جمعرات، 25 مئی، 2017

Mahe Ramzan Deeni Samaji Awr Tarbiyati Nuqta E Nazar Se

ماہ رمضان: دینی،سماجی اور تربیتی زاویۂ نظرسے
محمد شہباز عالم مصباحی٭
دینی زاویۂ نظر:ماہ رمضان المبارک کو یہ عظیم ترین شرف حاصل ہے کہ یہ قرآن مجید کے نزول کا مہینہ ہے۔قرآن کریم میں ہے:  شھر رمضا ن الذی انزل فیہ القراٰن ہدی للناس و بینٰت من الھدی والفرقان۔(البقرہ۲،آیت :۱۸۵)۔ رمضان کا مہینہ جس میں قرآن اتارا گیا اس حال میں کہ یہ لوگوں کو راہِ حق دکھاتاہے اور (اس میں) ہدایت اور حق و باطل میں فرق کر نے کی روشن دلیلیں ہیں۔حم والکتاب المبین انا انزلناہ فی لیلۃ مبارکۃ انا کنا منذرین۔(الدخان،آیت:۱۔۳)۔حا ،میم،قسم ہے حق کو واضح کر نے والی کتاب کی،بے شک ہم نے اسے ایک با برکت رات میں اتاراہے۔ہماری یہ شان ہے کہ ہم بر وقت خبر دار کردیا کر تے ہیں۔انا انزلناہ فی لیلۃ القدر۔(القدر،آیت :۱)۔بے شک ہم نے قرآن کو شبِ قدر میں اتارا ہے۔اس کے علاوہ صحیحین کی متفق علیہ حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ ہر رمضان المبارک میں رات کے وقت حضرت جبرئیل علیہ السلام قرآن کریم کا دور کر نے کے لیے بنی پاک صلی اللہ علیہ و سلم کے حجرۂ مبارک میں تشریف لاتے تھے جہاں باری باری ان دونوں ہستیوںمیں سے ایک کلام پاک کی تلاوت کرتی تو دوسری سماعت فرماتی۔یہ معمول ہر رمضان میں جاری رہا۔ یہاں تک کہ وصال مبارک سے پہلے آخری رمضان آیا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے سابقہ معمول کے بر خلاف دو بار قرآن کریم کا دور جبرئیل علیہ السلام کے ساتھ فرمایا۔(بخاری،۱؍۸-مسلم،۴؍۱۸۰۳)۔ان تفصیلات سے واضح ہے کہ رمضان المبارک پورا کا پورا ماہ ِقرآن ہے۔ہمیں چاہیے کہ اس مقدس مہینے میں زیادہ سے زیادہ قرآن کریم کی تلاوت کریںاور رمضان کو عملی طور پر قرآن کا مہینہ بنائیں۔تلاوت کے لیے بہتر ہے کہ قرآن کو ترجمہ کے ساتھ پڑھیں ،جتنی بھی تلاوت کریں ترجمہ ہی کے ساتھ کریں ۔ترجمے کے ساتھ تلاوت قرآن کرنے سے فائدہ یہ ہوگا کہ آپ بھی اس کلام ربانی سے، جس کے مخاطب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے واسطے آپ خود ہیں،حسب استطاعت فائدہ اٹھا سکیں گے اور کلام ربانی کو سمجھ سکیں گے۔اگر کہیں آپ کو ترجمہ سمجھنے میں بہت دشواری ہو تو علما و مشائخ سے رابطہ کریں ۔قرآن مجید میں ہے: اگر تم لوگ نہیں جانتے ہو تو اہل ذکر سے پوچھو۔(النحل،آیت:۴۳)۔مزید برآں رمضان کے مہینے میں امت کے لیے تراویح کی جو بیس رکعت نماز سنت مؤ کدہ ہے اس میں جہاں رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی سنت تراویح کی پیروی ہے اسی کے ساتھ حضرت جبرئیل اور سرکار رسالت مآب کے دورۂ قرآن کی سنت پرعمل پیرا ہونے کا موقع بھی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ پورے ماہِ رمضان میںنماز تراویح میں بھر پور ذمہ داری کے ساتھ حاضر ہوں تاکہ اگر دیگر اوقات میں تلاوت کی فرصت میسر نہ ہو سکے تو اسی نماز تراویح سے تلاوت سننے کا شرف حاصل کر لیں۔لیکن واجب بات یہ ہے کہ ہم تراویح کے علاوہ اوقات میں بھی خود قرآن کریم کی تلاوت با ترجمہ کریں تاکہ ہمیں اس کتاب ہدایت سے زیادہ سے زیادہ نورِ ہدایت ملے اور حق و باطل یا غلط و صحیح میں تمیز کر نے کی توفیق بھی۔ 
سماجی زاویۂ نظر:اسلام اپنے ماننے والوں کو سماجی و معاشرتی بناتاہے،انسانی سماج کی ترقی ،بھلائی اور خیر خواہی سے ان کا تعلق جوڑ تاہے،ان میں سے ہر ایک کو صرف اپنی ترقی نہیں، بلکہ دوسروں کے دکھ درد اور مصیبت و آفت میں ہاتھ بٹانے کا سلیقہ بھی سکھاتاہے۔اسلام ہی وہ واحد مذہب ہے جو غریبوں،مفلسوں،ناچاروں، محتاجوں،بیواؤں اور یتیموں وغیرہ کی زکاۃ،فطرہ،خیرات و صدقات کے ذریعہ نہ صرف امداد کرتاہے،بلکہ اپنے ماننے والوںکو پورے ایک مہینہ ماہِ رمضان میں بھوکا اور پیاسا رکھ کر اس کا یقینی اورزمینی طور پراحساس بھی کراتاہے تاکہ ایک امیر بھی بلبلاتے انسان کی بھوک اور تڑپتے آدمی کی پیاس کو محسوس کر سکے اور جب بھی کسی بھوکا یا پیا سا کو دیکھے تو برضا و رغبت اس کی امداد کرے اور بھوکے کو کھانا کھلا کر یا پیاسے کو پانی پلا کر اللہ کے نزدیک سرخرو بنے۔رمضان کے اس سماجی سبق کے ساتھ یہ بھی ہے کہ رمضان ہی سے اللہ کے بندوں کو غذاؤں کی قدر و قیمت بھی معلوم ہوتی ہے کہ یہ غذائیں جو اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے پیداکی ہیں نہایت ہی عظیم اورقوت بخش نعمتیں ہیں۔اگر وہ مُنعِم حقیقی یہ غذائیں دنیا سے اٹھا لے تو ہم ماہیِ بے آب کی طرح تڑپ تڑپ کر مر جائیں۔اس سے بندوں کے اندر اللہ کے لیے شکر گزاری کا مادہ بھی پیدا ہوتاہے کہ جو مُنعِم حقیقی غذاؤں جیسی نعمتیں ہمیں دیتاہے اس کا ضرور شکر ادا ہو نا چاہیے۔اس کے ساتھ روزے دار کو پانی جیسی بے نظیر نعمت کی اہمیت کا بھی بھر پور احساس ہوتاہے ۔’ غریبی ختم کرو‘ اور ’پانی بچاؤ‘ کی اہمیت آج دنیا کے سامنے واضح ہوئی ہے،لیکن اسلام نے اس قسم کی مہمیں تقریبا ساڑھے چودہ سو سال پہلے ہی چھیڑ رکھی ہیں اور عبادتوں میں ان مہموں کا رمز چھپا کر انہیں پائے دار بنا دیا ہے۔ مزید برآں یہ کہ سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ و سلم رمضان میں بہت ہی ہلکی پھلکی چیزوں سے روزہ افطار کیا کرتے تھے۔حدیث میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم اکثر اوقات کھجوروں سے افطار کیا کرتے تھے،اگر وہ میسر نہ ہوتیں تو پانی سے افطار فرمالیتے تھے۔حضرت سلمان بن عامر سے روایت ہے کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی افطار کرے تو اسے چاہیے کہ کھجور سے کرے،کیونکہ اس میں برکت ہے،اگر کھجور میسر نہ ہوتو پانی سے ،کیو نکہ پانی پاک ہوتاہے۔(الترمذی،باب الصدقۃ علی ذی القرابۃ)۔اس میں بھی امت کو یہ تعلیم ہے کہ دن بھر بھو کے پیاسے رہ کر ایسا نہ کیا جائے کہ افطار کے وقت بہت زیادہ کھایا جائے تاکہ دن بھر کھایا پیا نہ تھا توافطار کے وقت اس کی کسر نکال لی جائے،بلکہ افطار ہلکی پھلکی چیزوں ہی سے کیا جائے تاکہ روزہ روزہ ہی رہے۔مطلب یہ کہ بھوک پیاس کا احساس باقی رہے تاکہ بندہ اس احساس کے سایے تلے نعمتوں کا شکر بجا لاتا رہے،منعم حقیقی کی عبادت میں مصروف رہے،بھوکوں اور پیا سوں کا درد و کرب محسوس کرے اور ان کی طرف دست تعاون بڑھائے۔یہی وجہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان المبارک میں سال کے باقی گیارہ مہینوں کی بہ نسبت زیادہ سے زیادہ صدقات و خیرات کیا کرتے تھے۔اس مہینہ صدقات و خیرات میں اتنی کثرت ہوتی کہ ہوا کے تیز جھونکے بھی اس کا مقابلہ نہیں کر سکتے تھے۔حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ جب حضرت جبرئیل علیہ السلام آجاتے تورسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم بھلائی کرنے میں تیز ہوا سے بھی زیادہ سخی ہو جاتے تھے۔(بخاری،کتاب الصوم،باب أجود ما کا ن النبی صلی اللہ علیہ و سلم یکون فی رمضان)۔مزید یہ کہ رمضان کے روزوں کا صدقۂ فطر بھی نکالا جاتاہے،صدقۂ فطر فقیروں، مسکینوں،غریبوں اور محتاجوں کو ہی دیاجاتاہے۔صدقۂ فطر کی مقدار دو کلو پینتالیس گرام گیہوں یا اس کی قیمت ہے،لیکن بہتر ہے کہ فطرہ میں قیمت ہی ادا کی جائے،کیونکہ اس سے محتاجوں کو زیادہ فائدہ ہوتاہے۔صدقۂ فطرہر اس آزاد مسلمان مرد و عورت پر واجب ہے جس کے پاس اتنا مال ہو جو نصاب تک پہنچتا ہو،اصلی حاجت سے زائد اورقرض سے فارغ ہو،اس میں مال کے مالک کا عاقل بالغ یا مال کا نامی ہونا شرط نہیں۔یہی وجہ ہے کہ نابالغ یا مجنون اگر مالک نصاب ہیں تو ان پر صدقہ واجب ہے۔ان کا ولی ان کے مال سے ادا کرے۔اگر ولی نے ادا نہیں کیا اور نا بالغ بالغ ہوگیا یا مجنون کا جنون جاتا رہا تو اب یہ خود ادا کریں۔مالک نصاب مرد پر اپنے نابالغ بچوں کی طرف سے بھی صدقۂ فطر واجب ہے۔حدیث پاک میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے صدقۂ فطر متعین کیا ہے تاکہ وہ روزہ دار کے لیے بے ہودہ اور لغو باتوں سے پاکی کا ذریعہ ہو اور مساکین کے لیے غذا۔(سنن ابی داؤد،باب زکاۃ الفطر،۲؍۱۱۱)۔
تربیتی زاویۂ نظر:اسلام ایک جامع ترین مذہب ہے جس میں کرنے اور نہ کرنے کے کام پوری وضاحت کے ساتھ بتا دیے گئے ہیں،کرنے کے کاموں کو ’اوامر‘ اور نہ کرنے کے کاموں کو’نواہی‘ کہاجاتاہے۔نواہی میں ایک مسلمان کو صرف یہ کرنا ہوتاہے کہ وہ ان کاموں کو نہ کرے،بلکہ ترک کردے کہ ان کے ترک ہی میں اللہ تعالی کی خوشنودی ہے،جبکہ اوامرکا معاملہ اس کے بر عکس ہوتاہے۔اوامر کی بجاآوری کرنی ہوتی ہے،ان پر عمل کرنا ہوتاہے اور انہیں انجام دے کر اپنے رب کی خوشنودی حاصل کرنی ہوتی ہے۔ظاہر ہے عمل کے لیے تربیت کی ضرورت ہوتی ہے اور تربیت کے دوران جن کی تربیت کی جاتی ہے انہیں انعامات و اعزازات سے نوازاجانا ایک عمدہ و ترغیبی عمل ہے تا کہ تربیت لینے والے پوری خوش دلی سے ان کاموں کی تربیت لیں جو کہ مطلوب ہیں۔آپ اس زاویۂ نظر سے رمضان کو دیکھیں گے تو رمضـان بھی ایک ماہِ تربیت نظر آئے گاجس میں ہر سال مومنوں کو نفل کا ثواب فرض کے برابر،ایک فرض کا ثواب ستر فرائض کے برابراور دوسرے نیک اعمال کا اجر عام دنوں کے مقابلے میں ستر گنا زیادہ کر کے اعمال صالحہ کی تربیت کرائی جاتی ہے تاکہ وہ پورے سال اس ربانی تربیت کے بعد اعمال صالحہ کو انجام دیتے رہیں۔احادیث میں ہے:
