مذہبِ اِسلام میں خدمتِ خلق کی اہمیت و افادیت
از: شمــس تبــریز نـوری امجــدی
مقیم حال: جدہ
+966551830750
انسانوں سے محبت و الفت شفقت و پیار اور ضرورت مند انسانوں کی مدد کرنے کو ہر دین اور مذہب میں تحسین کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ لیکن دین اسلام نے انسانی خدمت کو اخلا قِ حسنہ اور عظیم عبادت قرار دیا ہے۔ اللہ رب العزت نے انسانوں کو اپنی ایک الگ الگ صلاحیتوں کا مالک بنایا ہے۔ اور یہی فرق و تفاوت اس کائناتِ ہستی کا حسن و جمال ہے ۔
حضور رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانوں کو باہمی ہمدردی اور خدمت گزاری کا سبق دیا۔ طاقتوروں کو کمزوروں پر رحم و مہربانی اور امیروں کو غریبوں کی امداد کرنے کی تاکیدو تلقین فرمائی۔
مظلوموں اور حاجت مندوں کی فریاد رسی کی تاکید فرمائی۔ یتیموں، مسکینوں اور لاوارثوں کی کفالت اور سر پرستی کا حکم فرمایا ہے۔
"خیر الناس من ینفع الناس"
’’تم میں بہترین وہ ہے جس سے دوسرے انسان کو فائدہ پہنچے‘‘
کنزالعمال، ج:8، حدیث نمبر:42154)
خدمت خلق، وقت کی ضرورت بھی ہے۔ اور بہت بڑی عبادت بھی ہے۔ کسی انسان کے دکھ درد کو بانٹنا حصولِ جنت کا ذریعہ ہے۔ کسی زخمی دل پر محبت و شفقت کا مرہم رکھنا اللہ کی خوشنودی کا ذریعہ ہے۔ کسی مقروض کے ساتھ تعاون کرنا اللہ کی رحمتوں اور برکتوں کو حاصل کرنے کا ایک بڑا سبب ہے۔ کسی بیمارکی عیادت کرنا مسلمان کا حق بھی ہے اور سنت رسول بھی ہے۔ کی بھوکے کو کھانا کھلانا عظیم نیکی اور ایمان کی علامت ہے۔
حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور اکرم(ﷺ) نے فرمایا:
’’جو شخص اپنے کسی بھائی کو پیٹ بھر کر کھانا کھلائے اور پانی پلائے گا اللہ تعالیٰ اسے (دوزخ کی) آگ سے سات خندق جتنے فاصلے کی دُوری پر کردے گا اور دو خندق کے درمیان پانچ سو (500)سال کا فاصلہ ہے‘‘
حاکم المستدرک علی الصحیحین، ج:2، حدیث:7172
دوسروں کو نفع پہنچانا اسلام کی روح اور ایمان کا تقاضا ہے۔ ایک اچھے مسلمان کی یہ خوبی ہے کہ وہ ایسے کام کرتا ہے جو دوسرے انسانوں کے لئے فائدہ مند ہوں۔ اس نیکی کے ذریعے صرف لوگوں میں عزت واحترام ہی نہیں پاتا بلکہ اللہ تعالیٰ کے یہاں بھی درجات حاصل کر لیتا ہے۔ پس شفقت و محبت، رحم و کرم، خوش اخلاقی، غمخواری و غمگساری خیرو بھلائی، ہمدردی، عفو و درگزر، حسن سلوک، امداد و اعانت اور خدمت خلق! ایک بہترین انسان کی وہ عظیم صفات ہیں کہ جن کی بدو لت وہ دین و دنیا اور آخرت میں کامیاب اور سرخرو ہو سکتا ہے۔
خدمت خلق کے طریقے⬅
خدمت خلق کسی ایک صورت میں محدود نہیں ہے بلکہ اس کی بے شمار صورتیں ہیں۔ مثلاً
1: پیار و محبت کے ساتھ اچھے اسلوب میں بھلائی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا۔
2: اپنے کارو بار اور زراعت وغیرہ میں کسی دوسرے کو شریک کرنا۔
3: کسی کو اچھا و نیک مشورہ دینا جس سے مشورہ کرنے والے کا بھلا ہو۔
4: کسی بیمار کا علاج کرا دینا۔
5: کسی بھوکے پیاسے کو کھانا کھلا دینا و پانی پلا دینا۔
6: کسی غریب کی مادی و معاشی مدد کردینا۔
7: یتیموں و غریبوں کی شادی کرا دینا۔
8: اسباب فراہم کر دینا ۔
9: کسی حاجت مند کو بنا سود کے قرض دینا۔
10: کوئی سامان کچھ مدت کے لیے ادھار دینا۔
11: کسی کو تعلیم دلا دینا۔
12: ننگے بدن کو لباس فراہم کرنا۔
13: درخت اور پودا لگا دینا۔
14: جس سے انسان و حیوان فائدہ اٹھائیں۔
15: کسی زخمی کی مدد کردینا۔
16: کسی بھولے بھٹکے کو راستہ بتا دینا۔
17: کسی مسافر کی مدد کردینا۔
18: کسی کی جائز سفارش کے ذریعہ کوئی مسئلہ حل کردینا۔
19: کسی کا کام کرنے کےلئے اس کے ساتھ جانا۔
20: کسی کو گاڑی کے ذریعہ اس کے گھر یا منزل مقصود تک پہنچا دینا۔
21: اپنے کام کے ساتھ دوسرے کا بھی کام کر دینا۔ مثلا اپنا سامان خریدنے گئے دوسرے کا سامان بھی لیتے لائے۔
22: کسی مظلوم کا حق دلا دینا۔
23: راستہ سے تکلیف دہ چیز کا ہٹا دینا وغیرہ وغیرہ
غرض کہ خدمت خلق کی بے شمار صورتیں ہیں ۔ یہاں یہ چیز قابل ذکر ہے کہ خدمت خلق صرف مال و دولت کے ذریعہ نہیں ہوتا ہے۔ ہاں جہاں مال و دولت خرچ کرنے کی ضرورت ہو وہاں مال خرچ کرنا ہی افضل ہے۔ اور یہ عمل صرف مالداروں کےلئے خاص نہیں ہے بلکہ ایک غریب آدمی بھی یہ کام کر سکتا ہے۔ جیسا کہ خدمت خلق کے تحت اوپر ذکر کیے گئے۔
خدمت خلق ایک مقدس جذبہ ہے جس کی تحریک کےلئے کسی رہبر کی ضرورت نہیں پڑتی۔
ایک سچا انسان مخلوق کی خدمت کرتے ہوئے تھکتا نہیں ہے۔ بیزار نہیں ہوتا۔
خدمت خلق یہ وہ نیکی ہے جو امن و شانتی اور انس و الفت کے پھول بکھیرتی ہیں اور تسکین قلب کا بہترین عمل بھی یہی ہے کہ ہم اپنی زیادہ تر زندگی خدمت خلق میں گزاریں۔
اللہ رب العزت خدمت خلق کا ترغیب دیتا ہے⬅
ایک حدیث میں بڑے عجیب انداز میں خدمت خلق کا ذکر آیا ہے۔ امام مسلم حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں : نبی اکرم ﷺ نے فرمایا قیامت کے دن اللہ تعالیٰ فرمائے گا :
اے آدم کے بیٹے! میں بیمار ہوا تھا تو تُونے میری عیادت نہیں کی۔
بندہ کہے گا: میرے اللہ! تُو تو رب العالمین ہے میں کیسے تیری عیادت کرتا؟
اللہ فرمائے گا : میرا فلاں بندہ بیمار تھا تو تُو نے اس کی عیادت نہیں کی۔ اگر تُو اس کی مزاج پرسی کرتا تو مجھے اس کے پاس ہی پاتا۔
اے آدم کے بیٹے ! میں نے تجھے کھانے کو دیا تھا لیکن میں بھو کا تھا تُو نے مجھے کھانا نہیں کھلایا ۔
بندہ کہے گا : پروردگار! تُو تو رب العالمین ہے میں تجھے کیسے کھانا کھلاتا ؟
اللہ فرمائے گا : میرا فلاں بندہ بھوکا تھا، تُو نے اس کو کھانا نہیں کھلایا۔ اگر تُو اسے کھا نا کھلاتا تو مجھے اس کے پاس ہی پاتا ۔
اے آدم کے بیٹے ! میں نے تجھے پانی دیا لیکن میں پیاسا تھا، تُو نے مجھے پانی نہیں پلایا ۔
بندہ کہے گا: تُو رب العالمین ہے میں کیسے تجھے پانی پلاتا ؟
اللہ تعالیٰ فرمائے گا : میرا فلاں بندہ پیاسا تھا، اگر تُو اسے پانی پلا تا تو مجھے اس کے پاس پاتا۔
کتنے ہی حسین پیرائے میں خدمت خلق کے کام کی عظمت کا احساس دلا یا گیا ہے تاکہ ہم بھی نیکی کے ان کا موں کی طرف راغب ہوں ۔یتیموں اور بیوائوں،فقراء اور مساکین سے اللہ تعالیٰ کو کس قدر محبت ہے اور کن کن طر یقوں سے اللہ ان کی ضرورتوں کو پورا کرتا ہے۔
جنت کی بشارت⬅
حدیث شریف میں آتا ہے کہ۔۔۔ایک دن مجلس میں نبی رحمت ﷺ نے صحابہ کرام سے سوالات کئے۔
آپﷺ نے پوچھا: آج کس نے جنازے میں شرکت کی؟ّ
سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ نے فرما یا : میں نے۔
آپ ﷺ نے فرمایا: آج کس نے بھوکے کو کھانا کھلا یا ؟ سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں نے ۔
آپﷺ نے پھر سوال کیا: آج کس نے اللہ کی رضا کے لئے روزہ رکھا ؟
سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ نے فرما یا: میں نے ۔
آپﷺ نے ایک بار پھر پوچھا: آج کس نے بیما ر کی عیادت کی؟
سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں نے ۔
نبی ﷺ نے فرمایا جس آدمی میں یہ 4 باتیں جمع ہو جائیں وہ جنتی ہے ۔
خدمت خلق کے فوائد ⬅
خدمت خلق سے اللہ کی رضا اور اس کے قرب کا حقدار بن جاتا ہے کہ اللہ اس شخص کو پسند فرماتا ہے جو انسانوں کے لیئے نفع بخش ہو۔
خدمت کا سب سے اہم ترین فائدہ یہ ہے کہ خادم و مخدوم کے درمیان محبت و الفت کو فروغ حاصل ہو تا ہے. اور باہمی قربت بڑھتی ہے. اس کے باعث انسان برے اخلاق اور اس کے دامن فریب سے نجات حاصل کر سکتاہے. کبر و نخوت ، ظلم و دہشت ، جبر و تشدد ، جیسے خطرناک بیماریوں کا علاج خدمت خلق کے ذریعہ کیا جاسکتا ہے .
خدمت خلق کے لئے محبت و شفقت اور ہمدردی واخلاص کے علاوہ ایثار و قربانی کا جذبہ پیدا ہو تا ہے.
خدمت خلق کا فائدہ یہ ہے کہ ﷲ تعالی غیب سے ان کی مدد فر ما تا ہے *’’ وﷲفی عون العبد ما کان العبد في عون اخیه ‘‘*
"اور اللہ تعالیٰ بندے کی مدد کرتا رہتا ہے جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد کرتا رہتا ہے ‘‘
(صحیح ابن ماجہ للالبانی: ۱۸۴)
خدمت خلق میں مسلم اور غیر مسلم میں فرق نہیں ۔ ہاں مسلمان سے ہمدردی زیادہ ثواب کا باعث ہے۔ لیکن اگر کوئی غیر مسلم بھی ہمدردی اور مدد کا مستحق ہو تو اس کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ سارے اللہ کے مخلوق اور اس کے بندے ہیں۔
حسن سلوک اور انصاف کی عمدہ مثال:
حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس ایک مسلمان کو پکڑ کر لایا گیا جس نے ایک غیر مسلم کو قتل کیا تھا۔ پورا ثبوت موجود تھا۔ اس لیے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے قصاص میں اس مسلمان کو قتل کیے جانے کا حکم دیا۔ قاتل کے ورثاء نے مقتول کے بھائی کو معاوضہ دے کر معاف کرنے پر راضی کر لیا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو جب اس کا علم ہوا تو آپ نے اسے فرمایا :
لعلهم فزعوک او هددوک.
’’شاید ان لوگوں نے تجھے ڈرا دھمکا کر تجھ سے یہ کہلوایا ہو۔‘‘
اس نے کہا نہیں بات دراصل یہ ہے کہ قتل کیے جانے سے میرا بھائی تو واپس آنے سے رہا اور اب یہ مجھے اس کی دیت دے رہے ہیں، جو پسماندگان کے لیے کسی حد تک کفایت کرے گی۔ اس لیے خود اپنی مرضی سے بغیر کسی دباؤ کے میں معافی دے رہا ہوں۔
اس پر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا اچھا تمہاری مرضی۔ تم زیادہ بہتر سمجھتے ہو۔ لیکن بہرحال ہماری حکومت کا اُصول یہی ہے کہ:
من کان له ذمتنا فدمه، کدمنا، و ديته، کديتنا.
’’جو ہماری غیر مسلم رعایا میں سے ہے اس کا خون اور ہمارا خون برابر ہے اور اس کی دیت ہماری دیت ہی کی طرح ہے‘‘
1: دار قطني، السنن، 3 : 134
2: عسقلاني، 2 : 262، رقم : 1009
3: بيهقي، السنن الکبريٰ، 8 : 30 تا 34
4: ابويوسف، کتاب الخراج : 187
5: شافعي، المسند : 344
4: شيباني، الحجه، 4 : 355
6: عسقلاني، الدرايه، 2 : 263
اللہ اکبر ! قربان جائیں مولیٰ علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی اس حسن سلوک اور کردار پر۔ ہمیں اس بات کو مشعلِ راہ بنانے کی بے حد ضرورت ہے۔
یہ مثالیں اس بات پر شاہد ناطق ہیں کہ اسلام کی تعلیمات ہر پہلو پر مسلم و غیر مسلم فرق کے بغیر رہنمائی کرتی ہیں تاکہ معاشرے میں امن سکون قائم رہے۔لوگ باہم ہمدرد ، معاون بن سکیں کیونکہ اسی وقت معاشرہ ترقی کی راہ پر گامزن ہوسکے گا اور سماج کی جملہ برائیاں، بدعنوانیوں کا قلعہ قمع ہوگا۔
حرف آخر⬅
اس افرا تفری اور بھاگ دوڑ سے بھرے معاشرے میں محض یوں معلوم ہوتا ہے کہ جیسے دنیا میں صرف مفاد پرست اور خود غرض انسان ہی ہیں۔ عموماً لوگ یہی خیال کرتے ہیں ، حالانکہ ایسا نہیں ہے بلکہ آج بھی اپنی غرض سے بالاتر ہو کر انسانیت کے لیے کام کرنے والے بہت سے مخلص انسان دنیا میں موجود ہیں، ایسے لوگ اگرچہ کم ہیں، لیکن ہیں ضرور۔
آئیے ہم آج سے یہ عہد کرتے ہیں کہ اپنی استطاعت کے مطابق جہاں ضرورت پڑے اور موقع ملے تو ضرور دوسروں کی مدد کریں گے۔ اور الله کی رضا اور اس کی قرب کے حقدار بنیں گے۔
..............
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں