’’شاہ حقانی کا اردو ترجمہ و تفسیر قرآن : ایک تنقیدی و تحقیقی جائزہ‘‘ - رنگارنگ معلومات کا گراں قدر خزینہ
٭ڈاکٹر محمد حسین مشاہدؔ رضوی
ہندوستان میں سلسلۂ قادریہ کے عظیم مرکز مارہرہ مطہرہ کی روحانی ، عرفانی ،دینی، علمی ، ادبی اور دیگر ہمہ رنگ خدمات اہل علم پر مخفی نہیں۔یہاں ہر دور میں بڑے بڑے اہلِ علم و فضل و کمال گذرے ہیں ۔ امامِ سلسلۂ برکاتیہ حضور صاحب البرکات سید شاہ برکت اللہ مارہروی( ولادت : 1070ھ/ وفات: 1142ھ) سے لے کر دورِ حاضر تک کے شہزادگانِ مارہرہ مطہرہ سے علم و عمل کی صدہا قندیلیں اب بھی خوب روشن اور تاب ناک ہیں ۔ حضور صاحب البرکات کے بڑے صاحب زادے سید شاہ آلِ محمد قدس سرہٗ( ولادت : 1111ھ/ وفات: 1164ھ) کے چھوٹے صاحب زادے سید شاہ محمد حقانی قدس سرہٗ ( ولادت : 1145ھ/وفات:1210ھ) علومِ عقلیہ و نقلیہ سے گہرا شغف رکھتے تھے۔ والد ماجد سید شاہ آلِ محمد قدس سرہٗ ، والدہ ماجدہ سیدہ غنیمت بی بی قدس سرہا اور برادرِ اکبر سید شاہ محمد حمزہ عینیؔ مارہروی قدس سرہٗ( ولادت: 1131ھ/وفات:1198ھ)کی صورت میں علومِ ظاہر و باطن کے سمندر پاس ہی تھے تو کہیں جانے کی ضرورت ہی کیا تھی۔ جملہ علوم و فنون کی تحصیل و تکمیل انھی حضرات کے زیر سایہ ہوئی۔ کتابوں کے مطالعے کا ذوق ورثے میں پایا جس کی تسکین کے لیے بڑے بھائی سید شاہ محمد حمزہ عینیؔ مارہروی کا کتب خانہ گھر میں ہی موجود تھا۔ آپ کوعلوم شرقیہ کے ساتھ ساتھ تعمیرات سے بھی گہرا لگاؤ تھا، آپ نے فنونِ لطیفہ کی مختلف شاخوں تعمیر و تزئین ، چمن بندی اور شاعری میں بھرپور شایستگی کا مظاہرہ کیا ، خانقاہِ برکاتیہ کی بعد کی تعمیرات آپ ہی کے ذوقِ تعمیر کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ بہ قول سید محمد اشرف مارہروی :
’’حضرت حقانی، خاندانِ برکات کے شاہجہاں تھے۔‘‘
(اہل سنت کی آواز2009ء، خصوصی شمارہ: اکابر مارہرہ مطہرہ ، ص478)
حضرت سید شاہ محمد حقانی قدس سرہٗ علم و فن کے شناور تھے اور فضل و کمال کے امین- دنیا سے بے نیازی اور آرایشِ دنیا سے زاہدی نے آپ کو تصنیفی شہرت اور علمی غلغلے کی طلب سے ہمیشہ دور رکھا۔ اس لیے آپ کے تذکرے قرطاس و قلم کی زینت نہ بن سکے۔ جس وقت علم و فن کے مرکز دہلی میں بیٹھ کر شاہ عبدالقادر اور شاہ رفیع الدین نے قرآن مجید کے تراجم کیے۔ سید شاہ حمزہ عینیؔ مارہروی قدس سرہٗ کے چھوٹے بھائی سید شاہ حقانی مارہروی قدس سرہٗ نے دلی سے بہت دور مارہرہ کی دھرتی پر بیٹھ کر جہاں بہ ظاہر دہلی جیسا کوئی علمی و ادبی ماحول نہیں تھا قرآن مجید کا اردو ترجمہ و تفسیر ’’ عنایت رسول کی‘‘ کے نام سے لکھی جو اردو زبان کے اولین تراجم و تفاسیر میں شمار ہوتی ہے۔ جس پر پروفیسر ڈاکٹر سید محمد امین میاں قادری برکاتی مارہروی اور مولانا محمد ارشاد احمد رضوی مصباحی ( ساحلؔ سہسرامی) نے زیرِ تبصرہ تحقیقی کتاب ’’شاہ حقانی کا اردو ترجمہ و تفسیر قرآن : ایک تنقیدی و تحقیقی جائزہ‘‘ قلم بند کی ہے جس میں اس ترجمے کی خصوصیات کو عہد ، زبان ، اسلوب ، اولیت ، جمالیات اور تقابلی مطالعے کی روشنی میں بیان کیا گیا ہے۔
598؍ صفحات پر پھیلی ہوئی اس اہم ترین علمی کتاب کو مصنفین نے چھے ابواب میں منقسم کیا ہے۔ پہلاباب سید شاہ محمد حقانی قد س سرہٗ کے حالات اور ان کے خاندان سے متعلق ہے ، ان کا خاندان علمی اور ادبی اعتبار سے ایک ممتاز حیثیت کا حامل ہے ۔ شاہ برکت اللہ ، شاہ آل محمد، سید شا ہ حمزہ عینیؔ ، شاہ آل احمد اچھے میاں، سید شاہ آل رسول احمدی ،سید شاہ ابوالحسین احمد نوری میاں ، سید شاہ اولادِ رسول محمد میاں ، پروفیسر احسنؔ مارہروی، سید بشیر حیدر آل عبا آوارہؔ مارہروی، سید شاہ آل مصطفی سیدؔ میاں مارہروی، سید شاہ مصطفی حیدر حسن میاں ، سید آلِ رسول حسنین نظمی مارہروی ،پروفیسر ڈاکٹر سید محمد امین میاں ،سید محمد اشرف وغیرہ کے نام اس کے روشن ثبوت ہیں۔ اس باب میں مصنف سید محمد امین میاں مارہروی اور ان کے شریک مصنف محمد ارشاد رضوی مصباحی نے سید شاہ محمد حقانی قدس سرہٗ اور ان کے خاندان کا تعارف کرایا ہے اور علمی و ادبی کارناموں پر روشنی ڈالنے کی پوری کوشش کی ہے۔
دوسرا باب شاہ حقانی کے عہد کی سماجی اور سیاسی صورت حال سے متعلق ہے ۔ اس دور کی سماجی ، اخلاقی ، اقتصادی ، مذہبی ، علمی اور ادبی صورتِ حال کا تجزیہ کرتے ہوئے افراتفری کے اس دور کو مغلوں ، پٹھانوں سکھوں اور جاٹوں وغیرہ کی سیاست کے تناظر میں دیکھنے کی بھرپور کوشش کی گئی ہے اورخانقاہِ برکاتیہ مارہرہ مطہرہ کے مذہبی ، علمی، خانقاہی ، سیاسی اور سماجی اثرات کا جائزہ لیا گیا ہے جو خاندانِ برکات نے سر زمینِ ہند پرمرتب کیے ۔
تیسرا باب ترجمے کے فن اور قرآن عظیم کے تراجم کے بارے میں ہے ۔اس باب میں ترجمے کی نزاکتوں کا جائزہ لیا گیا ہے، ترجمے کا فن ، اقسام ، بنیادی عناصر ، شرائط ، اصول ، مشکلات اور حل، فنی مراتب، سطحیں ، مقاصد اوراسباب کو بیان کرتے ہوئے مصنفین نے مترجم کی ذمے داریوں کو بھی بیان کیا ہے۔ یہاں قرآن مجید کے اردو تراجم پر سیر حاصل سنجیدہ علمی گفتگو کی گئی ہے ۔ ترجمۂ قرآن کی اہمیت ، ضرورت ، محرکات اور ابتدا کو پیش کرتے ہوئے مختلف زبانوں میں اولین تراجم قرآن کا جائزہ لیتے ہوئے 51؍ زبانوں کے 61؍ تراجم کی تفصیل پیش کی گئی ہے۔ جس سے مصنفین معلومات عامہ اور ان کے مطالعے کی وسعت کابھی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ اس باب میں شاہ حقانی کے معاصر ترجمہ نگاروں پر خصوصی توجہ مرکوز رکھی گئی ہے۔جن میں شاہ مراد اللہ قادری نقش بندی، غلام مرتضیٰ مجنوں، حکیم محمد شریف خان دہلوی، شاہ رفیع الدین دہلوی اور شاہ عبدالقادر دہلوی جیسی شخصیات شامل ہیں۔
چوتھے باب میں فاضل مصنفین سید محمد امین میاں قادری مارہروی اور محمد ارشاد رضوی مصباحی ( ساحلؔ سہسرامی) نے ترجمہ و تفسیرِ حقانی کا تفصیلی ، تحقیقی اور تنقیدی جائزہ لیا ہے۔ اس باب میں ’’عنایت رسول کی‘‘ کا تصنیفی پس منظر اور تصنیف کا زمانہ ، مدت ، مقصد اور کیفیت بیان کرتے ہوئے اس کے قلمی نسخوں کے بارے میں وضاحت کی گئی ہے۔ ترجمۂ حقانی کے محاسن کو ظاہر کرتے ہوئے مصنفین نے اس کے اسلوب ، تنوع، محاورات، سلاست ، اختصار ، اطناب ، بے ساختگی ، عظمتِ توحید ، عشق و آدابِ بارگاہِ رسالت، معنویت ، مقصدیت ، انفرادیت جیسی خصوصیات کو مثالوں کے ذریعے خوانِ مطالعہ پر سجایا ہے۔ اس باب میں یہ بھی بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ اردو کے ادبی مراکز سے دور ، ایک چھوٹے سے قصبے میں رہنے والے سید شاہ محمد حقانی نے قرآن پاک کا اردو ترجمہ و تفسیر’’عنایت رسول کی‘‘ کیا، جس سے ان کے علمی اور ادبی مرتبے کو چار چاند لگ گئے۔
پانچواں باب جمالیات اور ترجمہ و تفسیرِ حقانی پر محیط ہے۔ جمالیات ایک ایسا موضوع ہے جس کا رشتہ علوم و فنون سے ہے۔ جمالیات کے موضوع پر اردو ادب میں دیگر زبانوں کی طرح اب بھی کام کی کمی محسوس کی جارہی ہے۔ اس باب میں انگریزی اور ہندی زبانوں میں جمالیات سے متعلق مواد سے بھرپور استفادہ کرتے ہوئے جمالیات کی ماہیت، موضوع، حسن ، ماہیت حسن ، تاریخی تسلسل کو بیان کرتے ہوئے جمالیات کے مختلف ادوار کو پیش کیا گیاہے۔ مصنفین نے قرآن مجید کے تصورِ حُسن کو بڑی خوب صورتی اور صاف ستھری زبان اور اسلوب میں بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔ قرآن مجید کے جمالیاتی پہلو کو واضح کرتے ہوئے اس کی وجدانی تاثیر ، موضوع ، ہیئت، اسلوب ، شعری تصویریت ، ایجاز و قطعیت ، تخییل و تجسیم کو پیش کیا ہے۔ اور اس پس منظر میں ترجمۂ حقانی کا بالتفصیل جمالیاتی تجزیہ کرتے ہوئے تصویریت ، تشبیہ و تمثیل ، صوتی جمال وغیرہ کی روشنی میں مثالوں کے ذریعے شاہ حقانی کے ترجمے میں جمالیات کی گہری آمیزش کی نشان دہی کی ہے جس نے ان کا حسن دوبالا کردیا ہے۔
چھٹا باب ترجمۂ حقانی کے اسلوب سے متعلق ہے ۔ اسلوب کا معاملہ بڑا نازک اور علمی ہوتا ہے ۔ اس باب میں اردو کے مشہور تراجم قرآن سے شاہ حقانی کے ترجمے کا تقابلی مطالعہ کرتے ہوئے ان کی انفرادیت پر سیر حاصل گفتگو کی کوشش کی گئی ہے ۔ مصنفین نے ترجمۂ حقانی کا اسلوبیاتی جائزہ لیتے ہوئے اس کی معنی خیزی ، عصری انفرادیت ، متفرق تراجم سے تقابلی جہتوں کو مد نظر رکھا ہے۔
علمی لحاظ سے شاہ حقانی کا ترجمہ و تفسیر ایک اعلیٰ مقام رکھتی ہے ۔ شاہ حقانی نے ترجمہ و تفسیر لکھتے ہوئے قرآن حکیم، احادیث نبویہ ، اقوالِ صحابہ ،اقوالِ تابعین ، لغتِ عرب اور تدبر و استنباط سے خوب استفادہ کیا ہے۔ شاہ حقانی نے تفسیر کے اندر مطالب قرآن کی سہل اور آسان لفظوں میں تشریح و توضیح کی ، سورتوں کے فضائل ، آیات کا شانِ نزول ، سورتوں کے کلمات ، حروف اور آیات کا شماریاتی بیان ، واقعات و قصص کو مختصر اور دلچسپ انداز میں بیان کیاہے۔ اختصار و جامعیت ،منفرد اسلوب ، زبان کی روانی و سلاست ، حسنِ ادب و جمالیات ، لغوی تشریحات ، متقارب الفاظ کی تشریح ، فقہی تشریحات ، ایک آیت کی متعدد تفاسیر ، صوفیانہ رنگ ، مستند روایات اور محتاط ترجیحات وغیرہ تفسیرِ حقانی کی اہم اور نمایاں خصوصیات میں شامل ہیں ۔
واضح ہو کہ شاہ محمد حقانی قدس سرہٗ نے 900؍صفحات پر محیط یہ تفسیر 60؍سال کی عمر میں صرف 4؍ مہینے 5؍ دن کی قلیل مدت میں اردو کے تشکیلی عہد میں قلم بندکی تھی ۔ یہ تفسیر آپ کے فکر و فن ، جودتِ طبع ، ذہنِ درخشاں ، قلبِ روشن اور استحضارِ علم کی شاہ کار دستاویز ہے ۔ بہ قول ڈاکٹر ساحلؔ سہسرامی:
’’ ساٹھ سال کی عمر ، صرف چار مہینے پانچ دن کی مدت اور باریک قلم سے نو سو صفحات پر نئے ماحول ، نئی زبان اور نئے طرز میں مفاہیمِ قرآن کو سجا دینا۔ کیا یہ کوئی معمولی کارنامہ ہے؟ نہیں ! اِسے خرقِ عادت کہیے اور مصنف کی علمی کرامت - ایسے کارنامے وہی شخص انجام دے سکتا ہے جسے فکر و فن کی حریم تک رسائی ہو اور جو علم و ادب کا داناے راز ہو- اسے علم و فن کی زندگی ہی تو کہیں گے کہ قصبے کا ایک گوشہ نشین درویش ، عمر کا انحطاط اور بدن کی نقاہت ، ساٹھ سال کی پیرانہ سالی ، ذہنی امنگیں بجھی بجھی سی، فکری جولانیاں جواب دیتی ہوئیں لیکن وہ ایک گوشۂ خمولی میں بیٹھ کے قرطاس و قلم سنبھالتا ہے اور علم وفن کو اپنے قلم کی روشنائی سے نئی درخشانیاں دے جاتا ہے۔ نہ اس کے پاس دانش کدوں کی محفلیں ہیں نہ محققین کا جتھا ، نہ تلامذہ کی ٹیمیں ہیں نہ مستفیدین کی قطار، نہ ہمہمۂ علم کی گرما گرمی ہے نہ حوصلوں اور جذبوں کی ترنگ جن سے اس کے جوشِ علم کو ابھار مل سکے ۔ لیکن اسے سہارا دیتی ہے فکرِ آخرت - اسے تقویت بخشتا ہے جذبۂ دین - اسے ابھارتا ہے قرآن حکیم سے شیفتہ پن- اسے آمادۂ عمل کرتا ہے ذوقِ جنوں اور پھر اس کی کانپتی انگلیوں میں ڈولتے قلم کی جنبشیں، اُس کی بزمِ آخرت کو سجاتی چلی جاتی ہیں۔ حضرت سید شاہ حقانی قدس سرہٗ کا یہ تفسیری کارنامہ آپ کے اعلیٰ مراتبِ علم کی تعیین کے لیے کافی ہے کیوں کہ فنِ تفسیر ایک سمندر ہے جس کی شناوری کے لیے بہت گہری صلاحیتوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ ‘‘
(اہل سنت کی آواز2009ء، خصوصی شمارہ: اکابر مارہرہ مطہرہ ،ص480)
زیرِ تبصرہ کتاب’’شاہ حقانی کا اردو ترجمہ و تفسیر قرآن : ایک تنقیدی و تحقیقی جائزہ‘‘ میں پروفیسر ڈاکٹر سید محمد امین میاں مارہروی اور ساحلؔ سہسرامی نے سید شاہ محمد حقانی قدس سرہٗ کے حالات کے ساتھ ان کے شاہ کار ترجمہ و تفسیر قرآن کا نہایت محنت و محبت اور بڑی عرق ریزی و جاں فشانی سے مطالعہ کیا ہے ۔ اس مطالعے کا دائرۂ عمل بہت وسیع ہے جس نے اس کتاب کو مختلف النوع معلومات کا گراں قدرخزینہ بنادیاہے۔ اس کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے پروفیسر ڈاکٹر جمیل جالبی اپنی تقریظ میں رقم طراز ہیں :
’’ایک طرف فاضل مصنف نے ترجمہ وتفسیر کے زاویۂ نظر سے اس ترجمے کا کا دوسرے تراجم قرآن سے تقابلی مطالعہ کیا ہے اور ساتھ ہی ترجمہ و تفسیر کے جمالیاتی پہلوی پر بھی، جدید اندازِ نظر سے روشنی ڈال کر اس مطالعے کو ایک نیا رخ دیا ہے ۔ اس کتاب میں اسلوبِ بیان کی بحث بھی نہایت دلچسپ ہے۔ یہ کام ڈاکٹر سید محمد امین نے ، اپنے شریک مصنف محمد ارشاد رضوی کے ساتھ مل کر جس محنت اور لگن سے کیا ہے ، اس نے اسے ایک ’قاموسی رنگ‘ دے دیا ہے۔ یہ تصنیف رنگارنگ معلومات کا ایک خزینہ ہے ۔اس ایک کتاب میں تین کتابیں شامل ہیں ۔ ایک کا تعلق سید شاہ محمد حقانی اور ان کے ترجمے اور تفسیر سے ہے۔ دوسری کا ’فنِ ترجمہ‘ سے اور تیسری کا ’جمالیات‘ سے ہے ۔ ان تینوں کتابوں کو فاضل مصنفین نے اپنی انوکھی بُنَت سے ایک جان بناکر ایک وحدت ایک اکائی بنادیا ہے ۔ وہ چاہیں تو اس ایک کتاب سے تین کتابیں تیار کرسکتے ہیں ۔‘‘ (ص 15)
کتاب’’شاہ حقانی کا اردو ترجمہ و تفسیر قرآن : ایک تنقیدی و تحقیقی جائزہ‘‘ رنگارنگ معلومات و معارف پر مشتمل ایک وقیع، مفید اور معلومات بخش علمی اضافہ ہے جس میں مصنفین نے تحقیق و تنقید کے اصولوں کا مکمل پاس و لحاظ رکھتے ہوئے قلم کی پختگی کے ساتھ بڑی سلیقہ مندی سے صاف ستھری زبان اور دل کش اسلوب کو برتا ہے۔ پیرایۂ بیان اتنا پُرکشش اور سلیس و رواں دواں ہے کہ قاری مطالعے کے دوران اکتاہٹ محسوس کیے بغیر پوری کتاب دلچسپی سے پڑھتا چلا جائے گا ۔ راقم مشاہد رضوی اس اہم ترین کتاب کی تصنیف و اشاعت پر حضرتِ اقدس پروفیسر ڈاکٹر سید محمد امین میاں قادری مارہروی اور مولانا مفتی محمد ارشاد احمد رضوی مصباحی کو ہدیۂ تبریک و تہنیت پیش کرتے ہوئے بے پناہ مسرتوں سے سرشار ہے ، نیز اہل نقد و نظر اور شائقینِ علم و ادب سے اس کتاب کے مطالعے کی بھرپور سفارش بھی کرتا ہے۔ کیا ہی اچھا ہوکہ پروفیسر ڈاکٹر جمیل جالبی کی نشان دہی کے مطابق اس کتاب کو تین کتب میں تقسیم کرکے نئی آب و تاب کے ساتھ از سرِ نو منظر عام پر لایا جائے۔
ڈاکٹر محمد حسین مشاہدرضوی ، مالیگاؤں (انڈیا)
13؍ صفر المظفر 1442ھ / یکم اکتوبر2020ء بروز جمعرات
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں