اسدالسُنّہ ناشرالعلوم مولانا الحاج مفتی
محمد صدیق اشرفی اعظمی خیرآبادی:ایک فراموش کردہ عالم دین
(ولادت :1334ھ-1916ء/وفات: 1394ھ-1974ء)
وہی قومیں زندہ رہنے کا حق رکھتی ہیں جو اپنے اسلاف کے کارناموں کو نہ صرف اجاگر کرتی ہیں بلکہ ان کی روشنی میں ا پنے حال کا سفر طے کرتے ہوئے روشن اور تابناک مستقبل کی منصوبہ بندی کرتی ہیں ۔یہ ہماری جماعت کا بہت بڑا المیہ ہے کہ ہم اپنے بزرگوں کی حیات میں ان کی ویسی قدر و منزلت نہیں کرتے جس کے و ہ حق دار ہوتے ہیں ۔ وطن عزیز بھارت کے صوبے اترپردیش کو شیرازِ ہند کہا جائے تو یہ بے جا نہ ہوگا ۔ اس صوبے نے پورے ملک کو نہ جانے کیسے کیسے نجوم و افلاک دیے ہیں جن کی علمی چمک دمک اور خدماتِ جلیلہ سے ایک جہاں فیض حاصل کررہا ہے۔ خصوصاًبلگرام، کالپی، مارہرہ، جونپور، بدایوں، بریلی ، اعظم گڑھ، خیرآباد، لکھنؤ، فرنگی محل، مبارک پور، گھوسی وغیرہ کے علما و مشائخ کی علمی و ادبی اور دینی و مذہبی خدمات آبِ زر سے لکھے جانے کے لائق ہیں۔
اعظم گڑھ ، گھوسی، مبارک پور اور اس کے مضافات کی بستیوں میں ایک بستی ’’خیرآباد، ضلع مئو‘‘ بھی عظیم دینی و علمی شخصیت اسد السُنّہ ناشر العلوم مولانا الحاج مفتی محمد صدیق اشرفی اعظمی خیرآبادی علیہ الرحمہ کی وجہ سے ملک کے مختلف علاقوں میں جانی جاتی ہے۔ موصوف کی ولادت اسی خیرآباد میں پریوار رجسٹر کے مطابق یکم جون 1916ھ / 5 ؍ذی الحجہ 1379ھ بروز بدھ کو ہوئی ۔ آپ کے والد گرامی کا نام نور محمد تھا۔
آپ نے ابتدئی تعلیم آپ نے مبارک پور کے مکتب میں حاصل کی ۔ آپ نہایت ذہین اور پڑھنے لکھنے میں بہت تیز تھے۔ جو بھی سبق پڑھتے فوراً ازبر ہوجاتا ۔ جلد ہی ابتدائی تعلیم کی تکمیل کرلی ۔ ان کی ذہانت و ذکاوت اور علمی اٹھان دیکھتے ہوئے ان کے اساتذہ کی دیرینہ خواہش تھی کہ وہ اعلیٰ دینی تعلیم سے آراستہ ہوکر دین و مذہب کی خدمات انجام دیں ۔ لیکن ان کے والد نے اس سلسلے میں معذرت پیش کرتے ہوئے سلسلۂ تعلیم منقطع کروادیا۔ مولانا الحاج مفتی محمد صدیق اشرفی اعظمی خیرآبادی دل برداشتہ ہوکر اپنے پیر و مرشد شیخ المشائخ حضور اعلیٰ حضرت سید شاہ علی حسین اشرفی میاں نور اللہ مرقدہٗ ( وفات:1356ھ/1937ھ) کی بارگاہ میں کچھوچھہ شریف حاضر ہوئے اور اپنا درد پیش کرتے ہوئے شکایت کی ۔ پیرو مرشد سید شاہ علی حسین اشرفی میاں نور اللہ مرقدہٗ نے آپ کی ڈھارس بندھائی اور مولانا محمد صدیق اشرفی اعظمی خیرآبادی کے والد کوان کی اعلیٰ تعلیم کی تکمیل کے لیے ہموار کیا ۔ حضرت اشرفی میاں قدس سرہٗ نے انھیں اس عہد کے عظیم استاذ الاساتذہ خلیفۂ اعلیٰ حضرت صدرالشریعہ مولانا مفتی حکیم محمد امجد علی اعظمی نور اللہ مرقدہٗ، مصنف بہارِ شریعت ( وفات: 1367ھ/1948ھ) کی خدمت میں مشہور درس گاہ دارالعلوم معینیہ اجمیر مقدس روانہ کیا۔ یہاں رہ کر آپ نے حضور صدرالشریعہ اور دیگر اساتذہ کی نگرانی میں اعلیٰ دینی تعلیم کا حصول کیا اور جملہ علوم نقلیہ و عقلیہ کی تکمیل کی ۔ حضور صدرالشریعہ علیہ الرحمہ آپ سے بہت محبت فرمایا کرتے تھے نیز انھوں نے مولانا محمد صدیق اشرفی اعظمی خیرآبادی کے دل میں پوشیدہ فروغ علم کی تڑپ اور لگن کو اچھی طرح سے بھانپ لیا تھا یہی وجہ ہے کہ حضور صدرالشریعہ علیہ الرحمہ نے انھیں قیامِ مدارس کی نصیحت فرمائی چناں چہ خیرآباد کے لوگوں کا بیان ہے کہ مولانا الحاج مفتی محمد صدیق اشرفی اعظمی خیرآبادی علیہ الرحمہ کہا کرتے تھے کہ ان کے استاذ حضور صدرالشریعہ نے ان کو حکم دیا تھا کہ مختلف مقامات پر مدارس و مساجد کا قیام کریں یا محض بارہ مقامات پر مسلک اعلیٰ حضرت کی ترویج و اشاعت کے لیے مدارس قائم کریں، یہی وجہ ہے کہ آپ جس بستی میں تشریف لے گئے وہاں مکاتب و مدارس کے قیام کو یقینی بنانے کی کوشش کی۔ آپ نے اپنے استاذِ مکرم حضور صدرالشریعہ علیہ الرحمہ کے علمی فیضان اور پیر و مرشد سید شاہ علی حسین اشرفی میاں قدس سرہٗ کی روحانی توجہات سے درجنوں مدارس کا قیام عمل میں لایا۔آپ کے ایک شاگرد مولوی محمدابراہیم اشرفی مرحوم مرید حضور محدث اعظم ہند ساکن خوش آمد پورہ مالیگاؤں سے مسموع ایک روایت مالیگاؤں کی معروف شخصیت جناب الحاج محمد ابوذر رضوی مرید حضور مفتی اعظم ہند ( ٹرسٹی دارالعلوم حنفیہ سنیہ ، مالیگاؤں) نے مجھے بتائی کہ مولوی محمد ابراہیم اشرفی شاگرد مولانا الحاج مفتی محمد صدیق اشرفی اعظمی خیرآبادی کا بیان ہے کہ مولانا الحاج مفتی محمد صدیق اشرفی اعظمی خیرآبادی نے مختلف چھوٹی بڑی بستیوں دیہاتوں ، قصبوں اور شہروں میں چالیس سے زائد مدارس کا قیام عمل میں لایا ۔ علم کے فروغ میں ان کی کوششوں کو دیکھ کر حضور محدثِ اعظم ہند سید محمد اشرفی کچھوچھوی قدس سرہٗ ( وفات: 1381ھ/1961ھ) نے مولانا الحاج مفتی محمد صدیق اشرفی اعظمی خیرآبادی کو ’’ناشرالعلوم‘‘ کے خطابِ ذی شان سے نوازا تھا۔ آپ نے تاعمر دین و سنیت کے تحفظ، احقاقِ حق اور ابطالِ باطل کے لیے تقریر و تحریر کے ذریعے نمایاں کردار ادا کیا۔ دیابنہ اور وہابیہ سے کئی مناظرے کیے ۔آپ کے خطبات اور مواعظ کی برکتوں سے نہ جانے کتنے باطل عقائد کے ماننے والوں نے توبہ کی اور راہ راست پر گامزن ہوئے ۔ ردِ وہابیت و دیوبندیت میں آپ کی سرگرمیوں کو دیکھتے ہوئے علما و مشائخ نے انھیں ’’ اسد السُنّہ‘‘ کے خطاب سے بھی نوازا تھا ۔
بتایا جاتا ہے کہ آپ بڑے ہی وجیہ و شکیل ، خوب صورت اور گورے چٹے تھے ۔ لمبا قد ،سرخ گھنی ڈاڑھی، گول مٹول چہرہ ، آنکھیں بڑی بڑی اور آواز بڑی پاٹ دار تھی، جب وعظ فرماتے تو آواز بھرا جاتی ، لوگ محو ہوکر ان کی تقریر سنا کرتے تھے۔ دوپلّی ٹوپی، علی گڑھی شیروانی اور علی گڑھی پاجامہ زیب تن کیا کرتے تھے ۔ جب بھی وہ کہیں باہر نکلتے اور کسی راستے سے گذرتے تو اُن کی نستعلیق شخصیت کی طرف لوگوں کی نگاہیں خود بہ خود ہی اٹھ جایا کرتی تھیں ۔ آپ بڑے ہی بااخلاق اور منکسرالمزاج تھے۔ چھوٹوں پر شفیق و مہربان اور بڑوں کا ادب و احترام کیا کرتے تھے۔ زہد و تقویٰ اور پرہیزگاری میں اپنی مثال آپ تھے ۔ قائم اللیل عبادت گزار اور پاک باز و پاک طینت عارف و زاہد تھے ۔
آپ اکابر علماے اہل سنت کے منظورِ نظر تھے۔ خلیفۂ اعلیٰ حضرت شیر بیشۂ سنت مولانا مفتی محمد حشمت علی خاں لکھنوی ثم پیلی بھیتی نوراللہ مرقدہٗ ( وفات: 1380ھ/1960ھ) تو آپ کی اعلیٰ انتظامی صلاحیتوں اور تدریسی لیاقتوں کے بہت قدرداں تھے۔ یہی وجہ ہے کہ شیر بیشۂ سنت علیہ الرحمہ نے آپ کو مالیگاؤں میں مسلک اعلیٰ حضرت کے دیرینہ ترجمان ’’ مدرسہ عربیہ دارالعلوم حنفیہ سنیہ‘‘ میں بہ طور ناظم اعلیٰ اور صدرمدرس مقرر فرمایا۔ مالیگاؤں آکر مولانا محمد صدیق اشرفی اعظمی خیرآبادی نے دین و سنیت اور مسلک اعلیٰ حضرت کی ترویج و اشاعت میں نمایاں کردار ادا کیا۔ آپ کس سنہ میں مالیگاؤں تشریف لائے اور مدرسہ عربیہ دارالعلوم حنفیہ سنیہ کی باگ ڈور سنبھالی اِس ضمن میں حتمی طور پر کچھ کہنا ممکن نہیں البتہ جناب الحاج محمد ابوذر رضوی کی روایت کے مطابق آپ1961ء تک مالیگاؤں میں رہے۔ مدرسہ عربیہ دارالعلوم حنفیہ سنیہ میں آپ نے اپنی اعلیٰ انتظامی صلاحیتوں سے تعلیم و تعلم کے نظام میں بڑا نکھار پیدا کیا ۔ آپ نے اس ادارے کی ہمہ جہت ترقی کے لیے شب و روز کوششیں کیں ۔ پورے شہر میں گشت کرکے ادارے کی تعمیر و توسیع کے لیے چندہ جمع کیا بتایا جاتا ہے کہ ان کے اندر فروغِ علمِ دین کا جو خلوص پنہاں تھا اس کے اثرات شہر میں دیکھنے کو ملتے تھے لوگ توقع سے زیادہ مدرسہ عربیہ دارالعلوم حنفیہ سنیہ کے لیے اپنا دست تعاون دراز کیا کرتے تھے۔ آپ نے یہاں سے کثیر تعداد میں علما و حفاظ کی تعلیم و تربیت کروائی جو ملک کے مختلف علاقوں میں دین و سنیت کی خدمت انجام دیتے رہے ۔ مدرسہ عربیہ دارالعلوم حنفیہ سنیہ مالیگاؤں میں کئی برس رہنے کے بعد موصوف نے جبل پور کا رخ کیا اور یہاں’’دارالعلوم اہل سنت، جبل پور‘‘ کا قیام کیا اور یہاں علم و فضل کی شمعیں روشن رکھیں آج بھی جبل پور کی سرزمین پر یہ ادارہ تشنگان علم کی پیاس بجھا رہا ہے ۔ جبل پور میں کچھ عرصہ رہنے کے بعد آپ واپس مالیگاؤں آئے اور یہاں مزید ایک دینی ادارے کی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے قطب المشائخ ، اعلیٰ حضرت سید شاہ علی حسین اشرفی میاں قدس سرہٗ کی قائم فرمودہ خانقاہِ اشرفیہ خوش آمد پورہ سے ملحق ایک مدرسہ 1951ء میں بنام ’’دارالعلوم اشرفیہ ، خوش آمد پورہ‘‘ کا قیام عمل میں لایا اور ایک عرصے تک یہاں بھی آپ نے مسندِ درس و تدریس کو زینت بخشی اور شیخ الحدیث کے منصب پر فائز رہتے ہوئے بعض ناگزیر حالات و وجوہات کے سبب 1961ء میں آپ نے مالیگاؤں کو ہمیشہ کے لیے خیرباد کہہ دیا۔
مولانا الحاج مفتی محمد صدیق اشرفی اعظمی خیرآبادی کے اکابر علماے اہل سنت سے بڑے گہرے روابط و مراسم تھے۔ جب ممبئی کی سرزمین پر 1958ء میں سنی مسلمانوں کی نمایندہ تنظیم آل انڈیا سنی جمعیۃ العلماء کا قیام عمل میں آیا اور سنی جمعیۃ العلما ء کانفرنس کا انعقاد کیا گیا تو آپ نے مالیگاؤں کی نمایندہ شخصیات کے ساتھ اس تاریخی کانفرنس میں بھی شرکت کی اور اکابر علماے اہل سنت کو یہ تیقن دلایا کہ آل انڈیا سنی جمعیۃ العلماء کو استحکام پہنچانے کے لیے وہ ہر ممکن تعاون کریں گے۔ آپ نے مالیگاؤں واپسی کے بعد اپنے رفقاے کار بالخصوص مجاہدِ سنیت خلیفۂ حضور مفتی اعظم و حضور شیرِ بیشۂ سنت حافظ تجمل حسین رضوی حشمتی علیہ الرحمہ کے ساتھ مشورہ کیا کہ شہر مالیگاؤں میں بھی آل انڈیا سنی جمعیۃ العلماء شاخ قائم کی جانی چاہیے۔ مالیگاؤں کے فعال اور متحرک مسلمانانِ اہل سنت نے آل انڈیا سنی جمعیۃ العلماء کی شاخ کے قیام کی ضرورت اور اہمیت کو محسوس کیا۔ چناں چہ مولانا الحاج محمد صدیق اشرفی اعظمی خیرآبادی اور مجاہد سنیت خلیفۂ حضور مفتی اعظم و حضور شیر بیشۂ سنت حافظ تجمل حسین رضوی حشمتی نے آل انڈیا سنی جمعیۃ العلماء کے مرکزی عہدے داران سے خط و کتابت کی اور مالیگاؤں میں اس نمایندہ تنظیم کی شاخ قائم کرنے کا عندیہ ظاہر کیا ۔ اسی سلسلے میں مولانا الحاج محمد صدیق اعظمی خیرآبادی اور حافظ تجمل حسین رضوی حشمتی علیہ الرحمہ نے اپنے رفقائے کار کے ساتھ مل کر بتاریخ 25؍26؍27؍ ذی قعدہ 1379ھ مطابق 22؍23؍24؍ مئی 1960ء بروز اتوار ، پیر ، منگل مالیگاؤں میں تاریخ ساز ’’ مالیگاؤں سنی جمعیۃ العلماء کانفرنس‘‘ کا انعقادکیا ، اس عظیم الشان کانفرنس کی صدارت رئیس الواعظین محدث اعظم ہند حضرت علامہ الحاج الشاہ سید شاہ محمد اشرفی الجیلانی کچھوچھوی علیہ الرحمہ ( وفات: 1381ھ/1961ھ)نے فرمائی جب کہ شہزادۂ خاندانِ برکات فخر سیادت سید العلماء مولانا الحاج مفتی سید شاہ آلِ مصطفی سید میاں مارہروی ( وفات: 1394ھ/1974ھ)، شہزادۂ اعلیٰ حضرت تاجدارِ اہل سنت مفتی اعظم ہند مولانا مصطفی رضا نوری بریلوی ( وفات:1402ھ/1981ء)، خلیفۂ اعلیٰ حضرت برہانِ ملت مولانا برہان الحق جبل پوری( وفات: 1405ھ/1985ء)،خلیفۂ اعلیٰ حضرت شیر بیشۂ سنت مولانا مفتی محمد حشمت علی خاں لکھنوی ثم پیلی بھیتی نوراللہ مرقدہٗ( وفات: 1380ھ/1960ء) ،مفتی مالوہ الحاج مفتی محمد رضوان الرحمن فاروقی ، مفتی آگرہ حضرت مولانا مفتی عبدالحفیظ حقانی اشرفی ( وفات: 1377ھ/ 1958ء) علیہم الرحمۃ والرضوان کے علاوہ دیگر درجنوں علماو مشائخ اس کانفرنس میں شریک رہے۔ واضح ہوکہ اس کانفرنس میں رسم پرچم کشائی تربیت یافتہ مرید اعلیٰ حضرت محبوبِ ملت مفتی محمد محبوب علی خاں علیہ الرحمہ (وفات : 1385ھ/1965ء) کے دستِ مبارک سے ادا کی گئی۔ مقرر خصوصی کے طور پر پاسبان ملت علامہ مشتاق احمد نظامی علیہ الرحمہ (وفات : 1411ھ/1990ء)نے اپنی خطابت کا رنگ جمادیا آپ کے بیان کے بعد خوش ہوکر حضور محدث اعظم ہند قدس سرہٗ نے علامہ مشتاق احمد نظامی علیہ الرحمہ کو اس کانفرنس میں ’’خطیبِ مشرق ‘‘اور ’’پاسبانِ ملت‘‘ کے خطاب سے نوازا۔ حضورمحدث اعظم ہند قدس سرہٗ نے اپنے خطبۂ صدارت مسمیّٰ بنام تاریخی ’’ ارشاداتِ دین پرور 1379ھ‘‘ میں مولانا محمد صدیق اعظمی خیرآبادی کا تذکرۂ خیر بھی کیا۔
مالیگاؤں میں سنی جمعیۃ العلماء کے قیام کے ذریعے مولانا الحاج مفتی محمد صدیق اشرفی اعظمی خیرآبادی نے شہر کے مسلمانانِ اہل سنت کے دینی و ملی مسائل کے لیے ایک مضبوط پلیٹ فارم مہیا کردیا، وہ جب تک مالیگاؤں میں رہے آل انڈیا سنی جمعیۃ العلماء شاخ مالیگاؤں کے تحت مسلمانوں کے مسائل حل کرنے میں کوشاں رہے ۔ ان کے شانہ بشانہ مجاہد سنیت حافظ تجمل حسین رضوی حشمتی نے شہر کی سنیت کو مضبوط کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا وہ آل انڈیا سنی جمعیۃ العلماء شاخ مالیگاؤں کے معتمد خصوصی کی حیثیت سے تاعمر مسلک اعلیٰ حضرت کے فروغ میں فعال اور متحرک رہے ۔ اکابر علمائے اہل سنت سے ان کے بڑے گہرے مراسم تھے کئی معتبر افراد سے سننے میں آیا ہے کہ جماعت اہل سنت کی جلیل القدر شخصیات کی طرف سے حافظ تجمل حسین رضوی حشمتی علیہ الرحمہ کے نام مسلسل خطوط آیا کرتے تھے ۔ اگر مشاہیر کے یہ خطوط "خطوطِ مشاہیر بنام حافظ تجمل حسین رضوی حشمتی" یکجا کرکے شائع کردیے جائیں تو شہر مالیگاؤں میں فروغ سنیت کے لیے حافظ تجمل حسین رضوی حشمتی کی مساعیِ جمیلہ کے بہت سے ایسے گوشے وا ہوں گے جو ہماری نظروں سے اب تک پوشیدہ ہیں کاش کہ ان کے صاحبزادگان اس ضمن میں قدم بڑھائیں ۔ مالیگاؤں میں اہل سنت و جماعت اور مسلک اعلیٰ حضرت کے فروغ و استحکام میں آل انڈیا سنی جمعیۃ العلماء کی خدمات کو بھلایا نہیں جاسکتا۔ اسلاف کی قائم کردہ سنی مسلمانوں کی اس تنظیم کی شاخ الحمد للہ آج بھی شہر مالیگاؤں میں قائم ہے جو کہ اپنے طور پر فعال اور متحرک بھی ہے جس کی خدمات کا دائرۂ عمل مالیگاؤں اور اطراف کے علاقوں میں پھیلا ہوا ہے یقیناً اس کی خدمات کا اجر خدائے قدیر و جبار مولانا محمد صدیق اشرفی اعظمی خیرآبادی کو ضرور عطا فرمائے گا ۔ یوں تو شہر مالیگاؤں میں جلوس عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اہتمام 1919ء سے ہی ہوتا آرہا تھا مولانا محمد صدیق اشرفی اعظمی خیرآباد ی نے جب آل انڈیا سنی جمعیۃ العلماء کے پرچم تلے جلوس عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اہتمام و انصرام کی ذمہ داری لی تو جلوس میں ایک نیا رنگ و آہنگ اور جوش و خروش بھر گیا آپ کی کوششوں سے مالیگاؤں میں اس دن عید جیسا سماں ہونے لگا۔ ہر سال جلوس عید میلاد النبی صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم کی قیادت کے لیے آپ اکابر علمائے اہل سنت کو مدعو کیا کرتے تھے ایک مرتبہ آپ نے جماعت اہل سنت کے ممتاز عالم دین حضرت علامہ عبدالمصطفیٰ اعظمی نور اللہ مرقدہٗ مصنف سیرتِ مصطفیٰ و تصانیفِ کثیرہ (وفات : 1410ھ) کو مدعو کیا بارہ روزہ قرآنی، ایمانی، عرفانی، روحانی خطابات ہوئے پورے شہر لے لوگ آپ کے بیانات سننے کے لیے جوق در جوق جلسوں میں آتے رہے ۔ مولانا محمد صدیق اشرفی اعظمی خیرآبادی بھی ہر اجلاس میں شریک رہے ۔ اس سے قبل 12؍ ربیع الاول کو روزمرہ کے معمول کے مطابق کاروبار جاری رہا کرتے تھے مولانا محمد صدیق کی مساعیِ جمیلہ اور مولانا عبدالمصطفیٰ اعظمی علیہ الرحمہ کی تقاریر کا وہ اثر ہوا کہ شہر بھر کے مسلمانوں نے 12؍ ربیع الاول کو اہتمام کے ساتھ کاروبار بند رکھنا شروع کردیا جس سے جلوس عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم میں نئی امنگ اور نیا ولولہ پیدا ہوگیا۔ واضح ہوکہ اب بھی شہر مالیگاؤں میں ہر سال جلوسِ عید میلادالنبی صلی اللہ علیہ وسلم بڑی شان و شوکت اور تزک و احتشام کے ساتھ نکالا جاتا ہے۔
جیسا کہ عرض کیا گیا کہ مولاناالحاج مفتی محمد صدیق اعظمی خیرآبادی نے 1961ء میں بعض ناگزیر حالات ووجوہات کے سبب مالیگاؤں کو ہمیشہ کے لیے خیرباد کہہ دیا لیکن آپ جب تک مالیگاؤں میں رہے اکابر و اعاظم علما و مشائخ کو مدعو کرتے رہے اور دین و سنیت بالخصوص مسلک اعلیٰ حضرت کی ترویج و اشاعت میں مصروف رہے۔ مالیگاؤں سے آپ نے شہر ناسک کا رخ کیا اور کچھ عرصہ وہاں مقیم رہنے کے بعد برہان پور ، جبل پور، احمد آباد، بھڑوچ میں درس و تدریس کے فرائض انجام دیتے رہے ۔آپ نے اپنے وطنِ مالوف خیرآباد، ضلع مئو میں بھی ایک عظیم الشان ادارہ ’’دارالعلوم اشرفیہ ضیاء العلوم‘‘ قائم کیا تھا جہاں اب بھی تعلیم و تربیت کاسلسلہ جاری و ساری ہے۔ اہل خیرآباد بتاتے ہیں کہ جب بھی مولانا الحاج مفتی محمد صدیق اشرفی اعظمی خیرآبادی مالیگاؤں وغیرہ یا جہاں بھی وہ رہتے تھے خیرآباد تشریف لاتے توخیرآباد کی عوام دو کلومیٹر دور اسٹیشن پر ان کے شاند ار استقبال کے لیے پہنچ جایا کرتی تھی اور فخرِ خیرآباد کو جلوس کی شکل میں گاؤں تک لایا کرتے تھے ۔ مختلف علاقوں میں درس و تدریس کے فرائض انجام دیتے ہوئے اخیر دور میں آپ گوا تشریف لے گئے اور ایک دینی درس گاہ کا قیام عمل میں لایا ۔ اپنی زندگی کے آخری ایام انھوں نے وہیں بسر کیے ۔ گوا میں آپ فالج کا شکار ہوگئے یہاں سے آپ کو ان کے آبائی وطن خیرآباد لے جایا گیا جہاں7؍ ربیع الاول 1394ھ مطابق یکم اپریل1974ء کوبروز دوشنبہ صبح سات بجے اپنے مالکِ حقیقی سے جاملے ، حضرت بحر العلوم مفتی عبدالمنان اعظمی علیہ الرحمہ نے غسل دیااور نماز جنازہ کی امامت بھی فرمائی ۔ آپ کی وصیت تھی کہ انھیں کسی ولی اللہ کے مزار کے پائنتی دفن کیا جائے چناں چہ عین وصیت کے مطابق آپ کی تدفین خیرآباد میں واقع مجاہدِ وقت حضرت سید علی جعفر شاہ علیہ الرحمہ کے مزار کی پائنتی عمل میں آئی ۔کہا جاتا ہے کہ حضرت سید علی جعفر شاہ علیہ الرحمہ سید سالار مسعود غازی قدس سرہٗ کی فوج میں شامل تھے ۔
اہل سنت و جماعت کے فراموش کردہ عالم دین حضرت مولانا الحاج مفتی محمد صدیق اشرفی اعظمی خیرآبادی علیہ الرحمہ نے بکثرت مناظرے کیے۔وعظ و ارشاد کی محفلیں آراستہ کیں ۔ مسندِ افتاپر متمکن رہے کر کثیر تعداد میں فتاوے تحریر کیے۔ تصنیف و تالیف کے جوہر بھی دکھائے ، لیکن افسوس کہ ان کے یہ علمی جواہر پارے امتدادِ زمانہ کی نذر ہوکر ضائع ہوگئے۔ اکابر علما و مشائخ سے آپ کے بڑے گہرے علمی وقلمی مراسم تھے۔ مولانا عارف رضاعارفی متوطن خیرآباد، ضلع مئو متعلم جامعہ اشرفیہ مبارک پور کے بموجب آپ کے نام لکھے گئے مشاہیر کے خطوط کے دو صندوق بھی ضائع ہوگئے ۔ البتہ ان کی ایک تصنیف ’’اظہارِ حق‘‘ دستیاب ہوئی جسکی اشاعت ممبئی سے1381ھ /1961ء میں ہوئی جب کہ مولانا الحاج مفتی محمد صدیق اشرفی اعظمی خیرآبادی دارالعلوم اہل سنت اشرفیہ خوش آمد پورہ میں شیخ الحدیث کے منصب پر فائز تھے ۔ یہ رسالہ علماے دیوبند کی کتابوں سے عقائد و معمولاتِ اہل سنت کے اثبات پر مبنی ہے۔ آپ نے اس میں زیارتِ قبور، اہلِ قبور سے حصولِ برکات و حاجت روائی، حیاتِ انبیا و اولیا ، توسل ، شفاعت ، استمداد ، حضور علیہ السلام کا نور ہونا، علم غیب ، میلاد و قیام اور عرس و نیاز و فاتحہ وغیرہ عقائد و معمولات کے متعلق مخالفین کے اعتراضات کے جوابات انھیں کی کتابوں کی روشنی میں دیے ہیں ۔’’ اظہارِ حق ‘‘ نامی رسالے کی طباعت و اشاعت قاضی محمد رفیع الدین، میاں جی رحمت اللہ، احسان احمد ساکنان موضع کرہان ضلع اعظم گڑھ ، یوپی نے کی تھی۔ مختصر مگر جامع انداز میں اس رسالے میں اپنے موضوع کا حق ادا کیا گیا ہے۔ اللہ کریم سے دعا ہے کہ نبیِ کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم کے صدقہ و طفیل اسد السُنّہ ناشرالعلوم حضرت مولانا الحاج مفتی محمد صدیق اشرفی اعظمی خیرآبادی علیہ الرحمہ کے علمی فیضان سے ہمیں مالامال فرمائے اور ان کے درجات کو بلند تر فرمائے ، آمین بجاہ النبی الامین الاشرف الافضل النجیب صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وصحبہٖ وبارک وسلم !
(نوٹ : یہ مضمون الحاج محمد ابوذر رضوی صاحب ، مالیگاؤں اور مولانا عارف رضاعارفی خیرآباد سے گفتگوپر مبنی ہے، اگر کسی کو مولانا محمد صدیق اشرفی اعظمی خیرآبادی سے متعلق مزید معلومات ہوں تو ہمیں مطلع فرمائیں نوازش ہوگی)
ڈاکٹر محمد حسین مشاہدرضوی(مالیگاؤں ، انڈیا)
6؍ ربیع الاول 1442ھ / 24؍ اکتوبر 2020ء بروز سنیچر
9021761740 / 9420230235
٭…٭…٭
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں