اتوار، 18 دسمبر، 2022

Dr Mushahid Razvi ka Ph D Maqala By Allama Qamruzzaman Khan Azmi



*ڈاکٹر مشاہدؔ رضوی کا تحقیقی مقالہ: دنیاے علم و ادب میں ایک گراں قدر اضافہ*

*از: مفکر اسلام علامہ قمرالزماں اعظمی صاحب قبلہ*
*سکریٹری جنرل ورلڈ اسلامک مشن ، انگلینڈ*

اس وقت میرے زیرِ مطالعہ ادیبِ شہیر ، ناقدِ شعر و سخن حضرت ڈاکٹر محمد حسین مشاہدؔ رضوی کی کتاب ’’مفتیِ اعظم کی نعتیہ شاعری کا تحقیقی مطالعہ‘‘ ہے ۔ میں اپنی ناسازیِ طبع کی بنا پر اپنے تاثرات تاخیر سے بھیج رہا ہوں خدا کرے کہ وقت پر پہنچ جائے اور اس کتاب کے قارئین میں میرا نام بھی شامل ہوجائے۔ یہ کتاب اپنی علمی اور فکری خوبیوں کے ساتھ ایک تفصیلی تبصرے کا مطالبہ کررہی ہے مگر میں اپنی خرابیِ صحت کی وجہ سے چند کلمات پر ہی اکتفا کروں گا۔

ڈاکٹر محمد حسین مشاہدؔرضوی صاحب نے میرے مرشدِ کریم حضور مفتیِ اعظم کی نعتیہ شاعری پر نقد و تبصرہ کا عظیم کام اپنے ذمہ لے کر دنیاے علم و ادب پر احسانِ عظیم فرمایا ہے ورنہ حضرت نوریؔ بریلوی علیہ الرحمہ کے محاسنِ شعری سے دنیاے ادب ناواقف رہتی ۔ بلاشبہ مذہبی حلقوں میں ان کے کلام کو پڑھا جاتا ہے اور انتہائی عقیدت سے سنا جاتا ہے مگر جن حلقوں میں ان کے کلام کی فنی عظمتوں کی رسائی ہونی چاہیے وہ شاید نہ ہوتی۔

حضو رمفتیِ اعظم کا دَور اشتراکی ادب بنام ترقی پسند ادب کے غلبے کا دَور تھا اور اشتراکی نظام کی سرپرستی میں پروان چڑھنے والے اردوادب میں اسلامی ادب کے لیے کوئی جگہ نہیں تھی ۔اسی طرح بہت سے عظیم شعرا کو ادبی دنیا سے باہر رکھا گیا جب کہ اُس دَور میں چند ایسے شعرا جن کے کلام کو نقد و تبصرہ کے میزان پر رکھاجانا ممکن نہیں تھاوہ آسمانِ شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دئیے گئے اور آج جب کہ اشتراکی یا ترقی پسند ادب کا دَور اشتراکیت کی موت کے ساتھ ختم ہوچکا ہے اسلامی ادب کو منظرِ عام پر لانے کی ضرورت ہے ،خدا کا شکر ہے کہ ڈاکٹر مشاہدؔرضوی نے اس کا م کا آغازکر دیا ہے ۔

جناب ڈاکٹر محمد حسین مشاہدؔرضوی نے اپنے مشاہدات اور عمیق مطالعے کی بنیاد پر حضرت نوریؔ بریلوی علیہ الرحمہ کی نعتیہ شاعری کے ادبی اور فکری محاسن کو بہت خوبی کے ساتھ نمایاں کیا ہے ۔ باب اول میں انھوں نے نعت کی تعریف اور اس کی خصوصیات پر روشنی ڈالی ہے اور حزم و احتیاط کے ذکر سے صنفِ نعت گوئی کو جملہ اصناف سے ممتاز کیا ہے۔دوسرے باب میں حضرت نوری ؔ بریلوی علیہ الرحمہ کی حیات اور خدمات کا جائزہ لیا گیا ہے ۔ یہ جائزہ اس لیے بھی ضروری تھا کہ شاعری شاعرکی شخصیت اور کردار کی نمائندہ ہوتی ہے۔ 

حضرت نوریؔ بریلوی علیہ الرحمہ کی نعت گوئی ایک عظیم فقیہ کے حزم و احتیاط ، حقیقی مُوَحِّد کے نظریۂ توحیدکی وضاحت ،ایک عاشقِ رسول کے وارداتِ قلبی ، ایک عظیم صوفی کی شب بیداری ، ذکرِ الٰہی کی آئینہ دار ، اپنے ممدوح کی بے پناہ محبت کی کیفیات ، سوز ِ دروں ، دردِ دل ، آہِ صبح گاہی اورنالۂ نیم شبی کا اظہار ہے مگر شریعت کی تمام رعایتوں کے ساتھ - یہ وہ خوبیاں ہیں جو امامِ نعت گویاں سیدنا اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کے علاوہ خال خال پائی جاتی ہیں۔
تیسرے باب میں حضرت نوری ؔ بریلوی علیہ الرحمہ کے دَور کی نعتیہ شاعری کا ذکر اور کلامِ نوریؔ کی اُن امتیازی خصوصیات کا تذکرہ کیا گیا ہے جو اُن کے معاصرین سے اُن کو ممتاز کرتی ہیں۔ 

یوں تو ہر دَور کے شعراے نعت نے اپنی شاعری میں امتیازاتِ رسول علیہ التحیۃ والثناء کونمایاں فرمایا ہے ، اسی طرح ان کے کلام سے فیض یاب ہونے والے قارئین اور سامعین عظمتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے نہ صرف آشنا ہوتے ہیں بلکہ ان کی محبت کو اپنا سرمایۂ حیات بنالیتے ہیں۔

کلامِ نوریؔ میں رنگِ تغزل بہت نمایاں ہے اگر ان کے مجموعۂ نعت کے اُن اشعار کو جن میں تغزل اپنے شباب پر نظر آتا ہے علاحدہ سے شائع کیا جائے تو وہ اپنے دور کے امام المتغزلین نظر آئیں گے ۔ جناب ڈاکٹر مشاہدؔرضوی نے کلامِ نوریؔ میں معانی وبیان اور جملہ صنائع اور بدائع کی وضاحت کی ہے جو کلامِ نوریؔ کی خصوصیات کی نمائندہ ہیں او ر جو دوسرے شعرا میں کم پائی جاتی ہیں۔

مجھے امید ہے کہ ڈاکٹر مشاہدؔ کی یہ کتاب علم و ادب کی لائبریریوں میں ایک گراں قدر اضافہ ہوگی اور اہلِ علم سے خراجِ عظمت حاصل کرے گی ، ان شآء اللہ!

*خاکسار محمد قمرالزماں اعظمی* 
سکریٹری جنرل ورلڈ اسلامک مشن ، انگلینڈ
10؍ جولائی  2022ء بروز اتوار

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

ٹیوٹر اپڈیٹس دیکھیں اور فالو کریں