جمعہ، 11 دسمبر، 2020

Masjid Quwwatul Islam Delhi


*مسجد قوت الاسلام، دہلی*
🖋️ *... محمد حسین مشاہد رضوی*

سالِ گذشتہ بچوں کے ماہ نامہ "گل بوٹے" ممبئی کے جشنِ سیمیں کے موقع پر منعقدہ عالمی ادبِ اطفال سیمینار میں شرکت کا اتفاق ہوا ۔ ہمارے قافلے میں مالیگاﺅں سے ظہیر قدسی صاحب، مختار قریشی سر، شکیل انصاری سر، یٰسین اعظمی اور خلیل عباس شامل تھے ۔ کانفرنس اور سیمینارز کی مختلف نشستوں میں شرکت کے دوران ہم لوگوں نے چن چن کر دہلی کی تاریخی عمارتوں اور اولیاے کاملین کے آستانوں پر حاضری لگائی۔ قطب مینار کمپلیکس میں تعمیر فلک بوس قطب مینار، مسجد قوت الاسلام، سلطان شمس الدین التمش کی مزار اور فیروز شاہ تغلق کے "مدرسۂ حوض" سے متعلق کتابوں میں بہت کچھ پڑھنے میں آیا تھا ۔ لہٰذا ایک روز ہمارا قافلہ قطب مینار کمپلیکس پہنچا تاکہ ان تاریخی عمارتوں کا مشاہدہ و معاینہ کیا جائے۔ ظہر کی نماز کا وقت ہوچکا تھا چنانچہ کمپلیکس کے احاطے میں واقع مغل مسجد میں نماز ادا کی ۔ وہیں ایک وجیہ و شکیل اور خوبرو بزرگ سے ملاقات ہوئی انھوں نے مالیگاﺅں کا نام سنتے ہی بڑی خندہ پیشانی سے مسکراتے ہوئے ہمارے ساتھ مصافحہ کیا ۔ میں نے چند سوالات اس تاریخی عمارت کے بارے میں داغ دیے ۔ موصوف نے بتایا کہ یہ عمارت مسلمانوں کے دورِ عروج و اقبال کی عظیم نشانی ہے ۔ انھوں نے مختصراً بتایا کہ مسجد قوت الاسلام دہلی میں "خاندانِ غلاماں" کے سنہری دور کی ایک عظیم یادگار ہے ۔ یہ آپ لوگ سامنے جو فلک بوس مینار دیکھ رہے ہیں جسے "قطب مینار" کہا جاتا ہے یہ عالمی شہرت کا حامل مینار مسجد قوت الاسلام ہی کا حصہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بعض مؤرخین اس مسجد کو "مسجد قطب" بھی کہتے ہیں ۔ یہ مسجد قطب الدین ایبک کے عہد کی تعمیرات میں سب سے ممتاز مقام رکھتی ہے۔ یہ ہندوستان کی فتح کے بعد دہلی میں تعمیر کی جانے والی اسلام کی پہلی مسجد تھی۔ اس کی تعمیر کا آغاز 1190ء کی دہائی میں ہوا۔
13 ویں صدی میں التمش کے دورِ حکومت میں اس میں توسیع کر کے حجم میں تین گنا اضافہ کیا گیا۔ بعد ازاں اس میں مزید تین گنا اضافہ کرنے کے ساتھ ساتھ ایک اور عظیم مینار تعمیر کیا گیا۔
اس مسجد کے مشہور قطب مینار کی تعمیر کا آغاز خاندانِ غلاماں کے تاج دار قطب الدین ایبک نے 1199ء میں کیا تھا ۔ اور بعد ازاں ایبک کے داماد سلطان شمس الدین التمش نے اس کی تین منزلیں تعمیر کیں جس سے یہ مینار 72 اعشاریہ 5 میٹر (238 فٹ) تک بلند ہو گیا۔ بعد ازاں اس مینارکی پانچویں اور آخری منزل کی تعمیر فیروز شاہ تغلق نے کی، اور فیروز شاہ تغلق نے ہی یہاں "مدرسۂ حوض" کی بنیاد ڈالی جو کہ خاص طور پر قابلِ ذکر ہے کیوں کہ یہ اُس دور کا ایک عظیم رہائشی مدرسہ تھا اور اساتذہ اور طلبہ کی اکثریت مدرسہ ہی میں رہتی تھی۔ اقتصادی طور پر کمزور طلبہ کو وظیفہ دیا جاتا تھا اور ان کے رہنے اور کھانے کی ذمہ داری مدرسہ پر تھی ۔ غریبوں، محتاجوں اور کمزوروں کو بھی مالی امداد فراہم کی جاتی تھی۔
فیروز شاہ تغلق کے بعد سکندر لودھی نے بھی قطب  مینار کی تعمیر و ترمیم کا کام پندرھویں صدی عیسوی کے اواخر میں انجام دیا، اس طرح قطب مینار کو مختلف اوقات میں تین علیٰحدہ علیٰحدہ بادشاہوں نے تعمیر کیا۔ تین مختلف ادوار میں تعمیر کے باوجود اس کا تعمیری ڈھانچہ ایک جیسا ہے ۔ یہ مینار ایک منفرد ساخت ضرور رکھتا ہے ۔ آج بھی اینٹوں کی مدد سے تعمیر کردہ دنیا کا ایک بلند مینار ہے اور ہندی-اسلامی طرز تعمیر کا شاندار نمونہ سمجھا جاتا ہے۔ بنیاد پر اس کا قطر 14 اعشاریہ 3 جبکہ بلند ترین منزل پر 2 اعشاریہ 7 میٹر ہے۔ یہ مینار اور اس سے ملحقہ عمارات اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثے کی فہرست میں شامل ہیں۔ قطب مینار کو دیکھنے کے لیے کثیر تعداد میں سیاح دہلی پہنچتے ہیں اسی لیے یہ مسجد سیاحوں کا مرکز بن کر رہ گئی ہے ایک اندازے کے مطابق سال بھر میں قطب مینار دیکھنے کے لیے تاج محل سے زیادہ تعداد میں سیاح آتے ہیں۔ 
مسجد میں خط کوفی میں خطاطی کے بہترین نمونے موجود ہیں۔ مسجد کے مغرب میں سلطان شمس الدین التمش کا مزار ہے جو 1235ء میں تعمیر کیا گیا۔ مسجد کی موجودہ صورت حال کھنڈر جیسی ہی ہے۔ لیکن میناروں، ستونوں اور دیواروں پر منقش آیاتِ قرآنی نیز طرزِ تعمیر دیکھ کر کہیں یہ نہیں کہا جاسکتا کہ مسجد کی تعمیر جین مندر یا ہندوؤں کے معبد کو منہدم کرکے کی گئی تھی ۔ ہمارا قافلہ جس وقت مسجد قوت الاسلام کے پرشکوہ مینار اور اس کے کھنڈرات کو دیکھ رہا تھا میرے ذہن کے دریچوں سے ڈاکٹر علامہ اقبال کے مجموعۂ کلام "ضربِ کلیم" میں شامل ایک نظم "مسجد قوت الاسلام" کے یہ اشعار ابھر رہے تھے :

” ہے مرے سینۂ بے نور میں اب کیا باقی
'لا الٰہ' مردہ و افسردہ و بے ذوقِ نمود

چشمِ فطرت بھی نہ پہچان سکے گی مجھ کو
کہ ایازی سے دگرگوں ہے مقامِ محمود

کیوں مسلماں نہ خجل ہو تری سنگینی سے
کہ غلامی سے ہوا مثلِ زُجاج اس کا وجود

ہے تری شان کے شایاں اسی مومن کی نماز
جس کی تکبیر میں ہو معرکۂ بود و نبود

اب کہاں میرے نفس میں وہ حرارت، وہ گداز
بے تب و تابِ دروں میری صلوٰۃ اور دُرود

ہے مری بانگِ اذاں میں نہ بلندی، نہ شکوہ
کیا گوارا ہے تجھے ایسے مسلماں کا سجود؟
افسوس کہ سرزمین ہند پر مسلمانوں کے دورِ عروج کی اس عظیم یادگار پر بھی اب فرقہ پرستوں کی نگاہیں گڑی ہوئی ہیں ۔ حتیٰ کہ دہلی کے ساکیت کورٹ میں ایک مقدمہ تک دائر کردیا گیا ہے ۔ لیکن ہم آج بھی خوابِ غفلت میں مست شاید ابابیلوں کے انتظار میں ہیں ۔

*... محمد حسین مشاہد رضوی، مالیگاﺅں* 
*11 دسمبر 2020ء بروز جمعہ*




کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

ٹیوٹر اپڈیٹس دیکھیں اور فالو کریں