مساجد اور ائمۂ مساجد کا احترام دینی واخلاقی فریضہ
ڈاکٹر محمد حسین مشاہدرضوی
مسجدوں کا احترام اور امام مسجد کا ادب دونوں ہی باتیں ہمارے لیے بہت زیادہ ضروری ہیں ۔ مسجدیں اللہ کا گھر اور امام ہمارا دینی رہنما ہوتا ہے ۔ احادیث میں مسجدوں کے ساتھ ساتھ امام کی بھی فضیلتیں بیان کی گئی ہیں ۔ مسجد بستی کی سب سے بہتر جگہ ہے۔ اس کا ادب ہم پر لازم ہے ۔ مسجدیں عبادت اورذکر کے لیے ہیں۔یہاں دنیاوی باتوں سے بچنا ضروری ہے، چیخنا چلا نا ویسے بھی اچھا عمل نہیں ہے، تو مسجد میں تو اس سے بچنا اور بھی بہترہے۔ دھیمی آواز میں ٹھہر ٹھہر کر بات کرناسامنے والے کے دل میں جگہ بنا لیتا ہے ۔گھر ہو یا بازار ، مسجد ہو یا مدرسہ ہر جگہ ہمیں اپنی آواز پست رکھنا چاہیے ۔ آج جب مسجدوں کی میٹنگیں ہوتی ہیں، تو مسجد میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے لیے آوازیں بلند ہو تی ہیں ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قیامت کی جو نشانیاںبیان فرمائی ہیں، ان میں ایک یہ بھی ہے کہ مسجدوںمیں آوازیں بلند ہونے لگیں گی۔احادیث میں جہاں مسجد وں کو آباد کرنے اور اس کی خدمت کرنے کی فضیلتیں آئی ہیں وہیں مسجدوں کی بے حرمتی کرنے کے بارے میں سزائیں بھی سنائی گئی ہیں۔
آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اگر کسی شخص کی مسجد میں آمد ورفت رہتی ہے تو تم اس کے ایمان کی گواہی دو۔‘‘ صرف مسجد میں آنے جانے پر اس کے ایمان کی گواہی کی تعلیم دی گئی ہے،تو سوچیے اگر کوئی مسجد کی خدمت میں مصروف رہتا ہو تو اس کے کیا فضائل ہوںگے؟ کسی کو مسجد کی خدمت نصیب ہوجائے تو یہ ایک بڑی نعمت ہے، اس پر جس قدر شکر کیا جائے کم ہے ۔ آج مسجدوں کے ذمہ داران مساجد کی دیکھ بھال میں بہت زیادہ توجہ دیتے ہیں ، رنگ روغن ، سجاوٹ ، لائٹ، پنکھے ، اے سی اور دوسری چیزوں کا خوب انتظام کرتے ہیں ۔ لیکن ساتھ ہی کچھ ایسی باتیں بھی کر بیٹھتے ہیں جن سے بچنا ضروری ہوتا ہے ، اگر ان باتوں سے پرہیز کیا جائے تو مسجد کے لیے ان کی خدمت کا ثواب اور زیادہ ہوجائے گا۔
حضرت مولانا سید شاہ غلام محی الدین فقیر عالم قادری برکاتی مارہروی قدس سرہٗ اپنی کتاب ’’رسالۂ مباحث امامت‘‘میں مساجد کی تعظیم کے بارے میں لکھتے ہیں : ’’آج کل لوگ مساجد کی بہت ہی بے ادبی کرتے ہیں کوئی اُن میں سوتا ہے ، کوئی تمام دنیا بھر کے مشورے سود و غیرہ کے معاملات تک وہیں چکاتا ہے ، کوئی سب گھر گرہستی کا سامان وہیں جمع کیے اُن کو گھر بنائے بیٹھا ہے ۔ غرض دنیا بھر کے معاملات ہنسی ، دل لگی ، مذاق سب وہیں ہوتے ہیں اور تو اور اب یہ طریقہ نکلا ہے کہ کوئی حاکم نیا آیا تو اس کی خوش آمدید مسجد میں ہی کی گئی ، کسی حاکم نے دنیا سے کوچ کیا اس کی تعزیت کا جلسہ مسجد ہی میں منعقد ہوا ۔ ارے بھائیو، کچھ تو خدا سے ڈرو! آخر ایک دن مروگے جب اللہ ان باتوں سے سوال کرے گا فرمائے گا کہ مسجدیں میرے ذکر کے لیے بنائی گئی تھیں تم نے یہ فعل اُن میں کس کی اجازت سے کیے ؟ تو کیا جواب دوگے ؟ کیا اُس وقت یہ حکام تمہاری سفارش اللہ تعالیٰ سے کرسکیں گے ؟ ہر گز نہیں !! ----مسجدوں کو بدبو کی چیزوں سے بچانا فرض ہے جیسے مٹی کا تیل وغیرہ ۔ وہاں کچّا لہسن ، پیاز یا تمباکو کھا کر یا حقّہ پی کر جب کہ ان کی بدبو باقی ہو آنا منع ہے گناہ ہے ۔ دنیا کی باتیں مسجد میں نہ کرے ، نہ وہاں مول تول خرید فروخت کرے، نہ فضول شعر گوئی کرے ،نہ مسجد میں بے ضرورت گزرے ، نہ لڑے ، نہ چیخےچلائے، نہ پاگل مجنوں کو لائے ، نہ چھوٹے بچوں کو لائے ،--- نہ مسجد کے در و دیوار پر تھوکے ،بغیر اعتکاف کے مسجد میں نہ سوئے ، ---مسجد کو چوپالیں نہ بنائیں ، اُن کی بہت قدر کریں وہاں پلنگ وغیرہ نہ بچھائیں ، اللہ سے ڈریں ، قیامت کا قرب ہے ۔ اللہ ہمیں اور سب مسلمانوں کو اپنے اور اپنے حبیب مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت عطا کرے اور ایمان پر ہماری زندگی اور خاتمہ کرے ، آمین ! ‘‘ ( ص 85/87)
کبھی کبھاردیکھنے میں آتا ہے کہ مسجد وں میں مسجدسے متعلق باتوں کے لیے کی جانے والی میٹنگوں میںبات چیت کرتے کرتے دنیاوی باتیں اورہنسی و مذاق بھی شروع ہوجاتی ہے۔اس سے بچنا چاہیے۔ مسجد کا ادب اور احترام کرنا ضروری ہے ۔ لہٰذا احادیث کی روشنی میں مساجد میں دنیاوی باتوں کے احکام بیان کیے جاتے ہیں ۔ مسلمان انھیں پڑھیں ، سنیں اور اس پر عمل کریں :
مسجد میں دنیاوی باتیں کرنے کو بیٹھنا نیکیوں کو اس طرح کھاجاتاہے جیسے آگ لکڑی کو ۔ فتح القدیر میں ہے :’’ مسجد میں دنیاوی باتیں کرنا مکروہ ہیں اور ایسا کرنا نیکیوں کو کھاجاتاہے۔ ـ‘‘ امام عبداللہ نسفی نے مدارک شریف میں حدیث نقل کی ہے کہ : ـ مسجد میں دنیا کی باتیں نیکیوں کو اس طرح کھاجاتی ہے جیسے چوپایہ گھاس کو ۔‘‘ غمزالعیون میں خزانۃ الفقہ سے ہے :’’ جو مسجد میں دنیا کی بات کرے اللہ تعالیٰ اس کے چالیس برس کے عمل اکارت فرمادے ۔‘‘ حدیقۂ ندیہ شرح طریقۂ محمدیہ میں ہے کہ:’’ جو لوگ غیبت کرتے ہیں اور جو لوگ مسجد میں دنیا کی باتوں میں مصروف ہوتے ہیں ان کے منہ سے و ہ گندی بو نکلتی ہے جس سے فرشتے اللہ عزو جل کے حضور شکایت کرتے ہیں ۔‘‘
حجۃ الاسلام امام ابو حامد محمد بن محمد غزالی قدس سرہٗ (م ۵۰۵ھ) احیاء العلوم شریف میں فرماتے ہیں :’ ’ حضرت سعید بن مسیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا، جو مسجد میں بیٹھتا ہے وہ اپنے رب کی ہم نشینی کرتا ہے تو اس کے حق میں بہتر یہی ہے کہ خیر کے سوا کوئی گفتگو نہ کرے۔‘‘ ( احیاء العلوم جلد اوّل) اس سے معلوم ہوا کہ خداوندِ قدوس کی بارگاہ میں کسی اور طرف متوجہ ہونا ، دنیا کی باتیں کرنا یقینا بے ادبی ہے ۔ خود دنیا میں بھی ایسا ہوتا ہے کہ کسی بڑے آدمی کی خدمت میں حاضر ہوکر اگر کوئی نوکر یا خادم ، مرید یا شاگرد دوسرے کسی شخص سے باتیں کرنے لگے یا اپنی توجہ دوسری طرف موڑ دے تو یہ بے ادبی میں شمار کیا جاتا ہے۔ تو بارگاہِ ربُّ العلا جو سب سے اعظم و اکبر ، افضل و اشرف اور بڑی بارگاہ ہے ۔ وہاں پہنچ کر تو صرف اسی کا ذکر ہونا چاہیے ، اسی کی حمد ہونی چاہیے ، اسی کی تسبیح ہونی چاہیے ، اسی کی بات ہونی چاہیے نہ کی دنیا کی فضول باتیں!!
نبیِ کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ایک مسجد سے گذر فرمایا دیکھا کہ کچھ لوگ اس میں بیٹھے دنیا کی باتیں کررہے ہیں اور زور زور سے ہنس رہے ہیں۔ سلام کے بعد فرمایا:’’ لوگو! موت کو یاد کرو۔‘‘ یہ کہہ کر آپ تشریف لے گئے دوبارہ ادھر سے گذرے تو ان لوگوں کو اسی حالت میںیعنی دنیا کی باتوں میں مشغول پایا، تو فرمایا:’ ’ خدا کی قسم! اگر تم کو وہ باتیں معلوم ہوجائیں جو میں جانتا ہوں تو کم ہنسو اور زیادہ روؤ۔‘‘ پھر تیسری مرتبہ جب رحمتِ عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ادھر سے گذرے تو اب بھی ان لوگوں کو اسی حال میں پایا تو فرمایا:’’ اسلام شروع میں غریب تھا (یعنی اجنبی، جس کے ماننے والے بہت کم تھے) اور آخر میں بھی میں غربا کے اندر محدود ہوکر رہ جائے گا تو خوش خبری ہو غربا کے لیے۔‘‘ لوگوں نے عرض کیا:’’ یارسول اللہ! غربا کون ہیں؟‘ ‘ ارشاد فرمایا:’’ جو امت میں فساد کے وقت دین و سنت پر قائم رہیں۔‘‘ (تنبیہ الغافلین للعلامہ ابن حجر عسقلانی (م ۸۵۲ھ) اردو ترجمہ موت کا سفر، مترجم : مفتی محمد خلیل خاں برکاتی علیہ الرحمہ)واقعی جس طرح اجنبی مسافر سفر میں اپناساتھی نہیں پاتا یا کبھی کبھار کوئی اس سے سیدھے منہ بات کرنے والا مل جاتا ہے ۔ بالکل اسی طرح آج اسلام کا حال ہے کہ اس پر چلنے والے خال خال نظر آتے ہیں عام طور سے جو لوگ پابندِ شرع ہوتے ہیں ان میں بھی اخلاص کا فقدان پایا جاتا ہے ۔ اللہ ہمیں ہدایت بخشے۔ (آمین)
مختصر یہ کہ مساجد میں دنیاوی باتوں کا حد درجہ وبال دنیا کی باتیں کرنے والوں پر ہوتا ہے ۔ نیکیاں ضائع ہوجاتی ہیں ۔ اعمال برباد ہوجاتے ہیں۔اللہ عزو جل کو ایسے افراد سے کوئی کام نہیں ہوتا۔ لہٰذا ہمیں چاہیے کہ ان وعیدوں اور وبال سے محفوظ رہنے اور اپنی مختصر سی نیکیوں کو ضائع ہونے سے بچانے کے لیے مسجدوں میں دنیاوی باتوں سے بچے رہیں ۔مساجد کو چوپال نہ بنائیں بلکہ مساجد میں صرف اور صرف خیر ، بھلائی اور نیکی کی باتیں کریں ۔ نماز ، تلاوت ِ قرآن، ذکر و اذکار ، تسبیح و تہلیل اورعبادت و ریاضت میں مصروف رہیں کہ اسی میں دنیاا ور آخرت کی نجات ہے ۔ اللہ عزو جل ہمیں نیک کاموں کی توفیق بخشے اور رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی پیاری پیاری سنتوں پر عمل کا مخلصانہ جذبہ عطا فرمائے ۔ ریاکاری کی ہولناک بیماری سے دور فرمائے ۔ آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم
امام کا احترام:
مسجد کے احترام کے ساتھ ساتھ امام کا احترام بھی ہمارا اخلاقی اور دینی فریضہ ہے۔امام ہمارا مذہبی لیڈر ہوتا ہے ۔ جس طرح ہم دنیاوی لیڈروں کا ادب کرتے ہیں اس سے کہیں زیادہ ہم کو ہمارے مذہبی لیڈر کا ادب کرنا ضروری ہے۔ پیدایش ، ختنہ ،عقیقہ ،قربانی ، موت میت، شادی بیاہ ، قرآن خوانی اور بچوں کی ابتدائی تعلیم و تربیت غرض پیدائش سے موت تک یہاں تک کہ موت کے بعد بھی ضروری کاموں کے دورا ن ہمیں قدم قدم پرامام کی ضرورت پیش آتی ہے ۔ ہمیں چاہیے کہ ہم امام کا اچھی طرح سوچ سمجھ کر انتخاب کریں ، افضل شخص ہی کو امام بنائیںکیوں کہ وہ ہماری نمازوں کا ذمہ دار بھی ہے اور ہمارے عقائد کی اصلاح کرنے والا بھی۔ یاد رکھیں کہ جب ہم نے اس شخص کو اپنی نمازجیسی اہم عبادت کے لیے امام تسلیم کر لیا تو پھر اس کے خلاف بے کار کے جملے، اس کےسامنے طنزیہ باتیں،اور اس کی غیر حاضری میں اس کی غیبت کیا معنی رکھتی ہے؟
اِس دور میں مساجد کا جائزہ لینے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ زیادہ تر جگہوں پرامام حضرات کی ناقدری اور بے عزتی ایک عام وبا کی شکل اختیار کرتی جارہی ہے، کتنی عجیب بات ہے کہ ایک شخص کو امام بھی بنایا جارہاہے اور اس کی ناقدری بھی کی جارہی ہے ، امام کی عزت اور احترام مسجدوں کےذمہ داروں کے لیے بہت زیادہ ضروری ہے تاکہ ذمہ داروں سے دوسرے لوگ بھی سبق سیکھیں، اگر امام صاحب مسجد کے بنائے گئے قاعدوں کے مطابق خدمت کے لیے آمادہ نہ ہوں تو انھیں باعزت طریقے سے علاحدہ کر دیا جائے نہ کہ انھیں ذلیل اور رسوا کیا جائے ۔
اس زمانے میں تو امام حضرات ماضی کی طرح صرف قاریِ قرآن نہیں ہوتے بلکہ اکثر جگہوں پر امامت کا فریضہ انجام دینے والے حافظ قرآن اور عالم اور کہیں کہیں مفتی صاحبان بھی ہوتے ہیں، ان کے ساتھ تو غلط رویہ اور نازیبا حرکت یا ان کی بے عزتی تو بہت زیادہ بُری بات ہے ۔صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم تو ان حضرات کی خدمت میں مصروف ہوتے جو قرآن کریم کی تلاوت یا نماز میں مشغول ہوتے، امام ابوداوٴدرحمۃ اللہ علیہ نے نقل کیا ہے کہ کچھ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم ایک شخص کی بڑی تعریف کررہے تھے، اور یہ کہنے لگے کہ ہم نے ان جیسا آدمی نہیں دیکھا، جب سفر میں ہوتے تو قرأت قرآن میں مصروف ہیں، اور جب سواری سے اترتے ہیں، نماز میں مصروف ہیں، تو ان صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے کہا گیا کہ اس شخص کا سامان کون اٹھائے گا؟ اس کے جانور کون چرائے گا؟ تو صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے فرمایا ہم کریں گے، آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’تم سب خیر پر ہو۔‘‘ (یہ تیرے پراسرار بندے : طالب الہاشمی، مقدمہ)
پہلے پہل امام کی تقرری کے بعد ان کے ساتھ اعزاز اور اکرام کا معاملہ ہوتا ہے،لیکن دھیرے دھیرےامام کی خامیوں کی تلاش شروع ہو جاتی ہے، امام کی غلطیو ں پر نکتہ چینی کی جاتی ہے، مستحبات کے ترک پر اعتراض کیا جاتا ہے ،اس کی منہ بھر کر غیبت کی جاتی ہے، حالانکہ یہ اعتراض درست نہیں، قرآن کریم میں اللہ تعالی فرماتاہے:وَّ لَا تَجَسَّسُوۡا وَلَا یَغْتَبۡ بَّعْضُکُمۡ بَعْضًا ؕ اَیُحِبُّ اَحَدُکُمْ اَنۡ یَّاۡکُلَ لَحْمَ اَخِیۡہِ مَیۡتًا فَکَرِہۡتُمُوۡہُ ؕ وَاتَّقُوا اللہَ ؕ اِنَّ اللہَ تَوَّابٌ رَّحِیۡمٌ (الحجرات آیت 12)، ترجمہ کنزالایمان: ’’اور عیب نہ ڈھونڈواور ایک دوسرے کی غیبت نہ کرو کیا تم میں کوئی پسند رکھے گا کہ اپنے مرے بھائی کا گوشت کھائے تو یہ تمہیں گوارا نہ ہوگا اور اللّٰہ سے ڈرو بیشک اللّٰہ بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے۔‘‘یہ آیت نہ صرف امام بلکہ عام مسلمان بھائیوں کے عیب ڈھونڈنے والوں اور غیبت کرنے والوں کے لیے ایک عبرت کا پیغام ہے ، بھائیو! اس بات کا مکمل خیال رکھیں کہ امام بھی انسان ہی ہیں کوئی معصوم فرشتہ نہیں ۔ امام کے اپنے مسائل بھی ہیں اور ضروریات بھی۔ ان کا گھر بار بھی ہے اور بیوی بچے بھی۔ ان کی معاشی اور مالی ضرورتوں کا بھی خیال رکھا جائے اس زمانے میں بڑھتی ہوئی مہنگائی کو دیکھتے ہوئے ذمہ داروں کو چاہیے کہ ان کی تنخواہ مناسب رکھیں تاکہ انھیں کسی بھی قسم کی مشکل کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ کچھ لوگ امام صاحبان کو اپنا مزدور سمجھ لیتے ہیں اور بہت ہی زیادہ خراب لب و لہجے میں بات چیت کرتے ہیں ، یاد رہے ایسا کرنے والے دنیا اور آخرت دونوں میں نقصان اٹھاسکتے ہیں۔ مسجد کے ذمہ داروں اور بستی کے بااثر لوگوں پر یہ فرض ہے کہ وہ امام کے مسائل اور ضروریات پر پوری توجہ دیں ، ان کے ساتھ عزت اور احترام کا معاملہ کریں ، ان کو اپنا مذہبی لیڈر اور پیشوا سمجھیں، ان کو اپنا سردار مانیں ، ان کو اپنے دوسرے نوکروں اور ملازمین کی طرح حقارت سے نہ دیکھیں ایسا کرنا امامت جیسے مبارک اور بڑے مرتبے کی سخت توہین ہے۔ امامت کا عہدہ بڑا اہم دینی رتبہ ہے پیشہ ور ملازمت کی طرح یہ کوئی عام ملازمت یا نوکری نہیں ہے ۔ امام صاحبان بھی اپنے مرتبے اور مقام کا لحاظ رکھیں اور ذمہ داران کے ساتھ تعاون کریں ، سکّے کے دونوں رُخ اگر ایک جیسے اور پُر امن ماحول میں معاملات کریں گے تو کہیں بھی کوئی بدامنی اور نوک جھونک کی باتیں سامنے نہیں آئیں گی۔کسی کی عزت اور احترام کے بدلے میں ہمیں بھی عزت اور احترام ملے گا اس قاعدے کی روشنی میں زندگی بسرکریں۔
امام صاحبان کے ساتھ ساتھ مؤذن حضرات ( اذان دینے والوں) کی عزت اور احترام بھی ہمارا دینی اور اخلاقی فریضہ ہے۔حدیث پاک میں آتا ہے، آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ روز محشر لوگوں میں گردن کے اعتبار سے لمبے موٴذن حضرات ہوں گے، ایک اور حدیث میں فضیلت والی چیزوں کا تذکرہ کرتے ہوئے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ اگر پہلی صف اور اذان دینے کی فضیلت کا علم ہوجائے تو آپس میں قرعہ اندازی کی نوبت آجائے گی ،ایک جانب موٴذن کی یہ فضیلت ہے، دوسری جانب ذمہ داروں کا رویہ ہے کہ وہ موٴذن حضرات کے ساتھ آبائی وخاندانی ملازمین کا سا برتاوٴ کرتے ہیں، انھیں تنخواہ دینے کا یہ مطلب نہیں کہ وہ ہمارے زر خرید غلام ہیں، اگر اسلامی حکومت ہوتی تو بیت المال ان کا کفیل ہوتا، اب چوں کہ بیت المال کا وجود نہیں، اس لیے عوام ان کی تنخواہوں کے ذ مہ دار ہیں، اسی لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ موٴذن اور امام دونوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھیں، ان کے ساتھ حسن اخلاق کا معاملہ کریں، غیر اخلاقی رویہ سے مکمل پرہیز کریں۔ کئی موٴذن حضرات اپنے ذمہ داروں کے رویوں سے دل برداشتہ رہتے ہیں، بعض دفعہ ذ مہ د اروں کے ہراساں کرنے سے موٴذنین اس عظیم خدمت سے دستبردار ہوجاتے ہیں، ذمہ دار موٴذنین کی معاش کی بنا پر انھیں تنگ نہ کریں، اللہ تعالی سے دعا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقہ وطفیل ہمیں مسجد ، امام مسجد اور مؤذن حضرات کا ادب اور احترام کرنے والا بنائے مسجدوں کے ذمہ داران کی اصلاح فرمائے اور سچی نیت کے ساتھ صحیح طرز پر مساجد کا نظام سنبھالنے کی توفیق نصیب فرمائےآمین!
..................
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں