میر تقی میر کی منقبت نگاری
از : محمد طفیل احمد مصباحی
منقبت نگاری کا تاریخی پس منظر :
صوفیۂ کرام کی آغوشِ شفقت میں نشو و نما پانے والی اردو زبان آج ایک پودے سے تناور درخت کی شکل اختیار کر چکی ہے اور اپنے برگ و بار سے شعر و ادب کے دامن کو مالا مال کر رہی ہے ۔ تاریخی شواہد کے پیشِ نظر یہ بات با وثوق کہی جا سکتی ہے کہ صوفیائے کرام و مشائخِ عظام کی مساعیِ جمیلہ کے سبب اردو نظم و نثر کے ذخیروں میں گراں قدر اضافہ ہوا ۔ ان کی ادبی و لسانی خدمات سے انکار کرنا ، تاریخ و صداقت کے شفّاف چہرے پر سیاہی پوتنے کے مترادف ہے ۔ ان نفوسِ قدسیہ نے دعوت و تبلیغ کے لیے سب سے پہلے اس زبان کو اپنایا اور اپنی تحریر و تقریر کے ذریعے اس کے فروغ و استحکام کے راستے ہموار کیے ۔ اردو کی توتلی زبان پر دینیات و اسلامیات کے ترانے اوّلاً انھیں پاکباز ہستیوں نے چھیڑے ۔
" شعر الہند " کی صراحت کے مطابق : اردو شاعری کا آغاز مذہبی شاعری سے ہوا اور ایک زمانے تک مذہبی افکار و خیالات اردو شاعری کے جزوِ لاینفک بنے رہے ۔ اسی دوران تقدیسی شاعری ( حمد و مناجات ، نعت ، منقبت ) کی بنیاد پڑی ۔ دکن ، دہلی ، لاہور ، پنجاب ، لکھنؤ ، عظیم آباد ( پٹنہ ) ، مرشد آباد وغیرہ جو اردو کے قدیم ادبی مراکز ہیں ، ان میں تقدیسی شاعری ابتدائی مرحلے میں پروان چڑھتی رہی ۔ یہی وجہ ہے کہ اردو ادب کی تاریخ کے دورِ اوّل و دورِ دوم میں ہمیں ایسے بہت سارے قدیم شعراء کے نام ملتے ہیں ، جنہوں نے اچھی خاصی تعداد میں منقبتیں لکھی ہیں ۔ محقّقینِ ادب نے اردو شاعری کے درجِ ذیل ادوار متعین کیے ہیں : دورِ اوّل و دورِ دوم ۔ دورِ اوّل و دورِ دوم ، شعرائے متقدمین کے دور مانے جاتے ہیں ، جن میں ملاّ نصرتی ، ولی دکنی ، سراج اورنگ آبادی اور قلی قطب شاہ وغیرہ کے نام خصوصیت کے ساتھ قابلِ ذکر ہیں ۔ دورِ سوم میں شاہ مبارک آبرو ، شیخ شرف الدین ، میر شاکر ناجی ، محمد حسین کلیم اور شاہ ظہور الدین حاتم وغیرہ کے نام آتے ہیں ۔ ملا نصرتی ، ولی دکنی ، سراج اورنگ آبادی اور میر شاکر ناجی اردو کے وہ سابقین اوّلین شعراء ہیں ، جن کے کلیات و دواوین میں حمد و نعت اور منقبت کے اشعار ( رسماً اور ضمناً ہی سہی ) موجود ہیں ۔
دورِ سوم کے بعد شعرائے متوسطین کا دور آتا ہے ، جن میں مرزا مظہر جانِ جاناں ، مرزا محمد رفیع سودا ، خواجہ میر درد اور میر تقی میر کا شمار قد آور شعراء میں ہوتا ہے ۔ یاد رہے کہ یہ شعرائے متوسطین کا دورِ اول ہے ۔ متوسطین شعراء کے دورِ دوم میں غلام ہمدانی مصحفی ، غلام علی راسخ ، میر غلام حسن ، انشاء اللہ خان انشا وغیرہ ہیں ۔ شعرائے متوسطین کا ایک سنہرا دور اور بھی ہے ، جسے اردو شاعری کا دورِ سوم ہی نہیں بلکہ اردو شاعری کا عہدِ زرّیں کہا جاتا ہے ۔ یہ مبارک دور اردو شاعری کے عروج و ارتقا کا دور ہے ، جس میں شاہ نصیر الدین نصیر ، شیخ ابراہیم ذوق دہلوی ، مرزا اسدا اللہ خاں غالب دہلوی ، حکیم مومن خان مومن ، بہادر شاہ ظفر ، نواب مصطفیٰ خاں شیفتہ اور کرامت علی شہیدی جیسے کج کلاہانِ فن و اصحابِ شعر و سخن اپنے اعلیٰ فکر و تخیّل سے گلشنِ ادب کو لالہ زار بنائے ہوئے تھے۔
ان تمہیدی کلمات کے بعد عرض ہے کہ اردو شاعری کے مذکورہ تینوں ادوار میں تقریباً پچاس شعراء ایسے ہیں جن کے دواوین و کلیات میں منقبت کے اشعار کثرت سے پائے جاتے ہیں ۔ نصیر الدین ہاشمی کی کتاب " دکن میں اردو " میں تقریباً دو درجن ایسے دکنی شعراء کے تذکرے موجود ہیں ، جنہوں نے منقبت کے کچھ نہ کچھ اشعار ضرور کہے ہیں ۔ اردو ادب کے ان تاریخی ادوار میں سے دورِ اوّل و دورِ سوم کے طبقۂ سوم سے تعلق رکھنے والے بعض شعراء ایسے بھی ہیں ، جنہوں نے اتنی زیادہ تعداد میں منقبتیں لکھی ہیں کہ اگر انہیں " منقبت نگار شعراء " کہا جائے تو مبالغہ نہ ہوگا ۔ تفصیلات سے گریز کرتے ہوئے سرِ دست ہم چند مثالوں پر اکتفا کرتے ہیں ، تا کہ اندازہ ہو سکے کہ اردو زبان میں شروع سے ہی " منقبت نگاری " کی ایک صحت مند اور توانا روایت موجود رہی ہے ۔ پہلے اردو کے ان مشہور و معروف اور جلیل القدر شعراء کے ناموں کی فہرست ملاحظہ کریں ، جن کے کلام میں مناقب کی ایک کثیر اور معتد بہ تعداد موجود ہے :
( ١ ) محمد قلی قطب شاہ ( ٢ ) ولی دکنی ( ٣ ) شیخ ظہور الدین حاتم ( ٤ ) ملک خوشنود دکنی ( ٥ ) ملا غواصی ( ٦ ) میر تقی میر ( ٧ ) مرزا محمد رفیع سودا ( ٨ ) مرزا غالب دہلوی ( ٩ ) حکیم مومن خان مومن ( ١٠ ) بہادر شاہ ظفر ( ١١ ) علامہ اقبال ( ١٢ ) نظیر اکبرآبادی ( ١٣ ) میر انیس لکھنوی ( ١٤ ) مرزا دبیر لکھنوی ( ١٥ ) شاد عظیم آبادی ( ١٥ ) مرزا کلب حسین نادر ( ١٦ ) شاہ نصیر الدین نصیر لاہوری ( ١٧ ) بیدم شاہ وارثی