۱-جب رمضان آتاہے جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں۔(صحیح البخاری،۳؍۲۵)۔
۲-رمضان کے شروع ہوتے ہی آسمان کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں،جہنم کے دروازے بند کردیے جاتے ہیں اور شیاطین جکڑ دیے جاتے ہیں۔(صحیح البخاری،۳؍۲۵)۔
۳-جنت میں ایک دروازہ ہے جس کانام ’ریّان‘ہے،اس دروازے سے صرف روزہ دار ہی داخل ہوںگے۔(بخاری ،باب الریان للصائمین)۔
۴-جس نے ایمان و احتساب کے ساتھ رمضان کے روزے رکھے اور راتوں کو قیام کیا وہ اس دن کی طرح گناہوں سے پاک ہوجاتاہے جبکہ اسے اس کی ماں نے جناہو۔(سنن نسائی،۳؍۱۲۹)۔
۵-جس نے رمضان میں دس دن کا اعتکاف کرلیا تو ایساہے جیسے دو حج اور دو عمرے کیے۔(کنز العمال،۸؍۵۳۰)۔
۶-رمضان ایک ایسامہینہ ہے جس کے پہلے عشرے میں رحمت،درمیانی عشرے میں مغفرت اور آخری عشرے میں جہنم سے نجات ہے۔(صحیح ابن خزیمہ،۲؍۹۱۱)۔
۷-جو ایمان و احتساب کے ساتھ شبِ قدر میں قیام کرے اس کے پچھلے گناہ معاف کر دیے جا تے ہیں۔(صحیح البخاری،باب قیام لیلۃ القدر من الایمان)۔
۸-جس نے رمضان میں کسی روزے دار کو افطار کرایاتو یہ اس کے گناہوں کی مغفرت اور دوزخ سے آزادی کا ذریعہ ہے،اس کو روزہ دار کے برابر ثواب ملے گا اور روزے دار کے ثواب میں کو ئی کمی نہ کی جائے گی۔صحابۂ کرام نے عرض کیا: یارسول اللہ! ہم میں سے ہر آدمی کو یہ وسعت نہیں کہ افطار کرائے۔فرمایا:اللہ تعالی یہ ثواب اس شخص کو بھی عطا فرماتاہے جو دودھ کے شربت ،یاایک کھجور،یا پیاس بجھانے کی مقدار پانی سے افطارکرائے۔(شعب الایمان،باب فضائل شھر رمضان)۔
رمضان مبارک میں مسلمانوں کی دینی و سماجی ورفاہی و عملی تربیت سے آپ کے ذہن میں یہ بات بھی آنی چاہیے کہ مسلمان چونکہ ایک داعی قوم ہیں اور ان کے علاوہ دوسرے لوگ مدعویعنی ہر فرد مسلم مسلمان ہونے کے ناطے حتی المقدورایک داعی بھی ہے ،اس کا یہ دینی فریضہ ہے کہ وہ اپنی استطاعت بھر اپنے دین کی دعوت و تبلیغ کا بھی کام انجام دے،کفار و مشرکین جن تک دین ہی نہیں پہنچاہے ان تک نفس دین پہنچائے اور مسلمانوں  میں جو بے عمل ہیں ان میں تبلیغ کا کام یہ ہے کہ ان کی عملی اصلاح کرے۔اس تناظر میں ایک داعی کے لیے ضروری ہے کہ وہ خود ان تمام خوبیوں سے آراستہ ہو جن کی وہ دعوت دینا چاہتاہے۔اس لیے ہر سال رمـضان آتا ہے اور مسلمانوں کوایمان و ایقان پر مضبوطی اور اعمال صالحہ کی تربیت دے کر دعوت کے لیے تیار کرجاتاہے۔
mdshahbaz2585@gmail.com٭
..:: Follow us on ::..

http://www.jamiaturraza.com/images/Twitter.jpghttp://www.jamiaturraza.com/images/Facebook.jpg









کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

ٹیوٹر اپڈیٹس دیکھیں اور فالو کریں