگاہ میں مدحتوں کے گل بوٹے نذر کرتے رہیں۔، آمین !
آپ کے کلام پرجی تو چاہتا ہے کہ بہت کچھ لکھوں ، لیکن کلام اور تقاریظ کے درمیان زیادہ دیر تک قاری کا حائل رہنا بہتر نہیں ، لہٰذا ورق پلٹیے اور ایک بے حد خوب صورت ، حسین وجمیل ، دل کش اور دل نشین گل دستۂ نعت کی خوشبوؤں سے مشامِ جان و ایمان و معطر و معنبر کیجیے ۔

ڈاکٹر محمد حسین مُشاہد رضوی 
25 محرم الحرام 1439ھ / 16 اکتوبر 20177ء ، بروز دو شنبہ



..:: Follow us on ::..

http://www.jamiaturraza.com/images/Facebook.jpg 

http://www.jamiaturraza.com/images/Twitter.jpg

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

ٹیوٹر اپڈیٹس دیکھیں اور فالو کریں