اردو کے یہ وہ مایۂ ناز شعراء ہیں جن کی شاعری و قادر الکلامی پر آج دنیائے شعر سخن کو بجا طور پر ناز ہے ۔ ان عظیم المرتبت شعراء نے دیگر اصنافِ سخن میں اپنا ادبی و فنی جمال دکھانے کے ساتھ " منقبت نگاری " میں اپنے فکر و تخیّل کے وہ گُل بوٹے کھِلائے ہیں کہ حیرت ہوتی ہے ۔ لیکن افسوس کا مقام ہے کہ ہمارے ناقدینِ ادب نے ان اکابر شعراء کا تعارف کبھی " منقبت نگار " کی حیثیت سے نہیں کرایا ۔ اگر ان کا تعارف ہوا بھی تو صرف غزل یا قصیدہ گو کی حیثیت سے ۔ ان کی منقبت نگاری پر خامہ فرسائی نہیں کی گئی ۔ حالاں کہ منقبت ، قصیدہ کا ایک بیحد مقبول اور اہم ترین جزو ہے ۔ اردو شاعری میں قصیدہ سے کئی گنا زیادہ منقبت کی تعداد موجود ہے ۔ " مجموہائے قصائد " کو ہم انگلیوں پر گِن سکتے ہیں ، جب کہ " مجموعہ ہائے مناقب " بیشمار ہیں ۔ اس وقت غزل اور نعت کے بعد سب سے زیادہ اگر کسی صنفِ سخن میں طبع آزمائی ہو رہی ہے تو وہ صرف اور صرف " منقبت " ہے ۔
قلی قطب شاہ دکنی ، اردو منقبت نگاری کے بنیاد گزاروں میں سے ہیں ۔ ان کے " کلّیات " میں شیرِ خدا حضرتِ مولیٰ علی و حضرت بی بی فاطمہ رضی اللہ عنھما کے علاوہ دیگر ائمہ اہلِ بیت کی شان میں اتنی کثیر تعداد میں منقبتی کلام موجود ہے کہ اس کا ایک مستقل مجموعہ الگ سے تیار ہو سکتا ہے ۔ " کلیاتِ قلی قطب شاہ " کا مطالعہ کر کے راقم کے دعویٰ کی صداقت ملاحظہ کی جاسکتی ہے ۔ قلی قطب شاہ کے بعد میر تقی میر اور مرزا محمد رفیع سودا نے منقبت نگاری کے فن کو پروان چڑھایا ۔ دونوں ہم عصر تھے اور آپس میں معاصرانہ چشمک برابر جاری رہتی تھی ۔ سودا کو " قصیدہ گوئی " کا امام مانا جاتا ہے ۔ " کلّیاتِ سودا جلد اول " اس وقت راقم کے پیش نظر ہے ، جس کے صفحہ : ٢٤ تا ٦٤ یعنی کُل چالیس صفحات پر حضرت مولیٰ علی ، حضرت امام حسین ، حضرت امام موسیٰ کاظم ، حضرت امام حسن عسکری وحضرت امام مہدی رضی اللہ عنھم کی شان میں منقبتیں درج ہیں ۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق " کلیاتِ سودا " میں منقبت کے مجموعی اشعار کی تعداد ایک ہزار کے قریب ہے ۔ قلی قطب شاہ اور مرزا سودا کے بعد منقبت گوئی کی صنف کو عروج و کمال بخشنے میں میر تقی میر نے اہم کردار ادا کیا ہے ۔ جن کا تذکرہ زیرِ نظر مضمون میں تفصیل سے کیا جائے گا ۔ ان تینوں اساطینِ شعر وسخن کے بعد منقبت نگاری کے حوالے سے خصوصیت کے ساتھ مرزا اسد اللہ خان غالب کا نام لیا جاتا ہے ۔ چچا غالب جن کا ایک ایک لفظ آج ادب کا بیش قیمت سرمایہ سمجھا جاتا ہے ، انہوں نے اس مقدس صنف ( منقبت نگاری ) کو زمین کی پستیوں سے اٹھا کر آسمان کی بلندیوں تک پہنچا دیا ہے ۔ غالب نے اتنی کثیر تعداد میں منقبتیں لکھی ہیں کہ کمیّت و کیفیت کے لحاظ سے وہ قلی قطب شاہ ، سودا اور میر سے بھی آگے نکل گئے ہیں ۔ ان کی ہمہ گیر شاعری کا ایک روشن پہلو " منقبت نگاری " بھی ہے ، جسے کسی بھی صورت فراموش نہیں کیا جا سکتا ۔ غالب اتنے بڑے منقبت نگار شاعر تھے کہ عصرِ حاضر کے ممتاز محقق و ناقد ڈاکٹر سید تقی عابدی ( کنیڈا ) نے اس موضوع پر تقریبا چار سو صفحات پر مشتمل ایک کتاب ہی " غالب : شاعرِ نعت و منقبت " کے نام سے لکھ ڈالی ہے ۔ اس کتاب کی روشنی میں غالب کی اردو و فارسی منقبتوں کی مجموعی تعداد دو ہزار آٹھ سو اٹھاسی ( ٢٨٨٨ ) ہے ۔ اسی طرح حکیم مومن خان مومن دہلوی ، بہادر شاہ ظفر اور علامہ اقبال نے بھی متعدد منقبتیں لکھی ہیں ۔
میر تقی میر کے احوالِ زندگی : -
میر تقی میر کے آباء و اجداد حجاز کے رہنے والے تھے ۔ ان کے پردادا اپنے قبیلے کے افراد کے ساتھ وہاں سے ہندوستان آئے اور دکن میں سکونت پذیر ہوئے ۔ کچھ دنوں کے بعد نامساعد حالات کی وجہ سے احمد آباد ، گجرات میں مقیم ہوگئے ۔ اس کے بعد اکبر آباد میں مستقل سکونت اختیار کر لی ۔ آگرہ میں ١١٣٧ھ / ١٧٢٣ء میں میر تقی میر کی ولادت ہوئی ۔ والد کا نام محمد علی تھا ، لیکن علی متقی کے نام سے مشہور تھے ۔ ان کے دادا اکبر آباد میں فوج دار تھے ۔ میر نے ابتدائی تعلیم و تربیت اپنے والد اور ان کے دوست سید امان للہ سے حاصل کی ۔ والد کے انتقال کے بعد ان کی زندگی بڑی عسرت اور تنگ حالی میں گذری ۔ انقلابِ ایام اور حوادثِ روزگار نے میر کی زندگی تباہ کر کے رکھ دی ، جس کا اثر ان کے فکر و فن میں بھی دیکھنے کو ملتا ہے ۔ ان کے سوتیلے بھائی محمد حسن نے ان کے ساتھ اچھا سلوک نہ کیا ۔ تلاشِ معاش اور اس ناروا سلوک سے دل برداشتہ ہو کر دہلی چلے گئے اور ایک نواب کے ہاں ملازم ہو گئے ۔ مگر جب نواب موصوف ایک جنگ میں مارے گئے تو میر آگرہ لوٹ آئے ۔ جب زندگی گزر بسر کی کوئی صورت نہیں آئی تو دوبارہ دہلی روانہ ہوئے اور سراج الدین آرزو کے ہاں قیام پزیر ہوئے ۔ سوتیلے بھائی کے اکسانے پر خان آرزو نے بھی انہیں پریشان کرنا شروع کر دیا۔ غمِ دوراں اور غمِ جاناں کے ملے جلے جذبات نے ان کی طبیعت میں آہ و فغاں ، درد و کرب ، سوز و گداز ، کبیدگی و شکستگی اور جنوں کی کیفیت پیدا کردی ۔ میر کا زمانہ انقلاب و شورش کا زمانہ ۔ ہر طرف طوائف الملوکی اور افراتفری کا ماحول برپا تھا ۔ کافی مشکلات برداشت کرنے کے بعد امن و امان کی تلاش میں میر لکھنؤ روانہ ہو گئے ۔ وہاں ان کی شاعری کی دھوم مچ گئی اور اسی باعث ان کی بڑی عزت اور پزیرائی ہوئی ۔ نواب آصف الدولہ نے تین سو روپے ماہانہ وظیفہ مقرر کر دیا ۔ اور میر آرام و سکون کے ساتھ زندگی بسر کرنے لگے ۔ لیکن اپنی فطری خود داری اور تند مزاجی کی وجہ سے کسی بات پر ناراض ہو کر دربار سے الگ ہو گئے ۔ آخری تین سالوں میں جوان بیٹی اور بیوی کے انتقال نے انہیں بے پناہ صدمات سے دوچار کر دیا اور آخر کار اقلیمِ سخن کا یہ حرماں نصیب شہنشاہ تقریباً نوّے سال کی عمر میں ١٨١٠ء میں ہمیشہ کے لیے اس دنیا سے رخصت ہو گیا ۔ لکھنؤ ریلوے اسٹیشن کے قریب ایک قبرستان میں مدفون ہوئے ۔
ڈاکٹر عبد الباری آسی " مقدّمۂ کلیاتِ میر " میں لکھتے ہیں :
اس بات میں کوئی شک و شبہ کی گنجائش نہیں کہ میر فطری شاعر پیدا ہوئے تھے ۔ ان کے دل میں ذوقِ شعر ازلی تھا ۔ ان کے متعلق کئی بزرگوں کی پیشین گوئیاں تھیں کہ وہ آگے چل کر باکمال شاعر ہوں گے ............ایک باخدا ( سید امان اللہ صاحب ) کی تعلیم و تربیت اور مختلف درویشوں کے فیضِ صحبت نے ان کی طبیعت میں سوز و گداز بھر دیا تھا ۔ اس کی تحریک کی ضرورت تھی کہ جس کے لیے غیب سے یہ سامان ہوا کہ میر صاحب کی ملاقات سید سعادت علی امروہوی نامی ایک شخص سے ہوئی ۔ انہوں شعرِ ریختہ ( اردو ) کہنے کی ترغیب دی ۔ میر صاحب مشقِ سخن کرنے لگے اور کچھ ہی دنوں میں وہ ترقی کی کہ شعرائے دہلی ان کو نہ صرف خوش گو بلکہ مستند شاعر ماننے لگے ۔
( مقدّمہ کلیاتِ میر ، ص : ٢٠ ، مطبوعہ منشی نول کشور ، لکھنؤ )
سیرت و کردار : -
میر تقی میر کو صوفیانہ افکار و خیالات وراثت میں ملے تھے ۔ ان کے والد جناب محمد علی ایک درویش صفت اور گوشہ نشیں انسان تھے ۔ میر نے بھی شروع سے یہی طرزِ زندگی اپنائی تھی ۔ خود داری ، پاکیزہ نفسی سادہ لوحی اور شگفتہ مزاجی ، ان کی باکمال شخصیت کے نہایت پر کشش اور دل آویز پہلو ہیں ۔ میر تقی کا خاندان نسلاً ایک اعلیٰ عرب خاندان تھا ۔ عربی ہونے کے ناطے ان میں عربوں جیسی شاہانہ طمطراق پائی جاتی تھی ۔ غیض و غصہ ، جوش ، ولولہ ، غیرت و حمیت ، شرافت ، ثابت قدمی ، قوتِ برداشت ، عفو و درگزر ، ایثار و قربانی ، سخاوت و فیاضی جیسی خصوصیات ان میں موجود تھیں ۔ طبیعت میں خود داری کوٹ کوٹ کر بھری تھی ۔ یہی وجہ تھی کہ اپنے مزاج کے خلاف کوئی بات برداشت نہیں کرتے تھے ۔ نواب آصف الدولہ کے دربار سے علاحدگی کی وجہ ان کی طبیعت کی یہی خود داری بتائی جاتی ہے ۔ اللہ والوں اور درویشوں کی صحبت میں رہنے کے سبب مزاج میں صوفیانہ رنگ غالب تھا ۔ نہایت خلیق ، ملنسار ، باغیرت ، صابر و شاکر اور متوکل تھے ۔
سیرت و سوانح کی مستند کتاب " نوادر الکملاء " میں ان کی زندگی کے جو خد و خال بیان کیے گئے ہیں ، ان سے ان کی باکمال شخصیت اور اعلیٰ سیرت و کردار کا بھرپور اندازہ ہوتا ہے ۔ نوادر الکملاء کی عبارت ملاحظہ کریں :
مرحوم میر مردے بود متوکل ، سپاہی پیشہ ، رقیق القلب ، پاپندِ وضع ، جہاں دیدہ ، سرد و گرمِ زمانہ چشیدہ ، سر آمدِ سخنورانِ ماضی و حال ۔ در سخن سنجی بے مثال ، کم اختلاط و بادوستاں سراپا ارتباط ، سنجیدہ از حرص و ہوائے دنیا آزاد ، کسے را نیازردے ۔
( مقدّمۂ کلیاتِ میر ، ص : ٣٥ )
شاعرانہ کمال : -
" ریختہ " کے تمہیں استاد نہیں ہو غالبؔ
کہتے ہیں اگلے زمانے میں کوئی میرؔ بھی تھا
یہ ہے ایک عظیم شاعر کی زبانی ایک عظیم شاعر کا اجمالی تعارف !!! غالب ، ناسخ اور ذوق جیسے نابغۂ عصر جو اپنے آگے کسی کو خاطر میں نہیں لاتے تھے ، وہ بھی میر تقی میر کے فضل و کمال کے معترف و مدّاح نظر آتے ہیں ۔ میر واقعی اپنے دور کے مسلّم الثبوت شاعر ، باکمال غزل گو اور نادرِ روزگار شخص تھے ۔ قدرت کی فیّاضیوں سے وافر حصّہ پایا تھا ۔ صلاحیت و لیاقت ، ذہانت و طبّاعی ، وفورِ عقل و شعور اور بصیرت و دانائی وغیرہ میں اپنی مثال آپ تھے ۔ ان کی تہہ دار فکر و شخصیت کی تہوں میں ایک عبقری انسان پوشیدہ تھا ۔ ان کی بعض خصوصیات ایسی ہیں ، جو بعد کے شعراء میں نظر نہیں آتیں ۔ بڑے بڑے کج کلاہوں نے ان کی شاعرانہ عظمت اور ان کے بلند پایہ فکر و فن کا اعتراف کیا ہے ۔ میر تقی خود بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ خواجہ میر درد نے ان سے فرمایا : " میر ! تو میرِ مجلس خواہی شد " . اور حقیقت یہ ہے کہ میر درد کی وہ پیشین گوئی حرف بہ حرف ثابت ہوئی ۔ میر کاروانِ شعر و ادب میں ایک رہرو کی حیثیت سے شامل ہوئے ، لیکن بہت جلد وہ " میرِ کارواں " بن گئے ۔ ان کے زمانے میں ہی ان کی شاعری کو جو شہرت و مقبولیت حاصل ہوئی ، وہ کسی دوسرے شاعر کو نصیب نہ ہوسکی اور اس وقت سے لے کر آج تک ان کے مقام و مرتبہ میں برابر اضافہ ہی ہوتا رہا ہے ۔
( تذکرۂ میر ، ص : ٢٩ ، مکتبہ دین و ادب ، لکھنؤ )
نواب مصطفیٰ خاں شیفتہ " تذکرۂ گلشنِ بے خار " میں میر کی قرار واقعی حیثیت پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں :
میر ، تخلّص ، افصحِ فصحا ، اشعرِ شعرا ، سخن ورِ عالی مقام ، محمد تقی نام ، خواہر زادۂ سراج الدین علی خان آرزو است ۔ لطافت با طبعش ہم زاد است و با کلامش حرفِ غیر زمزمۂ بلبل و فغان ۔۔۔۔۔۔۔ و طوطیِ ناطقۂ شکر بارش رونقِ بازارِ عنادل شکستہ و صفیرِ خامۂ گلستانِ نگارش نالہ بر لبِ مرغِ بستانی بستہ ۔ صفحۂ خیالش بہ جلوہ ریزیِ لالہ عذارانِ افکار دل آویز چوں اندیشۂ عاشق قطعۂ گلزار است ........... نظمش اگر سحر است ، سحر حلال است وفکرش اگر قوتِ مکتسبی است ، از چہ اعجاز مثال ۔ با فنونِ نظمیہ ربطِ تمام دارد ۔ لا سیّما در غزل سرائی و مثنوی گوئی ، گوئے سبقت می رباید ۔
( تذکرۂ گلشنِ بے خار ، ص : ٥٧٠ - ٥٧١ ، مطبوعہ : مجلسِ ترقی ادب ، لاہور )
مذکورہ بالا فارسی اقتباس کا مفہوم کچھ یوں ہے کہ : میر افصح الفصحاء ، اشعر الشعراء ، بلند مقام سخنور ، اکبر آباد کے باشندہ اور سراج الدین علی خان آرزو کے بھانجے تھے ۔ ان کے مزاج میں لطافت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی ۔ ان کا کلام بلبل کی نغمہ سنجی اور خوش الحان مرغانِ چمن کا نالہ و فریاد ہے ۔ اس کا نطق ، شکر کی بارش کرتا ہے ۔ اس کی صدائے آہ و فغاں سے سخن کا بازار گرم ہوتا ہے ۔ اس کا قلم گویا قرطاس پر چمن سجاتا ہے ۔ اس کا سخن گویا مقید پرندوں کی فریاد ہے ۔ اس کے خیال کے میدان میں دل خوش کرنے والے افکار کے معشوق بے دریغ اپنے جلوے بکھیرتے ہیں ............... اس کی نظم سحرِ حلال کا گویا نمونہ ہے ۔ اس کی فکر حدِ اعجاز کو چھونے والی فکر ہے ۔ شعر و سخن سے کامل ارتباط و انہماک تھا ۔ خصوصیت کے ساتھ غزل اور مثنوی گوئی میں ہم عصروں پر گوئے سبقت لے گئے ۔
میر تقی میر کو شعر و سخن اور بالخصوص غزل گوئی میں کامل رسوخ حاصل ہونے کے سبب اربابِ علم و ادب نے " خدائے سخن " کے لقب سے نوازا ہے ۔ وہ شاعری کے جملہ انواع و اقسام میں مہارتِ تامّہ رکھتے تھے ۔ غزل ، مثنوی ، قصیدہ ، منقبت ، مسدّس ، مخمّس ، رباعی ، واسوخت ، ہفت بند اور قطعات وغیرہ میں انہوں نے طبع آزمائی کر کے اپنی استادانہ مہارت کا ثبوت دیا ہے ۔ صداقت و خلوص ، سادگی و پرکاری ، صفائی و برجستگی ، سوز و گداز ، درد ، تاثیر اور جذبات کی شدّت ، ان کی شاعری کے نمایاں اوصاف ہیں ۔
بابائے اردو مولوی عبد الحق لکھتے ہیں :
میر صاحب کی شاعری اپنی بعض خصوصیتوں کی وجہ سے اردو زبان میں نہ صرف ممتاز حیثیت رکھتی ہے ، بلکہ اپنی نظیر نہیں رکھتی ۔ الفاظ کا صحیح استعمال اور ان کی خاص ترتیب و ترکیب زبان میں موسیقی پیدا کر دیتی ہے ۔ اس کے ساتھ اگر سادگی اور پیرایۂ بیان بھی عمدہ ہو تو شعر کا رتبہ بہت بلند ہو جاتا ہے ۔ میر صاحب کے کلام میں یہ سب خوبیاں موجود ہیں اور اس کے ساتھ ہی ان کا کلام ایسا درد بھرا ہے کہ اس کے پڑھنے سے دل پر چوٹ سی لگتی ہے ، جو لطف سے خالی نہیں ہوتی ۔ ان کی زبان کی فصاحت اور سادگی ، سوز و گداز ، مضامین کی جدّت اور تاثیر ، یہ ایسی خوبیاں ہیں جو اردو کے کسی دوسرے شاعر میں نہیں پائی جاتیں ۔ ان کی شاعری عاشقانہ ہے ، لیکن کہیں کہیں وہ اخلاقی اور حکیمانہ مضامین کو اپنے رنگ میں ایسی سادگی ، صفائی اور خوبی سے ادا کر جاتے ہیں کہ جس پر ہزار بلند پروازیاں اور نازک خیالیاں قربان ہیں ۔ یہ خاص انداز صرف میر صاحب کا ہے ۔ مگر ان کا کلام حسرت و ناکامی ، حرمان و مایوسی سے بھرا ہوا ہے ....................
وہ قلبی واردات اور کیفیات کو نہایت سادہ ، شستہ اور صاف زبان میں ایسے دلکش اسلوب سے بیان کرتے ہیں کہ جو بات وہ کہنا چاہتے ہیں وہ دل میں اتر جاتی ہے ۔ غرض یہ کہ ان کا کلام بہ لحاظِ فصاحت و روانی " سہلِ ممتنع " ہے ................ میری رائے میں کسی شاعر کے کلام کی خوبی کا ایک بڑا معیار اس کے کلام کی تاثیر ہے اور اگر اس معیار پر میر صاحب کے کلام کو جانچا جائے تو اس کا رتبہ اردو شعراء میں سب سے اعلیٰ پایا جاتا ہے ۔ ان کے اشعار سوز و گداز اور درد کی تصویریں ہیں جو زبان سے نکلتے ہی دل میں جا کر بیٹھ جاتے ہیں ۔
( مقدّمہ انتخاب کلام میر ، ص : ٧ - ٩ ، دائرۃ الافادہ ، حیدر آباد )
میر تقی میر کی منقبت نگاری : -
میر تقی میر صوفیانہ مسلک و مشرب کے حامل ایک مذہبی انسان تھے ۔ ان کے سینے میں ایک دھڑکتا ہوا دل تھا اور دل میں اللہ و رسول کی محبت جاں گزیں تھی ۔ صحابۂ کرام ، اہلِ بیتِ عظام ، بزرگانِ دین و اولیائے کاملین سے انہیں بے پناہ عقیدت و الفت تھی ۔ خصوصیت کے ساتھ دامادِ پیغمبر ، فاتحِ خیبر حضرت علی مشکل کشا رضی اللہ عنہ کے وہ سچے عاشق تھے ۔ میر نے جس والہانہ انداز سے مولیٰ علی کی شان میں منقبت تحریر کی ہے ، وہ ان کی غایتِ عقیدت اور جذبِ صادق کا واضح ثبوت ہے ۔بعض تذکرہ نگاروں نے میر کو شیعہ مذہب کا پیروکار بتایا ہے ۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ نہ غالی شیعہ تھے اور نہ کٹّر سنی ، بلکہ وسیع المشرب ، صلح کل اور اولیائے کرام کے عقیدت مند تھے ۔ ہاں ! ان کی منقبت کے بعض اشعار ایمان سوز اور " شیعیت " کے ترجمان کی حیثیت رکھتے ہیں ، جن میں حد درجہ مبالغہ ، بلکہ غلو اور اغراق کا رنگ نمایاں ہے ۔ ان کے والد محمد علی ، شیخ کلیم اللہ اکبر آبادی کے مرید تھے ۔ خود میر شروع سے اللہ والوں کی صحبت و رفاقت میں روز و شب گذارا کرتے اور ان کے آستانوں پر حاضری کو باعثِ سعادت سمجھتے تھے ۔ تصوّف ان کی خمیر میں شامل تھا ۔
پروفیسر خواجہ احمد فاروقی لکھتے ہیں :
حقیقت یہ ہے کہ میر وسیع المشرب ، صلحِ کل اور فقیر دوست تھے ۔ ان کو ابتدا سے آخر تک جب وہ اجمیر ( خواجہ معین الدین چشتی اجمیری علیہ الرحمہ کے مزار کی ) کی زیارت سے مشرف ہوئے ہیں ، اولیائے کرام سے عقیدت رہی ہے ۔ ان کی شیعیت اور صوفیت میں تضاد نہیں ، لطیف ہم آہنگی ہے ۔ یہ ربط ان کی ابتدائی تربیت اور فطری درد مندی نے پیدا کی ہے ، جس کی وجہ سے ان کا کوئی فطرہ عقیدہ تنگ دائرے میں محدود نہ ہو سکا ۔
( میر تقی میر : حیات اور شاعری ، ص : ٧١ ، انجمن ترقی اردو ہند ، دہلی )
بہر کیف ! میر کا عقیدہ جو بھی ہو ، اہلِ بیت اطہار سے کمالِ عشق و عقیدت ، اکابر پرستی ، اولیائے کرام سے نیازمندی اور ان کی منقبت نگاری سے انکار نہیں کیا جا سکتا ۔ منقبت نگاری جو اولیائے کرام و بزگان دین کی تعریف و توصیف سے عبارت ہے ، عشقِ حقیقی کے بغیر وجود میں نہیں آ سکتی ۔ اللہ عز و جل ، نبی کریم صلی اللہ علیہ اور اولیائے کرام سے جتنی زیادہ عقیدت و محبت ہوتی ہے ، منقبت نگاری کا جذبہ اسی قدر پروان چڑھتا ہے ۔ شروع میں منقبت نگاری صرف خاندانِ نبوت کے افراد یعنی اہلِ بیت و ائمّۂ اہل بیت اور بالخصوص حضرت مولیٰ علی رضی اللہ عنہ کی مدح و ستائش تک محدود تھی ، لیکن بعد میں اس کے مفہوم میں وسعت پیدا ہوگئی اور اہلِ بیتِ اطہار کے علاوہ جملہ اولیائے کاملین و مشائخِ عظام کی تعریف و ثنا کو " منقبت " کہا جانے لگا ۔ میر نے جہاں غزل میں دنیاوی عشق کے راگ الاپے ہیں ، وہیں نعت و منقبت کی شکل میں عشقِ حقیقی کے سرمدی نغمات گنگنائے ہیں ۔ چنانچہ ایک جگہ خود کہتے ہیں کہ منقبت خوانی کے علاوہ میرے اندر اور کوئی گُن یا خوبی نہیں ہے ۔
منقبت خوانی سے میری سب ہیں سُن
اس سوا مجھ میں نہیں ہے کوئی گُن
ساتھ سر کے ہے " علی گوئی " کی دُھن
مدّعی اس کان یا اس کان سُن
حیدری ہوں ، حیدری ہوں ، حیدری
ڈاکٹر عبد الباری آسی کے بقول :
میر صاحب نے مخمس و مسدس اور ترکیب بند کی صنف کو اپنے مذہبی معتقدات کے اظہار کے لیے استعمال کیا ہے ۔ چنانچہ ایک ہفت بند ، ایک ترجیع بند ، دس مخمس اور تین مسدس میں صرف منقبت کہی ہے اور ایک مسدس میں نعت پاک لکھی ہے ۔
( مقدمہ کلیاتِ میر ، ص : ٣٨ )
میر کا اصل میدان غزل گوئی و مثنوی نگاری ہے ۔ اقلیمِ غزل کے وہ اولوا العزم شہنشاہ تھے ، جس کی قلمرو میں غزل کے سارے ممکنہ اجزاء اور تابناک پہلو افواج کی مانند صف باندھے کھڑے نظر آتے ہیں ۔ غزلیں تو غالب ، مومن ، ذوق ، جگر ، اصغر ، ساحر اور فیض وغیرہ نے بھی کہیں ، لیکن میر سا اندازِ بیان ، انفرادی اسلوب اور شاہانہ طمطراق کسی کو میسر نہ ہوسکی ۔ صنفِ قصیدہ میں بھی انہیں کمال حاصل تھا ، لیکن سودا و مومن اس معاملے میں ان سے آگے ہیں ۔ قصیدہ کے معنوی ابعاد میں نعت و منقبت بھی شامل و داخل ہیں ۔ قلی قطب شاہ اور سودا کی طرح میر نے بھی منقبت نگاری میں اپنے نادر افکار و خیالات کے اعلیٰ نمونے پیش کیے ہیں ، جس میں معانی کی تہہ داری ، جوش و ولولہ ، جذبات کا والہانہ پن ، ربودگی و شیفتگی ، لسانی بانکپن اور فکر و فن کی چاشنی موجود ہے ۔ " کلیاتِ میر " میں میر نے نعت و منقبت کا ایک مستقل باب ہی باندھا ہے اور مسدّس کی شکل میں ایک نعتیہ کلام پیش کرنے کے بعد امیر المومنین ، دامادِ مصطفیٰ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی شان میں منقبت کے تقریباً ساڑھے چار سو اشعار ( ٤٥٠ ) اور سید الشہداء حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی توصیف میں باون ( ٥٢ ) اشعار کہے ہیں ۔ دو بیتی اشعار کے علاوہ مسدّس اور مخمّس منقبتی کلام کی ایک کثیر تعداد کلیات میں موجود ہے ، جس کی مجموعی تعداد ایک ہزار اشعار تک پہنچتی ہے ۔ ( تفصیلی معلومات کے لیے کلیاتِ میر ، ص ٧٢٢ - ٧٥٦ ، مطبوعہ : منشی نول کشور ، لکھنؤ کا مطالعہ کریں )
میر کا دور اختلاف و انتشار ، فتنہ و فساد اور طوائف الملوکی کا دور تھا ۔ حالات کی ستم ظریفی دیکھیے کہ دیگر ابنائے زمانہ کے ساتھ میر بھی مشکلات و مصائب کی چکّی میں پِس رہے تھے ، ایسے ہوش ربا وقت میں وہ اپنے آقا و مولیٰ جناب محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں درد و کرب میں ڈوب کر اور سراپا التجا بن کر اس طرح استغاثہ و فریاد کرتے ہیں :
جرم کی ہو شرمگینی یارسول
اور خاطر کی حزینی یا رسول
کھینچوں ہوں نقصانِ دینی یا رسول
تیری رحمت ہے یقینی یا رسول
رحمت للعالمینی یا رسول
ہم شفیع المذنبینی یا رسول
لطف تیرا عام ہے کر مرحمت
ہے کرم سے تیرے چشمِ مکرمت
مجرم ، عاجز ہوں کر ٹک تقویت
تو ہے حاکم تجھ سے ہے یہ مسئلے
رحمت للعالمینی یا رسول
ہم شفیع المذنبینی یا رسول
دہر زیرِ سایۂ لطفِ عمیم
خلق سب وابستۂ خلقِ عظیم
تجھ سے جویائے کرم عاصم اثیم
سخت حاجت مند ہیں ہم تو کریم
ہو رہے ہیں ہم جو دوزخ کے حطب
سر پہ یہ اعمال لائے ہیں غضب
رکھتے ہیں چشمِ عنایت تجھ سے سب
تجھ سوا کس سے کہیں احوال سب
رحمت للعالمینی یا رسول
ہم شفیع المذنبینی یا رسول
حمد ، نعت اور منقبت کسی بھی ہیئت میں کہی جا سکتی ہے ، اس میں ہیئت کی تخصیص نہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ اردو میں حمد اور نعت و منقبت کبھی غزل و قصیدہ کے فارم میں اور کبھی مثنوی وغیرہ کی ہیئت میں کہی گئی ہے ۔ قصیدہ ہیئت کے اعتبار سے غزل سے ملتی جلتی صنف ہے ، جس میں بحر شروع سے اخیر تک ایک ہی ہوتی ہے ۔ پہلے شعر کے دونوں مصرعے اور باقی اشعار کے آخری مصرعے ہم قافیہ و ہم ردیف ہوتے ہیں ۔ مگر قصیدے میں ردیف لازمی نہیں ہے ۔ قصیدے کو دو اقسام میں تقسیم کیا جاتا ہے ۔ ایک تمہیدیہ اور دوسرا خطابیہ ۔ وہ قصیدہ جس میں ممدوح کی تعریف سے پہلے تمہید کے طور پر تشبیب اور گریز ہو ، وہ " تمہیدیہ قصیدہ " کہلاتا ہے ۔ اور " قصیدہ خطابیہ " اس قصیدہ کو کہتے ہیں جس میں تشبیب اور گریز نہیں ہوتے بلکہ قصیدے کا آغاز براہِ راست ممدوح کی تعریف سے ہوتا ہے ۔ قصیدے کو مضمون کے اعتبار سے چار حصّوں میں تقسیم کیا جاتا ہے ۔ مدحیہ ، ہجویہ ، وعظیہ اور بیانیہ ۔ قصیدے کا آغاز مطلع سے ہوتا ہے ۔ بعض اوقات درمیان میں بھی مطلعِ ثانی و مطلعِ ثالث لائے جاتے ہیں ۔ میر تقی میر کی منقبت نگاری ، قصیدہ کی ہیئت میں ہے اور اس میں قصیدہ کے اجزاء و عناصر مثلاً : تشبیب ، گریز ، مدح ، خاتمہ و دعا ، پُر شکوہ الفاظ ، جوشیلا اندازِ بیان ، خیالات کی بلندی ، خوبیِ تشبیہ ، لطفِ استعارہ ، مطلعے کی تکرار وغیرہ موجود ہیں ۔ کلیاتِ میر میں ص : ٧٢٢ سے قصیدۂ منقبت ( منقبتی قصیدہ ) شروع ہوتا ہے اور ص : ٧٥٦ پر ختم ہوتا ہے ۔ کل ٣٥ / صفحات پر مشتمل میر کی یہ منقبت ، اردو منقبت نگاری کی تاریخ میں بڑی اہمیت و معنویت اور سنگِ میل کا درجہ رکھتی ہے ۔ کیوں کہ اس کے بعد اردو شاعری میں اس صنف کا باضابطہ آغاز ہوتا ہے ۔
قصیدہ در منقبتِ حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ : -
حضرت علی مشکل کشا رضی اللہ عنہ کی منقبت شروع کرنے سے قبل قصیدے کے اسلوب کے مطابق میر " تشبیب " کے اشعار لاتے ہیں اور اپنی قادر الکلامی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مطلعِ اوّل میں نو اشعار ، مطلعِ ثانی میں سولہ ، مطلعِ ثالث میں بیس اور مطلعِ رابع میں پندرہ اشعار بڑی سلاست و روانی اور صفائی و برجستگی کے ساتھ کہہ ڈالتے ہیں ، جنہیں پڑھنے کے بعد الفاظ و معانی کا ایک جہاں نگاہوں کے سامنے رقص کرنے لگتا ہے ۔ ملاحظہ کریں :
جب سے خورشید ہوا ہے چمن افروزِ حمل
رنگِ گل جھمکے ہے ہر پات ہرے کے اوجھل
وقت وہ ہے کہ زبس شوق سے چشمِ بلبل
خوبیِ دلکشِ گل دیکھنے کو ہو احول
جوشِ گل یہ ہے جہاں تک ہے کرے کام نظر
لالہ و نرگس و گل سے ہیں بھرے دشت و جبل
لطفِ روئیدگی مت پوچھ کہ میں شبہے میں ہوں
سبزہ غلطاں ہے لبِ جُو پہ کہ خوابِ مخمل
سیر کر تازگی و خرّمی و شادابی !!!
خشک بھی شاخ نے اب سبز نکالی کونپل
( کلیاتِ میر ، ص : ٧٢٢ )
مطلعِ اول سے مطلعِ ثانی تک ( جو ٢٤ / اشعار پر مشتمل ہے ) تشبیب کا سلسلہ چلتا ہے اور اس کے بعد " گریز " اور " مدح " کا یہ سلسلہ شروع ہوتا ہے :
اے کہ اک تو ہی ہوا عالمِ اسرارِ ازل
اے کہ سوجان سے عاشق ہے ترا حُسنِ عمل
تیری وہ ذاتِ مقدّس ہے کہ لیتے ہوئے نام
منہ سے ناخواستہ بھی صلّ ِ علیٰ جائے نکل
دور از بسکہ کھنچا عرش سے رتبہ تیرا
حرف تیرا ہے ، ترے شیعوں کو وحیِ مُنزَل
فرش ہونا ترے زائر کا سعادت تھی ولے
کیا کرے چادرِ مہتاب کہ تھی مستعمل
تو سراپا ہے خرد ، عالِمِ اسرارِ الہٰ !!
مانتے جس کو گئے دہر کے کامل ، اکمل
آخر اب آ کے ترے درس میں نکتہ یہ کھُلا
ناقصِ محض چلا جائے تھا عقلِ اوّل
جی میں گذرے بھی تو نکلے ہے ترے درس کے بیچ
" معنیِ تازہ " سے بدلا ہوا " لفظِ مہمل "
رفعِ بدعت پہ جب آوے تری طبعِ اقدس
کیا عجب شعلۂ آواز سے جل جا نرسل
لقمۂ ظلم نہیں بچتا عدالت میں تری
باز نگلی ہوئی چڑیا کے تئیں دے ہے اُگل
حالتِ نزع میں گر نام زباں پر ہو ترا
یک رمق جان ، حیاتِ ابدی سے ہو بدل
( ایضاً ؛ ص : ٧٢٣ )
بہتّر اشعار ( ٧٢ ) پر مشتمل یہ پہلا منقبتی قصیدہ تشبیب و گریز اور مدح کے بعد مندرجہ ذیل دعا پر اختتام پذیر ہوتا ہے ۔
آبلے جیسے ستارے ہیں مرے قلب کے بیچ
بسکہ اس چرخِ سیہ رو سے رہا ہون میں جل
آج تجھ نیّرِ اعظم کی خلافت کا ہے روز
داد دے میری کہ دیکھوں میں اسے مستاصل
صاف ہو زنگِ دلِ میر کہ احباب میں ہے
واسطے تیرے مخالف کی ہیں تیغیں صیقل
٥٣ / اشعار پر مشتمل دوسرے منقبتی قصیدہ میں تین مطلعے اور پانچ قطعات ہیں ۔ بخوفِ طوالت تشبیب و گریز کے اشعار سے صرف نظر ہوئے ہم صرف مدحیہ اشعار نقل کرنے پر اکتفا کرتے ہیں ۔ پہلے کی طرح یہ قصیدہ بھی حسنِ الفاظ و معانی اور فتادگی و ربودگی کی ایک بہترین مثال ہے ۔
لائق تری صفت کے صفت میری ہے محال
آشفتہ طبع ، شاعرِ خستہ کی کیا مجال
وہ تو درِ مدینۂ علمِ علیم ہے !!!
جس شخص کو نہ آوے الف ، بے ، تے ، دال ، ذال
آوے ترے جناب ِ مقدّس میں ایک دم
کرتے ہیں واں تو وقف سبھی طرز کے مقال
لیتے ہیں تیرے در سے گدا پوست تختِ فقر
پاتے ہیں تیرے در سے شہا مکنت و جلال
جب تک جیوں میں دل میں مرے آرزو ہے یہ
ہوں سر سے تیرے زائرِ درگہہ کا پائمال
پھر بعدِ مرگ حوض پہ کوثر کے یا علی
جاگہ مری ہو حشر کی تیری صفِ نعال
جب تک جیے گا محوِ ثنا ہی رہے گا میر
ہے تیری منقبت سے بہت اس کو اشتغال
تیسرا قصیدۂ منقبت ٤٢ / اشعار پر مشتمل ہے ۔ اس میں بھی حسبِ سابق تین مطلعے اور درمیان میں تین چار چھوٹے بڑے قطعات ہیں ۔ بڑے شاہانہ ادبی کرّ و فر کے ساتھ قصیدے کا آغاز ہوتا ہے ۔ میر صاحب تشبیب میں اپنا شاعرانہ جوہر و ساحرانہ طرزِ بیان دکھانے کے بعد " مدحِ مولیٰ علی " کا آغاز اس طرح کرتے ہیں :
اے طبع اتنی ہرزہ درائی جرس کی طرز
اس گفتگو کا فائدہ ، کہہ حاصلِ کلام
یعنی امیرِ شاہِ نجف کی صفت پر آ
وہ شاہ جس پہ سارے کمالات ہیں تمام
شاہا ترے گدا کا ہے مشہور احتشام
شاہانِ سرفراز ہیں سب اس کے پائے نام
اے بعدِ فوتِ ختمِ رسل ، صاحبِ اہتمام
اے آخریں امام و سزاوارِ احترام
تو ہے کہ تجھ کو ذاتِ خدا سے ہے ربطِ خاص
تو ہے کہ ساری خلق پہ تیرا ہے فیضِ عام
تو ہے کہ تیرے مہر کے سائے میں روزِ حشر
محفوظ آفتابِ قیامت سے ہوں انام !!!
( کلیاتِ میر ، ص : ٧٢٩ )
قصیدہ در مدحِ امام حسین رضی اللہ عنہ :
کلیاتِ میر میں چوتھا قصیدۂ منقبت سید الشہداء حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی مدح و ثنا میں ہے ، جو ٥٢ / اشعار پر مشتمل ہے ۔ میر صاحب نے اس منقبت میں امام عالی مقام کی شایانِ شان توصیف ، ان کی ہمت و شجاعت ، درد ناک شہادت ، نیز ان کی خاکِ در کو " کحلِ جواہر الابصار " اور روضۂ پاک سے نکلنے والی شعاؤں کو شبِ تاریک کے لیے موجبِ ذلت گردانا ہے ۔
امامِ ہر دو جہاں جس کے آستانے کی خاک
رکھے ہے رتبۂ کحلِ جواہر الابصار
زہے وہ روضہ جہاں دیدۂ ملک ہیں فرش
قدم کو رکھتے ہوئے ان پہ آتے ہیں زوّار
شعاع روضے کے قبّے کی ہوگی عالم گیر
پھرے گا سایۂ شب اب جہاں میں ہوتا خوار
پانچویں اور چھٹی منقبت مسدّس کی شکل میں ہے ، جو بارہ سے پندرہ اشعار کو محیط ہے ۔ مسدّس چھ مصرعوں کے ایک بند پر مشتمل شاعری کو کہتے ہیں ۔ اس کے پہلے چار مصرعے ہم قافیہ و ہم ردیف ہوتے ہیں ۔ پانچواں اور چھٹا مصرع ہم قافیہ و ہم ردیف ہوتے ہیں ۔ طویل اور مسلسل منظومات کے لیے اردو شاعری میں اس کا استعمال کثرت سے ہوا ہے ۔ خواجہ الطاف حسین حالی کی " مسدس حالی " کو بڑی شہرت حاصل ہوئی ۔ پانچویں منقبت اگر چہ زبان و بیان کے لحاظ سے شاعری کا عمدہ نمونہ ہے ، لیکن اس بند کا چھٹّا مصرع شرعی نقطۂ نظر سے سخت قابلِ گرفت اور معاذ اللہ ایمان سوز ہے ۔ الامان و الحفیظ ۔ چھٹّی منقبت کے چند اشعار سپردِ قرطاس ہیں :
کیا لکھے اعجاز تیرے خامۂ جادو نگار
تو وہی ہے ایک لیکن نام تیرے ہیں ہزار
وقت جب ہوتا ہے تنگ اے قدرتِ پروردگار
نام لے لے کر ترے کہتا ہے ہر اک یوں پکار
یا علی ، یا ایلیا ، یا بوالحسن ، یا بوتراب
حلِِّ مشکل سرورِ دیں ، شافعِ یوم الحساب
حاجتِ اہلِ جہاں تجھ سے ہے وابستہ مدام
سہل ہیں یاں مشکلیں ، آسان ہیں دشوار کام
عارف و عامی سبھوں کا ہے وظیفہ تیرا نام
زیرِ لب ہر اک کے رہتا ہے یہی ہر صبح و شام
یا علی ، یا ایلیا ، یا بوالحسن ، یا بوتراب
حلّ ِ مشکل ، سرورِ دیں ، شافعِ یوم الحساب
( کلیاتِ میر ، ص : ٧٣٦ )
نوٹ : " سرورِ دیں " اور " شافعِ یوم الحساب " ۔ یہ دونوں لقب ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے خاص ہیں ۔ لیکن میر صاحب نے حضرت علی مشکل کشا رضی اللہ عنہ کے لیے استعمال کیا ہے ، جو شرعاً ماخوذ و غیر محمود ہے ۔
حضرت مولیٰ علی کی شان میں ساتویں منقبت ، مخمّس ( پانچ مصرعوں پر مشتمل ) کے انداز میں ہے اور ١٩ / بندوں ( تقریباً ستّاون اشعار ) پر مشتمل ہے ۔ یہ منقبت عشق و عقیدت سے لبریز اور زبان و بیان کے لحاظ سے شہکار کا درجہ رکھتی ہے ۔
ہادی علی ، رفیق علی ، رہنما علی
یاور علی ، مُمِدّ علی ، آشنا علی
مرشد علی ، کفیل علی ، پیشوا علی
مقصد علی ، مراد علی ، مدّعا علی
جو کچھ کہو سو اپنے تو ہاں مرتضیٰ علی
نورِ یقیں علی سے ہمیں اقتباس ہے
ایمان کی علی کی ولا پر اساس ہے
یوم التّناد میں بھی علی ہی کی آس ہے
بیگاہ و گاہ " نادِ علی " اپنے پاس ہے
قبلہ علی ، امام علی ، مقتدا علی
اپنی بساط تو ہے علی ہے ، وہی علیم
کس طور جیتے رہتے جو ہوتا نہ وہ کریم
دیکھیں ہیں اس کی اُور جو ہوتے ہیں ہم سقیم
یاں کا وہی ہے شافی و کافی وہی حکیم
عارض ہو ، کوئی درد ، ہمیں ہے دوا علی
( ایضاً ، ص : ٧٣٨ )
میر کی منقبت نگاری ( جو قصیدہ کی شکل و ہیئت میں ہے ) میں قصیدۂ تمہیدیہ و قصیدۂ خطابیہ دونوں کے نمونے موجود ہیں ۔ بعض مناقب تشبیہ و گریز کے مراحل سے گزرنے کے بعد مدح و ثنا کے سانچے میں ڈھلی ہے اور بعض مناقب میں میر نے خطابیہ انداز اپناتے ہوئے براہِ راست اپنے ممدوح کی تعریف سے کلام کی ابتدا کی ہے اور رنج و کرب میں ڈوب کر حضرت مولیٰ علی مشکل کشا رضی اللہ عنہ مدد مانگی ہے ۔ ساتویں منقبت کے علاوہ مندرجہ ذیل منقبت بھی " قصیدہ خطابیہ " کی مثال ہے ۔
یا علی شاہِ اولیاء ہے تو
محرمِ راز ِ " انّما " ہے تو
زورِ بازوئے مصطفیٰ ہے تو
مظہرِ قدرتِ خدا ہے تو
علم کس کو ہے یہ کہ کیا ہے تو
اس زمانے میں آہ دکھ ہے عظیم
ہے مری جان پر عذابِ الیم
مستحقِ کرم ہوں میں ، تو کریم
ملتفت ہو بہت ہے حال سقیم
میرے ہر درد کی دوا ہے تو
میر کو کب تلک یہ رنج و غم
اپنے اندوہ گیں کو کر خرّم
منبسط ہے ترا سحابِ کرم
یعنی سائے میں ہے ترے عالم
سارے عالم میں چھا رہا ہے تو
( ایضاً ، ص : ٧٤٤ )
قدر کو میری بہت ہے برتری
کب مری خورشید سے ہو ہمسری
حکمِ بُز رکھّے ہے یاں شیرِ نری
کر مخالف سوچ کر ٹک اژدری
حیدری ہوں ، حیدری ہوں حیدری
منقبت خوانی سے میری سب ہیں سُن
اس سوا مجھ میں نہیں ہے کوئی گُن
ساتھ سر کے ہے " علی گوئی " کی دُھن
مدّعی اس کان یا اس کان سُن
حیدری ہوں ، حیدری ہوں ، حیدری
ہے ولائے اہلِ بیت اپنا شعار
جانے ہے اس کے تئیں سارا دیار
زیرِ لب کہتا ہوں میں پر اب کی بار
تو سنے جب میں کہوں سب میں پکار
حیدری ہوں ، حیدری ہوں ، حیدری
ان مناقب کے علاوہ متعدد منقبتیں مخمس ، مسدس ، ترجیع بند ، ہفت بند ، مخمس ترجیع بند ، مسدس ترجیع بند اور سلام کی شکل میں کلیاتِ میر میں موجود ہیں ۔ عروض کی اصطلاح میں " ترجیع بند " کہتے ہیں : شاعر کا چند ایسے بند ، جو بحر میں موافق اور قافیے میں مختلف ہوں ، اس طرح نظم کرنا کہ ایک ہی بیت ہر بند کے آخر میں آئے اور ہر بند کے آخری شعر کے مضمون سے موافقت رکھے ۔
مندرجہ ذیل شان دار منقبت میر کی فلک پیما فکر کا نادر مرقع ہے ۔
السّلام اے راز دار و داورِ جاں آفریں !!!
السّلام اے دینِ حق کے حاکمِ مسند نشیں
یہ شرافت ، یہ سیادت ، یہ تقدّس ، یہ کمال
یہ تبّحر ، یہ ترفّع ، یہ تفوّق ہے کہیں
تو ولی ہے ، تو جلی ہے ، تو علی ہے ، تو ہے وہ
جس سے بالا تر تصور کیجیے تو کچھ نہیں
کیا تعقّل ، کیا تحمّل ، کیا تبخّر ، کیا وقار
طفلِ مکتب درس گہ کا تیرے عقلِ اوّلیں
سیّدِ بر حق ، شریف النّفس ، فخرِ روز گار
باعثِ عزّ و سپہر و موجبِ وقرِ زمیں
پیشوائے پیشوایاں ، سجدہ گاہِ مومناں
زینتِ بطحا و یثرب ، رونقِ اسلام و دیں
مقصدِ دل آشنایاں ، مدعائے عاشقاں
آرزوئے اہلِ عرفاں ، مطلبِ اہلِ یقیں
مظہرِ صدہا عجائب ، مصدرِ لطف و کرم
زیبِ منبر ، جانشینِ رحمۃ للعالمیں
وارثِ دیں ، عارف و عادل ، شفیعِ روزِ حشر
حافظِ ناموسِ دیں و حامیِ شرعِ متیں
( کلیاتِ میر ، ص : ٧ ٥٦ )
میر تقی میر کی منقبت نگاری کا سب سے اہم اور قابلِ ذکر پہلو خلوص و عقیدت ، جذبات کی شدت ، والہانہ انداز ، مصوّری اور پیکر تراشی ہے ، جس میں زبان کا حسن بھی ہے اور بیان کی عمدگی بھی ۔ فنی رچاؤ بھی ہے اور فن کی چاشنی بھی ۔ منقبت نگاری ، ان کی تہہ دار شخصیت اور نمایاں فکر و فن کا ایک تابناک پہلو ہے ، جسے کسی بھی صورت نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ۔ موصوف نے فنی لحاظ سے صنفِ منقبت کو قابلِ قدر اور جمالیاتی رخ سے ہمکنار کرنے کے لیے اسے مختلف شعری اسلوب میں ڈھالنے کی سعیِ مشکور کی ہے اور اس میں کامیاب رہے ہیں ۔ ان کی منقبت کی مجموعی تعداد پندرہ یا اس سے متجاوز ہے ، جو ایک ہزار سے زائد اشعار پر مشتمل ہے ۔ جن شعراء نے کسی خاص صنف میں ایک ہزار یا اس سے زائد اشعار موزوں کیے ہوں ، اس جہت سے ان کا تذکرہ ضروری ہے ۔ لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ غزل گوئی کے ساتھ میر کی منقبت نگاری کا تذکرہ بھی کی جائے اور اس کی ادبی و فنی قدر و قیمت متعین کی جائے ۔ راقم نے اسی مقصد کے تحت زیرِ نظر مضمون تحریر کیا ہے ۔
بہت ہی قابل ستائش وتائید مضمون و ادب ہے
جواب دیںحذف کریںاچھی تحریر ہے ماشاء اللہ ۔ میرّ کی حیات اور ان کی ادبی زندگی سے جڑا یہ حصہ اردو ادب کا ایک بہت بڑا اثاثہ ہے جسے آپ نے بہترین طریقے سے تحریر فرمایا ہے ۔ آپ کی بات سے میں بھی سو فیصد متفق ہوں کہ میرکو ایک غزل گو شاعر علاوہ ایک منقبت گو یا وقصیدہ گو شاعر کی حیثیت سے بھی دیکھنا چاہئے ۔
جواب دیںحذف کریں